حمد باری تعالیٰ
تو ہی رحمن ہے رحیم ہے تو
میرے مولا! بڑا کریم ہے تو
انجمن انجمن ترے جلوے
بوئے گل ہے کہیں شمیم ہے تو
ہر کوئی سرنگوں ہے تیرے حضور
ہر شہنشاہ سے عظیم ہے تو
دور ہے آنکھ کی رسائی سے
ہاں دلوں میں مگر مقیم ہے تو
ہے ترے پاس سب حسابِ عمل
کاتب و محرم و منیم ہے تو
تو کہ جبار ہے قہار بھی ہے
اور کرم گستر و حلیم ہے تو
تجھ سے پوشیدہ کب عمل ہے کوئی
سب تجھے علم ہے علیم ہے تو
صابری پرخطا ترا بندہ
طالبِ فضل ہے رحیم ہے تو
{محمد علی صابری}
نعتِ رسولِ مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
ہے رشکِ فلک ، رحمتوں کا خزینہ
زمیں پر خُدا کے نبی کا مدینہ
ہوائیں معطر فضائیں معنبر
ہے جنت سے بڑھ کر یہ جنت کا زینہ
مدینے کے نوری مناظر کے صدقے
ملے چشمِ عاشق کو نوری سکینہ
وہ نور علیٰ نور ماحول دیکھا
منور ہوا جس سے میرا بھی سینہ
سجا کرئہ ارض پر یوں مدینہ
انگوٹھی پہ جیسے مرصع نگینہ
دلائے یہ احساس خوشبوئے طیبہ
ملا ہے فضا میں نبی کا پسینہ
مواجہ پہ لمحہ حضوری کا پایا
خوشا وہ گھڑی وہ برس وہ مہینہ
حقیقت کھلے جس پہ شہرِ نبی کی
پکارے وہ ہر دم مدینہ مدینہ
تصور مدینے کا دل میں بسا ہے
رہے روز و شب میرے لب پر مدینہ
مدینہ نہ بھو لے مدینے کے والی
ملے زندگی کو وہ زریں قرینہ
مدینے کے زائر کے دل کی دُعا ہے
وہ دربارِ آقا سے لوٹے کبھی نہ
قلق ہی بڑھے گا مدینے سے جا کر
لگے گا اے زائر! ترا دل کہیں نہ
قضا مجھ کو ہمذالی لے جائے طیبہ
بنے میرا مدفن بخاکِ مدینہ
(انجنئیر اشفاق حسین ہمذالی ؛فیصل آباد)