سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے ریاستی و حکومتی بربریت کو دو سال مکمل ہو گئے مگر 14 شہداء اور سینکڑوں زخمیوں کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔ 17 جون 2014 ء کے دن حکومتی سرپرستی میں ریاست کے ادارے پولیس نے آئین، قانون اور انسانیت کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ماڈل ٹاؤن میں خون کی ہولی کھیلی اور سینکڑوں معصوم شہریوں کو خون میں لت پت کر دیا۔ریاست کے یہ وہ شہری تھے جن کے جان و مال کے تحفظ اور انصاف کی گارنٹی آئین پاکستان نے دی ۔نام نہاد جسٹس سسٹم میں سموسے، چینی، چٹنی اور شراب کی ایک بوتل پر تو سوموٹو ایکشن ہوتا ہے مگر بے گناہ انسانی جانوں کے ضائع ہونے پر انصاف کا کوئی ادارہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہدایت اور سرپرستی میں پاکستان عوامی تحریک نے اپنے 14 شہداء اور 85 سے زائد زخمیوں کو انصاف دلوانے کیلئے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں استغاثہ دائر کر دیا ہے۔استغاثہ میں شریف برادران سمیت حمزہ شہباز، رانا ثناء اللہ، خواجہ سعدرفیق ، خواجہ محمد آصف،پرویز رشید، عابد شیر علی، چودھری نثار اور 130 سول و پولیس افسران کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیاہے۔استغاثہ میں 127 چشم دید گواہان پیش کیے گئے ہیں۔سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی نگرانی میں استغاثہ تیار کروایا اورٹرائل کے ممتاز وکلاء کی خدمات حاصل کیں جن میں رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ، لہراسب خان گوندل ایڈووکیٹ، رفاقت علی کاہلوں ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، اشتیاق چودھری ایڈووکیٹ، سردار غضنفر حسین خان ایڈووکیٹ، امتیاز چودھری ایڈووکیٹ، محمد آصف سلہریا ایڈووکیٹ، ملک مجاہد محمود لنگڑیال ایڈووکیٹ اور فرزند علی مشہدی ایڈووکیٹ شامل ہیں۔
قانونی جہدوجہد کے حوالے سے استغاثہ انصاف کے حصول کیلئے انتہائی اہم MOVE ہے۔ چونکہ پنجاب حکومت نے ایف آئی آر سے لے کر جے آئی ٹی بنانے اور پھر جھوٹا اور من گھڑت چالان پیش کرنے تک ہر مرحلہ پر شہداء کے ورثاء کی گواہی کو نظر انداز کیا اور یکطرفہ طور پر کیس کو آگے بڑھانے کیلئے اپنے حکومتی اور ریاستی اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ اس ساری صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے استغاثہ دائر کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔استغاثہ دائر کرتے وقت انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ایک ایسا جج تعینات تھا جو بعدازریٹائرمنٹ پرکشش عہدے کیلئے حکمرانوں کی تابعداری میں قانون اور انصاف کی دھجیاں اڑاتا رہااور اس کی کوشش تھی کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے پہلے استغاثہ کو بھی خارج کر دے مگر اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ مذکورہ جج کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے دائر استغاثہ میں گواہیاں طلب کی گئیں اور گواہان کے بیانات قلمبند کروانے کا سلسلہ جاری ہے۔ الحمدللہ پاکستان عوامی تحریک نے جن گواہان کے نام استغاثہ میں شامل کیے تھے وہ تمام کے تمام پورے جوش و خروش اور ایمان و یقین کی مکمل طاقت کے ساتھ وقت کے فرعونوں کے خلاف بلاخوف انسداد دہشتگردی کی عدالت میں گواہیاں دے رہے ہیں۔
اس موقع پر مستغیث جواد حامد کا ذکرکرنا بھی ازحد ضروری ہے کہ جنہوں نے 37صفحات پر مشتمل استغاثہ کا ایک ایک حرف واقعہ کے پس منظر کے ساتھ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں بیان کیا ۔زخمیوں، شہداء کے ناموں کے ساتھ ساتھ پولیس کے جس جس درندے نے انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا، ان کے نام تک انسداد دہشتگردی کی عدالت میں زبر زیر کے فرق کے بغیر بیان کیے۔ بلاشبہ جواد حامد کا عدالت میں دیا جانیوالا طویل ترین بیان ان کی مشن سے محبت اور قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی دعااور شہدائے ماڈل ٹاؤن سے دلی لگاؤ کا نتیجہ ہے۔
استغاثہ
استغاثہ 16 مارچ 2016 ء کو دائر کیا گیا۔ مستغیث جواد حامد نے عدالت کے روبرو بیان دیا کہ:
’’ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 2010 ء میں دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی اہمیت کا فتویٰ جاری کیا جسے پوری دنیا میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی، اس فتویٰ کی وجہ سے دہشت گرد گروہ مشتعل ہو کر بوکھلا اٹھے اور وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے جانی دشمن بن گئے اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے دہشت گردوں کی طرف سے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں۔ ان دھمکیوں کے بارے میں سرکاری ایجنسیوں نے بھی تحریری طور پر آگاہ کیا اور ڈاکٹر محمد طاہر القادری اور ان کے اہل خانہ کی فول پروف حفاظت پر زور دیا گیا۔ان دھمکیوں کا علم سربراہ عوامی تحریک کے ہمسایوں اور ماڈل ٹاؤن ایم بلاک کے رہائشیوں کو ہوا تو ایک رہائشی میاں جاوید اقبال نے عدالت عالیہ لاہور میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی کہ علاقہ کے رہائشیوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔ عدالت کے حکم پر ایس پی آپریشن ماڈل ٹاؤن نے عدالت کو یقین دلایا کہ حفاظتی اقدامات یقینی بنائے جائینگے۔بعدازاں انہوں نے عدالت میں بیان دیا کہ ادارہ منہاج القرآن، جامع مسجد منہاج القرآن اور گردونواح کے مکینوں کی سکیورٹی کیلئے 16 پولیس اہلکار تعینات کر دئیے گئے ہیں جو 24 گھنٹے ڈیوٹی دینگے۔ اس کے ساتھ ساتھ جرسی بیریئرز بھی رکھوادئیے ہیں۔ پولیس یہی بیریئر ہٹانے آئی تھی جو عدالت کے حکم پر خود ماڈل ٹاؤن پولیس نے لگوائے‘‘۔
مستغیث نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ:
’’ڈاکٹر طاہر القادری نے 12 اپریل 2014 ء کو ویڈیو لنک کے ذریعے پاکستان میں پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمران عوام کے صحیح نمائندہ نہیں ہیں اور آئین و قانون کے مطابق حکومت نہیں چل رہی اور نہ ہی عوام کو ان کے بنیادی حقوق مل رہے ہیں۔ انہوں نے 11 مئی 2014 ء کو ملک بھر میں پرامن احتجاج کی کال بھی دی۔مئی 2014 ء کے آخری ہفتہ میں ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈا سے لندن آئے جہاں انہوں نے 29 اور 30 مئی 2014 ء کو ق لیگ کے رہنماؤں کے ہمراہ ایک عوام دوست 10 نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیاجس کی بھرپور کوریج الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ہوئی۔ اس 10 نکاتی ایجنڈے کے اعلان کو حکمرانوں نے اپنے خلاف اعلان جنگ سمجھ لیا اور ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف سازشیں شروع کر دیں‘‘۔
’’11 جون 2014 ء کو ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے پریس کانفرنس کے ذریعے 23 جون 2014 ء کو پاکستان آنے کا اعلان کیا اور اپنے اس اعلان میں ان خدشات کا بھی اظہار کیا کہ ان کی وطن واپسی پر حکومت دہشتگردی کروا سکتی ہے۔انہوں نے نشاندہی کی چونکہ حکمرانوں کے دہشتگردوں سے روابط کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے ایک عوامی ایف آئی آر کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ اگر ہمارا کوئی نقصان ہوا تو اس کے ذمہ دار نواز شریف ،شہباز شریف، حمزہ شہباز، چودھری نثار، خواجہ آصف، خواجہ سعد، پرویز رشید،عابد شیر علی اور صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ ہونگے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی اس پریس کانفرنس اور عوامی ایف آئی آر کے بعد حکمران حواس باختہ ہو گئے اور انہوں نے سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔خواجہ سعد رفیق کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ ’’وہ پاکستان آئیں گے تو ان کے جن نکال دینگے‘‘۔
’’15 جون 2014 ء کو میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی رائیونڈ جاتی عمرہ میں ایک ہنگامی خصوصی ملاقات ہوئی جس میں ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد پر گفتگو ہوئی اور 15 جون 2014 ء کو قبل دوپہر وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے عوامی تحریک کے رہنماؤں کو اطلاع موصول ہوئی کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد کے سلسلے میں حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب ایک میٹنگ کرنا چاہتی ہے لہٰذا وہ لاہور میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں اور پھر 15 جون کو بعدنماز مغرب چیف منسٹر ہاؤس سے ایک گاڑی بھجوائی گئی جس میں سوار ہو کر خرم نواز گنڈاپور، فیاض احمد وڑائچ، سید الطاف حسین گیلانی ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن لاہور پہنچے جہاں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور دیگر وزراء اور افسران بیٹھے تھے۔ اس ملاقات میں وزیراعظم ،وزیراعلیٰ اور دیگر وزراء کی طرف سے دھمکی آمیز لہجے میں کہا گیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو پاکستان آنے سے روکیں۔ جس پر خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی پاکستان آمد کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے۔ جس پر موقع پر موجود حکمران طیش میں آ گئے اور کہا کہ ہم تمہاری اس تحریک اور جدوجہد کو کچل کر رکھ دیں گے اور پھراس ملاقات کے بعد 17 جون 2014 ء کا سانحہ رونما ہوگیا‘‘۔
’’اس خون ریزی کیلئے مشتاق سکھیرا کو جو آئی جی بلوچستان تھے، انہیں خصوصی طور پر بلوچستان سے پنجاب لایاگیا۔مشتا ق سکھیرا نے 17 جو ن 2014 ء کی صبح چارج سنبھال لیا تھا او ر17 جون کے سانحہ کے قتل و غارت گری کی نگرانی آئی جی پنجاب خود کرتے رہے ۔رانا عبدالجبار ڈی آئی جی اور آئی جی آفس کا احسن بٹ کانسٹیبل آئی جی کی ہدایات پر عملدرآمد کرواتا رہا۔ مشتاق سکھیرا آئی جی نے آپریشن کے راستے کی رکاوٹ بننے والے ہر شخص کو ختم کر دینے کا خصوصی حکم بذریعہ وائر لیس جاری کیا‘‘۔
استغاثہ میں جواد حامد نے کہا کہ
’’ہم نے رکاوٹیں ہٹانے کی آڑ میں آپریشن کیلئے آنے والے پولیس افسران سے کہا کہ ا س وقت رات ہے، آپ صبح آ جائیں مگر وہ نہ مانے۔ اس موقع پر انہیں حفاظتی بیریئرز لگائے جانے سے متعلق عدالتی احکامات بھی دکھائے جن کے تحت سربراہ عوامی تحریک کی رہائش گاہ کے آس پاس حفاظتی رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیںمگر پولیس افسران آپریشن کیلئے بضد تھے اور پولیس کی بھاری نفری کے ذریعے خوف و ہراس پھیلاتے رہے‘‘۔
استغاثہ میں تفصیل سے بتایا گیا کہ کس طرح پولیس نے ادارہ منہاج القرآن اور سربراہ عوامی تحریک کی رہائش گاہ پر ہلہ بولا اور 14 کو شہید اور 85 سے زائد کو زخمی کر دیا۔ سربراہ عوامی تحریک کی رہائش گاہ کے باہر زنجیر بنائے کھڑی خواتین پر بھی گولیاںبرسائی گئیں اور دو خواتین شازیہ مرتضیٰ اور تنزیلہ امجد کو بھی شہید کر دیا گیا۔استغاثہ کے حوالے سے گواہان اپنے بیانات قلمبند کروارہے ہیں۔ چشم دید گواہان ٹھوس شہادتیں پیش کررہے ہیں۔ تادم تحریر عوامی تحریک کی طرف سے گواہان پیش ہورہے ہیں۔ عدالت کے اطمینان کے بعد نوٹسز کے اجراء کا سلسلہ شروع ہو گا اور جن پر قتل و غارت گری کا الزام ہے انہیں عدالت طلب کرے گی۔
17 جون۔ لاکھوں عوام کا شہداء سے اظہار یکجہتی
ان شاء اللہ تعالیٰ شہداء کا خون رنگ لائے گا۔ قاتل اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ مصطفوی انقلاب کا سویرا طلوع ہو کررہے گا۔ 17 جون کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کو 2 سال مکمل ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان عوامی تحریک 17 جون کو یوم شہداء کے طور پر منائے گی۔ شہداء کے ورثاء کے ساتھ لاکھوں عوام اظہار یکجہتی کرینگے اور یوم شہداء کے احتجاجی پروگرام میں شریک ہونگے۔ 17 جون کو منائے جانے والے یوم شہداء کے موقع پر قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہم سب کے درمیان ہونگے اور یوم شہداء کے پروگرام کی قیادت و صدارت کرینگے اور آئندہ کا لائحہ عمل دینگے۔
’’یہ شہیدوں کا خون ہے رائیگاں نہیں جائے گا‘‘
17 جون 2014ء کے دن ماڈل ٹاؤن میں ریاستی دہشتگردی کی انتہا کی گئی، پولیس نے یکطرفہ طور پر نہتے اور پرامن کارکنوں پر سیدھی فائرنگ کر کے 14 کو شہید اور 85 کو شدید زخمی کر دیا، شہداء میں 2 خواتین تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ کو منہ میں گولیاں مار کر موقع پر شہید کر دیا گیا۔ ظلم اور درندگی کی انتہا دیکھئے، پولیس نے جن کارکنوں کو گولیاں ماریں انہیں طبی امداد بھی نہیں دینے دی گئی۔ اگر ریسکیو اہلکاروں نے زخمیوں کو اٹھانے کی کوشش کی تو ان پر بھی ڈنڈے برسائے گئے۔ قوم نے ایسے مناظر بھی دیکھے کہ ریسکیو اہلکار زخمیوں کو اٹھا کر طبی امداد کیلئے لیکر جارہے ہیں اور پولیس والے ان پر ڈنڈے برسارہے ہیں۔ گلو پولیس دن بھر زخمیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑیوں میں پھینکتی رہی اور پھر لاہور کے مختلف تھانوں میں لے جا کر انہیں رات بھر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ اگلے دن انہیں مختلف ہسپتالوں میں پھینک دیاگیا۔
قوم نے براہ راست ٹی وی چینلز پر دیکھا کہ سفید داڑھیوں والے بزرگوں کو بھی جانوروں کی طرح ڈنڈوں سے پیٹا گیا، ان کے سروں پر ڈنڈے برسائے گئے، بیشتر کو قریب سے گولیاں مار کر زخمی کیا گیا، بے شرمی و بے حیائی کی حد یہ ہے کہ پولیس کے غنڈوں نے تمام کارکنوں کو حراست میں لینے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر انہی زخمیوں پر دہشتگردی، قتل کی سنگین دفعات کے تحت مقدمات بھی درج کرڈالے۔
کارکنانِ تحریک کا عظیم مشن!
سوال یہ ہے کہ آخر عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے پڑھے لکھے محب وطن، قانون اور امن پسند کارکنان کا قصور کیا تھا؟ یہ وہ باشعور کارکن ہیں جو تعلیمی انقلاب لانے کا منشور رکھتے ہیں۔۔۔ جو دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے جہدوجہد کرتے ہیں۔۔۔ جو دنیا کو بین المذاہب ہم آہنگی، فرقہ واریت کے خاتمہ اور مساوات محمدی کا پیغام دیتے ہیں۔۔۔ جو وطن عزیز میں حقیقی جمہوریت کے قیام اور کرپشن، رشوت، سفارش، اقربا پروری کے خاتمہ کیلئے پرامن جدوجہد کرتے ہیں۔۔۔ جو کہتے ہیں کہ آئین کی ہر شق پر عمل کیا جائے۔۔۔ معیاری تعلیم اور صحت کی سہولتیں ہر شہری کو میسر ہوں۔۔۔ جو کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کوئی شہری بھوکا نہ سوئے ،بغیر چھت کے نہ سوئے۔۔۔ جو بندوقوں کی نالیوں کے نیچے بھی قانون ہاتھ میں نہیں لیتے۔۔۔ تو پھر ان کے ساتھ ریاست نے ایسا بہیمانہ سلوک کیوں کیا؟ ان کا قصور کیا تھا؟
منظم قتل و غارت گری
16جون کی رات ایک بجے سے لیکر 17 جون 2014ء کے دن دوپہر 2بجے تک پولیس کی بھاری نفری نے ماڈل ٹاؤن کا گھیراؤ کیے رکھا اور لمحہ بہ لمحہ صورتحال کے بارے میں قومی میڈیا پوری قوم کو آگاہ کررہا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب جن کے بارے میں یہ مشہور کیا گیا ہے کہ وہ 24گھنٹے جاگتے اور کام کرتے ہیں وہ بیان حلفی دیتے ہیں کہ واقعہ کا علم مجھے صبح 9 بجے ہوا اور میں نے فوری اپنے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو Disengage کا حکم دیا مگر جتنی بھی شہادتیں ہوئیں وہ دن 11 اور ایک بجے کے درمیان ہوئیں۔ اس امر میں رتی برابر بھی شبہ نہیں کہ ماڈل ٹاؤن میں منظم منصوبہ بندی کے تحت خون کی ہولی کھیلی گئی جس کا ثبوت وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور ڈاکٹر توقیر شاہ کے بیانات حلفی میں موجود ہے۔ اگر یہ سانحہ منظم منصوبہ بندی کے تحت نہ ہوا ہوتا تو
- حکمران انصاف کے راستے کی دیوار نہ بنتے۔
- اپنے ہی بنائے ہوئے جسٹس سید علی باقر نجفی کے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو نہ چھپاتے۔
- غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل سے خوفزدہ نہ ہوتے۔
- مظلوموں اور شہداء کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار نہ کرتے۔
- 17 جون کے بعد کے مظالم نہ ہوتے۔
- یکم اگست سے لیکر 31اگست تک ریاستی غنڈہ گردی کے مناظر قوم تواتر کے ساتھ نہ دیکھتی۔
- پنجاب حکومت کی تابعدار اور ملازم جے آئی ٹی نے جو رپورٹ دی ہے، اس کے ذریعے انصاف اور انسانیت کا خون نہ کیا جاتا۔
افسوس! جے آئی ٹی کے سربراہ اور ممبران نے ضمیر کے بجائے طاقتور حکمرانوں کے چہروں، عہدوں اور اثرورسوخ کو سامنے رکھااور 14شہداء اور 85 زخمیوں کے بہنے والے خون ناحق پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی مگر ایسا نہیں ہو گا۔
شہداء کے ورثاء کی عظمت کو سلام
ہم اپنے شہید بچوں، بچیوں کے ورثاء کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔ ایسے عظیم، مخلص اور سچے کارکن کم ہی کسی ماں نے پیدا کیے ہونگے ۔ دہشتگردی کی ہر شکل کے خاتمہ کیلئے برسر پیکار ان عظیم کارکنوں نے جانوں کی قربانی دیکر لازوال اور قابل فخر مثال قائم کی اور ان کے لواحقین نے حکومت کی طرف سے پیش کیے گئے کروڑوں روپوں کو پاؤں کی ٹھوکر مار کر قاتلوں کو پیغام دیا کہ شہداء کے مقدس خون کی قیمت ہر گز نہیں لگائی جاسکتی۔ ورثاء کو کروڑوں روپے کی پیشکش کی گئی، ان کے بچوںکو بیرون ملک بھجوانے اور پرکشش ملازمتیں دلوانے کا لالچ دیا گیا مگر عظیم شہداء کے ان عظیم ورثاء نے حکومت کی ہر پیشکش کو جوتے کی نوک پر رکھا اور خون کا بدلہ خون کی صورت میں لینے کیلئے آج بھی پرعزم ہیں۔
ہم شہداء کے عظیم لواحقین کے عزم، ہمت، حوصلہ اور استقامت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ بے گناہوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور قاتل جتنے بھی مکار اور بااثر کیوں نہ ہوں وہ اپنے انجام سے بچ نہیں سکیں گے۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے علم میں ہے کہ حکمرانوں نے ظلم کرنے کے حوالے سے کارکن اور قیادت میں کوئی تفریق نہیں رکھی۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو ہراساں کرنے اور ان کا حوصلہ توڑنے کیلئے قاتل حکمرانوں نے ان پر 40 سے زائد جھوٹے مقدمات قائم کیے۔ دہشتگردی کی عدالتوں کے فلور کو منفی میڈیا مہم کیلئے استعمال کیا۔ الزام تراشی کی ہر اخلاقی اور قانونی حد کو عبور کیا لیکن مکار اور عیار حکمران الحمدللہ ہمارے اتحاد اور اصولوں کو نقصان نہیں پہنچا سکے۔ ہم ہر آزمائش میں سرخرو ہوئے۔ اب ظالموں کے احتساب کی باری ہے۔
ہم پاکستان عوامی تحریک کے ان 42 غازیوں کو بھی سلام پیش کرتے ہیں جنہیں پولیس نے اپنی جھوٹی ایف آئی آر میں نامزد کیا اور گزشتہ ایک سال سے یہ 42 غازی اور ڈاکٹر طاہر القادری کے جانثار روزانہ کی بنیاد پر دہشتگردی کی عدالت میں آتے اور گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔ سردی ہو یا گرمی یہ جانثار عزم و ہمت کے ساتھ پنجاب حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ ان کے ماتھے پر تھکن اور شکایت کی کوئی شکن نمودار نہیں ہوئی۔ ان کی یہ قربانی قائد انقلاب کے ساتھ ان کی محبت کا قابل فخر اظہار ہے۔ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت ان 42 غازیوں کو بھی اپنی امان میں رکھے، ان کی مصطفوی انقلاب کیلئے قربانی قبول کرے اور ان کی مشکلات میں کمی لائے۔
نام نہاد جسٹس سسٹم
پاکستان کے نام نہاد جسٹس سسٹم اور امتیازی رویے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جو کیس پولیس نے عوامی تحریک کے کارکنوں کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے درج کیا اور پھر اس کا جھوٹا چالان انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کیا، اس کی سماعت ہر دوسرے دن کی جاتی ہے جبکہ جو رٹ پٹیشن ہائیکورٹ میں پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر قائم جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ حاصل کرنے کیلئے دائر کی گئی اس کی تاریخ مہینوں بعد بھی نہیں نکل رہی۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ماڈل ٹاؤن جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ حاصل کرنے کیلئے وفاق صوبہ کی طرف سے دلائل مکمل ہو چکے ہیں اس کے باوجود کیس فکس نہیں کیا گیا۔ اس سے قبل کیس کی سماعت کرنے والے ہائیکورٹ کے ایک جج عبدالستار اصغر کے ریٹائر ہونے پر بنچ ٹوٹ گیا تھا اور پھر نیا بنچ بنا، جس نے نئے سرے سے دلائل سنے، اب دو مئی کو اس بنچ کے سربراہ جسٹس خالد محمود بھی ریٹائر ہو چکے ہیں اور یہ بنچ ٹوٹ چکا ہے۔ اب نیا بنچ بنے گا اور پھر سے نئے سرے سے دلائل کا آغاز ہو گا اور پھر کوئی ریٹائر ہو گا اور پھر بنچ ٹوٹ جائے گا۔ یہی کھیل ایک سال سے کھیلا جارہا ہے۔
یہی وہ ظالمانہ اور انصاف دشمن رویے ہیں جنہیں تبدیل کرنے کیلئے قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا انقلاب انصاف اور روزگار گھر کی دہلیز تک لانے اور ہر قسم کے ظلم اور استحصال کے خاتمے کیلئے ہے اور ان شاء اللہ یہ انقلاب آکررہے گا۔