مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی
سوال: کیا عورتوں کا نماز، نفلی عبادات اور دیگر محافل کے لئے مسجد میں آنا جائز ہے؟
مسجدیں اسلام کا مرکز اور عبادت گاہیں ہیں اور یہ عبادت گاہیں بلا تفریق جنس تمام مسلمانوں کے لئے ہیں۔
آج چاروں طرف شیطانی جال موجود ہیں۔ نیکی سے روکنے والے قدم قدم پر سرگرم عمل ہیں۔ شیطانی حربوں کا توڑ یہ ہے کہ اسلام کے دور اول کی طرح عورتوں، بچوں اور مردوں کو زیادہ سے زیادہ مساجد میں نماز پنجگانہ، نماز جمعہ و عیدین، صلوٰۃ التسبیح، ذکر و تعلیم، درود و سلام کے لئے لایا جائے۔ یہ تو اچھی بات نہ ہو گی کہ شیطانی طاقتیں پوری منصوبہ بندی و عزم کے ساتھ گمراہی و تباہی کا اہتمام کریں اور دین کے خادم ان پر دین کے دروازے بند کر دیں۔ آج دنیا بھر میں عورتوں کی تعداد بوجوہ بڑھ رہی ہے۔ ان کی ہدایت اتنی ہی ضروری ہے جتنی مردوں کی۔ ان پر دین کی گرفت ڈھیلی پڑی تو اس کے تباہ کن اثرات صرف عورتوں پر ہی نہ پڑیں گے بلکہ نئی نسل جو ان کی گودوں میں پل رہی ہے وہ بھی گمراہ و بے دین ہو جائے گی۔ جس کے بھیانک نتائج بہت حد تک ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ اس لئے عورتوں کو مساجد سے دور رکھنا ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا ہے۔ اگر ایک طرف علمائے کرام ان پر نیکی کے دروازے بند کریں اور دوسری طرف ان کی آوارگی و گمراہی پر معترض ہوں تو یہ علماء کے فکر و عمل کا تضاد ہے۔
عورت کا مسجد میں آنا اسلامی تعلیما کی رو سے جائز اور درست ہے۔ آیئے اس سلسلے میں چند احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں:
ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(1) إذا إستاذنت إمراة احدکم إلی المسجد فلا يمنعها.
’’ تم میں سے کسی کی بیوی جب مسجد میں جانے کے لئے اجازت مانگے تو خاوند اسے منع نہ کرے‘‘۔
( بخاری، الصحيح، 5:2007، الرقم: 4940)
(2) ابو ہریرہ ص سے مروی ہے کہ میں نے اپنے محبوب ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا:
’’جس عورت نے مسجد میں جانے کے لئے خوشبو لگائی جب تک اسے دھو کر خوشبو ختم نہ کرے اس کی نماز قبول نہیں کی جاتی‘‘۔
(مسلم، الصحيح، 1:328، الرقم: 442)
(3) بلال ابن عبد اللہ بن عمر اپنے والد عبد اللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لا تمنعوا النساء حظوظهن من المساجد إذا إستاذ نکم.
’’جب عورتیں تم سے مسجدوں میں اپنا حصہ (حاضری کا) مانگیں تو، انہیں منع مت کرو! اس پر بلال نے کہا خدا کی قسم ہم عورتوں کو مسجد میں آنے سے ضرور منع کریں گے۔ حضرت عبد اللہ نے کہا میں کہتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور تو کہتا ہے۔ ہم ضرور ان کو منع کریں گے۔‘‘
دوسری روایت میں سالم بن عبد اللہ نے اپنے والد کا یہ رد عمل نقل کیا ہے:
فأقبل عليه عبد اﷲ فسبه سبا ما سمعته سبه مثله قط.
’’ عبد اللہ نے اپنے بیٹے کی طرف رخ کر کے اسے سخت سست کہا، میں نے اس طرح کسی کو برا بھلا کہتے انہیں کبھی نہ دیکھا تھا‘‘۔
فرمایا کہ
’’میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات بتا رہا ہوں اور تو کہتا ہے خدا کی قسم ہم ضرور عورتوں کو مساجد سے منع کریں گے‘‘۔
(مسلم، الصحيح، 1:327، الرقم: 442)
(4) یہی روایت ذرا لفظی اختلاف کے ساتھ یوں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ص سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لا يمنعن رجل اهله ان ياتوا المساجد.
’’ کوئی شخص اپنی بیوی کو مساجد میں آنے سے ہرگز منع نہ کرے‘‘۔ اس پر عبد اللہ بن عمر کے بیٹے نے کہا:
فإنا نمنعهن.
’’ بیشک ہم ان کو منع کریں گے‘‘۔
اس پر عبداللہ نے کہا:
احدثک عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وتقول هٰذا.
’’ میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد بتا رہا ہوں اور تو یہ کہہ رہا ہے:
فما کلمه عبد اﷲ حتیٰ مات.
’’ اس پر عبد اللہ بن عمر ص نے اپنے بیٹے سے مرتے دم تک بات نہیں کی‘‘۔
(احمد بن حنبل، المسند، 2:36، الرقم: 4933)
(5) ابوہریرہ ص سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خير صفوف الرجال اوّلها وشرّ ها آخرها. وخير صفوف النسآء آخرها وشرها اولها.
’’مردوں کی سب سے بہتر پہلی اور سب سے بری آخری صف ہے۔ اور عورتوں کی سب سے بہتر آخری اور سب سے بدتر پہلی صف ہے‘‘۔
(مسلم، الصحيح، 1:326، الرقم: 440)
نوٹ: مردوں کی سب سے بہتر پہلی صف ہے کہ عورتوں سے زیادہ دور ہے، مردوں کی سب سے برُی آخری صف ہے کہ عورتوں سے قریب تر ہے۔ عورتوں کی سب سے اچھی آخری صف ہے کہ مردوں سے زیادہ دور ہے اور سب سے بری پہلی صف ہے کہ مردوں سے قریب تر ہے۔ ان ارشادات سے کیا ثابت ہوا؟ کہ عورتوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہرگز ہرگز منع نہیں فرمایا۔ بلکہ ان کے مسائل و ضروریات کا لحاظ فرمایا۔ آج بھی یہی اسلام ہے۔ یہی تقویٰ ہے جو سنت کے عین مطابق ہے۔
حضرت انس ص راوی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی امام کے پیچھے ہلکی پھلکی اور مکمل نماز نہیںپڑھی۔ بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز ہلکی پھلکی کر کے ادا فرماتے: فحافۃ ان تفتن امہ۔’’اس ڈر سے کہ بچے کی ماں کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائے (نماز کے دوران بچے کے رونے کی آواز سے اس کا دھیان نماز سے ہٹ کر بچے کی طرف مبذول ہو جائے گا وغیرہ)‘‘۔
بخاری کی روایت میں ہے فرمایا:
میں نماز میں لمبی قرات کرنا چاہتا ہوں۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کر دیتا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ اس کی آواز سن کر ماں کتنی پریشان ہو جاتی ہے‘‘۔
(بخاری، الصحيح، 1:250، الرقم: 675)
معلوم ہوا کہ عورتیں نماز با جماعت ادا کر رہی ہیں۔ بچوں کے رونے کی آوازیں گھروں سے آرہی ہیں مگر سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ماؤں کو نماز با جماعت کی ادائیگی سے منع نہیں فرمایا بلکہ خود ان کی مجبوری و پریشانی کا ازالہ ہلکی پھلکی نماز و قرات کے ذریعہ فرمایا۔
رہی یہ بات کہ عورتوں کے مساجد میں آنے سے فتنہ و فساد کو فروغ ہو گا، درست نہیں۔ نماز تو بے حیائی و برائی سے منع کرتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ.
’’بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘۔
(العنکبوت، 29: 45)
پس جس طرح جلسوں، اجتماعات، کانفرنسز اور سیمیناروں میں، مزاروں، بازاروں، کھیت کھلیانوں، کارخانوں، اینٹوں کے بھٹوں، دفاتر و مدارس و جامعات میں عورتوں کے کام کرنے، تعلیم اور تربیت لینے پر پابندی نہیں بلکہ ہر مقام پر حسب ضرورت عورتیں کام کرتی ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ مساجد میں نماز پنجگانہ و جمعہ و عیدین اور دیگر دینی تقریبات میں کیوں شریک نہیں ہو سکتیں؟ علمائے ربانیین اور سنجیدہ سمجھدار مسلمانوں کو مساجد میں عورتوں کے لئے نہ صرف نماز پنجگانہ نماز جمعہ و عیدین بلکہ ان کی صحیح تعلیم و تربیت کے لئے بھی معقول اور فوری بندوبست کرنا چاہیے۔ یہی گمراہی کے آگے حفاظتی بند اور ہماری نجات کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
سوال: شادی بیاہ کی رسومات میں دولہا کو سہرا اور کلائی پر گانہ باندھنا، دلہن کے لئے لال دوپٹہ کا ضروری ہونا اور اسی طرح کی دیگر رسومات بارے شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: دولہا کو سہرا باندھنا، کلائیوں پر گانہ باندھنا، کاندھے پر اجرک ڈالنا، لاچہ پہننا، دلہن کو لال دوپٹہ اوڑھنا، جہاں تک میں سمجھتا ہوں کلائیوں پر یا بازو پر ایک تو تعویذ باندھا جاتا ہے، یہ تو اللہ کا کلام ہے جو برکت و حفاظت کے لئے باندھا جاتا ہے، جائز ہے۔ باقی سہرا، گانہ، اجرک، لاچہ، لال دوپٹہ اور آج کل سر پر کلاہ خاص قسم کا، یہ تمام اس موقع پر خوشی کے اظہار میں اپنا اپنا علاقائی رواج ہے۔ تھوڑے تھوڑے فرق سے ہر علاقہ میں پایا جاتا ہے۔ اس خوشی کے موقع پر ان رسومات کو کرنے میں کوئی حرج نہیں، کرنا ضروری بھی نہیں۔ ہم نے اپنی شادیوں کے موقع پر سہرا وغیرہ نہیں ڈالا۔ کئی رسموں سے الگ رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ بارات میں دولہا کی پہچان تک نہ ہوتی، نہ کوئی امتیاز۔ تاہم جو لوگ اسے پسند کرتے ہیں کریں۔ جو پسند نہیں کرتے نہ کریں۔ نہ یہ چیزیں ناجائز و حرام ہیں، نہ سنت و واجب یا فرض۔ کوئی کرتا ہے تو کرے نہیں کرتا تو نہ کرے۔ نہ کرنے والوں کو الزام دیں اور نہ ہی ان چیزوں کو ناپسند کرنے والوں کو۔ یہ دینی مسائل نہیں صرف رسم و رواج کی باتیں ہیں اور لوگوں کی پسند و ناپسند پر منحصر ہیں اور بس ہمارے بعض لوگ ان جیسے مسائل میں الجھ کر اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتے ہیں، یہ روش ترک کردینی چاہئے۔