اس سلسلہ تحریرمیں ملکی سطح پر گذشتہ ماہ پیش آنے والے حالات و واقعات پر ایک تجزیہ پیش کیا جائے گا اور اس تناظر میں ان واقعات کے حقائق جانیں گے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ذمہ دار کون ہے؟ خرابی کا تدارک اور حالات کی بہتری کیونکر ممکن ہے؟
پانامہ لیکس
پچھلے ماہ پانامہ لیکس کی آگ ایسی بھڑکی کہ اس کے شعلے اب تک بلند ہورہے ہیں۔ ابھی پہلی قسط کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا تھا کہ دوسری قسط بھی موضوع بحث بن چکی ہے جس میں مزید 400 پاکستانیوں کے نام آگئے ہیں۔پاکستان میں اگرچہ سینکڑوں خاندانوں کے نام پانامہ لیکس میں شامل ہیں مگر مقتدر قوتوں کو اپوزیشن جماعتوں نے آڑے ہاتھوں لیا اور مطالبہ کردیا کہ وزیراعظم اور انکے خاندان کا احتساب پہلے ہونا چاہیے۔ اس پر وزیراعظم نے قوم سے اپنے خطاب میں کمیشن بنانے کا اعلان کردیا۔
پاکستان میں مختلف معاملات پر بننے والے تحقیقاتی کمیشنز کی تاریخ حوصلہ افزاء نہیں ہے بلکہ معاملات کو التوا کا شکار کرنے اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ چنانچہ جب ارباب اقتدار اور سیاسی شخصیات کسی سانحے میں ملوث پائی جائیں تو ایسے سانحے کی تحقیقات کیلئے ایک کمیشن بنا یا جاتا ہے۔ اس کمیشن میں من پسند ممبرز اور من پسند (TORs) Terms of refrence ہونے کی وجہ سے تحقیق کا دائرہ ہی بدل جاتا ہے۔ اگر کچھ باضمیر لوگ حق پر مبنی رپورٹ لکھ بھی دیں تو پھر حکومت اس رپورٹ کو شائع ہی نہیں ہونے دیتی اور اس طرح مقدمات کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں۔ پاکستان میں حمود الرحمن کمیشن، منیر انکوائری کمیشن، شعیب سڈل انکوائری کمیشن، حسین حقانی میمو گیٹ کیس، ایبٹ آباد کمیشن کا حال سب کے سامنے ہے۔ ان سب سے بڑھ کر 17 جون 2014ء کو اقتدار کے نشے میں مست حکمرانوں نے دن دیہاڑے ماڈل ٹائون میں 14 لوگوں کو میڈیا کے سامنے گولیاں مار کر شہید کر دیا اس سانحے پر جو جوڈیشل کمیشن بنا اس نے حکومت پنجاب کو ذمہ دار ٹھہرایا مگر اس کمیشن کی رپورٹ ہی غائب کر دی گئی۔ پھر ایک من پسند کمیشن کے ذریعہ مضروبین، مظلومین کو ہی ملزم ٹھہرا دیا گیا۔ گویا پاکستان میں شروع سے یہ روایت رہی ہے کہ حکمران طبقہ اپنی کرپشن بچانے اور قتل چھپانے کیلئے کمیشن کا کھیل کھیلتے ہیں۔
اب کی بار بھی ملک و قوم کی لوٹی دولت چھپانے کیلئے وزیراعظم یہی کھیل کھیل رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کمیشن بنانے کا اعلان کرتے کہا کہ اگر کمیشن نے مجھے ذمہ دار ٹھہرایا تو میں گھر جانے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کروں گا۔ ان کے اس اعلان کی حقیقت کو جاننا ہو تو سانحہ ماڈل ٹائون پر کمیشن بناتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب کے اعلان پر عملدرآمد کا جائزہ لیں، انہوں نے بھی کہا تھا کہ اگر جوڈیشل کمیشن میری طرف انگلی بھی اٹھائے گا تو میں استعفیٰ دے دونگا۔ بعد ازاں صرف انگلی نہیں بلکہ قاتل اعلیٰ کی طرف پورا ہاتھ اٹھا مگر انہوں نے گھر جانے کے بجائے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے سے انکار کر دیا۔
جوڈیشل کمیشن پر قائد انقلاب کا مؤقف
قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے وزیراعظم کی طرف سے جوڈیشل کمیشن کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بے شک ان کے خلاف 10 کمیشن قائم کر دئیے جائیں، نتیجہ صفر ہی ہوگا۔ اس لئے کہ ان کے برسرِ اقتدار رہتے ہوئے ان کے ماتحت افراد اور ادارے ان کے خلاف شفاف تحقیقات کر ہی نہیں سکتے۔ لہذا پانامہ لیکس کے ذریعے اتنے واضح ثبوت سامنے آجانے کے بعد ان سے استعفیٰ لے لیا جانا چاہئے اور پھر ان کے خلاف جوڈیشل انکوائری عمل میں لائی جائے۔
سپریم کورٹ کو جوڈیشل کمیشن کیلئے لکھے گئے حکومتی خط پر قائد انقلاب نے واضح کیا کہ اس کمیشن کی فی الوقت سیاسی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں بلکہ اس کمیشن کی صورت میں سادہ لوح عوام سے ایک بار پھر دھوکہ کیا جارہا ہے۔ یہ تحقیقاتی کمیشن نہیں بلکہ حسب روایت حکمرانوں کی مکاری اور کرپشن سے عوام کی توجہ ہٹانے کی ایک سازش ہے۔ اس خط کے ذریعہ حکومت نے بال سپریم کورٹ کی طرف پھینکا ہے کیونکہ سپریم کورٹ پر کسی حد تک عوام اعتماد کرتے ہیں اور اس طرح وہ یہ سمجھیں گے کہ اب اس معاملے کی تحقیقات سپریم کورٹ کرے گا۔
کمیشن کی قانونی حیثیت
قائد انقلاب نے اس کمیشن کی قانونی حیثیت واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ کمیشن پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 1956ء کے تحت تشکیل دینے کی بات کی گئی ہے جبکہ اس ایکٹ کے تحت بننے والا کمیشن اس نوعیت کی انکوائری کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ کیونکہ اس ایکٹ کے تحت بننے والے کمیشن کے اختیارات ایک سول کورٹ والے ہونگے اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا ججز ایک پولیس انسپکٹر والے کردار کی ادائیگی کیلئے ہر گزتیار نہیں ہونگے اور انہیں ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایکٹ 1956ء مقامی و ملکی نوعیت کے ایشوز کی انکوائری کر سکتا ہے،بین الاقوامی نوعیت کے مقدمات اس ایکٹ کے زمرے میں نہیں آتے۔ حکومت کی طرف سے بار بار چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کی سربراہی میں کمیشن بنانے کی دھائی دینا، TORs بنانے اور تمام اختیارات چیف جسٹس کو دینے کی حکومتی رَٹ سراسر دھوکہ دہی پر مبنی ہے، جس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
- جب سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل کمیشن بنے گا اور سربراہی چیف جسٹس کی ہو گی تو وہ سپریم کورٹ کا کمیشن نہیں رہے گا کیونکہ TORs کی شق 4 کے مطابق اس کمیشن کی حیثیت سول کورٹ کی رہ جائیگی۔
- TORs کی ایک شق یہ بھی ہے کہ حکومت ایک سطر کے نوٹیفکیشن سے اس کمیشن کو ختم بھی کر سکتی ہے۔ حالانکہ حکومت سپریم کورٹ کو ختم کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ گویا اس کمیشن کے اختیارات سپریم کورٹ کی طرح کے نہیں ہونگے۔ پس اس کا قیام محض ایک دھوکہ دہی ہے۔
- اس کمیشن کو ایک بے اختیار کمیشن بنایاگیا ہے جس کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنا فیصلہ سنا سکے اور رپورٹ جاری کر سکے یا جرم ثابت ہونے کی صورت میں سزا سنا سکے۔
- اگراس کمیشن کو انکوائری میں مدد کیلئے پولیس یا کسی اور وفاقی یا صوبائی ادارے کی ضرورت پڑی تو کمیشن یہ اختیار بھی نہیں رکھتا کہ براہ راست پولیس یا کسی بھی ادارے کو انکوائری میں مدد کیلئے کہہ سکے۔ بلکہ اس کیلئے کمیشن وفاقی حکومت کو خط لکھے گا اور وفاقی حکومت ایک دوسرے نوٹیفکیشن کے ذریعہ مطلوبہ ادارے کو معاونت کرنے کے احکامات جاری کرے گی۔ گویا دانستہ طور پر خط و کتابت کے اس سلسلے سے تحقیقاتی عمل کو سست روی کا شکار کیا جائے گا۔
- یہ کمیشن صرف اس بات کا تعین کرنے کا مختار ہوگا کہ کسی قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں ہوئی۔
- یہ کمیشن اپنی رپورٹ وفاقی حکومت کو بھیجنے کا پابند ہوگا۔ گویا اب وفاقی حکومت کی مرضی کہ وہ اس رپورٹ کو شائع کرے یا نہ کرے۔
لہذا یہ کمیشن بالکل اسی طرز پر بنایاگیا ہے جس طرح سانحہ ماڈل ٹائون کی تحقیقات کیلئے بنا تھا اور جب اس کمیشن نے اپنی Findings دیں جن کے مطابق حکومت پنجاب کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا تو رپورٹ کو عام نہ کیا گیا اور آج تک عدالت کا درازہ کھٹکھٹانے کے باوجود ہمیں وہ رپورٹ فراہم نہیں کی جارہی۔ لہذا سپریم کورٹ کا نام لے کر یہ حکومت ایک بار پھر اس قوم سے دھوکہ کررہی ہے۔
ان نام نہاد حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور ان کے ماضی کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شفاف تحقیقات ممکن نہیں رہیں گی اور تحقیقات کا مرحلہ اتنا طویل اور پیچیدہ ہوجائے گا کہ اس میں سالوں لگ سکتے ہیں۔
تحقیقات کون کرے؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس معاملہ سے کس طرح نبرد آزما ہوا جائے؟ قائد انقلاب ڈاکٹر طاہر القادری اس مسئلے کا حل یوں بیان کرتے ہیں کہ
1947ء کے prevention of corruption ایکٹ کے تحت وزیراعظم اور اس کی فیملی کا احتساب ہونا چاہیے۔ یہ ایکٹ قائداعظم نے ملک میں کرپشن کی روک تھام کیلئے بنایا تھا۔ وفاقی حکومت کے خط اور TORs کے نتیجے میں بننے والے معذور کمیشن (جس کا سربراہ بننے کی صورت میں چیف جسٹس کے بھی اختیارات ختم ہو جاتے ہیں) کے بجائے چیف جسٹس آف پاکستان بحیثیت چیف جسٹس سپریم کورٹ اس کی تحقیقات کے آرڈر جاری کریں اور کمیشن کی بجائے عدالت خود اس کی تحقیقات کرے۔ پانامہ لیکس کے اس کیس کی تحقیقات بظاہر ان آٹھ قوانین کے تحت ہوسکتی ہے:
- criminal misconduct
- Money laundering
- non declaration of assets
- non declaration of actual income
- Tex evesion
- conflict of intrests
- misuse of authority
- concealment of facts
- The Prevention of corruption act
1947ء کے سیکشن پانچ جو کہ کریمنل مس کنڈکٹ کا ہے۔ اس میں درج ہے کہ اگر کوئی گورنمنٹ سرونٹ کرپشن کے ذریعہ دولت حاصل کرے اور پھر وہ جائیداد یا دولت اپنے یا اپنے رشتہ داروں کے نام منتقل کردے تو ایسے شخص کے خلاف اس ایکٹ کے تحت کارروائی ہو گی۔اسی سیکشن کی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ Dependents میں بیوی اور بچے آتے ہیں۔ اسی قانون کی مزید وضاحت یوں کی گئی ہے کہ اگر کسی شخص کا طرز زندگی ، رہنے سہنے کا انداز اور تعیشات، اس کی آمدن سے ملتے جلتے نہ ہوں تو عدالت یہ معنیٰ اخذ کر سکتی ہے کہ یہاں کرپشن ہوئی ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو پھر عدالت میں ثبوت پیش کرنا ہونگے کہ اسکی دولت کے ذرائع کیا ہیں؟
PAT کے مجوزہ TORs
پانامہ لیکس پر پاکستان عوامی تحریک نے درج ذیل ٹی او آرز جاری کئے ہیں:
- بااختیار کمیشن کی تشکیل کیلئے اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے آرڈیننس جاری کیا جائے اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے ہر فرد کا کڑااحتساب کیا جائے۔ تاہم قومی خزانے کے امین وزیر اعظم کا احتساب سب سے پہلے ہونا چاہیے۔
- پانامہ لیکس انکشافات معاشی دہشتگردی ہے۔ ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالت بھی اسکی تحقیق کرسکتی ہے۔
- مجوزہ کمیشن 1936ء سے کاروبار کرنے کے دعویدار حکمران خاندان سے1947ء سے تا حال کاروباری تفصیل،خاندانی اثاثوں کی تقسیم،منافع کی تفصیل،ٹیکس کی ادائیگی اور اندرون و بیرون ملک بنائے جانیوالے اثاثوں کی دستاویزی ثبوت طلب کرے۔
- کمیشن کو سزا دینے کا اختیار ہونا چاہیے۔
- تحقیقات کے دوران کمیشن انٹرنیشنل فرانزک فرم کی خدمات لینے اور رپورٹ شائع کرنے کا مجاز بھی ہو۔
افسوس! ہمارے ہاں دوہرا معیار قائم ہے۔ چند ماہ قبل پاکستان میں ایگزٹ کمپنی کا کیس ہوا تھا۔ایگزٹ کی جعل سازی پر برطانیہ کے اخبار میں ایک خبر چھپی تھی۔ صرف اس ایک خبر پر حکومت پاکستان اور وزارت داخلہ نے فی الفور ایکشن لیتے ہوئے اس کمپنی کو بند کر کے اس کے تمام اثاثے منجمد کر دئیے اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو پابند سلاسل کر دیا جبکہ پانامہ لیکس منظر عام پر لانے والی آئی سی آئی جے ایک سو ممالک کے معتبر صحافیوں پر مشتمل تنظیم ہے جو ایک سال تک پوری چھان بین اور تحقیق کے بعد بڑے اعتماد سے اس رپورٹ کو منظر عام پر لائے۔ ایک اخبار کی رپورٹ پر ایک کمپنی پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے مگر اتنی بڑی تنظیم کی رپورٹ پر عوامی دولت لوٹنے والے وزیراعظم کو پابند سلاسل کر کے اس سے تحقیقات کا آغاز کیوں نہیں کیا جا سکتا۔یہی وہ طبقاتی تقسیم ہے جس نے معاشرے میں بگاڑ پیدا کیا ہے مگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود عوام کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کی نسلوں کو بھی بیچ کر کھانے والے ان کے رکھوالے کیسے ہوسکتے ہیں۔
پانامہ لیکس کا اونٹ اس وقت تک کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ 3اپریل سے اب تک اس ایشو پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ حتی کہ حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کو خط لکھے جانے کے باوجود کام آ گے بڑھتا ہوا نظر نہیں آ رہا ۔اگر معاملہ اسی سست روی کا شکار رہا تو لگتا ہے کہ ایک با ر پھر عوام لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کیلئے سڑکوں پر نکلیں گے۔
محترم قارئین! وہ وقت یاد کریں جب قائد انقلاب بڑے واضح الفاظ میں عوام کو بتا رہے تھے کہ
’’اس کرپٹ نظام میں عوام کی کوئی جگہ نہیں۔ اس نظام کے تحت اپنے حقوق کی بات کرنا خام خیالی ہے۔اپنی نسلوں کو اور ملک کو محفوظ بنانے کیلئے اس کرپٹ نظام سے بغاوت کرنا ہو گی اور اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کے لئے باہر نکلنا ہوگا‘‘۔
اُس وقت یہ حکمران اور ان کے حواری ’’جمہوریت‘‘ کو بچانے کیلئے ایک ہوگئے۔ آج ایک بار پھر مکروہ شیطانی چہروں سے معصومیت کا نقاب اترنا شروع ہو گیا ہے اور آئے دن کرپشن کے میگا سکینڈلز سامنے آنے لگے ہیں۔ وزیروں کے گھروں سے اربوں روپے کیش کی صورت میں برآمد ہو رہے ہیں۔ یہی وہ سب کچھ تھا جس کے بارے میں قائد انقلاب دھرنے کے دوران بالخصوص اور گذشتہ 35 سال سے بالعموم بتاتے چلے آرہے ہیں۔ ہر آئے روز قائد انقلاب کی فکر، تعلیمات، بصیرت، دور اندیشی اور ملک و قوم کے لئے خدمات کے مختلف پہلو قومی و بین الاقوامی سطح پر ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان کی قیادت پر لبیک کہتے ہوئے میدان عمل میں نکلیں جس دن قوم نے قائد انقلاب کے نعرہ مستانہ پر لبیک کہہ دیا، وہی دن ان ظالم حکمرانوں کا آخری دن ہوگا۔