اسلامی احکامِ وراثت کی حکمتیں
ڈاکٹر محمد ممتاز الحسن باروی
شریعت کے ہر حکم کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے اور تمام شرعی احکام حکمت پر مبنی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات حکیم مطلق ہے اور ’’فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمۃ‘‘ کسی حکیم کا فعل حکمت و دانائی سے خالی نہیں ہوتا۔ جو ذات تمام دانائیوں اور حکمتوں کا سرچشمہ ہے اس کے فیصلے اور احکام حکمتوں سے کیسے خالی ہوسکتے ہیں؟ اور قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کے احکام میں غور و فکر سے ان کی حکمتیں کھل کر ہمارے سامنے آتی ہیں۔ زیرِ نظر تحریر فقط اسلامی احکامِ میراث کی حکمتوں سے متعلق ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں دیگر احکامِ شریعہ کے ساتھ وراثت سے متعلق بھی احکامات ارشاد فرمائے اور ورثاء کے درجات اور حصے بھی خود متعین فرمائے ہیں۔
احکام وراثت کی حکمتوں کو جاننے سے قبل وراثت کی اصطلاحی تعریف اور اسلام سے قبل معاشرے میں نظامِ وراثت کا ایک اجمالی جائزہ نذرِ قارئین ہے:
محمد علی الصابونی وراثت کا معنی ومفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
انتقال الملکیة من المیت الی الورثة الاحیاء سواء کان المتروک مالا او عقارا اوحقا من الحقوق الشرعیة.
(الصابونی، محمد علی، احکام الترکات والمواریث، ص: 34)
’’میت کی ملکیت کا زندہ وارثوں کی طرف منتقل ہونا، برابر ہے کہ وہ چھوڑا ہوا مال ہو، غیر منقولہ جائیداد ہو یا شرعی حقوق میں سے کوئی حق ہو۔‘‘
گویا جو چیز بوقتِ وفات میت کی ملک ہو، اس کے ساتھ کسی اور کا حق متعلق نہ ہو تو اس کو ترکہ قرار دے کر اس میں احکامِ میراث جاری کیے جائیں گے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مرنے والا شرعاً جس چیز کا مالک نہ تھا، وہ ترکہ شمار نہ ہوگی، لہذا اس میں میراث کے احکام بھی جاری نہ ہوں گے۔
اسلام سے قبل نظامِ وراثت
اسلامی احکام میراث کی حکمتیں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم عربوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے نظامِ وراثت پر ایک نظر ڈالیں جس کے بعد ہمارے سامنے اسلامی احکامِ وراثت کی حکمتیں بہتر انداز سے اجاگر ہوں گی۔
(1) اسلام سے قبل عرب معاشرے میں نظامِ وراثت
اسلام سے قبل اہل عرب مختلف قبیلوں اور طبقوں میں بٹے ہوئے تھے، جن میں باہم آویزش اور کشمکش رہتی تھی اور وہ ایک دوسرے سے ہمیشہ برسر پیکار رہتے تھے، اس لیے وہ تمام معاملات کو اسی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ چنانچہ وراثت میں ان کے ہاں چھوٹے بچوں اور عورتوں کا کوئی حصہ نہ تھا کہ یہ لوگ جنگی صلاحیتوں سے محروم تھے اور اپنے قبیلے کی طرف سے دفاع نہیں کرسکتے تھے اور دشمنوں سے مالِ غنیمت حاصل نہیں سکتے تھے۔ اہلِ عرب کی معاشرتی، سماجی اور سیاسی زندگی کا انحصار مال و دولت کے حصول میں تھا اور اس مقصد کے لیے ان کے ہاں سب سے اہم طریقہ جنگ و جدال اورمالِ غنیمت کا حصول تھا اور اس کی طاقت صرف طاقتور اور جنگجو مرد ہی رکھتے تھے۔ ان کی رائے میں یہ بات بدیہی تھی کہ میراث میں سے وہی حصہ پاسکتا ہے جو مال کے کمانے اور حاصل کرنے کا ہنر جانتا ہو۔
(عبدالحی ابڑو، میراث وصیت کے شرعی ضوابط، ص: 45)
(2) یہودیت اور مسیحیت کا نظامِ وراثت
یہودیوں کے ہاں وراثت کا حقدار صرف لڑکا ہوتاہے، اس کی موجودگی میں نہ تو میت کے والدین کا کوئی حصہ ہوتا تھا، نہ بیٹی، بیوی، شوہر اور دیگر رشتے داروں کا۔ بیوہ اور بیٹیاں اولادِ نرینہ کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں، البتہ لڑکی اگر نابالغ ہو تو بارہ سال کی عمر تک وہ باپ کے ترکے میں سے اپنا خرچہ لے سکتی ہے، اس کے بعد اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔ بیوہ بہر صورت وراثت سے محروم ہوتی ہے اور وہ ایک بوجھ سمجھی جاتی ہے۔
مسیحیت میں مختلف فرقوں کے یہاں وراثت کے سلسلے میں الگ الگ احکام ملتے ہیں، جن میں سے بیشتر احکام رومی یا یونانی قانون سے ماخوذ ہیں۔
اسلام کا نظام وراثت
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں تربیت نفس کا ایک مکمل نظام موجود ہے۔ جب اسلام نے ترقی کی تو مسلمانوں کی ظاہری و باطنی کیفیت کافی حد تک مکمل ہوگئی۔ جاہلی رسومات اور قوانین سے بیزاری کا اظہار ہونا شروع ہوا تو اسلامی احکامات کا تدریجی نفاذ شروع ہوا۔ سب سے پہلے قرآن مجید کے اندر سابقہ اسبابِ وراثت کا خاتمہ کیا گیا جوعہدِ جاہلیت اور اسلام کے ابتدائی دور کے اسباب تھے۔ سابقہ اسباب کا خاتمہ کرکے اسلام نے نئے احکامات بیان کیے۔
’’ابتدائے اسلام میں نبی کریمﷺ نے عربوں کے نظام میں تبدیلی نہیں کی تھی، وہی مروجہ نظام چلتا رہا جس کے مطابق میدان جنگ میں دادِ شجاعت دکھانے والے مردوں کو ہی وراثت ملتی تھی جبکہ بچوں اور عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا۔‘‘
(قرضاوی، یوسف الدین، اسلام میں غریبی کا علاج، ص: 278، 279)
ابتدائی دور میں نبی اکرمﷺ نے دو اسباب میراث خود سے عطا فرمائے جن میں ایک ہجرت اور دوسرا مواخات ہے۔ بعد ازاں قرآن مجید نے ہجرت اور مواخات جیسے اسباب وراثت سے بھی منع فرمادیا۔نبی کریمﷺ نے جو دو نئے اسباب متعارف کروائے ان میں حکمت یہ تھی کہ مہاجر مسلمان سے غریب الوطنی کی وحشت کو ختم کرکے ان میں قبائل اور خاندان سے دوری کے غم کو بھلا کر انصار اور دوسرے مہاجرین صحابہ میں انس و محبت کو پیدا کیا جائے تاکہ وہ ایک دوسرے کے لیے مضبوطی کا سبب بن سکیں۔
’’جب مہاجرین مدینہ میں آئے تو نبی اکرمﷺ نے ان میں اور انصار مدینہ میں بھائی چارہ قائم کردیا جس کے باعث مہاجر اپنے انصاری بھائی کا اور انصاری اپنے مہاجر بھائی کا وارث ہوتا تھا اور متوفی کا قریبی رشتہ دار اگر اس نے ہجرت نہ کی ہو، ورثہ سے محروم رہتا تھا۔‘‘
(قرضاوی، یوسف الدین، اسلام میں غریبی کا علاج، ص: 278، 279)
اس کا منشا غالباً یہ تھا کہ تمام مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے آئیں۔
اسلام نے کچھ عرصہ تک مذکورہ اسباب وراثت کو برقرار رکھا مگر بعد ازاں انھیں ختم کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُهٰجِرِیْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰٓـئِکُمْ مَّعْرُوْفًا ط کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا.
(الاحزاب، 33: 6)
’’ اور خونی رشتہ دار اللہ کی کتاب میں (دیگر) مومنین اور مہاجرین کی نسبت (تقسیمِ وراثت میں) ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتابِ (الٰہی) میں لکھا ہوا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے متبنیٰ اور مواخات کے ذریعے بھائی بننے والے مہاجرین کی نسبت خونی رشتہ داروں کو ہی وراثت کا زیادہ حقدار ٹھہرایا ہے یعنی خونی رشتہ داروں میں سے بچوں، عورتوں اور مردوں میں مقررہ حصوں کے مطابق وراثت کی تقسیم کا حکم دیا۔ایک جگہ اور ارشاد ہوا:
وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ط وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ فَـٰاتُوْھُمْ نَصِیْبَھُمْ ط اِنَّ اللهَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْدًا.
(النساء، 4: 33)
’’ اور ہم نے سب کے لیے ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے چھوڑے ہوئے مال میں حقدار (یعنی وارث) مقرر کر دیے ہیں، اور جن سے تمہارا معاہدہ ہو چکا ہے سو اُنہیں ان کا حصہ دے دو، بے شک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرمانے والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں واضح طور پر وراثت کے قانون بیان فرمادیے اور سابقہ نظامِ وراثت کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام اولاد کو وراثت میں شریک کردیا۔ چھوٹے بچوں اور بیٹیوں کو بھی وراثت میں حقدار بنایا تاکہ ان کے ساتھ ہونے والے استحصال کا خاتمہ ہوسکے۔ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کے مکمل احکامات بیان فرماکر اس کی اہمیت کو واضح کردیا۔
اسلامی شریعت کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وراثت کے احکامات تدریجاً نازل ہوئے۔ اگر یکبارگی نازل کردیئے جاتے تو اس سے لوگ مشقت میں پڑ جاتے۔ وہ اپنے بنائے ہوئے قانون پر صدیوں سے عمل پیرا تھے انہیں اچانک سے ان ظالمانہ قوانین سے دور کرنا محال تھا۔ اسی طرح ہجرت اور مواخات کے حوالے سے وراثت کے نظام کو بھی تدریجاً ختم کیا گیا۔ انسانی فطرت کے تناظر میں حکمت کے تحت تدریجاً احکام نازل کیے گئے اور آہستہ آہستہ زمانہ جہالیت کے فرسودہ نظامِ وراثت کا خاتمہ کیا گیا۔
اسلامی احکامِ وراثت کی حکمتیں
اسلام میں کثیر حکمتوں پر مبنی وراثت کے حصے اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود متعین فرمائے ہیں۔ ذیل میں احکام وراثت کی ان حکمتوں کو بیان کیا جاتا ہے جو وراثت سے متعلق اسلامی لٹریچر سے اخذ کی گئی ہیں:
(1) تقسیم دولت
اسلامی نظامِ وراثت میں تقسیم زر کے مسئلہ کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اسلام ایسے طریقوں کی طرف راہنمائی کرتا ہے جن سے کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ لیکن وہ اساسی طور پر اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ہر شخص جدا جدا صلاحیتیں لے کر پیدا ہوا ہے، اس لیے ہر ایک کو صلاحیت کے مطابق ہی ملے گا۔ البتہ عدم صلاحیت یا کم صلاحیت کی وجہ سے لوگ محروم رہ جائیں یا کم حصہ پائیں، ان کا حق ان لوگوں کے زر پر قائم رہتا ہے جو زیادہ صلاحیت کی وجہ سے اپنی ضرورت سے زیادہ کماتے ہیں۔ اس طرح اسلام بغیر کسی کشمکش کے ایسے راستے پیدا کردیتاہے جن کے ذریعے زیادہ دولت کی مقدار خود بخود کم زر والوں تک پہنچ جاتی ہے۔
اسلامی نظام وراثت کے ذریعے دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے کی بجائے خاندان کے مختلف افراد میں تقسیم ہوجاتی ہے جس سے معاشرتی فلاح و بہبود میں بہتری آتی ہے اور مساویانہ تقسیم دولت کے ذریعے گردش دولت کو فروغ ملتا ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں سرمایہ داری کے خلاف جہاد کرتے ہوئے قانونِ وراثت کے ذریعے تقسیمِ دولت کی راہ کھول دی۔
(2) ارتکاز دولت کا خاتمہ
اسلام نے ملکیت کا جو تصور دیا ہے اس میں اموال اور غیر منقولہ جائیدادیں افراد کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہوتی ہیں اور افراد کی موت کے بعد امانتوں کی تقسیم خالق کائنات کے عطا کیے ہوئے نظامِ وراثت کے مطابق ہی عادلانہ اور منصفانہ طور پر ہوسکتی ہے۔ جس سے دولت کے ظالمانہ ارتکاز کا خاتمہ ہوتا ہے۔اسلام ارتکازِ زر کا خاتمہ کرتا ہے اور اس کی قرآن و حدیث میں شدت کے ساتھ مذمت بیان کی گئی ہے۔تقسیم وراثت سے ارتکازِ زر کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جمع شدہ دولت قریبی رشتہ داروں میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوتی ہے۔ اس طرح تقسیم در تقسیم کے عمل سے زر کا معاشرے میں پھیلاؤ بڑھ جاتا ہے اور معیشت ارتکازِ زر کے برے اثرات سے بچ جاتی ہے۔
(3) مختلف رشتہ داروں میں تقسیم کی حکمت
اسلامی تعلیمات میں عیش و عشرت کی زندگی کو انسان کے لیے مہلک قرار دیا گیا ہے۔ اگر مال وراثت ایک ہاتھ میں رہ جائے تو لوگ کثرتِ مال کی وجہ سے فضول خرچی اور عیش و عشرت میں لگ جائیں گے، نیز غفلت اور کاہلی کا شکار ہوجائیں گے۔ اس لیے اسلام نے تقسیمِ وراثت کے ذریعے دولت کو ایک ہاتھ کی بجائے مختلف ہاتھوں میں دیا ہے۔
(4) ورثاء کی معاشی حالت کی بہتری
اسلام نے وراثت کے ذریعے ترکہ میں حقوق متعین کرکے ورثاء کی معاشی حالت کو بھی بہتر کردیا ہے۔ اگر حقوق متعین نہ ہوتے اور مالک کو مطلق وصیت کا حق دیا جاتا تو معاشرتی طور پر خاندان میں بدنظمی پیدا ہوتی اور مالک اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے جسے چاہتا محروم کرسکتا تھا۔ اس طرزِ عمل سے جھگڑے پیدا ہوتے، امن و سکون درہم برہم ہوتا۔ خاندانی زندگی کو اندیشوں، بے اطمینانی، عدم تحفظ اور تنازعات سے پاک کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ترکے میں ورثاء کا مقام معلوم و متعین ہو جس کے ساتھ ہر وارث بہتر زندگی گزار سکے۔
(5) ناانصافی کا خاتمہ
اسلام سے قبل ترکہ کی تقسیم میں ناانصافی سے کام لیا جاتا تھا۔ اسلام نے ترکہ کی عادلانہ تقسیم کے ذریعے تمام وارثوں کو ان کا حق دلایا تاکہ معاشرہ سالمیت و استحکام سے ہمکنار رہے۔ اسلامی نظام معیشت کو تقویت ملے اور ناانصافی کی بنا پر معاشرے میں جنم لینے والی برائیوں کا سدباب ہوسکے۔
(6) غیر وارث رشتہ داروں کی غربت کا خاتمہ
اسلامی قانونِ وراثت غیر وارث رشتہ داروں کی غربت کے خاتمے کا سبب بھی بنتا ہے اس قانون سے غریب و نادار ورثاء کو میت کے ترکہ سے حصہ ملتا ہے جو ان کی خوشحالی کا سبب بنتا ہے۔قرآن مجید نے جہاں ورثاء کے حصے متعین کیے ہیں وہاں غیر وارث رشتہ داروں، یتیموں اور محتاجوں کو بھی مالِ وراثت میں سے کچھ دینے کا حکم فرمایا ہے:
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی والْمَسٰکِیْنُ فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْهُ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا.
(النساء، 4: 8)
’’اور اگر تقسیمِ (وراثت) کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور ان سے نیک بات کہو۔‘‘
اس امر کی وضاحت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی قول سے ہوتی ہے:
امرالمومنین عند قسمة مواریثهم ان یصلوا ارحامهم ویتامهم ومساکینهم من الوصیة فان لم تکن وصیة وصل لهم من المیراث.
(تفسیر قرطبی، ج: 5، ص: 49)
’’اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو حکم دیا ہے کہ جب مالِ وراثت تقسیم ہونے لگے تو رشتہ داروں کے ساتھ یتامیٰ و مساکین کو بھی وصیت میں شامل کریں اور اگر ان کے حق میں وصیت نہ کی گئی ہو تو پھر انہیں وراثت میں شریک کیا جائے۔‘‘
اسلام دینِ فطرت ہے اور اسلامی معیشت میں غربت و افلاس کے خاتمے کے لیے بہت سے طریقے رائج ہیں۔ اسلام نے غریب رشتہ داروں اور ناداروں کی معاشی کفالت کرنے کے لیے نظامِ وراثت وضع کیا جس کے ذریعے غریب طبقہ کی کفالت کی ضمانت دی گئی ہے۔
(7) جاگیرداری کا خاتمہ
تقسیم وراثت سے بڑی جاگیریں چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہیں، جو معیشت کی بہتری کی طرف ایک مثبت قدم ہے کیونکہ جاگیرداری نظامِ معیشت کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔
(8) اصلاحات اراضی کا طریقہ
ماضی کی طرح آج بھی لوگ ناگہانی حالات کی وجہ سے اپنی دولت کو کسی کاروبار میں لگانے کی بجائے زمینوں کی صورت میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔ قانونِ وراثت سے اس کا سدباب ہوتا ہے۔ اس تقسیم سے اراضی کی تقسیم کی بھی اصلاح ہوتی ہے۔ اراضی چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹ جاتی ہے۔ مالکان زیادہ محنت و لگن سے پیداواری عمل میں حصہ لیتے ہیں۔ اس طرح اراضی کی اصلاح سے پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
(9) جائیداد کی حفاظت
اس قانون سے جائیداد کی وارثین میں منتقلی سے جائیداد کی مناسب انداز سے حفاظت ہوتی ہے کیونکہ مرنے والے کی جائیداد ٹکڑوں میں ورثاء تک منتقل ہوتی ہے جو آسانی سے اس کی نگہداشت اور حفاظت کرسکتے ہیں۔
(10) مثالی معاشرہ کی تشکیل
باہمی الفت و محبت کسی بھی معاشرہ کی سماجی و معاشرتی زندگی میں بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔ اگر کسی معاشرہ میں باہمی الفت و محبت کا عنصر غائب ہو تو وہ معاشرہ معاشرہ نہیں رہتا۔ قانونِ وراثت سے متوفی کی جائیداد (منقولہ و غیر منقولہ) ورثاء تک پہنچتی ہے جس سے ورثاء کو ایک طرف معاشی طور پر استحکام حاصل ہوتا ہے تو دوسری طرف باہمی الفت و محبت اور اخوت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ جس سے معاشرہ سکون و طمانیت سے معمور ہوجاتا ہے۔
(11) سماجی برائیوں کا خاتمہ
سماجی و معاشرتی برائیاں (چوری، ڈاکہ، لوٹ مار، غصب) یہ سب معاشی ناہمواریوں کے سبب جنم لیتی ہیں۔ تقسیمِ وراثت کے ذریعے معاشی ناہمواریوں کے خاتمے سے برائیاں خودبخود ختم ہوجاتی ہیں۔ اس طرح قانونِ وراثت کسی حد تک معاشی ناہمواریوں کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسی طرح لڑائی جھگڑے بھی عموماً معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ قانون وراثت جھگڑوں کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
(12) ادائیگی حقوق و فرائض
معاشرے ادائیگی حقوق و فرائض کی اساس پر قائم ہوتے ہیں۔ جن معاشروں میں حقوق و فرائض کا خیال نہیں رکھا جاتا، وہ معاشرے اپنی موت آپ مرجاتے ہیں اور ان کا وجود اس کائنات کے نقشہ سے معدوم ہوجاتا ہے۔ قانونِ وراثت ادائیگی حقوق و فرائض کا درس دیتا ہے کہ صاحب جائیداد کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کی پرورش میں معاون بنے اور یہ رشتہ داروں کا حق ہے۔
(13) عورت کا تحفظ
عورت معاشرے کی بنیادی اکائی ہے مگر مطالعہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی ہر سطح پر تذلیل کی جاتی رہی ہے اور اسے ہر حق سے محروم رکھا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ بعض مذاہب میں اسے برائی کی جڑ کہا گیا ہے۔ لیکن اسلامی قانون وراثت میں عورتوں کو بھی حصہ ملنے سے ان کا تحفظ ہوا ہے اور معاشرے میں ان کا مقام بلند ہوا ہے۔
(14) بہبود عامہ
تقسیم وراثت بہبود عامہ کا بھی ذریعہ ہے۔ جس متوفی شخص کا کوئی وارث نہیں ہوتا، اس کا سارا مال حکومتی خزانہ میں چلا جاتا ہے جو اسے لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے۔ ایسے ہی متوفی بھی وصیت کی صورت میں غریب، نادار، مساکین اور یتیموں کی پرورش اور کفالت کا سبب بن سکتا ہے۔
خلاصۂ کلام
اسلام نظامِ وراثت سے پہلے عرب کے معاشرے میں جو نظامِ وراثت رائج تھا وہ ظلم و ناانصافی پر مبنی تھا، معاشرے کے کمزور افراد اور عورتوں کے ساتھ زیادتی ہوتی تھی اور انہیں محرومیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اسلام نے آکر ایک ایسا نظام وضع کیا جس میں ابتدائی طور پر کچھ عرصہ کے لیے کچھ طریقے زمانہ جاہلیت کے بھی برقرار رکھے گئے کیونکہ تدریجاً ایک نیا نظام متعارف کروانا مقصود تھا اور وہ لوگ اپنی روایات سے زیادہ جڑے ہوئے تھے، اس لیے خلف اور نسب کی میراث کو برقرار رکھا اور ان کے ساتھ دو اسباب میراث بھی جاری کئے گئے جو ہجرت اور مواخاتِ مدینہ ہے۔ اسلام کے احکامات تدریجاً اور ضرورت کے تحت نازل ہوئے کیونکہ عرب صدیوں سے جس قانون پر عمل پیرا تھے، اچانک اس سے دور ہوجانا محال تھا لیکن اسلام نے اپنے ابدی نظام کے ذریعے انہیں اس نظام کی طرف متوجہ کیا اور لوگ اس فرسودہ اور ظالمانہ نظام سے انصاف پسند نظام کی طرف آئے۔ لوگوں نے جاہلی اور فرسودہ قوانین سے بیزاری کا اظہار کرنا شروع کردیا تو دین اسلام نے کچھ عرصہ کے بعد قدیم جاہلی نظامِ میراث کو ختم کردیا اور نیا عادلانہ نظام متعارف کرایا جس کے ذرریعے تمام رشتہ داروں کے حصے مقرر کردیئے۔ یہ تمام حصے عقل کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں۔