سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 9 برس

نعیم الدین چوہدری ایڈووکیٹ

سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا ایک بھیانک سانحہ ہے، جس میں طے شدہ منصوبہ کے تحت نواز، شہباز حکومت نے 17 جون 2014ء کو منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر ایسی ریاستی دہشت گردی کروائی کہ جس کی پاکستان کی سیاسی وسماجی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اچانک یا حادثاتی طور پر برپا نہیں ہوا تھا بلکہ نواز، شہباز حکومت کی ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ بیئرز کو ہٹانا تو ایک بہانہ تھا، اصل مقصد حکومت کے ماورائے آئین وقانون طرزحکمرانی کے خلاف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تحریک اور جدوجہد کو روکنا تھا۔

اس سانحہ میں 14معصوم، نہتے اور بے گناہ لوگوں کو شہید اور 100 سے زائد افراد کو شدید زخمی کیا گیا۔ اس دہشت گردی کے مناظر پوری دنیانے میڈیا چینلز کے ذریعے براہ راست دیکھے۔ یہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں تمام شواہدریکارڈ پر موجودہونے کے باوجود اورسانحہ کو 9سال سے زائد کا عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی انصاف کے ادارے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف نہ دلواسکے اور وہ اشرافیہ جس نے ریاستی دہشت گردی کروائی تھی، آج دوبارہ اقتدار پر براجمان ہے۔ اس سانحہ کا پسِ منظر اور اب تک کی قانونی جدوجہد کا اجمالی جائزہ نذرِ قارئین ہے:

پسِ منظر

2010ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پاکستان اور دنیا کے دیگر علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی اہمیت کا فتویٰ جاری کیا جو کہ 600 صفحات پر مشتمل ہے اور دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اس فتویٰ کو پوری دنیا میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ پاکستان اور دنیا بھر میں دہشت گرد مشتعل ہو کر بوکھلااُٹھےاور شیخ الاسلام کے جانی دشمن بن گئے۔ پاکستان اور دنیا بھر کے دہشت گروں نے شیخ الاسلام کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دینا شروع کردیں جس پر پاکستان کی مختلف ایجنسیوں نے شیخ الاسلام کو ان دہشت گردوں کے مذموم عزائم کے بارے میں تحریری طور پر آگاہ بھی کیا۔

چنانچہ عدالت عالیہ لاہور کے حکم سے پولیس نے خود اس وقت کے SP ماڈل ٹاؤن ایاز سلیم کی موجودگی و نگرانی میں بیئریئرز لگوائے اور رٹ پٹیشن 22367/2010 کی سماعت کے دوران عدالت عالیہ کے حکم سے مورخہ 20/01/2011 کو ایازسلیم سابق SP ماڈل ٹاؤن لاہور عدالت عالیہ میں حاضر ہوئے اور اپنا بیان قلمبند کروایا جس میں عدالت عالیہ کو تحریری یقین دہانی کروائی کہ انہوں نے ادارہ منہاج القرآن اور گرد و نواح کے مکینوں کی سیکیورٹی کے لئے 16 پولیس اہلکاران کو 24گھنٹے متعین کردیا ہے اور متعلقہ سڑکوں پر جرسی بیرئیرز (Jersey Barriers) رکھوادیے ہیں۔

2010ء سے 2014ء یعنی چار سال تک یہ بیریئر لگے رہے۔ اس دوران میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، عوام کے حقوق کی بازیابی اور قانون وآئین کی بالادستی کے لیے پاکستان آکر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تو حکومت بوکھلااُٹھی اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی اور اس تحریک کو کچلنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔

چنانچہ اس منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مورخہ 16جون 2014ء کو رانا ثناءاللہ وزیر قانون کی زیرصدارت اجلاس ہوا۔ فیصلہ کیا گیا کہ ادارہ منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کی رہائش گاہ کے اردگرد لگے بیریئرز کو ہٹانے کے بہانے دھاوا بولا جائے گااور جو بھی شخص اس میں رکاوٹ بنے گا، اُسے ختم کردیا جائے۔

17 جون 2014ء

اس بھیانک کھیل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 17 جون 2014ء کو رات گئے گورنمنٹ نے طے شدہ منصوبہ کے تحت منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے معصوم نہتے اور بے گناہ کارکنان کے خون سے ہولی کھیلی۔ اس دہشت گردی کے مناظر موقع پر موجود لوگوں کے علاوہ پوری دنیا نے میڈیا چینلز پر براہ راست دیکھے جس میں 14 افراد شہید ہوئےجن میں 2 خواتین بھی شامل تھیں اور 100 سے زائد افراد کو سیدھی گولیاں ماری گئیں اور ظلم و ریاستی دہشت گردی کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔

سانحہ کی انکوائری کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ

وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے اُسی دن پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کے لیے جوڈیشل کمیشن بنا رہا ہوں، میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک یہ کمیشن دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہ کردے، میں چین سے نہیں بیٹھوں گا اوراس المناک واقعہ کی تحقیقات کی شکل میں جو بھی ذمہ دار ٹھہرائے گئے، ان کو قانون کے مطابق کڑی ترین سزا دی جائے گی۔ عدالتی کمیشن اس لئے بنایا گیا ہے کہ اگر مجھے اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے توایک سیکنڈ سے پہلے میں عوام کی عدالت میں حاضر ہوں گا اور جو بھی اس تحقیقاتی رپورٹ میں مجھے تجویز کیا گیا، میں اس کومن وعن قبول کرونگا۔

وزیراعلیٰ نے ایک خط کے ذریعہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو کمیشن قائم کرنے کی درخواست کی جس پر چیف جسٹس لاہو ر ہائی کورٹ نے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی جج لاہور ہائی کورٹ پر مشتمل یک رکنی انکوائری ٹربیونل قائم کیا۔ جسٹس علی باقر نجفی نے تحقیقات کے دوران انکوائری ٹربیونل آرڈیننس 1969ءکے سیکشن 11کے تحت گورنمنٹ آف پنجاب سے بذریعہ لیٹر 9/TOI مورخہ 20-06-2014ء کو Additional Power مانگی لیکن گورنمنٹ آف پنجاب نے بذریعہ لیٹر نمبری Jud 11-III 9-53/2014 مورخہ 27-06-2014 یک رکنی انکوائری ٹربیونل کو ایڈیشنل اختیارات دینے سے انکار کر دیا۔ جسٹس علی باقر نجفی کمیشن نے اپنی تحقیقات مکمل کر کے تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو ارسال کی۔ جس میں حکومت پنجاب اور پنجاب پولیس کو اس قتل وغارت گری کا ذمہ دار قراردیا گیا۔

پہلی JIT کا قیام اور اس کی جانبداریت

حکومت نے ایک طرف سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی FIR درج کرنے سے انکار کردیا تو دوسری طرف اعترافِ گناہ اور مظلوموں کی اشک شوئی کے اقدامات کرنے کے بجائے پولیس کی مدعیت میں جھوٹی FIR No.510/14درج کرکے زخمی کارکنان اور مقتولین کے لواحقین کو گرفتار کرکے دنیا کی تاریخ میں ظلم وناانصافی کی نئی مثال قائم کردی۔ حکومت کی اس بدنیتی اور ظالمانہ اقدامات پر اگست 2014ء میں اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا اور پھر اکتوبر 2014ء تک 72 دن کا ایک طویل دھرنا دیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں بالآخر پاکستان عوامی تحریک ملزمان کے خلاف اپنی FIR کٹوانے میں کامیاب ہوئی۔

بعد ازاں اس سانحہ پر مقدمہ نمبر 510/14میں JITتشکیل پائی جس میں دو ایجنسیوں (MI,ISI)کی نمائندگی بھی شامل تھی۔ جس میں دونوں ایجنسیوں (MI,ISI)نے کہا کہ اس FIRکو ختم ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود اس مقدمہ کا چالان انسداددہشت گردی کورٹ لاہور میں پیش کیا گیا اور جنوری 2015ء سے اب تک PATکے بے گناہ افراد اس مقدمہ میں پیش ہو رہے ہیں، جس میں 500سے زائدتاریخیں ہو چکی ہیں۔ MI,ISIکےاس اختلافی نوٹ کی موجودگی میں مقدمہ نمبر510/14 کا چالان انسداددہشت گردی عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن اس کے باوجود انسداددہشت گردی عدالت لاہور میں چالان پیش کیاگیا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ چونکہ بڑا حساس ہے۔ اس میں نواز، شہباز حکومت ملوث ہے۔ پہلی والی JIT کے تمام پولیس افسران حکومت کے زیر اثر تھے جس کی وجہ سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شفاف تفتیش نہ ہونے دی گئی۔ اس JIT کی جانبداریت درج ذیل حقائق سے واضح ہوجاتی ہے:

1۔ اس سانحہ میں کسی بھی زخمی، چشم دید گواہان اور شہداء کے لواحقین کے بیانات بھی قلمبند نہیں کئے گئے۔

2۔ پولیس نے مقدمہ نمبر510/14(پولیس مدعی) میں JITکے مطابق پولیس نے ریکارڈ میں تبدیلی اور اسلحہ کی درست تفصیلات نہ دی تھیں۔ اس JIT میں دوممبران جن کا تعلق MIاور ISIکے ساتھ تھا، ان کے علاوہ تمام ممبران پولیس افسران تھے۔ JITنے اس بات کو تسلیم کیا کہ جب پولیس سے آرمز اینڈ ایمونیشن کی تفصیلات مانگی گئی کہ کتنا اسلحہ ایشوکیاگیا۔۔۔؟ کتنا استعمال کیا گیا۔۔۔؟ او ر کتنا واپس جمع کروایا گیا۔۔۔؟ تو پولیس نے فہرستیں دینے سے انکار کردیا۔ جبکہ مذکورہ بالا دوممبران (MI,ISI)نے یہاں تک کہہ دیا کہ مقدمہ نمبر 510/14 جو ہے قابل منسوخی ہے۔

3۔ عبدالروف SIانچارج ایلیٹ فورس کو JITنے دوران تفتیش متعددبار طلب کیا۔ دوران تفتیش اس نے تسلیم کیا کہ ایلیٹ فورس کی جانب 469SMGکےاور 59 راونڈG3 رائفل کے فائر کیے گئے۔ بعد میں اگلی پیشی پر اس نے بتایا کہ ایس پی عبدالرحیم شیرازی نے اسے کہا تھا کہ ریکارڈ تبدیل کردیاجائے۔

4۔ JIT کی جانب سے CCPO لاہور کو لیٹر نمبری 449/PSSB مورخہ 30/06/14 کو بھیجا گیاجس میں تمام افسران اور جوانوں کی پوسٹنگ اور ٹیلی فون نمبرز، ایشوکردہ ہتھیاراور ان کے سیریل نمبرز اور استعمال ہونے والے ایمونیشن کی تفصیل مطابق روزنامچہ ہائے، ٹیرگیس گنز اور ان کا مصرف اور آپریشن کےدوران کتنے ٹیرگیس شیل استعمال ہوئے، دیگر سامان کوئی بھی جو اس اپریشن کے دوران کم یا ناکارہ ہوا کی تفصیل JIT کو بہم پہنچائی جائے جس کی مکمل تفصیل آج تک نہ پہنچائی گئی ہے۔

5۔ JIT نے ملزمان سے مل کر ملی بھگت کے ساتھ غیر منصفانہ اور بے بنیاد رپورٹ تیارکروائی تھیں تاکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اصل ملزمان سابق وزیراعظم نوازشریف، موجودہ وزیراعظم میاں شہبازشریف، موجودہ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ دیگر وزراء پولیس افسران جو بطورملزمان ایف آئی آر میں نامزد تھے، بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے JIT نے ان نامزد ملزمان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی بلکہ ان تمام ملزمان کو مقدمہ سےنکال دیا گیا اور پاکستان عوامی تحریک کے 42 کارکنان جن کو مورخہ 17 جون 2014ء کو ہی مقدمہ 510/14 (پولیس مدعی ) میں گرفتارکیا گیا تھا۔ ان PAT کارکنان کو اپنے ہی مقدمہ نمبر 696/14 میں ملزم قرار دے کر انسداد دہشت گردی عدالت میں چالان پیش کر دیا گیا۔ بعدازاں ان 42 کارکنان کی اپنے ہی مقدمہ نمبر 696/14 میں ضمانتیں کروائی گئیں۔

6۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کاناحق چالان کرنے پر JITکی مکمل بددیانتی سامنے آگئی تو استغاثہ دائر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، لہٰذافوری طورپر انسداددہشت گردی عدالت لاہور میں استغاثہ دائرکردیاگیا۔ استغاثہ کیس میں 56زخمی وچشم دید گواہان کے بیانات مکمل ہونے کے بعد مورخہ 7فروری 2017کو انسداددہشت گردی عدالت لاہور نے سا نحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں 241ملزمان، کانسٹیبل سے لیکر آئی جی پنجاب تک، DCO کیپٹن (ر) عثمان، TMO نشتر ٹاؤن علی عباس بخاری، AC ماڈل ٹاؤن، طارق منظور چانڈیو، کو بطور ملزمان طلب کرلیا تھا، لیکن 12 ملزمان میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، رانا ثناء اللہ، ڈاکٹر توقیرشاہ و دیگران جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی، ان کو طلب نہ کیا تھا تو ان 12 ملزمان کی حدتک لاہور ہائی کورٹ میں Criminal Revision دائر کی تھی جو خارج ہو گئیں تھیں، اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں Crl.P.L.A دائر کی ہوئی ہے جو کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

7۔ باقر نجفی کمیشن رپورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قتل وغارت گری کرنے کا ذمہ دار 2014ء کی پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس کو ٹھہرایا ہوا ہے لیکن باقرنجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ دستاویزات جس میں ملزمان کے بیان حلفی، ٹیلی فون ڈیٹا ریکارڈ، حساس اداروں کی رپورٹس ودیگردستاویزات شامل ہیں، وہ تمام دستاویزات افسو س صد افسوس کہ سانحہ کے متاثرین کو آج تک فراہم نہ کی گئیں ہیں۔ ان تمام منسلکہ دستاویزات کے حصو ل کے لئے 2018ء سے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر ہوئی ہے جو کہ ابھی تک زیر سماعت ہے جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

دوسری JIT کا قیام

اِن تمام حقائق کے پیسِ نظر نئی JIT تشکیل دینے کی قانونی ضرورت پیدا ہوئی۔ ٹرائل کورٹ ازخود فوجداری مقدمہ کی سماعت کے دوران شفاف ٹرائل کے لئے بقیہ شہادت برآمدگی، فرانزک اور ڈیجیٹل وغیرہ کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتی ہے بلکہ صرف اور صرف JIT ہی شفاف ٹرائل کے لئے ان تقاضوں کو پورا کرسکتی ہے۔ اس لئے نئی JIT کی تشکیل شفاف تفتیش کے لیے ضروری تھی۔

اس سانحہ کے منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اور اصل حقائق کو منظر عام پر لانے کے لیے اور اصل ملزمان تک پہنچنے کے لیے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ازسرنو انویسٹی گیشن ضروری تھی کیونکہ اس پہلی JIT نےجوانویسٹی گیشن کی تھی وہ حقائق کے برعکس، جانبدار اور یکطرفہ کی تھی تاکہ اصل حقائق سامنے نہ آسکیں اور اصل ملزمان کو بچایا جا سکے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش کیلئے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجربنچ نے مورخہ 5دسمبر 2018ء کو سپریم کورٹ اسلام آباد میں سماعت کی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی ازسرنو تفتیش کیلئے نئی JIT بنانے کا فیصلہ ہوا اور مورخہ 3جنوری 2019ء کو پنجاب حکومت نے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں JIT نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

سپریم کورٹ کے فلور پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفتیش کے لئے تشکیل پانے والی نئی JIT نےمورخہ 14جنوری 2019ء سے لے کر 20 مارچ 2019ء تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام زخمی افراد، چشم دید گواہان اور شہداء کےلواحقین سے بیانات قلمبند کرلیےتھے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی طرف سے بھی نئی JITکے روبروپہلی دفعہ تمام زبانی ودستاویزی ثبوت شہادتوں کی شکل میں پیش کردیے گئے ہیں۔ اسی طرح نئی JITنے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام ملزمان بشمول سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف اورموجودہ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ، ڈاکٹر توقیر شاہ PSO ٹو سابق وزیراعلیٰ پنجاب، سابق آئی جی مشتاق سکھیرا سے مختلف پہلوؤں پر تفتیش مکمل کرلی تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ وقوعہ کیوں ہوا ہے۔۔۔؟ اس کے پیچھے کیا سازش کارفرماتھی۔۔۔؟ اس وقوعہ کےپیچھے کو ن کون سے سازشی عناصر موجود ہیں۔۔۔؟ اور یہ سازش کہاں سے چلی۔۔۔؟ اور کس طرح اس سازش پر عملدرآمد ہوا۔۔۔؟

نئی JIT کو کام سے روک دیا گیا

JIT کی اس تفتیش کے نتائج کو دیکھتے ہوئے فوری طورپر کچھ قوتیں متحرک ہوگئیں اور انہوں نے 22 اپریل 2019ء کو لاہور ہائی کورٹ کے ذریعہ JIT کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو معطل کروالیا اور نئی JITکو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی مزید تفتیش سے روک دیا گیا تاکہ JIT ان تمام ملزمان سابق وزیراعظم نواز شریف، موجودہ وزیراعظم شہباز شریف، موجودہ وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ، سابق PSO ٹو وزیراعلیٰ پنجاب ڈاکٹر توقیر شاہ و دیگران جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی، ان کو گنہگار ٹھہرا کر انسداددہشت گردی عدالت میں چالان پیش نہ کردے اور ان منصوبہ ساز ملزمان اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث افراد کے ٹرائل کا آغاز نہ ہوجائے۔ یہاں تک کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بھی اس کیس کی فیکسیشن اور بینچ کی تشکیل کا علم نہ ہو سکا۔ جب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو معلوم ہوا تو وہ فوری طورپر عدالت میں پہنچ گئے اور فل بنچ کے سامنے ساری صورتحال رکھی تو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو لاہور ہائی کورٹ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔

JIT سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود بحال نہ ہوسکی

ہم نے JIT کے نوٹیفکیشن کی معطلی کے خلاف فل بنچ کے فیصلہ کے عبوری حکم کے خلاف سپریم کورٹ اسلام آباد میں CPLAS دائر کی تھیں جس کی سماعت مورخہ 13فروری 2022ء کوسابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد خاں کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی جس میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ میں نیا بینچ تشکیل دے کر اور ترجیحاً تین ماہ کے اندرفیصلہ کرنے کی ڈائریکشن دی تھی لیکن افسوس صد افسوس کہ سپریم کورٹ کی 3 ماہ کی ڈائریکشن کے باوجود بھی لاہور ہائی کورٹ کا لارجربینچ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بننے والی ایک غیر جانبدار JIT کا فیصلہ نہ کرسکا۔

  • JIT کی تشکیل کے خلاف حکومت کی طرف لاہور ہائی کورٹ میں جو رٹ دائر ہوئی تھیں جس کی وجہ سے JITکا نوٹیفکیشن معطل ہے، وہ کیسز 4سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجودبھی لاہور ہائی کورٹ کے لارجربینچ کے پاس زیر سماعت ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں JIT کیس میں اس وقت تک 56تاریخ پیشیاں ہو چکی ہیں جبکہ لاہور ہائی کورٹ کا بینچ 5دفعہ تحلیل ہو چکا ہے۔ دسمبر 2022ء میں دونوں سائیڈ سے Complete Arguments ہو گئے تھے لیکن Complete Argumentsکے باوجود اس JIT کیس کا فیصلہ نہ ہو سکا۔ بعدازاں جسٹس سردار احمد نعیم لاہور ہائی کورٹ سے ریٹائرڈ ہو گئے۔ جسکی وجہ سے نیا بینچ تشکیل دیا گیا اور جسٹس مرزا وقاص روف کو اس بینچ میں شامل کیا گیا۔ نئے جج کے آنے کی وجہ سے دوبارہ اس کیس میں آغاز سے بحث ہوئی۔ اب دوبارہ اس کیس میں دونوں سائیڈ سے بحث مکمل ہو چکی ہے لیکن فیصلہ کےلئے کوئی تاریخ پیشی مقرر نہ ہے۔ جن کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
  • یہ امر ذہن میں رہے کہ جب تک کسی مقدمہ کا فیصلہ نہ ہو جائے اس وقت تک دوبارہ تفتیش ہو سکتی ہے اگر عدالت میں مقدمہ کا چالان اور فرد جرم بھی عائد ہو جائے تو بھی دوبارہ تفتیش سے روکا نہیں جا سکتا ہے۔ کوئی بھی قانون دوبارہ تفتیش سے نہیں روکتا۔ شفاف ٹرائل کے لئے شفاف تفتیش کا ہونا ضروری ہے۔ سیکشن 19 انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت ایک سے زائد JIT بنانے میں کوئی قانونی قدغن موجود نہیں ہے بلکہ گورنمنٹ کے پاس اختیار ہے کہ مقدمہ اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شفاف تفتیش کے لئے دوسری، تیسری، چوتھی JIT بھی بنائی جاسکتی ہے۔ کراچی 12 مئی واقعہ مقدمہ میں بھی ایک لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود سند ھ ہائی کورٹ نے نئی JIT بنانے کا ازخود حکم دیا کیونکہ اس وقت کے حالات ایسے تھے کہ اس وقت شفاف تفتیش نہ ہو سکی تھی۔ اس واقعہ میں اس وقت کے بااثر افراد کے ملوث ہونے کی اطلاعات تھیں، اس وجہ سے شفاف تفتیش نہیں ہوئی تھی۔
  • JIT کی بحالی سانحہ ماڈل ٹاؤن کےانصاف کےلئے اشد ضروری ہے۔ کیونکہ اصل ملزمان نوازشریف، شہبازشریف، رانا ثناءاللہ، ڈاکٹر توقیرشاہ اور دیگر ملزمان جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی ان کو استغاثہ کیس میں ناکافی شہادت کی بنیاد پر انسداددہشت گردی عدالت اور لاہور ہائی کورٹ نے بحیثیت ملزم طلب نہیں کیاتھا۔ کیونکہ استغاثہ کی دائرگی کے وقت جو شہادتیں اس وقت دستیاب تھیں، وہ استغاثہ کیس میں دے دی گئیں تھیں لیکن کچھ ایسی شہادتیں جن میں ان کا براہ راست ملوث ہوناپایاجاتا ہے، وہ تمام کی تمام شہادتیں نواز، شہباز حکومت جانے کے بعد اور جسٹس باقرنجفی کمیشن رپورٹ آنے کے بعد میسرآئی تھیں۔ وہ تمام کی تمام شہادتیں نئی JIT کو فراہم کردی تھیں۔ اس سے پہلے جتنی بھی انوسٹی گیشن ہوئی تھی، وہ حقائق کے برعکس، جانبداراور یکطرفہ ہوئی تھیں۔ پہلی والی JIT نے جتنی بھی انوسٹی گیشن کی تھی، وہ صرف اور صرف ملزمان کو بچانے اور اصل حقائق کو چھپانے کےلئے کی تھیں تاکہ اصل حقائق منظر عام پر نہ آسکیں۔

مرکزی ملزمان کی بریت کے مذموم اقدامات

  • آئی جی مشتاق احمد سکھیرا نے ہائی کورٹ میں اپنی طلبی کو چیلنج کیا تھا، لاہور ہائی کورٹ نے یہ درخواست خارج کردی تھی۔ جس کی وجہ سے آئی جی مشتاق احمد سکھیرا انسداددہشت گردی عدالت لاہور میں بطور ملزم پیش ہوگیا اور تمام ملزمان پر مورخہ 15 اکتوبر 2018ء کو دوبارہ فرد جرم عائد ہوئی۔ جس کی وجہ سے استغاثہ کیس میں جتنا بھی ٹرائل ہوا تھا وہ DENOVO ہوگیا۔ ٹرائل DENOVO ہونے کے بعد مستغیث کا بیان انسداددہشت گردی عدالت میں دوبارہ قلمبند ہوا ہے اور ملزمان کے وکلاء نے مستغیث پر دوبارہ جرح کرنی ہے لیکن جرح کرنے سے پہلے ملزمان کے وکیل نے سیکشن 23 انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت درخواست گزاری ہے کہ ان مقدمات میں 7ATA کا اطلاق نہیں ہوتاہے۔ اس لئے ان مقدمات میں 7ATA کو ختم کرکے ان کیسز کو سیشن کورٹ میں ٹرائل کے لئے بھیج دیاجائے۔
  • گزشتہ سال سابق DCO کیپٹن (ر) عثمان کے وکیل نے انسداد دہشت گردی عدالت میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 265/Kکے تحت کیپٹن (ر) عثمان کی بریت کے لئے درخواست گزاری کہ کیپٹن (ر) عثمان، کے خلاف مقدمہ نہیں بنتا ہے، اس لئے اس کو اس مقدمہ سے بری کر دیا جائے۔ انسداددہشت گردی عدالت لاہور IIIنے کیپٹن (ر) عثمان کی اس بریت کی درخواست کو مورخہ 8-4-22 کو منظور کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں بری کردیا تھا۔ جس وجہ سے کیپٹن (ر)عثمان کی بریت کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے۔ جو کہ لاہور ہائی کورٹ کے ڈویثرن بنچ کے پاس زیر سماعت ہے۔
  • اب مورخہ 10-05-23 کو انسداددہشت گردی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی ملزمان سابق آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا، سابق ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبار، سابق ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیز، سابق TMO نشتر ٹاؤن لاہور علی عباس بخاری کو بھی استغاثہ کیس میں 265-Kکے تحت بری کردیا ہے۔ اب ان ملزمان کی بریت کے خلاف بھی لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے۔
  • اِن پولیس افسران کی بریت سے یہ امر متحقق ہوگیا ہے کہ انصاف کا نظام ظلم کا نظام بن چکا ہے۔ ماڈل ٹاؤن جے آئی ٹی کیس کے فیصلے سے انصاف ملنا ہے مگر افسوس جے آئی ٹی کا کیس 3 سال سے سٹے آرڈر پر ہے۔ 3 سال سے بنچ بن رہے ہیں اور ٹوٹ رہے ہیں مگر انصاف نہیں ہو رہا۔ اب ایک منصوبہ بندی کے تحت ملزموں نے ٹرائل کورٹ میں بریت کی درخواستیں دینا شروع کر دی ہیں اور شہداء کے وکلاء کو ان درخواستوں پر بحث کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے کہ ہم مرکزی کیس کو نظر انداز کر کے ملزموں کی ان اپیلوں کو نمٹائے جانے کے عمل کا حصہ بنیں۔ اگر ملزمان ٹرائل کورٹ سے بریت کے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر اگر جے آئی ٹی کو کام کرنے کی اجازت مل بھی گئی تو انصاف نہیں ہو سکے گا کیونکہ قانون کے مطابق ایک کیس میں کسی پر دو بار مقدمہ نہیں چل سکتا۔ لگتا ہے یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ ایک پلاننگ کے ساتھ شہداء کے ورثاء کے ساتھ قانونی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

اب تو ملزموں کے حق میں قانونی راستے ہموار ہوتے ہوئے صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم پرامن لوگ ہیں۔ ہم بڑی امید کے ساتھ عدالتوں میں قانون کے مطابق انصاف کے لئے قانونی چارہ جوئی کررہے ہیں مگر انصاف کا خون ہو رہا ہے۔ ہماری چیف جسٹس سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی ان ہدایات پر عملدر آمد کروائیں جن میں سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق جے آئی ٹی سمیت زیر التواء اپیلوں کو فوری نمٹائے جانے کا حکم دیا گیا تھا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حصولِ انصاف کی جدوجہد کو 9 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذاتی دلچسپی اور راہنمائی میں سانحہ کے متاثرین اور شہداء کے لواحقین انسداد دہشت گردی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک مسلسل قانونی چارہ جوئی پوری طاقت، عزم، استقامت کے ساتھ کررہے ہیں۔ ان شاءاللہ تعالیٰ یہ جدوجہد اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین اورشہداء کے لواحقین کو انصاف نہیں مل جاتا اور اس سانحہ میں ملوث عناصر اپنے عبرت ناک انجام سے دوچار نہیں ہو جاتے۔