مرتب: محمد یوسف منہاجین
معاون: محمد خلیق عامر
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اَلَا ِﷲِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ.
’’(لوگوں سے کہہ دیں:) سُن لو! طاعت و بندگی خالصتاً اﷲ ہی کے لیے ہے‘‘۔
(الزمر، 39: 3)
ہر خیر اور ہر شر کا مبدا نیت ہے۔ ایک عملِ صالح بہت سی نیک نیتوں کا مجموعہ بھی بن سکتا ہے۔ بہت سی ممکنہ نیک نیتیں اگر ایک نیک عمل کے ساتھ شامل کرلیں تو ہر نیت کے نتیجے میں الگ الگ وجود میں آنے والے عملِ صالح کا ثواب ایک عمل کے کرنے پر بندے کے مقدر میں لکھ دیا جاتا ہے۔ گویا ایک عمل کی شکل میں اُس عامل کے لئے کثیر اعمال صالحہ کا دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ثواب جمع ہو جاتا ہے۔
نیت کیا ہونی چاہئے اور اصلاحِ نیت کس طرح ممکن ہے؟ یاد رکھیں کہ عمل کرنے والوں کی نیت جتنی صافیہ و خالصہ ہوتی چلی جائے اور اس میں دنیا کی شہوت، حرص، کبر، حسد، بغض، طمع اور لالچ کلیتاً نکل جائیں، یہاں تک کہ نیکی اور بدی کی نیتیں باہم خلط ملط بھی نہ ہوں، یعنی نیت ممتزجہ اور کدرہ بھی نہ ہو بلکہ نیت خالصہ و صافیہ لوجہ اللہ ہوجائے تو پھر بغیر حساب و شمار کے اجرو ثواب بھی حاصل ہوتا ہے اور نیت کی اصلاح کا عمل بھی جاری و ساری ہوجاتا ہے۔
لہذا اعتکاف ہویا رمضان المبارک کے علاوہ سال کے باقی ایام، جب بھی مسجد میں آئیں، بیٹھیں تو درج ذیل 10 نیات کرلیا کریں۔ ہر عمل پر اگر کم سے کم دس گنا اجر بھی ملا تو دس نیتوں پر ہمیں ایک سو اعمال صالحہ کا اجر فقط ایک عملِ صالح پر ملے گا۔ یعنی ایک عمل میں کئی نیتوں کو شامل کر لیں تو وہ عمل نور علی نور ہوتا چلا جائے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہر نیت خالصہ و صافیہ ہو اورمحض اللہ کے لیے ہو، اسی صورت ان نیتوں کا کرنا اللہ رب العزت کے قرب و رضا، اخروی نعمتوں، دنیاوی برکتوں اور سعادتوں کا باعث ہوگا :
اللہ کے ساتھ خلوت میں بیٹھنے کی نیت
جب بھی مسجد میں کسی بھی وقت کی نماز کے لئے داخل ہوں تو پہلی نیت اور تصور یہ کریں کہ اللہ کے ساتھ خلوت کرنے، اللہ کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنے اور اللہ کے حضور تنہائی میں کچھ باتیں کرنے آئے ہیں۔ اللہ سے باتیں کرنا مناجات ہے۔ جب ہم کہتے ہیں: اللہم، ربنا، الٰہی، رب العالمین، ارحم الراحمین الغرض جس نام سے بھی اس کو پکارتے اور اس سے مانگتے ہیں تو یہ تمام مناجات اور مولیٰ سے باتیں ہیں۔ بندہ اپنی نیت کو جتنا صاف کرتا چلا جائے اور اپنے ذہنی، قلبی، روحی تعلق کو جتنا اللہ کی طرف یکسو کر کے بڑھتا چلا جائے توں توں وہ اللہ کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ اللہ تو پہلے ہی ہم سے قریب ہے، اس لئے کہ اس کا فرمان ہے کہ
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ.
’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘
(ق، 50: 16)
دور تو ہم اُس سے ہیں، وہ ہم سے دور نہ تھا اور نہ ہے۔ ہم اس سے اس معنی میں دور نہیں ہیں کہ وہ ہمیں دیکھ نہ سکے، ہماری گرفت نہ کر سکے، ہماری پکار کو سن نہ سکے یا ہماری مدد نہ کر سکے بلکہ ہم اس سے دور اپنے حال میں ہیں۔ ہماری نیتوں، بے پرواہی، غفلتوں، عدم توجہ اور اس کی طرف التفات نہ رکھنے نے ہمیں روحانی طور پر اُس سے دور کر رکھا ہے۔ گویا ہم ہی اُس سے دور ہیں، وہ تو پہلے ہی ہم سے قریب ہے۔ لہذا جتنا ہم اپنے دل و دماغ، قلب و باطن، روح اور من کی دنیا کو ماسویٰ اللہ اور غیر سے کاٹیں گے اور دھیان کو اللہ کی طرف یکسو کرتے چلے جائیں گے، اتنا ہی ہم اپنے دھیان میں مولیٰ کی طرف قریب ہوتے چلے جائیں گے۔
جب آدمی اعتکاف بیٹھے خواہ وہ رمضان المبارک کا مسنون اعتکاف ہو یا باقی ایام میں دخول فی المسجد کا اعتکاف، بندے کو چاہئے کہ حالت خلوت اور تصور میں مولیٰ کی قربت کی طلب کو اپنے اوپر طاری کر لے۔ اس سے اسے اِعراض عن الخلق نصیب ہوگا کہ میں ما سویٰ سے منہ موڑ کر رب کی طرف آیا ہوں۔
اے میرے ہمدم مجھے اب تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
یعنی اپنی زندگی بھی اس کی چوکھٹ پر لاکر نچھاور کر دے کہ میرے مولیٰ میں تیرا ہوں اور تجھ سے سوائے تیرے کچھ طلب نہیں کرتا، پس تو میرا ہوجا اور مجھے اپنا کرلے۔ ایسی باتیں خلوت اور تنہائی میں ہی ہوتی ہیں، جلوت اور بھرے بازار میں نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے اعتکاف خلوت کی نیت کا کیا کریں، پھر جی میں جو آئے خلوت میں مولیٰ سے باتیں کیا کریں۔
جب ہم مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور اعتکاف کی نیت کر لیتے ہیں تو یہ نیت خلوت مع اﷲ، اللہ کی صحبت اور اللہ کے ساتھ ہم نشینی کی نیت ہے۔ اس لئے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أنا جليس من ذکرنی.
’’جو شخص جہاں بھی بیٹھ کر مجھے یاد کرتا ہے میں اُس کا ہم نشین ہو جاتا ہوں‘‘۔
(ابن ابی شيبة، المصنف، 7: 73، رقم: 34287)
گویا بندہ جب تک اللہ کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے وہ اللہ کی مجلس میں ہوتا ہے۔ پس اللہ کے قرب کے حصول کے لیے رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے علاوہ بھی کبھی ایک دن اور کبھی تین دن کے لیے مساجد میں آکر بیٹھیں۔ مساجد سے تعلق جوڑیں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سات لوگ ایسے ہیں کہ قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہ ہوگا، ان کو میں اپنے عرش کے سائے میں رکھوں گا۔ ان سات لوگوں میں سے ایک وہ شخص ہے جو مسجد میں آکر عبادت کرتا ہے۔
(سنن الترمذی، 4: 598، الرقم: 2391)
وہ شخص دنیوی کام کاج کے لیے بھلے مسجد سے چلا بھی جائے مگر اس کا دل مسجد کے ساتھ معلق رہتا ہے۔ وہ دنیا میں جائے، کمائے جو مرضی کرے مگر وہ چونکہ جانتا ہے کہ مسجد محبوب کا گھر ہے، لہذا اس نے اپنا دل محبوب کے گھر میں رکھا ہے۔ جسم دنیا میں گھومتا ہے مگر دل محبوب کے گھر میں رہتا ہے۔
لہذا یہ عہد کریں کہ ہم دو چیزوں سے اپنے تعلق کو جوڑیں گے:
- مسجدوں سے تعلق: ہمارا تعلق مسجدوں سے کٹ گیا ہے۔ افسوس ہم محبت کے دعویدار اہل سنت کی مسجدیں ویران رہتی ہیں۔ ہم نے کبھی سوچا کہ وہ کیسا دعویدارِ محبت ہے کہ جس کا محبوب کے گھر (مسجد) جانے کا بھی ذوق نہیں۔ لہذا مسجد سے تعلق جوڑیں، اس کی صفائی کیا کریں، یہ خدا کا گھر ہے، اس کے واش روم دھویا کریں، اس کی صفیں درست کیا کریں اور یہاں بروقت آیا کریں۔
- مولیٰ سے تعلق: دوسرا تعلق جسے جوڑنے کی ضرورت ہے وہ مولیٰ سے تعلق ہے۔ اس تعلق کا محل نماز ہے۔ نماز اللہ کے قریب کرنے والی شے ہے۔ عذر ہو، مصروفیت ہو، گھر میں ہو یا راستے میں، جہاں بھی ہوں اسے بروقت ادا کیا کریں۔ جب بھی مصلے پر آئیں تو دنیا سے کٹ جائیں اور مولیٰ سے جڑ جائیں۔ نماز اس ذوق سے پڑھیں کہ وہ مولیٰ سے جوڑ دے۔ جب اللہ سے جڑتے چلے جائیں گے تو دنیا کے مصائب و آلام اور ان کے اثرات سے بچتے چلے جائیں گے۔۔۔ شکوے شکایات اور دنیا کے گورکھ دھندوں اور اذیتوں سے دل و دماغ صاف ہوتے چلے جائیں گے۔۔۔ غم، غم نہ رہیں گے۔۔۔ اگر ہم عشق و محبت الہٰی کا غم لے لیں تو ہر غم سے جان چھوٹ جائے گی۔ اس چیز کا غم لے لیں کہ ہم اس سے بچھڑ گئے ہیں، پھر کب ملاقات ہو گی۔۔۔؟ ’’الست بربکم‘‘ (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟) کی پیاری آواز بھی ہم بھول گئے۔۔۔ اور ’’قالو: بلیٰ‘‘۔ (’’کیوں نہیں، تو ہی تو ہے‘‘) کی صورت میں ہم اپنے جواب بھی بھول گئے۔۔۔
نماز اُس عہد کی یاد دہانی کا طریق ہے۔ آج سے عزم کر لیں کہ موت آ جائے مگر نماز نہ چھوٹے۔ نماز سے یاری کریں اور مسجدوں کے تعلق میں استواری کریں۔ مسجدوں اور مصلوں کو آباد کریں۔ نمازوں میں ذوق پیدا کریں۔ نماز کو اللہ کے ساتھ خلوت گاہ اور جلوت گاہ بنائیں۔
علامہ اقبال نے اسی نماز کا حال بیان کرتے ہوئے کیا خوب کہا تھا:
اذاں ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بنی
نماز تیرے نظارے کا ایک بہانہ بنی
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
تحریک منہاج القرآن کے رفقاء اور کارکنان اور تمام نوجوانوں کو میرا یہی درس ہے کہ نماز کو اُس کے نظارے کا بہانہ بنائیں اور اللہ سے دل لگائیں۔ اس جوانی میں جو رب سے جڑ گیا وہ کٹے گا نہیں۔ جب ہماری عمر کو پہنچ جائیں گے، بال سفید ہو جائیں گے تو پچھتائیں گے۔ یہ جوانی کا وقت مولیٰ سے عشق کرنے کا وقت ہے۔ باقی سب جھوٹی محبتوں کو قدموں سے روندھ ڈالیں۔ محبت و عشق کرنا ہے تو صرف مولیٰ سے کریں۔
متابعتِ سنت کی نیت
اعتکاف آقا علیہ السلام کی سنت ہے اور ہمیشہ عمر بھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف بیٹھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہر سال آخری عشرۂ رمضان میں آقا علیہ السلام دس دن اعتکاف بیٹھتے لیکن حیات طیبہ کا جب آخری سال آیا اس میں بیس دن اعتکاف بیٹھے۔ گویا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال تک اعتکاف ترک نہ فرمایا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف بیٹھتیں۔
(صحيح بخاری، کتاب الاعتکاف، 2: 713، 719)
اعتکاف چونکہ اللہ کے ساتھ خلوت کا نام ہے۔ لہذا آقا علیہ السلام یہ خلوت امت کو سکھانے کے لیے یہ عمل مبارک فرماتے ورنہ وہ تو جلوت میں بھی مولیٰ کی خلوت میں رہتے تھے۔۔۔ وہ ہجوم میں بھی اللہ کے ساتھ تنہائی میں رہتے تھے۔۔۔ وہ حالتِ فرد میں بھی اللہ کے ساتھ لطفِ جمع اور لطفِ وصال لیتے تھے۔۔۔ لہذا امت کو خلوت کے اسرار سے آگاہ فرمانے کے لئے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمنے اعتکاف اور خلوت کو اپنی سنت بنایا۔ پہلی امتوں کو جو کچھ عمر بھر کی رہبانیت میں ملتا تھا، امت محمدی کو وہ سب اعتکاف میں ملتا ہے۔ خواہ وہ اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرے کا ہو یا پورے سال میں چند لمحات کا۔
آقا علیہ السلام اعلان نبوت سے پہلے غارِ حرا میں خلوت فرماتے۔ کبھی ہفتہ، کبھی دس دن، کبھی پندرہ دن، کبھی مہینہ حتیٰ کہ چالیس چالیس دن تک خلوت گزیں ہوتے۔ اس خلوت میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو اتصال اور وصال کا مزہ آتا، خلوت میں اللہ سے مناجات، اس کی عبادت اور اس کے ذکر کا جو کیف و سرور ملتا وہ کیفیات ہی کچھ اور تھیں۔ لہذا خلوت اور اعتکاف آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی متابعت میں کیا کریں، اس نیت سے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع کا ثواب بھی ملتا رہے گا۔
دوزخ سے بچنے کی نیت
آقا علیہ السلام نے فرمایا:
من اعتکف يوما ابتغاء وجه اﷲ جعل اﷲ بينه و بين النار ثلاث خنادق کل خندق أبعد مما بين الخافقين.
’’جس نے ایک دن اعتکاف کیا اور نیت فقط اللہ کی رضا تھی، اللہ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقیں حائل کردے گا، ان تین خندقوں میں سے ہر ایک خندق اتنی چوڑی ہو گی جتنا فاصلہ مشرق سے مغرب تک ہے‘‘
(طبرانی، الأوسط، 7: 221، رقم: 7326)
رب کی رحمتوں کی فراوانی بھی دیکھئے اور ہماری اپنی نافرمانی بھی دیکھیں۔ وہ بخشنے کے لیے اتنا تیار ہے مگر ہم پھر بھی دوزخ کی خندقوں میں گرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایک دن کے اعتکاف کی برکت یہ ہے تو دس دن اعتکاف بیٹھنے والوں کا عالم کیا ہو گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ نیتوں میں دنیا نہ ہو۔
نہ صرف یہ کہ دوزخ سے آزادی بلکہ دو حج اور دو عمرے کرنے کا ثواب بھی اعتکاف کرنے والے کو نصیب ہوتا ہے۔ سیدنا امام حسین روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
من اعتکف عشر من رمضان کان کحجتين و عمرتين.
’’جو شخص رمضان کے دس دنوں کا اعتکاف کرے اس کو دو حج اور دو عمرے کرنے کا ثواب ملے گا‘‘۔
(المعجم الکبير، 3: 128، الرقم: 2888)
لیلۃ القدر کی تلاش کی نیت
اعتکاف کے دوران لیلۃ القدر کی تلاش کی نیت بھی ذہن میں مستحضر رہے۔ اس لئے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تحرء ليلة القدر فی الوتر من العشر الأواخر.
’’آخری عشرہ کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو‘‘۔
(صحيح بخاری، کتاب صلاة التروايح، 2: 710، رقم: 1913)
جسے لیلۃ القدر مل گئی، گویا اسے ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل لمحات نصیب ہوئے۔ یہ تو قرآن مجید نے عامۃ المسلمین کے لیے بشارت دی لیکن جو اپنے دل کا حال لیلۃ القدر جیسا کر لے۔۔۔ دل کو اللہ کے لیے اتنا صاف کر لے کہ اس کے دل پر اللہ کی رحمت اور انوار الٰہیہ کا نزول ہو۔۔۔ دل مولیٰ کی خلوت گاہ اور عرش الٰہی بن جائے۔۔۔ ماسویٰ اللہ سے پاک ہو جائے۔۔۔ دل سے غیر کی گرد، شہوات، دنیا کی رغبات، حرص و لالچ اور حسد نکل جائے۔۔۔ صاف شفاف دل سے اپنی نیت خالصہ کے ساتھ مولیٰ سے جڑ جائے۔۔۔ تو اس کی ہر رات مثل لیلۃ القدر اور ہر یوم مثلِ یوم عید ہے۔ اگر اعتکاف کے اندر اس نیت کو بھی جمع کر لیں گے تو اس کا بھی الگ ثواب ملے گا۔
باجماعت محافظتِ صلوٰۃ کی نیت
عمر بھر جب بھی مسجد اور صاف پاک حلقوں میں بیٹھیں تو پانچوں نمازوں کی باجماعت محافظت کی نیت بھی کریں کہ پانچوں نمازیں باجماعت ادا کروں گا۔ ارشاد فرمایا:
حٰـفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ
’’سب نمازوں کی محافظت کیا کرو۔‘‘
(البقرة، 2: 238)
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِيْنَ.
’’اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو‘‘۔
(البقرة، 2: 43)
باجماعت نماز پڑھنے کا اجر اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں 27 گنا زیادہ ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے منبر پر خطاب فرماتے ہوئے (آپ کی حیات مبارکہ کا یہ آخری خطاب تھا) ارشاد فرمایا:
من صلی الصلوات الخمس فی الجماعة حيث ما کان في اوقاتها جاز علی الصراط کالبرق الامع في أول زمرة من السابقين وجاء يوم القيامة ووجهه کالقمر ليلة البدر.
یعنی جس نے پانچ وقت کی نماز باجماعت بروقت ادا کی تو وہ پل صراط سے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ گزر جائے گا اور وہ سب سے پہلے والے لوگوں میں شمار کیا جائے گا اور قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند چمکتا ہوگا۔
(ابن رجب حنبلی، جامع العلوم والحکم، 1: 218)
اللہ پاک کتنی کشادگی اور فراخی کے ساتھ بخشش بانٹنا چاہتا ہے اور بانٹ رہا ہے، اسباب پیدا فرماتا ہے مگر ہم اسے لینے کو تیار نہیں کیونکہ ہماری زندگیوں میں منافقت، دوہرا پن اور دوغلا پن ہے۔ رمضان المبارک اور اعتکاف کے دوران ہمیں اپنی اس اندرونی کیفیت یعنی دوغلا پن کو ختم کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا
ہمیں اپنی زندگیوں میں پاکیزگی اور طہارت اپنانے کی ضرورت ہے۔ ساری پلیدی اور شیطنت آنکھوں کے راستے سے داخل ہوتی ہے۔ میری نصیحت ہے کہ نابینا، بہرے اور گونگے بن جائیں۔ ایسے نابینا بنیں کہ آنکھیں بدی کو دیکھنے سے نابینا ہو جائیں۔۔۔ کان کوئی بدی اور برائی سننے سے بہرے ہو جائیں، صرف خیر سنائی دے۔۔۔ گونگے بن جائیں اور زبان سے کلمہ شر ادا نہ ہو، کسی کی برائی نہ کریں۔ لوگوں کی غیبت اور برائیاں بیان کر کے ہم اپنی نمازیں و روزے برباد کرتے ہیں۔ جب مل بیٹھتے ہیں تو لوگوں کے معاملات پر بات چھیڑتے ہیں۔ پس غیبت، چغلی، جھوٹ اور برائی کی بات سے کلیتاً اجتناب کریں۔ اگر یہ تین راستے برائی کے لیے بند کر دیں گے تو شر اور شیطان کبھی اندر داخل نہ ہو گا اور نفس کی خودبخود حفاظت ہو جائے گی۔ اس عمل سے نفس امّارہ اور شیطان کی کمر ٹوٹ جائے گی۔
مکاثرۃ جمع المسلمین
منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں ہزار ہا لوگ آ کر اعتکاف بیٹھتے ہیں۔ بعض لوگ جو حقائق کو نہیں سمجھتے اُن کے ذہنوں میں یہ سوال آتا ہے کہ اعتکاف تو اکیلے بیٹھنا ہوتا ہے، یہاں ہزار ہا لوگ بیٹھتے ہیں تو یہ کیسا اعتکاف ہے؟ یاد رکھیں! اس میں بھی خیر ہے، اس لئے کہ جہاں مومنوں اور مسلمانوں کی تعداد جتنی بڑھتی جائے گی رب کی رحمت کا نزول اتنا بڑھتا جائے گا۔ تنہا نماز کے مقابلے میں باجماعت نماز کا 27 گنا ثواب اسی لئے زیادہ ہے۔ اسی طرح باجماعت نماز کے مقابلے میں نماز جمعہ کا ثواب زیادہ ہے۔ نماز عید کا ثواب نماز جمعہ سے زیادہ اور پھر حج کا ثواب جس میں پوری امت جمع ہوتی ہے سب سے زیادہ ہے۔ حرمین شریفین میں بھی ہزار ہا لوگ اعتکاف بیٹھتے ہیں۔ پس جوں جوں عمل خیر میں لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے اللہ کی طرف سے اجر، ثواب، رحمت کا نزول بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ضرورت دل کو خلوت گاہ بنانا ہے۔ دل کا خیمہ ہونا چاہیے، غیر ضروری و لغو باتوں سے گریز اور خاموشی ہونی چاہئے، دل ہمہ تن مولیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ یہ اعتکاف ہے، یہ خلوت مع اللہ ہے۔ اس کے برعکس اگر تنہا تو رہے اور نفس میں کھیلتا رہے۔۔۔ تنہا تو رہے مگر شیطانی خیالات میں رہے۔۔۔ تنہا تو بیٹھے لیکن خیر کا سبق نہ ملے۔۔۔ تو یہ اعتکاف/ خلوت کسی کام کا نہیں۔ اس سے بدرجہا بہتر مکاثرۃ جمعۃ المسلمین ہے، اس لئے کہ یہ اللہ کا فضل عظیم ہے۔
ہندی نے کنزالعمال میں روایت کیا کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا: ’’جس نے نیکی کے کام پر اکٹھے ہونے والوں کے اجتماع کو جتنا بڑھایا، اللہ اُس کو اُن کی خیر میں اتنا شامل کر دیتا ہے‘‘۔
انتظار الصلوٰۃ بعد الصلوٰۃ
ان احسن نیات میں سے ایک نیت یہ ہے کہ ایک نماز باجماعت پڑھ کر اللہ کے گھر میں اگلی نماز کا انتظار کرنا۔ انتظار کے اس وقت میں اللہ کا ذکر کرنا، مراقبہ کرنا، استغفار کرنا، درودپاک پڑھنا الغرض جتنے بھی اعمال پاکیزہ اور صالح ہیں ان کو بجا لاتے رہیں۔ مگر نیت یہ ہو کہ ایک نماز کے بعد اگلی نماز کا انتظار۔ ظہر پڑھ لی تو عصر کا انتظار، عصر پڑھ لی تو مغرب کا انتظار، مغرب پڑھ لی تو عشاء کا انتظار۔ اگلی نماز کے انتظار کا یہ عمل اللہ پاک کو اتنا پسندیدہ ہے کہ اللہ رب العزت ملائکہ کو فخر و مباحات کے ساتھ ان مومنین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أنظروا إلیٰ عبادي الذين ينتظرون الصلاة بعد الصلاة.
’’ میرے محبوب بندوں کو دیکھو جو ایک نماز پڑھ کر اگلی نماز کے انتظار میں میرے گھر میں ہی بیٹھے ہیں‘‘۔
پھر جب وہ انتظار میں بیٹھتے ہیں تو اس پورا وقت اللہ کے مہمان رہتے ہیں۔ یہ انتظار مومنین کے گناہوں کو مٹانے کا باعث بھی ہے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ألا أدلکم علی ما يکفر اﷲ به الخطايا ويزيد به في الحسنات.
’’کیا میں تمہیں وہ اعمال نہ بتاؤں جن کے بجا لانے سے اللہ تبارک و تعالیٰ نامہ اعمال سے تمہاری خطائیں اور گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور تمہاری نیکیوں میں مزید اضافہ فرما دیتا ہے‘‘۔
(سنن ابن ماجه، 1: 148، الرقم: 427)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: بلیٰ یا رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! ’’جی ہاں! آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمائیں‘‘۔
آقا علیہ السلام نے کچھ اعمال بیان کئے، اُن اعمال میں انتظار الصلوٰۃ بعد الصلوٰۃ نمایاں طور پر بیان کیا کہ جو نمازی مسجد میں ایک نماز پڑھ کر اگلی نماز کے انتظار میں بیٹھتا ہے، اللہ رب العزت صرف اس عمل کے باعث اس کے گناہوں کو نامہ اعمال سے مٹا دیتے ہیں اور ان جگہوں پر مزید نیکیوں کو لکھ دیتے ہیں۔ گویا یہ عمل کفارئہ ذنوب، از خود مقبول توبہ اور حسنات میں اضافہ کا باعث ہے۔
گناہوں سے اجتناب کی نیت
اعتکاف اور مسجد میں بیٹھے ہوئے یہ نیت بھی کر لیں کہ جب تک اعتکاف میں بیٹھا ہوں ہر قسم کے گناہ سے خود کو روکوں گا۔ نافرمانیوں، بدیوں سے اتنے وقت تک میں بچا رہوں گا۔ اللہ کے گھر کے حیا کے سبب گناہ نہیں کروں گا۔ اتنا وقت میرے کان بھی گناہوں سے بچے رہیں گے کہ یہاں گناہ سننے کو نہیں ملے گا۔ میری نگاہیں گناہوں سے بچیں گی، کوئی گناہ کا کام دیکھنے کو نہیں ہو گا۔ میری زبان گناہ کرنے سے بچی رہے گی کہ اللہ کا ذکر کروں گا، غیبت، جھوٹ اور گالم گلوچ نہیں ہوگا۔ الغرض میرے جسم کے اعضاء مسجد میں گناہ سے بچے رہیں گے، اللہ کے گھر کا حیا میرے لیے دفاع کرے گا۔
یاد رکھیں کہ فقط گناہ کو ترک کر دینا ہی عبادت نہیں بلکہ گناہ کی نیت کو ترک کر دینا بھی عبادت ہے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا کَتَبَهَا اﷲُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً کَامِلَةً.
’’جس نے برائی کا ارادہ کیا اور پھر اس کا ارتکاب نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک کامل نیکی لکھ دیتا ہے‘‘۔
(صحيح بخاری، کتاب الرقاق، 5: 2380، رقم: 6126)
اگر یہ نیت پختہ ہو جائے تو پھر مسجد اور اعتکاف سے جانے کے بعد بھی اللہ کے ساتھ تعلق اتنا پختہ قائم ہو جاتا ہے کہ یہ نیت دائمی بن جاتی ہے اور عام زندگی میں بھی بندہ گناہوں سے اجتناب کرتا ہے۔
اجتماع العلم کی نیت
اعتکاف میں علم دین سیکھنے کی نیت بھی کیا کریں۔ جہاں قال اللہ و قال الرسول کا بیان ہو رہا ہو، قرآن و سنت کے احکام سنائے جائیں، حضورa کی سنت کا علم دیا جائے، تقویٰ، ورع، ذکر الٰہی کے آداب اور اس کی رغبت سکھائی جائے، اُن جگہوں پر رحمتِ الہٰیہ کا نزول ہوتا ہے۔ لہذا اعتکاف کو مجلس علم بنائیں اور یہاں دین اور فقہ کے مسائل سمجھیں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
کن عالما أو متعلما أو محبا أو متبعا ولا تکن الخامس فتهلک.
’’اے بندو! چار چیزیں میں سے کچھ ایک بن جاؤ اور پانچویں حالت میں نہ جاؤ وہ ہلاکت ہے۔ فرمایا: یا عالم بن جاؤ یا متعلم بن جاؤ (علم دینے والے بن جاؤ یا علم لینے والے) یا علم سے محبت کرنے والے بن جاؤ یا اہل علم کی باتوں پر عمل کرنے والے بن جاؤ‘‘۔
(عبدالبر، جامع بيان العلم، 1: 29)
یہ سارے کام مسجد میں، اعتکاف میں اور مجالس علم میں ہوتے ہیں۔ جہاں سے قرآن و حدیث کا علم مل رہا ہو، اس عالم کی مجلس میں ایک ساعت، ایک گھڑی کے لیے بیٹھنا اللہ رب العزت کو ایک سال کی عبادت سے زیادہ عزیز ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
من أدرک مجلس عالم فکأنما أدرک مجلسی ومن أدرک مجلسی فليس عليه يوم القيامة شدة عذاب.
’’صالح عالم (جہاں سے علم نافع ملے) کی مجلس میں بیٹھنا اسی طرح ہے جیسے میری مجلس میں بیٹھنا اور جس نے میری مجلس کا فیض پا لیا، قیامت کے دن اُس پر عذاب کی شدت نہیں ہو گی‘‘۔
اس فرمانِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عیاں ہے کہ آقا علیہ السلام نے امت کے لئے اپنے فیضِ نبوت کی نہریں اور چشمے کس وسعت سے جاری کر دئیے ہیں۔ یہ چشمے صرف اُس پہلی صدی کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک ہر صدی کے لیے جاری ہیں۔ جب تک آقا علیہ السلام کی امت میں علمائے صالحین و متقین ہوتے رہیں گے اور علم نافع کی مجلسیں بپا کرتے رہیں گے ان کی مجلسوں میں بیٹھنے والے اور علم کو لینے والے اُسی طرح اجر پائیں گے جیسے مجلس محمدی میں بیٹھے ہیں۔ نیز عذابِ قیامت سے نجات کی نوید بھی انہیں ملتی رہے گی۔
اللہ کیلئے دوستی کی نیت
اعتکاف کے دوران یہ نیت کریں کہ اللہ کے لیے کوئی دوست چنیں گے جو اعتکاف کے بعد بھی مجھے اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی طرف متوجہ کرتا رہے گا۔ لہذا جتنے دن بیٹھیں نیک دوست بنا کر اٹھیں تاکہ ان کی سنگت دنیا و آخرت میں ہمارے کام آئے اور بری سنگتوں سے جان چھوٹے۔ اچھے دوست جن میں اچھی خصلتیں ہوں، نیکی ہو، تقویٰ ہو، عبادت کا ذوق ہو، خوش خلق ہوں، نیک ہوں، پاکباز ہوں۔ ایسے دوست بنائیں جن سے تعلق کی بنیاد اللہ اور اللہ کا رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو۔نیز اعتکاف میں یہ نیت بھی ہمارے پیشِ نظر رہے کہ ہم اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھے ہیں کیونکہ جہاں اتنا کثیر اجتماع ہوتا ہے وہاں کوئی نہ کوئی اللہ کا مقرب و محبوب بندہ ضرور ہوتا ہے جس کے طفیل عام لوگوں کی بخشش بھی ہوجاتی ہے۔
ان نیات کے اہتمام کی ضرورت کیوں؟
ہماری زندگیوں میں دوغلا پن آ گیا ہے۔ نماز بھی پڑھتے ہیں اور نافرمانی بھی کرتے ہیں۔۔۔ عقیدت و محبت بھی رکھتے ہیں اور دوسری طرف امور حیاء کے خلاف، اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کے ایسے امور بھی سرانجام دیتے ہیں جو باعثِ دوزخ و جہنم ہیں۔ گناہ اور نیکی، نافرمانی اور فرمانبرداری، تقویٰ اور فسق کا ہماری زندگیوں میں اختلاط mixture ہو گیا ہے۔ نیت میں اس امتزاج کی وجہ سے خیر رخصت ہوجاتی ہے اور آخرکار شر کی رغبت بڑھ جاتی ہے۔ اس سے نیات فاسدہ اور باطلہ ہو جاتی ہیں جو انسان کو دوزخ کی طرف لے جاتی ہیں۔ نوجوانی کی عمر اتنی ناپائیدار عمر ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا کہ پھسلتے پھسلتے اچانک انسان ہلاکت کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔
یہ زمانہ کفر سے بھی بدتر ہے۔ شیطان نے فحاشی، عریانی، معصیت اور گناہوں کے ہزار ہا طریقے وضع کر لیے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ثقافتی یلغار کے ذریعے گھر بیٹھے گناہ کے راستے کھول دئیے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا، facebook وغیرہ سے خیر اور اچھائی بھی پھیل رہی ہے مگر وہ بچے و بچیاں جن کا ایمان، دین، تقویٰ کمزور ہے، پختگی نہیں، اُن کے لیے شیطانی راستے بھی اسی سوشل میڈیا، facebook وغیرہ میں ہیں۔ گھر بیٹھے بچے و بچیاں رابطے کرتے ہیں، chating کرتے ہیں، پھسلتے ہیں اور اس طرح شیطان کی گرداب میں پھنس جاتے ہیں۔ جہاں انٹرنیٹ سے خیر کے کام بھی ہوتے ہیں وہاں شر کے کام بھی اسی رفتار سے ہوتے ہیں۔
ان حالات میں میرے بیٹے، بیٹیاں، رفقاء و کارکنان! آپ جہاں بھی ہیں یاد رکھیں کہ آج ہمیں اپنا محاسبہ کی ضرورت ہے اور اس کی ابتداء نیت کی اصلاح سے ہوگی۔ لہذا ہر تین ماہ بعد یوتھ لیگ اور MSM کے نوجوان ضرور اعتکاف کریں۔ جس تیز رفتاری سے کفر، فسق و فجور، معصیت کاری اور شیطان اپنے لاؤ لشکر اور حیلوں و حربوں کے ساتھ بڑھ رہا ہے، اُس سے زیادہ تیز رفتاری سے ہمیں اپنے دفاع کے لئے زیادہ بڑی جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔
ذہن نشین رہے کہ! ایمان صرف عقیدت و محبت سے نہیں بچتا۔ خالی محبت و عقیدت کبھی دین کی حفاظت نہیں کر سکتی۔ وہ سچی محبت اور عقیدت ہی نہیں ہے جب تک محبوب کی تعلیمات پر عمل نہ کیا جائے۔۔۔ اس کے نقشِ قدم پر نہ چلا جائے۔۔۔ اس کے اسوہ کی پیروی نہ کی جائے۔۔۔ اس کی تعلیمات، اعمال، احوال، اخلاق اور اس کے شب و روز کے پاکیزہ معاملات کو اپنایا نہ جائے۔
لہذا سیرتوـں کو مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور دین و شریعت کے رنگ میں رنگیں۔ اخلاق اچھے کریں، علم کے حصول پر محنت کریں۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو قرآن اور اسلامی تعلیمات کا بنیادی علم حاصل کرتے ہیں؟ افسوس! ہمارے بچے بچیاں اپنے دین اور اپنے مسلک کی ابجد سے بھی ناواقف ہیں۔ لہذا کسی بھی گمراہ اور بدعقیدہ سے متاثر ہوکر اپنا عقیدہ برباد کرلیتے ہیں کیونکہ ہم نے بچوں کو دین سکھایا ہی نہیں بلکہ انہیں صرف دنیا داری سکھاتے ہیں۔ انہیں صرف نعرے لگانا، جلوس نکالنا اور جوش منانا آتا ہے، ہوش ان میں نام کا بھی نہیں۔ افسوس! ہمارے ہاں نری جہالت ہے۔ نہ قرآن کھول کر پڑھا، نہ تفسیر پڑھی، نہ کتب عقیدہ پڑھیںاور نہ کتب شریعت پڑھیں اور نہ دین پر عمل ہے۔ خدا جانے ہمیں کب ہوش آئے گی۔
نوجوان بچے، بچیاں! عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، اتباع رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، تقویٰ و پرہیزگاری کا پیکر بن جائیں۔۔۔ ان کی آنکھیں اللہ کی محبت میں برسا کریں۔۔۔ ان کے دل خدا کے خوف میں تڑپا کریں۔۔۔ ان کی جبینوں کو سجود کی لذت ملے۔۔۔ یہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر مصلے پر جایا کریں۔۔۔ بری صحبتوں اور بری سنگتوں کو چھوڑ دیں۔ ان بری سنگتوں، صحبتوں پر لعنت بھیجیں جو ہمیں جہنم کی طرف لے جائیں اور اللہ سے دور کر دیں۔ ان سنگتوں کو اپناؤ جو ہمیں مولا کے قریب کریں۔۔۔ جہاں سے تقویٰ، علمِ نافع، دین کی سمجھ اور عقیدہ صحیحہ کی پختگی نصیب ہو۔
وقت بری چیزوں میں ضائع کرنے کے بجائے ہر روز بلاناغہ اسلام کی حقیقی تعلیمات پر مبنی میرے خطابات سنیں۔ جتنی توفیق ہو دینی کتب پڑھیں۔ حدیث نبوی، تصوف، عقائد، عبادات، معاملات الغرض ہر موضوع پر 500 سو کے قریب میں نے کتب مرتب کی ہیں۔ یہ کس کے لیے ہیں۔۔۔؟ کیا میں ان سے کمائی کرتا ہوں۔۔۔؟ نہیں، میں ان سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتا۔ یہ میرا روزگار اور بزنس نہیں ہے بلکہ یہ صرف امت مسلمہ کی خدمت، آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین اسلام کی نوکری ہے۔ اگر پڑھیں اور سمجھیں گے نہیں تو سنبھلیں گے نہیں، نتیجتاً قیامت کے دن کوئی سہارا نہیں ہو گا۔ محض محبت کرنا کام نہیں آئے گا۔ اس لئے کہ محبت، اتباع بھی مانگتی ہے کہ جس سے محبت کرتے ہو اس کے نقش قدم پر بھی چلو۔۔۔ جس سے محبت کرتے ہو اس کی بات کو بھی مانو۔۔۔ جس سے محبت کرتے ہو اس کے طرز زندگی کو بھی اپناؤ۔ یہ تعلیماتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ یہی میرا دردِ دل، میری چاہت، تمنا، مشن اور مقصد ہے۔
میں آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے نوجوانوں کے چہروں پر عبادت کا نور دیکھنا چاہتا ہوں کہ ان کی جبینیں سجدوں کے نور کی وجہ سے چمکیں۔ یہ تقویٰ و حیا کے پیکر ہوں۔ ان کی زندگیوں میں دین تمکن پکڑے۔ ان میں ایمان کی غیرت ہو۔ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہو۔ اولیاء و صالحین کا طریقہ ان کی زندگیوں سے نظر آئے۔ لہذا اے نوجوانانِ امت! اپنی زندگیوں، اعمال، احوال، اخلاق، نیات اور ظاہر و باطن کو بدلو۔ علم نافع اور عمل صالح کی طرف بڑھو۔ قبر قریب ہے، آقا علیہ السلام کا دیدار ہونے والا ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیشی ہونے والی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان ہم سے چھین لی جائے۔ یاد رکھیں! صرف نعروں اور دعوؤں سے پہچان نہیں ہوگی۔ معرفت اور پہچان کی توفیق اسی کو نصیب ہو گی جو آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچا وفادار اور تابع دار ہو گا۔