دونوں عالمی جنگوں میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن گئے، ناقابل تلافی معاشی نقصان ہوا، شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ اقوام عالم نے اس بدترین قتل وغارت گری کے بعد ایک سبق سیکھا کہ جنگ میں سوائے بربادی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد گزشہ 70سالوں سے یورپ، شمالی وجنوبی امریکہ اور دیگر کئی ممالک میں کوئی ایک بھی جنگ نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس عالمی طاقتوں نے مسلم ممالک کو میدان جنگ بنالیا ۔ خصوصاً 1980ء کی دھائی سے لیکر آج تک ایران، عراق، افغانستان، پاکستان، کویت، کشمیر، فلسطین، اردن اور شام۔ ان میں سے بعض ممالک پر براہ راست جنگ مسلط کی گئی اور بعض ممالک کو آپس میں جنگ میں دھکیل دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان، مصر، ترکی اور دیگر کئی ممالک میں دہشت گردی کے ذریعے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا، کبھی انڈیا، برما اور بوسینا میں ہزارہا مسلمانوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا۔ یوں متعدد اقوام نے اپنا جنگی جنون بھی پورا کیا اور ان جنگوں میں اسلحے کے خریدار پیدا کرکے اپنی اقوام کو معاشی ترقی کی منازل طے کروائیں۔
امت مسلمہ کو میدان جنگ بنانے والی طاقتیں یہ بھی جانتی ہیں کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے، ہمارے اس رویے کے نتیجے میں مسلم ممالک میں ہمارے خلاف نفرت اور آزادی کے علم بلند ہونگے۔ لہذا امن دشمن طاقتیں اس امر کا گہرائی سے مشاہدہ کر رہی تھیں کہ امت مسلمہ کے احیاء کی جدوجہد کہاں سے ہو رہی ہے اور کون انقلاب کے لیے سرگرم عمل ہے؟
تحریک منہاج القرآن احیاء اسلام کا تسلسل
1980ء میں نئی صدی ہجری کی ابتداء میں قائم ہونے والی تحریک منہاج القرآن کا روز اول سے مقصد مصطفوی انقلاب تھا اور ہے ۔ تحریک منہاج القرآن کی 35سالہ خدمات عرب و عجم میں واضح اور نمایاں ہیں۔ تحریک کو پوری دنیا میں دہشت گردی کے خاتمے اور بین المذاہب امن اور روا داری کے فروغ کے لیے خدمات پر عالمی سفیر امن کے خطاب کے علاوہ UNOمیں Special Conseltative Status دیا گیا۔ امت مسلمہ کو مستقل محکوم رکھنے کی خواہشمند طاقتیں لمحہ لمحہ اس تحریک کی ترقی اور مراحل کا جائزہ لے رہی تھیں۔ 23دسمبر2012ء کے عوامی استقبال اور اچانک لانگ مارچ کے فیصلے نے پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ لانگ مارچ سے واپسی پر جب ایک کروڑ نمازیوں کی حکمت عملی کا اعلان ہوا تو دشمنوں نے بھی اپنی شطرنج کی بساط بچھا لی۔
جب منزل دو قدم رہ گئی
11مئی 2013ء کو نام نہاد الیکشن کا ملک بھر میں بائیکاٹ کیا گیا اور مصطفوی انقلاب کی منزل کی طرف جدوجہد تیز کی گئی۔ سال 2013ء کے اعتکاف میں لانگ مارچ کو اذانِ انقلاب قرار دے کر جماعتِ انقلاب کی تیاری کو مزید تیز تر کر دیا گیا۔11مئی 2014ء کو نام نہاد انتخابات اور جعلی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر ملک بھر میں یوم احتجاج منایا گیا اور لاہور و راولپنڈی کے علاوہ 58شہروں میں ملک گیر احتجاجی مارچ کیے گئے۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے بیرون ملک ہونے اور سخت گرمی کے باوجود ملک بھر میں کم وبیش 5 لاکھ افراد نے ان مظاہروں میں شرکت کی۔ 11مئی کے ملک گیر احتجاج کو جماعتِ انقلاب کے لیے اقامت قرار دے دیا گیا۔ بعد ازاں ڈاکٹر طاہر القادری نے عوام کے حقوق کی حقیقی معنوں میں بحالی کے لئے 10نکاتی ایجنڈا جاری فرمادیا۔ جس نے ایک طرف افلاس زدہ قوم کو جینے کی امید عطا کردی وہیں دوسری طرف ظلم کے ایوانوں پر لزرہ طاری کر دیا۔ انقلاب کی منزل دو ہاتھ دکھائی دینے لگی۔اس باطل طاغوتی نظام کے محافظ حکمران اس قدر چوکنے تھے کہ مال روڈ اور مری روڈ راولپنڈی پر کیمرے لگا کر ان اجتماعات کو Liveرائے ونڈ محل میں مشاہدہ کرتے رہے۔
صف بندی شروع ہو گئی
تحریک منہاج القرآن کی قیادت پوری حکمت عملی سے 23دسمبر عوامی استقبال، لانگ مارچ، 11مئی کے الیکشن کے بائیکاٹ، ملک گیر احتجاج اور 10نکاتی ایجنڈے سے اپنی جدوجہد کو آخری مرحلے میں داخل کر چکی تھی۔ جماعت انقلاب کی تیاری کو حتمی شکل دینے کے لیے کور کمیٹی کے اجلاس مسلسل کئی روز سے جاری تھے۔ دوسری طرف ابلیسی اور ظلم وجبر کی طاقتیں اہل حق کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور احیاء اسلام کی اس منظم جدوجہد کو منزل پر پہنچے سے قبل ہی مکمل ختم کرنے کا پلان تیار کر چکی تھیں۔
تحریک منہاج القرآن کی قیادت اعلان کرتی رہی کہ پتہ ٹوٹے گا اور نہ خون کا ایک قطرہ بہے گا، ہمارا انقلاب ہر صورت پر امن ہوگا۔ دوسری طرف ظلم وجہالت کے علمبردار خون کے دریا بہانے کی مکمل منصوبہ بندی کرچکے تھے۔
باطل نے شب خون مارنے کا فیصلہ کر لیا
رات کا سناٹا گہرا ہوا تو سیاہ کردار اور تاریک سوچ کے حاملین کے احکامات پر کالے سیاہ لباس میں ملبوس پنجاب پولیس کے ہزاروں گماشتوں نے حق کے چراغ کو رات کی تاریکی میں ہمیشہ کے لیے بجھانے کی نیت سے 299 القادریہ کا گھیراؤ کر لیا۔ جب ظالم بھیڑیئے اپنے مکروہ مقاصد کی تکمیل کرنا چاہیں تو انہیں کسی جواز کی محتاجی نہیں ہوتی۔ سیکیورٹی کی غرض سے خود رکھوائے ہوئے چند بیریر ہٹانے کے لیے پورے لاہور کے تھانوں کی پولیس اور بکتر بند گاڑیاں لے کر طاقت کے نشے میں چور باطل نے رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا۔ ظالم حکمرانوں کی حکمت عملی یہ تھی کہ اہلِ حق کو نکلنے سے پہلے ہی کچل دیا جائے، وہ خائف تھے کہ اگر ڈاکٹر طاہر القادری نے وطن واپس آکر ان لاکھوں افراد کو نظام سے ٹکرانے کے لیے اسلام آباد کی طرف موڑ دیا تو یقینا باطل اپنے نظام سمیت ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گا۔
بیرئیر پلان اور اس کی حقیقت ؟
بیرئیر ہٹانے کی آڑ میں دو پلان تھے۔ پلان A یہ تھا کہ افراتفری پیدا کرکے ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی سیکنڈ لائن قیادت خصوصاً دونوں بیٹوں میں سے کسی کو شہید کیا جائے۔ نتیجے میںکارکنان اور خصوصاً سیکیورٹی سٹاف کے صبر کا پیمانہ ٹوٹ جائے گا اور وہ جوابی فائر کریں گے جس سے پولیس مقابلے کی راہ ہموار ہوگی اور یوں سینکڑوں افراد کو بھی شہید کرنا پڑا تو انہیں شہید کرکے سیکرٹریٹ اور گھر پر مکمل قبضہ کر لیا جائے گا۔ اس صورت میں بکتر بند گاڑیوں میں لایا گیا اسلحہ اور راکٹ لانچر میڈیا کی موجودگی میں سیکرٹریٹ سے برآمدگی کا ڈرامہ رچا کر تحریک کو کالعدم قرار دیا جائے گا۔ اور پھر ملک بھر سے تحریک کے کارکنوں کو گرفتار کرکے ان پر دہشت گردی کے مقدمات چلا کر اس تحریک کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے گا۔
پلان Bیہ تھا کہ اگر ہم کلیتاً ختم نہ کر سکے اور عوامی پریشر Develop ہوگیا یا انہوں نے سخت مزاحمت کی تو ایسی صورت میں سینکڑوں کو زخمی اور بیسیوں کو شہید کرکے اس قدر خوف و ہراس پیدا کیا جائے گا کہ جماعت انقلاب کے لیے ایک شخص بھی نکلنے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ دشمن کو یہ معلوم تھا کہ سینکڑوں کارکنان اور نوجوان ہمہ وقت مرکزی سیکرٹریٹ میں موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا سخت مزاحمت کی صورت میں متبادل پلان Bتھا۔
اور ہر طرف لہو پھیل گیا!
دشمن نے ترتیب کے ساتھ اپنے پلان پر عملدر آمد شروع کیا۔ مزاحمت بڑھتی گئی۔ گھر میں داخل ہونا تو درکنار چند پر عزم کارکنان نے ہزاروں پولیس اہلکاروں کو مرکز سے ایک کلومیٹر دور رہنے پر مجبور کر دیا۔ پوری رات اور دوپہر 10بجے تک ہرممکنہ کاوش کے باوجود موت بانٹنے کے خواہشمند ظالموں کو کوئی موقعہ نہ ملا۔ بالآخر حکام بالا کی طرف سے پلان A پر عمل درآمد کا حتمی فیصلہ ہوا۔آرڈر ملتے ہی پنجاب پولیس کے سورماؤں نے ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے بیٹوں کی شہادت کی غرض سے چاروں اطراف سے گھر پر فائرنگ شروع کر دی۔ دوسری طرف ایلیٹ فورس کے تازہ دم دستوں نے نہتے کارکنوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس کو کسی بھی طرف سے پیش قدمی کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ تک پہنچنے میں مسلسل ناکامی ہو رہی تھی۔ ظالموں نے 100سے زائد افراد کو گولیاں مار کر شہید کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مگر بچانے والے رب کی مرضی کہ تین تین گولیاں لگنے کے باوجود اس نے ان کی زندگی کو بچا لیا۔ اس موقع پر 2خواتین سمیت 14نہتے کارکن شہید ہوئے۔
نہتے کارکنوں نے ریاستی جبر کو شکست دے دی
جب کارکنان شہدا کی لاشوں کو سنبھالنے اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے لگے تو ریاستی دھشت گرد پنچاب پولیس ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ وہاں مردوں سے بڑھ کر قوت رکھنے والی منہاج القرآن ویمن لیگ کی بہنیں موجود ہیں۔ جب پولیس اہلکار آنسو گیس، لاٹھی چارج اور فائرنگ کرکے ان پر عزم خواتین کو 299 القادریہ کے گیٹ سے نہ ہٹا سکے تو اس پر چشم فلک بھی یہ منظر دیکھ کر سکتے میں آگیا ہوگیا کہ قوم کے محافظوں نے قوم کی بیٹیوں کے چہروں پر گولیاں ماریں اور 2خواتین جام شہادت نوش کر گئیں۔ لیکن مٹھی بھر جانثاروں نے ہزاروں پولیس اہلکاروں کے لشکر کو 12گھنٹوں کے ظلم و جبر، شیلنگ، لاٹھی چارج اور شہادتوں کے باوجود ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر داخل نہ ہونے دیا۔ کارکنان کے بہتے خون، شہدا کی لاشوں اور میڈیا کے جرات مندانہ کردار نے ریاستی گماشتوں کے قدم اکھاڑ دیئے اور وہ ناکام و نامراد واپس پلٹ گئے۔پاکستان کی 65سالہ تاریخ میں کبھی ایسا ریاستی جبر نہ ہوا تھا۔بیرئیر پلان کے مطابق تو چراغ حق کو ہمیشہ کے لیے گل کرنا تھا مگر ریاستی جبر ہار گیا اور شہدا کے خون نے ظلم وجبر کے تمام منصوبے خاک میں ملا دیئے۔
اگربیریئر پلان کامیاب ہوجاتا تو؟
شہداء ماڈل ٹاؤن کی قربانیوں کی عظمت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم دشمن کے عزائم اور منصوبہ بندی کو سمجھیں۔ خدانخواستہ خاکم بدہن اگر بیریئر پلان کامیاب ہوجاتا تو منظر کیا ہوتا؟
اپنے منصوبے کے مطابق وزیراعلیٰ اور وزیر قانون کے بھیجے گئے غنڈے بیریئر ہٹانے کے بہانے گھر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے یا گھر پر چاروں اطراف سے ہونے والی فائرنگ کی زد میں آکر صاحبزادگان میں سے کسی کی شہادت ہوجاتی تو کیا سیکیورٹی گارڈز جوابی فائرنگ نہ کرتے؟ اگر گھر پر موجود تمام سیکیورٹی گارڈز کوجوابی فائرنگ سے سختی سے منع نہ کیا جاتا اور جوابی فائر کھل جاتا تو پھر دونوں طرف سے لاشوں کے انبار جس میدان جنگ کا نقشہ پیش کرتے اس کا انجام کیا ہوتا؟
اگر خدانخواستہ سکینڈ لائن لیڈر شپ ختم کردی جاتی، تحریک کے مرکز پر قبضہ کرکے اپنے ساتھ لائے گئے اسلحہ کو سیکرٹریٹ سے برآمد کرکے تحریک کو دہشت گرد تنظیم ڈیکلیر کرنے میں دشمن کامیاب ہوجاتا تو؟
اگر بیریئر پلان کامیاب ہوجاتا تو کیا 23 جون کو ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی پاکستان آمد اسی جرات کے ساتھ ممکن ہوتی۔ ملک بھر سے ہزاروں گرفتار قائدین دہشت گردی کے مقدمات بھگت رہے ہوتے۔ شاید تحریک منہاج القرآن کو دوبارہ جدوجہد کے لئے نصف صدی کا عرصہ درکار ہوتا۔ یہ تمام نتائج نہ صرف واضح تھے بلکہ دشمن کی حکمت عملی میں شامل تھے۔
شہداء کی عظمت و جرات کو سلام
دشمن کا یہ سارا پلان چند جانثار مردوں اور عورتوں نے خاک میں ملادیا۔ ان شہداء اور زخمیوں نے سیسہ پلائی دیوار بن کر ثابت کردیا کہ جنگ فقط اسلحہ اور عددی قوت کے بل بوتے پر نہیں جیتی جاسکتی۔ عزم حوصلے، صبر اور شجاعت کو کبھی شکست نہیں ہوسکتی۔ شہداء کربلا کی عظیم قربانیوں کے نتیجے میں ہم اس حقیقت کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ آج اگر امت مسلمہ کی کسی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوتی ہے تویہ صدقہ ہے شہداء کربلا کے خون کا۔ انہوں نے دین کی عزت و ناموس کی خاطر اپنی جان قربان کرکے دین محمدی کو زندگی عطا کی۔اسی طرح آج اگر تحریک منہاج القرآن کے کارکنان عزت و وقار کے ساتھ پھر انقلابی جدوجہد کی تیاری میں مصروف عمل ہیں تو یہ صدقہ ہے ان شہدا اور زخمیوں کا جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر تحریک کے تشخص، عزت وقار اور اس کے مرکز کی حفاظت کی۔ یہ ان شہداء کی قربانیاں ہیں جن کے صدقے اب ہمیں منزل انقلاب قریب دکھائی دیتی ہے۔ اس قدر وحشیانہ جبر و تشدد اور ریاستی ظلم کے مقابلے میں صبر و رضا اور قانون کو ہاتھ میں نہ لینا یہ تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کا ہی کردار ہے۔
نہ صرف تحریک منہاج القرآن کے کارکنان بلکہ ہر ذی شعور شہری ان شہداء کی قربانیوں کو ہمیشہ سلام عقیدت پیش کرتا رہے گا۔ تحریک کے جملہ کارکنان کی زندگی کا مقصد جہاں منزل کا حصول ہے وہاں ہم ان شاء اللہ نہ صرف شہداء کے ورثاء کو انصاف دلائیں گے بلکہ ظالموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرکے انہیں ان کے انجام تک پہنچائیں گے۔ شہداء کا خون قوم کی حیات کا ذریعہ ہوتا ہے۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ 17جون کو بری طرح ناکامی کے بعد دشمن پر یہ واضح تھا کہ اگر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو وطن واپس آکر آزادی کے ساتھ قوم اور کارکنان کو Motivationدینے کا موقع مل گیا تو نہ صرف ظالمانہ نظام لپٹیا جائے گا بلکہ قاتل خاندان اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچے گا۔ لہٰذا ظالم و قاتل حکمرانوں کے پاس تحریک کو طاقت سے کچلنے کے علاوہ کوئی optionنہ تھی۔ دوسری طرف تحریک کے کارکنان پر بھی یہ حقیقت واضح ہو گئی تھی کہ
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
لہٰذا تحریک منہاج القرآن نے کسی حکومتی ادارے سے اس سانحہ پر عدل وانصاف کی امید نہ ہونے کی بناء پر دشمن کی چالوں کو دیکھ کر جرات وہمت اور صبر و رضا کی اس داستان کے اگلے ابواب کی تیاری شروع کر دی۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 23 جون 2014ء کو ملک میں واپسی کا اعلان کیا تو پورے ملک سے کارکنان نے اسلام آباد ائیر پورٹ کا رخ کر لیا۔ اس موقع پر ظالم حکمرانوں نے پورا ملک کنیٹزوں سے بلاک کر دیا۔ کارکنان ہر رکاوٹ توڑ کر اسلام آباد پہنچ گئے۔ حکمرانوں نے اس خوف سے کہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری عوام کے سمندر کو ائیر پورٹ سے اسلام آباد کی طرف نہ موڑ دے جہاز کو لاہور ائیر پورٹ پر اتار دیا۔
شہدا انقلاب داستان شجاعت کا دوسرا باب
قائدانقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے اور 10 نکاتی عوامی ایجنڈے کے نفاذ کے لئے 14 اگست 2014ء کو اسلام آباد کی طرف انقلاب مارچ کا اعلان کردیا۔ اس اعلان پر حکومت بری طرح بوکھلا گئی اور یکم اگست سے ہی ظالم حکمرانوں نے ملک بھر میں ہزاروں عہدیداروں اور کارکنان کی گرفتاری کا عمل شروع کر دیا۔ کنیٹز لگا کر پورے ماڈل ٹاؤن کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ پورے ملک کی تمام شاہراہیں کنیٹز لگا کر بند کر دیں۔ ان حالات میں کارکنان تحریک نے بھی گھٹ گھٹ کر مرنے کے بجائے باطل نظام سے ٹکرانے کا فیصلہ کر لیا۔
پورے ملک سے قافلے ظلم و ستم سے برداشت کرتے ہوئے لاہور پہنچے۔ کئی قافلوں کو راستے میں ہی ریاستی جبر کے تحت روک دیا گیا۔ کارکنان کی جرات و ہمت کے آگے حکومت بے بس ہوگئی اور لاہور سے اسلام آباد کی طرف انقلاب مارچ روانہ ہوگیا۔ اسلام آباد میں بھی حکومت اپنے ریاستی جبرو تشدد سے باز نہ آئی اور 31اگست کی رات کو ظلم وجبر کی طاقتوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی پوری قوت لگا دی۔ پورے صوبے کی پولیس نے پاکستانی تاریخ کی بدترین شیلنگ اور اندھا دھند فائرنگ کی۔ پوری دنیا نے Live دیکھا کہ ظلم وجبر کی ساری طاقتیں مل کر بھی اہل حق کے قدم نہ اکھاڑ سکیں۔ 10اگست سے لے کر 31اگست تک مزید 9 شہداء نے اپنے خون کے ساتھ جرات کی ایسی داستان رقم کی کہ ریاستی جبر ہار گیا اور صبر و رضاء کے پیکر جیت گئے۔
اعلاء کلمہ حق بلند کرنے والوں کو باغی کہہ کر کچلنے کی آرزو رکھنے والے حکمران اپنی پوری ریاستی طاقت کے باوجود ناکام ہو گئے اور اہل حق پر غلبہ نہ پا سکے۔ ان شہدا کی جراتوں کو سلام جنہوں نے خالی ہاتھ امن و سلامتی اور صبر و رضا کی قوت سے دشمن کو مارگلہ کی پہاڑیوں سے پیچھے دھکیل دیا اور پھر 70دن کا غذی شیر پچھلے دروازوں سے اسمبلی آتے رہے اور اللہ کا شیر 70دن شاہراہ دستور پر کلمہ حق بلند کرتا رہا۔
شجاعت و استقامت کا یہ دوسرا باب 9شہدا انقلاب اور سینکڑوں زخمیوں کی بے مثال داستانوں سے بھرا ہوا ہے۔ مرد و عورتیں، بچے و بوڑھے اور جوانوں کی ہمتوں کو سلام کہ جنہوں نے اعلاء کلمہ حق کے قافلوں کی تاریخ ہی بدل دی۔
شہداء کے ورثاء، استقامت کے کوہ گراں
تحریک کے کارکنوں نے عزم و ہمت میں شہداء کربلا کے قدموں کی خیرات پائی ہے۔ میدان کرب و بلاء میں بے گوروکفن لاشیں چھوڑ کر جب قافلہ ابن زیاد اور یزید کے دربار میں لایا گیا تو شہداء کے ورثاء کی استقامت اور جرات نے قاتلوں پر واضح کردیا کہ جسموں کو کاٹا جاسکتا ہے مگر فکر کو شکست نہیں دی جاسکتی، ضمیروں کو نہیں خریدا جاسکتا۔
17 جون کے بعد دور حاضر کے یزیدوں نے اہل حق کے ضمیروں کا سودا کرنا چاہا۔ 17 جون کے سانحہ اور انقلابی جدوجہد کے دوران شہید ہونے والے کارکنوں کے ورثاء سے اعلانیہ اور دیگر منفی ذرائع سے دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ قاتل اعلیٰ نے شہداء کے خون کی قیمت 30 لاکھ لگائی مگر وہ اپنے تمام تر فرعونی ہتھکنڈوں اور قارونی خزانوں کے باوجود کسی ایک غریب سے غریب کارکن کے ضمیر کی قیمت نہیں لگاسکے۔ الحمدللہ جس عظیم مشن کے لئے ان شہدا نے قربانی دی تھی، ان کے ورثاء نے تمام تر تکالیف، پریشانیوں اور معاشرے کے طعنوں کے باوجود استقامت اور خودداری کی ایسی مثال قائم کی جو آنے والے ادوار میں حق کی خاطر قربانی دینے والوں کے لئے نمونہ ہے۔ اگرچہ تحریک شہداء کے ورثاء کی جملہ ضروریات کی کفالت کررہی ہے لیکن غریب تنگدستی اور فتنہ کے اس دور میں کروڑوں روپے کی آفرز کو ٹھکرانا شہدا کے ورثاء کا ہی حوصلہ ہے۔
فتح کی نوید ۔۔ مضروبان ِانقلاب کا حوصلہ
17جون کا دن جس طرح ہمیں شہداء انقلاب کی عظمتوں کی یاد تازہ کرواتا ہے، اسی طرح یہ دن ہمیں اس موقع پر جان ہتھیلی پر رکھ کر خالی ہاتھ برستی گولیوں میں مرکز کی حفاظت کا فریضہ انجام دینے والے غازیوں کی یاد بھی دلاتا ہے۔ یقینا اس لمحے مرکز پر موجود تمام افراد جو ظلم و جبر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر 12 گھنٹے کھڑے رہے۔ تین تین گولیاں لگنے کے باوجود وکٹری کا نشان بناکر ایمبولینس میں ہسپتال روانہ ہونے والے کارکنوں کا حوصلہ کسی بھی لحاظ سے شہداء سے کم نہ تھا۔ ان کی آنکھوں میں حسرت کے آنسو تھے کہ ہمیں مرتبہ شہادت کیوں میسر نہیں آیا۔
کئی زخمی مستقل معذور ہوچکے ہیں۔ کئی زخمیوں کے جسموں میں آج تک گولیاں موجود ہیں اور کئی 2 سال گزر جانے کے باوجود آج تک زیر علاج ہیں اور پانچ/چھ آپریشن ہوچکے ہیں۔ اگر 17جون سے 31 اگست تک زخمیوں کی فہرست بنائی جائے تو یہ تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ اس معرکہ میں جو جس قدر زخمی ہوا الحمدللہ اس کا حوصلہ اسی قدر جوان ہوگیا۔ ان ہزاروں افراد میں کسی ایک فرد نے بھی مسلسل تکلیف، پریشانی اور آزمائش کے باوجود صبر کا دامن نہیں چھوڑا، بے وفائی کا ایک خیال تک ان کے ذہنوں میں نہیں آیا۔ جو زخمی 17 جون کے مقدمے میں اہم ترین گواہوں میں شامل ہیں ان پر بھی ہر طرح کا دباؤ ڈالا گیا، انہیں پریشان کرنے اور خریدنے کی سینکڑوں کوششیں کی گئیں مگر باطل یزیدی ٹولہ ایک بھی شخص کے ضمیر کا سودا نہ کرسکا۔
اسیران انقلاب کی جرات۔ منزل کی ضمانت
کسی تحریک کے کارکنوں کے حوصلے کو اگر گولیاں بھی شکست نہ دے سکیں، زخموں سے چھلنی جسم ان کی فکر کو کمزور نہ کرسکیں اور قید و بند کی صعوبتیں ان کے پائے استقلال میں لغرش پیدا نہ کرسکیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔
شہداء، زخمیوں اور شہداء کے ورثاء کی طرح وہ ہزاروں کارکنان جو کہ پورے ملک سے گرفتار کئے گئے، ان کے عزم و حوصلے نے بھی تحریک کو ایک نئی زندگی عطا کی۔ 17 جون کو 14 شہید ہوئے تقریباً 100 افراد کو گولیوں سے چھلنی کرکے زخمی کیاگیا اور بقیہ سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا۔ ضعیف بزرگوں کو لہولہان کیا گیا، ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے جسم چور چور کرکے زمین پر گراکر ٹھڈے مارے گئے اور پھر گاڑیوں میں ڈال کر پورے لاہور اور گردونواح کے تھانوں میں قید کردیا گیا۔
لاہور شہر کے ایک تھانے کی حوالات میں قید کچھ بزرگ کارکنان کو پولیس کے چند افسران کی آمد پر باہر لایا گیا جب ان کی داڑھیاں کھینچ کر چہروں پر مارا گیا تو حوالات میں قید ایک سنگین جرم کے مرتکب فرد نے جرات کے ساتھ پولیس افسران کو گالیاں دیتے ہوئے کہا کہ دیکھو ان بے شرمو کو اپنے باپوں (والد کی عمر کے بزرگوں ) کو مار رہے ہیں۔ او بدبختو! ان کی سفید داڑھیوں کا تو حیا کرو۔ مگر ان ظالموں پر اس قیدی کا شرم دلانا بھی کوئی اثر مرتب نہ کرسکا۔
ماڈل ٹاؤن سے گرفتار کئے گئے ان افراد کے علاوہ اگست کے پہلے عشرے میں پورے ملک سے پندرہ ہزار سے زائد افراد کوگرفتار کرلیا گیا۔ بعضوں کو نظر بند کیا گیا، بعضوں کو حوالات میں رکھا گیا اور بعضوں کو مقدمات بناکر جیلوں میں منتقل کردیا گیا۔ بعض کارکنان اور قائدین پر شدید تشدد کیا گیا۔ انقلاب دشمن طاقتوں کے یہ سارے ہتھکنڈے ناکام ہوگئے اور وہ اس بدترین ظلم سے کسی ایک کارکن کو بھی نہ توڑ سکے۔ جو بھی اسیر ضمانت پر رہائی پاتا وہ سیدھا اسلام آباد میں جاری دھرنے میں شریک ہوجاتا۔
عدالتی نظام کا جبر اور پرعزم کارکنان
ایک وقت تھا کہ عدالتوں میں انصاف میسر آتا تھا۔ مظلوم کی فریاد سنی جاتی تھی اور ظالموں کے ظلم کے ستائے لوگ عدلیہ کے سائے میں پناہ حاصل کرتے تھے۔ آج ہم جس دور فتن میں زندہ ہیں اس دور میں ظالم حکمران مظلوموں کو مزید ظلم کی چکی میں پسنے کے لئے ایوان ہائے عدل کو استعمال کرتے ہیں۔ عدل کی چھتری میں چھپے ہزاروں ضمیر فروش سرکاری ملازم حکمرانوں کے ذاتی ملازموں کا کردار اد اکرتے ہوئے عدل کی بجائے مزید ظلم کا بازار گرم کرتے ہیں۔
تعجب ہے اس ملک کی پولیس اور عدالتی نظام پر کہ 14 افراد کو دن دیہاڑے بیسیوں چینلز کی Live کوریج کے دوان شہید کیا گیا، 100 افراد کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا مگر پولیس کی مدعیت میں FiR زخمیوں اور دیگر کارکنان کے خلاف کاٹ دی گئی۔ آج دو سال ہوچکے، زخمیوں اور تحریک کے کارکنوں کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے اور صرف ایک مقدمہ میں کم و بیش 60 افراد گذشتہ دو سالوں سے تقریباً ہر روز عدالت میں مجرموں کی حیثیت سے پیش ہوتے ہیں اور اگلے دن کی تاریخ لے کر واپس پلٹ آتے ہیں۔ اسی طرح لاہور، گوجرانوالہ، بھکر، راولپنڈی اور دیگر اضلاع سے ہر ہفتے میں کم و بیش 3 دن 500 سے زائد افراد 2 سال سے عدالتوں کے دھکے کھارہے ہیں اور مجرموں کی طرح پیش کئے جاتے ہیں اور بغیر کسی کاروائی کے اگلی تاریخ پر بلالئے جاتے ہیں۔ حکمران ان عدالتی ہتھکنڈوں کے ذریعے تقریباً 600 خاندانوں کا مسلسل دو سال سے معاشی قتل کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح یہ لوگ تھک ہار کر سمجھوتہ کرلیں اور شہداء کا خون معاف کردیں۔ مگر ان بدبختوں کو یہ معلوم نہیں کہ وہ جس قدر ظلم و ستم بڑھائیں گے مصطفوی انقلاب کے یہ سپاہی تن من دھن قربان کرتے ہوئے منزل کی طرف اسی تیزی سے بڑھتے جائیں گے۔
تحریک کے جملہ رفقاء اور وابستگان ان ہزاروں کارکنان کی جراتوں کو سلام پیش کرتے ہیں جو گرفتار رہے۔۔۔ جنہوں نے صعوبتیں برداشت کیں۔۔۔ وہ کارکنان جنہیں سزائیں سنادی گئیں۔۔۔ اور جو آج تک عدالتوں کے چکر لگارہے ہیں۔۔۔ ان سب کے عزم و حوصلے کو سلام پیش کرتے ہیں۔
تیرا عزم گواہ ہے کہ انقلاب آنے کو ہے
17 جون 2014ء سے لے کر آج تک 23 افراد نے جام شہادت نوش کیا، ہزاروں زخمی ہوئے متعدد معذور ہوئے اور کئی آج تک زیر علاج ہیں۔ یوم شہداء پر ظلم وستم کی داستانیں رقم ہوئیں، پندرہ ہزار سے زائد کارکنان گرفتار ہوئے۔ کئی کارکنان کو سزائیں سناکر جیل ڈال دیا گیا۔ ہزاروں کی ضمانتیں کروائی گئیں اور 600 سے زائد افراد مسلسل دو سال سے مقدمات کی پیروی میں دھکے کھارہے ہیں۔ 70 دن کا طویل ترین دھرنا دیا گیا۔ دھرنے کے دوران ہزاروں مشکلات آئیں۔ مگر ظلم وستم کی یہ آندھیاں شہداء کے ورثا یا کسی ایک کارکن کو اس کی منزل کے راستے سے ہٹا نہ سکے۔ یہ حوصلہ یہ استقامت اور یہ جرات بتاتی ہے کہ انقلاب آنے کو ہے۔ مصطفوی انقلاب کی تاریخ میں ان تمام کارکنوں کی قربانیاں ہمیشہ آنے والوں کے لئے مشعل راہ رہیں گی۔