رمضان، قرآن، انسان اور مسلمان یہ چاروں الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ گہرا ربط و تعلق رکھتے ہیں۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہمیں یہ پتہ دیتا ہے کہ اس کی مبارک ساعتوں میں نزول قرآن ہوا ہے۔ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے اور یہ اعزاز و شرف اسے فطرتاً ودیعت کردیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ عملی زندگی میں کیا ہر انسان اشرف المخلوقات ہے؟ اگر نہیں تو پھر انسان اشرف المخلوقات کیسے بن سکتا ہے؟
انسان کا شرف اللہ کی اطاعت میں ہے
انسان اگر اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کا تاج پہنچانا چاہتا ہے تو اُسے اس امر کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ انسان کا شرف اللہ کی اطاعت میں ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن یوں متوجہ کرتا ہے کہ اشرف المخلوقات انسان وہی ہوسکتا ہے جو اس ارشاد باری تعالیٰ پر پورا اُترے:
مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهُ ِﷲِ.
’’جس نے اپنا چہرہ اﷲ کے لیے جھکا دیا (یعنی خود کو اﷲ کے سپرد کر دیا)‘‘۔
(البقرة، 112)
جو انسان اپنے رب کے سامنے جھک گیا، اس کا فرمانبردار ہوگیا، زندگی میں رب کی اطاعت آگئی، اپنے وجود پر اللہ کے احکامات کو نافذ کرلیا، جبینِ نیاز اللہ کے حضور جھک گئی، الغرض جس کا سارا وجود، قول اور عمل اللہ کے حکم کے تحت آگیا اور وہ سراپا تسلیم و رضا بن گیا، ایسا انسان قرآن کے نزدیک اشرف المخلوقات کے اعزا زکا مستحق ہے اور حقیقی معنوں میں اسلام کے دائرہ میں داخل ہوگیا۔
رمضان اور مسلمان
اشرف المخلوقات کے اعزاز کے حصول کے لئے ماہ رمضان المبارک ایک مسلمان کو ایک خاص قسم کا ماحول اور روحانی کیفیت عطا کرتا ہے جس بناء پر اس منزل کے حصول کے لئے اس کا سفر آسان ہوجاتا ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی میں جب رمضان کا بابرکت مہینہ آتا ہے تو اس مسلمان کو اپنی زندگی میں کیا کچھ اہتمام کرنا ہے۔۔ اپنے قول کو کس سطح پر قائم کرنا ہے۔۔۔ اپنے فعل کو کسی معیار پر استوار کرنا ہے۔۔۔ اپنے وجود سے کیا چیز ظاہر ہونے دینی ہے اور کیا نہیں؟ اگر ہم نے اپنے آپ کو مثالی انسان اور ارفع مسلمان بنانا ہے تو اس حوالے سے ہمیں اسلامی تعلیمات اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار اور ارشادات و فرمودات سے رہنمائی لینا ہوگی۔
رمضان کی فضیلت کا اظہار باری تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ.
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے ‘‘
(البقرة، 185)
پس نزول قرآن کی وجہ سے ماہ رمضان دوسرے مہینوں سے ممتاز اور منفرد ہے۔ اللہ کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی سب سے بڑی علامت، صداقت و حقانیت خود قرآن ہے۔ گویا قرآن ایک طرف اللہ کی کتاب اور اُس کا کلام ہے تو دوسری طرف رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کا ایک زندہ معجزہ بھی ہے۔
روزوں کی فرضیت
اللہ رب العزت نے روزوں کی فرضیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘۔
(البقرة: 183)
اس آیت مبارکہ میں روزوں کی فرضیت کے مقصد ’’تقویٰ کا حصول‘‘ کو بیان فرمایا گویا جو روزہ انسان کو تقویٰ و پرہیزگاری سے آشنا نہ کرے اور اس کی عملی زندگی میں اللہ رب العزت کے احکامات کی بجا آوری اور منع کردہ اشیاء سے رُکنے پر آمادگی پیدا نہ کرے، وہ روزہ بے روح اور بے مقصد ہوگا۔ ان روزوں کا دوسرا مقصد قرآن میں یوں بیان فرمایا گیا:
لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.
’’اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ‘‘۔
(البقرة: 185)
قرآن اور صاحب قرآن کی صورت میں گویا ایک مہینے کے روزے کوئی زیادہ نہیں۔ جتنی بڑی نعمت ہمیں میسر ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر شکر بھی اسی قدر بڑا ہونا چاہئے۔ گویا یہ روزے ایک طرف ہمیں تقویٰ کی جانب راغب کرتے ہیں اور دوسری طرف ہمیں قرآن و صاحب قرآن کی صورت میں ملنے والی نعمت کی قدر و قیمت سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ نیز نعمت عطا کرنے والے رب کے ساتھ بھی ہمارے تعلق کو مضبوط کرتے ہیں۔
پس 30/29 دن کوئی زیادہ نہیں ہیں۔ اس لئے جب رمضان ہماری زندگی میں آئے تو اسے اپنے رب کی طرف سے خیر جاننا ہوگا۔ اس کی بارگاہ میں شکر گزاری کے جذبے کے ساتھ ان روزوں کو رکھنا ہوگا، موسموں کی شدت و حدت اور نفسانی خواہشات کو اپنے راستے کی رکاوٹ بننے سے روکنا ہوگا۔ ہماری تعیشات بھری زندگی اللہ کی اطاعت میں رکاوٹ نہ بنیں۔۔۔ حالات کی سختیاں ہمیں روزہ رکھنے کے عمل سے دور نہ کریں۔۔۔ ہماری صحت کے چھوٹے موٹے مسائل بھی ہمیں روزہ کا عمل اختیار کرنے میں مزاحم نہ ہوں۔۔۔ غرضیکہ تمام تر حالات و واقعات میں ہمارے لئے روزہ رکھ لینا زیادہ بہتر ہے اور اسی عمل میں ہمارے لئے خیر ہی خیر ہے۔ ارشاد فرمایا کہ بیماری اگر شدید نہیں بلکہ قابل برداشت ہے تو ایسی صورت میں بھی یہی حکم ہے کہ
وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.
’’اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو‘‘۔
(البقرة: 184)
رمضان المبارک رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے روزوں کا خاص اہتمام فرماتے۔ اس ماہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادات اور معمولاتِ صالح میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا۔ وہ ذاتِ مبارکہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وماتاخر کا مژدہ سنایا ہو کہ آپ کے صدقے سے اللہ نے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ فرمادیئے۔ اگر وہ ہستی رمضان المبارک میں رب کائنات کی بارگاہ میں اس حد تک نیاز مندانہ اظہار فرمائے تو ہمیں بھی اپنے اعمال کی اصلاح اور صفائے قلب و باطن کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:
کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ شَدَّ مِئْزَرَهُ ثُمَّ لَمْ يَاْتِ فِرَاشَهُ حَتَّی يَنْسَلِخَ.
’’جب ماهِ رمضان شروع ہو جاتا تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا کمر بند کس لیتے پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔‘‘
(اخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 3/ 342، الرقم: 2216)
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ
کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ تَغَيَرَ لَوْنُهُ وَکَثُرَتْ صَلَاتُهُ وَابْتَهَلَّ فِي الدُّعَاءِ وَاَشْفَقَ مِنْهُ.
’’جب ماہِ رمضان شروع ہوتا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازوں کی (مزید) کثرت کر دیتے اور اﷲ تعالیٰ سے عاجزی و گڑ گڑاکر دعا کرتے اور اس ماہ میں نہایت محتاط رہتے۔‘‘
(اخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3/ 310، الرقم: 3625)
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کی فضیلت اور اہمیت کو اپنی متعدد احادیث میں اجاگر فرمایا ہے تاکہ رمضان کے ساتھ وابستگی ایمان میں اضافہ کا باعث بن جائے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
’’جو شخص رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کے لئے رکھے اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں‘‘۔
(بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، 1/ 22، الرقم: 38)
ہماری خوش نصیبی ہے کہ رمضان المبارک ہماری زندگیوں میں آیا ہے۔ ہمیں رمضان المبارک کی آمد کا استقبال کیسے اور کس طرح کرنا چاہئے یہ عمل بھی ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اقدس سے سیکھتے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
هَذَا رَمَضَانَ قَدْ جَاءَ تُفْتَحُ فِيْهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَتُغْلَقُ أَبْوَابُ النَّارِ وَتُغَلُّ فِيْهِ الشَّيَاطِيْنُ. بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ إِذَا لَمْ يُغْفَرْلَهُ فِيْهِ فَمَتَی؟
’’رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آگیا ہے اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اس میں شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے وہ شخص بڑا ہی بدنصیب ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی۔ اگر اس کی اس (مغفرت کے) مہینہ میں بھی بخشش نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی؟‘‘
(طبرانی، المعجم الاوسط، 7: 323)
جہنم کے دروازے بند کردیئے جانے سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو جہنم کی طرف لے جاتی ہے انسانی طبیعت میں فطرتاً اس کی رغبت کم کردی جاتی ہے۔ نیکی کے فروغ اور بدی کے سدباب کا ماحول بنادیا جاتا ہے۔ برائی کی طرف آمادہ کرنے والے شیاطین اور اس کے کارندوں کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔ آسمانی اور زمینی فضائیں اللہ کی رحمت سے معمور ہوجاتی ہیں۔ ہر طرف ایک نورانی اور روحانی ماحول کارفرما دکھائی دیتا ہے۔ اللہ کی شانِ رحمت اپنے جوبن اور کمال پر دکھائی دیتی ہے۔ اس مہینے میں باری تعالیٰ اپنی رحمتیں سب سے زیادہ بانٹتا ہے اور ان رحمتوں کو لینے اور پانے کا طریق اس کے حضور عبادت گزاری، مغفرت طلبی اور دعا طلبی میں ہے۔ اس مہینے میں ایک سعید روح کو باری تعالیٰ اپنی ساری نعمتوں سے نوازتا ہے اور اس مہینے میں اللہ کی نعمتوں اور اس کی رحمتوں سے محرومی صرف اور صرف شقی اور بدبخت کے لئے ہے۔
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کی آمد پر ارشاد فرمایا:
اَتَاکُمْ رَمَضَانُ شَهْرُ بَرَکَةٍ يَغْشَاکُمُ اﷲُ فِيْهِ فَيُنْزِلُ الرَّحْمَةَ، وَيَحُطُّ الْخَطَايَا، وَيَسْتَجِيْبُ فِيْهِ الدُّعَاءَ، يَنْظُرُ اﷲُ تَعَالَی إِلَی تَنَافُسِکُمْ فِيْهِ، وَيُبَاهِي بِکُمْ مَـلَائِکَتَهُ فَاَرُوا اﷲَ مِنْ اَنْفُسِکُمْ خَيْرًا، فَإِنَّ الشَّقِيَّ مَنْ حُرِمَ فِيْهِ رَحْمَةَ اﷲِ.
’’تمہارے پاس برکتوں والا مہینہ آگیا اس میں اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے اور اپنی رحمت نازل فرماتا ہے، گناہوں کو مٹاتا ہے اور دعائیں قبول فرماتا ہے اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں پر نظر فرماتا ہے اور تمہاری وجہ سے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے اس لئے تم اپنے قلب و باطن سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نیکی حاضر کرو اس لئے کہ وہ شخص بدبخت ہے جو اس ماہ مبارک میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہا‘‘۔
(اخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 2/ 60، الرقم: 1490)
اس مہینے میں اللہ رب العزت کا کرم اس حد تک بندے پر نازل ہوتا ہے کہ اس کی بارگاہ میں جھولی پھیلانے والا نامراد نہیں رہتا بلکہ وہ اپنی شان کے لائق بندے کو اس کی طلب سے کئی بڑھ کر عطاکرتا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ذَاکِرُ اﷲِ فِي رَمَضَانَ مَغْفُورٌ لَهُ، وَسَائِلُ اﷲِ فِيْهِ لَا يَخِيْبُ.
’’ماہِ رمضان میں اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخش دیا جاتا ہے اور اس ماہ میں اﷲ تعالیٰ سے مانگنے والے کو نامراد نہیں کیا جاتا۔‘‘
(المعجم الاوسط، 6/ 195، الرقم: 6170)
گویا یہ مہینہ جنت میں داخلے اور جنت کو پانے کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں رب اپنے بندوں کے دلوں کو اپنا خصوصی مسکن اور ٹھکانہ بناتا ہے۔۔۔ مانگنے والے کو نامراد نہیں کرتا۔۔۔ اور وہ اپنے بندوں کے دلوں کو اپنی معرفت، محبت اور قربت کی خیرات عطا کرتا ہے۔
اسلام کی عبادات کا مقصد تشکیلِ کردار
روزے دار کے لئے لازم ہے کہ کھانے، پینے اور نفسانی خواہشات کی ہر چیز سے رک جائے۔ اکل وشرب اور ہوائے نفس سے رکنے کا یہ عمل ہی صوم ہے لیکن اس صوم کی تکمیل کے لئے حالت روزہ میں ایک صائم کو روزے کے کچھ آداب و تقاضوں کو بھی بجا لانا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَإِذَا کَانَ يَوْمُ صَوْمِ اَحَدِکُمْ فلَاَ يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ اَحَدٌ اَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ.
’’جب تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو نہ فحش کلامی کرے اور نہ جھگڑے اور اگر کوئی اسے گالی دے یا اس کے ساتھ لڑے تو یہ کہہ دے میں روزے سے ہوں‘‘۔
(بخاری، الجامع الصحيح، کتاب الصوم، 2: 673، الرقم: 1805)
ایک اور مقام پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ لَمْ يَدَعْ قَولَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ ِﷲِ حَاجَةٌ فِي اَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ.
’’جو شخص بحالت روزہ جھوٹ بولنا اور اس کے ساتھ برے عمل کرنا ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو (روزے کی حالت میں) اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔
(صحيح البخاری، کتاب: الصوم، 2/ 673، الرقم: 1804)
اسلام کی ہر عبادت کا مقصد تقویٰ کی صورت میں انسان کو ایک کردار عطا کرنا ہے۔ روزے کے عمل کی وسعت ان احادیث مبارکہ سے واضح ہے کہ روزہ سارے اعضاء کا ہونا چاہئے۔ زبان سب و شتم اور فحش کلامی سے پاک ہو، کسی کو گالی گلوچ نہ کرے، نفرت و حقارت کا اظہار نہ کرے، کسی کے جذبات کو مجروح نہ کرے اور کسی بھی قسم کی کسی کو بھی کوئی تکلیف و اذیت نہ دے۔ الغرض مسلمان کا وجود، وجود خیر ہو، لڑائی جھگڑے، فتنہ و فساد، جھوٹ سے ہر ممکن اجتناب کرے۔ نیز اسی طرح اس کا وجود بھی بُرے عمل کی آماجگاہ بننے سے محفوظ ہوجائے۔
اگر نفس شر کی ہر چیز میں مصروف نظر آئے، اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرے، اللہ کی نافرمانی اور معصیت کی طرف بڑھے لیکن ظاہر داری میں روزے رکھتا پھرے، دن بھر بھوکا پیاسا رہے تو اس کا یہ عمل کچھ فائدہ نہ دے گا، اس لئے کہ ایسے روزے کا نہ رب نے حکم دیا تھا اور نہ یہ اسلام میں مقصود ہے۔
فلیس للہ حاجۃ۔ اللہ کو ایسے روزوں کی ضرورت نہیں جو اس کے اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات اور تعلیمات کی صریح خلاف ورزی میں رکھے جائیں۔ پس جس طرح ہر عمل اپنی ادائیگی کے لئے کچھ قواعد و ضوابط رکھتا ہے اسی طرح روزے کی ادائیگی کے مذکورہ ضابطوں پر عمل پیرا ہونا ہی روزے کو اللہ کی بارگاہ میں مقبولیت تک لے جاتا ہے۔
روزہ ڈھال ہے
روزہ ڈھال اور دوزخ سے بچائو کے لئے قلعہ اس وقت بنتا ہے جب روزے کا عمل اپنے تمام تر ظاہری اور باطنی آداب کے ساتھ ادا کیا جائے۔ روزہ میں ایک مکمل عمل اطاعت نظر آئے اور کسی بھی وقت اس میں معصیت و نافرمانی کا کوئی رجحان دکھائی نہ دے۔ ایسا روزہ ہی مکمل طہارت کے ساتھ ساتھ اکمل اطاعت بنتا ہے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الصِّيَامُ جُنَّةٌ، وَحِصْنٌ حَصِيْنٌ مِنَ النَّارِ.
’’روزہ ڈھال ہے اور دوزخ کی آگ سے بچائو کے لئے محفوظ قلعہ ہے‘‘۔
(احمد بن حنبل، المسند، 2: 402، الرقم: 9214)
روزے کا جہنم سے بچائو کے لئے ایک قلعہ، ایک ڈھال اور ایک مکمل حفاظت ہونا اس طرح ہے کہ اگر روزہ دار خود کو ان برائیوں سے بچالیتا ہے تو اس کا یہ سارے کا سارا عمل ایک ڈھال بن جاتا ہے۔
قیامِ رمضان
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں صحابہ کرام کو نماز تراویح ادا کرنے کی ترغیب دیتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حوالے سے بیان کرتے ہیں:
يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ.
’’رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تراویح پڑھنے کی رغبت دلایا کرتے‘‘۔
(صحيح بخاری، کتاب صلاة التراويح، 2: 707 الرقم: 1905)
حضرت عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَامَ رَََمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنْ ذُنُوْبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ.
’’جو شخص ایمان اور حصول ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا‘‘۔
(نسائی، السنن، کتاب الصيام، 4: 158، الرقم: 2208)
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تراویح کی وہ نماز جو کیفیت ایمان کے ساتھ ادا کی جائے، جس میں ثواب، اپنے اعمالِ نفس کے احتساب و محاسبہ کی کیفیات اور اللہ کی اطاعت میں دائمی رہنے کا جذبہ بھی ہو، ان کیفیات سے معمور اور بھرپور صلاۃ التراویح ایک مسلمان و مومن کے حق میں سراسر مغفرت و بخشش کی خیرات بن جاتی ہے۔ باری تعالیٰ اپنے بندہ کے طویل قیام کے ذریعے اس مغفرت طلبی کے عمل کو اجابت کی شان عطا کرتا ہے۔ بندے کو بخشش و مغفرتِ ذنب کا مژدہ جانفزا سنادیا جاتا ہے۔ یوں بندہ اپنے سفرِ اطاعت میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔
روزے کا اجرو ثواب
رمضان المبارک میں بندہ مومن کو اللہ کی بارگاہ میں ملنے والی سب سے بڑی نعمت مغفرت اور عطائے عفو ہے۔ یقینا ایک بندے کے لئے اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں کہ رب بندے کو مغفرت کی بشارت عطا کردے۔
روزہ کے اس مکمل عمل کا اللہ کی بارگاہ میں اجرو ثواب کیا ہے؟ حدیث قدسی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ بیان کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے فرمایا :
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ فَالْحَسَنَهُ بِعَشْرِ اَمْثَالِهَا إِلَی سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ إِلَّا الصِّيَامَ هُوَ لِي وَ اَنَا اَجْزِي بِهِ إِنَّهُ يَتْرُکُ الطَّعَامَ وَشَهَوَتَهُ مِنْ اَجْلِي وَيَتْرُکُ الشَّرَابَ وَشَهْوَتَهُ مِنْ اَجْلِي فَهُوَ لِي وَاَنَا اَجْزِي بِهِ.
’’آدمی کا ہر عمل اس کے لئے ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے۔ سوائے روزہ کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں، یقینا وہ (روزہ دار) کھانا اور شہوت نفسانی کو میری وجہ سے ترک کرتا ہے اور اپنا پینا اور شہوت میری وجہ سے ترک کرتا ہے، پس وہ (روزہ) میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا عطا کرتا ہوں۔‘‘
(سنن الدارمي ، 2/40، الرقم:1770)
نہ صرف یہ کہ روزے کا اجرو ثواب اللہ تعالیٰ نے محدود نہ فرمایا بلکہ روزے کے مکمل آداب و تقاضوں کو ملحوظ رکھنے والا روز قیامت روزے کی شفاعت سے بھی بہرہ مند ہوگا۔
حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. يَقُوْلُ الصِّيَامُ: اَي رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ وَيَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ فَيُشَفَّعَانِ.
’’روزہ اور قرآن قیامت کے روز بندہ مومن کے لئے شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا: اے اللہ! دن کے وقت میں نے اس کو کھانے اور شہوت سے روکے رکھا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما اور قرآن کہے گا میں نے رات کو اسے جگائے رکھا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما، پس دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل، 2/ 174، الرقم: 6626)
خلاصہ کلام: اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادات میں بھی بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ روزے کو تمام عبادات پر ترجیح اور فضیلت دیتے ہوئے باری تعالیٰ نے اس کا انتساب الصوم لی وانا اجزی بہ کے کلمات کے ساتھ اپنی طرف کیا ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادتیں تو ساری اسی کے لئے ہیں مگر جو اہمیت روزے کو دی گئی ہے وہ ہر اعتبار سے منفرد اور ممتاز ہے۔ اس لئے بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مسلسل اور باقاعدگی سے رمضان المبارک کے روزے رکھ کر اپنے رب کی معرفت اور قربت حاصل کریں۔