القرآن: حُسن خُلق اور مقامِ محمدی ﷺ
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محمد ظفیر ہاشمی
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.
(القلم، 68: 4)
اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔
حضور نبی اکرم ﷺ کو اللہ رب العزت نے خاتم النبیین بنایا ہے۔ آپ ﷺ اپنی تخلیق کے اعتبار سے سب سے پہلے اور ظہور و بعثت میں سب سے آخری نبی ہیں۔اِس کائنات ارض و سماء کی تخلیق کی ابتداء آپ ﷺ کے نور کی تخلیق سے ہوئی اور اللہ رب العزت کی آسمانی ہدایت کے نزول کی انتہاء اور بعثت و رسالت کے نظام کا اختتام آقا علیہ السلام کی نبوت کے ظہور سے ہوا تھا۔
گویا اِس کائنات کو ظہور بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے وجود سے ملا۔۔۔ اِس کائنات کی بقا بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے توسل سے ہے۔۔۔ اِس کائنات میں ہر کمال بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے توسل سے ہے۔۔۔ اللہ کے نظامِ ربوبیت کے تحت ہر مخلوق کا پرورش پانا حتی کہ ہمیں جو کچھ اس دنیا میں مل رہا ہے، اِس میں بھی وسیلہ حضور ﷺ کا ہے۔ لہذا کلمہ گو کا جینا اس وقت تک حلال نہیں ہے، جب تک وہ تاجدارِ ختم نبوت ﷺ سے وفا دار ہو کر زندگی نہ گزارے۔
ساری کائنات کو ہر کمال حضور نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ سے ملا، اِس لیے کائنات کے ہر کمال کا منبع و مصدر اور ہر کمال کا سرچشمہ حضور علیہ السلام کا وجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کے مقام ومرتبہ کو مختلف حسین وجمیل طریقوں سے بیان کیا ہے۔ ان ہی مقامات میں سے ایک مقام قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں بیان ہوا ہے جس میں آقا علیہ السلام کے اخلاق کو بیان کیا گیا ہے۔آیئے ایک نئے رخ اور زاویہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کے خلقِ عظیم کا مطالعہ کرتے ہیں:
اَخلاق اور خُلق کیا ہے؟
اِنسان سے دو اقسام کی خاصیتوں، صلاحیتوں اور افعال کا صدور ہوتا ہے۔ اِنسان کے اندر کچھ خوبیاں تو ایسی ہوتی ہیں جو اُس کے مزاج کا حصہ ہوتی ہیں، اُنہیں احوالِ طبعیہ کہتے ہیں۔ مثلاً: کبھی اِنسان پر غصے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، کوئی پریشانی کا لمحہ ہو تو اِنسان کی زندگی میں ہیجان اور اضطراب پیدا ہو جاتا ہے، کبھی انسان اپنی طبیعت میں بزدلی اور مایوسی کا اظہار کرتا ہے، کبھی تھوڑی سی آواز سن کر بھی اچانک گھبرا جاتاہے، کبھی مسکراتا ہے، کبھی غم زدہ ہو جاتاہے۔ اِس قسم کے احوال ہماری زندگی میں وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں، اِن احوال کو طبعی احوال کہتے ہیں۔
مذکورہ احوال اَخلاق نہیں ہیں۔ اَخلاق تب بنتا ہے جب اچھے افعال، اعمال، برتاؤ، بھلائی، نیکی، احسان اور خوبصورت طرزِ فکر کو انسان اپنے نفس کے اندر بطورِ صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اگر کوشش، محنت اور اپنے اوپر جبرکرکے بندہ اپنے آپ کو نیک کام کرنے کے لیے تیار کرے تو ایسے نیک کاموں کو اخلاق نہیں کہتے۔ خُلق تب بنتا ہے جب اُس بندے کے نفس کے اندر ایسی صلاحیت پیدا ہو جائے کہ نیکی کے کام آسانی سے کرے اور لوگوں سے بھلائی احسان، سخاوت، خوشگوار تعلق، معافی و درگزر اور عزت دینے کے لیے اپنے نفس میں سہولت پائے۔ اگر نفس کے اندر ایسی خوبی پیدا ہو جائے کہ وہ ان امور کو آسانی سے کرتا چلا جائے اور اُسے کوئی دقت اور اضافی کوشش نہ کرنی پڑے، طبیعت پر بوجھ نہ ہو اور یہ تمام کام روانی، خوشی اور آسانی سے بندے سے سرانجام پانے لگیں، اُس کی طبیعت میں نیکی کی رغبت اور میلان پیدا ہوجائے اور پھر اُس میں مضبوطی، استحکام اور دوام آجائے کہ وہ چاہ کر بھی اُس کے خلاف نہ جاسکےتو اسے اخلاق کہتے ہیں۔
درحقیقت اخلاق کے خوگر انسان کے اندر ایک داعیہ اور ایک قوت پیدا ہو جاتی ہے جس کے تحت نیکی، بھلائی، احسان، خوش طبعی، خوش خُلقی، اللہ کے دین کی مدد، رشتے داروں، پڑوسیوں، غریبوں، کمزوروں اور انسانیت پر احسان، وغیرہ جیسے کام بغیر کسی اہتمام اور بغیر تکلف کے دائمی کرتا چلا جاتا ہے۔ اگر یہ سب اُس کی عادت بن جائے اور اُس میں کبھی نہ رکاوٹ آئے تو اسے خُلق یا اَخلاق کہتے ہیں۔ خُلق یا اَخلاق کی صلاحیت بندے میں پیدا ئشی بھی ہوتی ہے اور بندہ محنت کرکے اسے زندگی میں حاصل بھی کرتا ہے اور پروان چڑھاتا ہے۔
انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام کی خِلقت میں اَخلاقِ حسنہ ودیعت کیا جاتا ہے
انبیاء کرام علیہم السلام اور اُن کے بعد اولیاء عظام کی طبائع میں اللہ تعالیٰ اچھے اَخلاق کی صلاحیت پیدائشی طور پر ودیعت کر دیتا ہے، اِس لیے اللہ کے نبی سے اعلانِ نبوت سے قبل کے زمانے میں بھی بد اَخلاقی کا کام کبھی صادر نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف آقا علیہ السلام کی بات نہیں بلکہ اللہ رب العزت تمام انبیاء کی خلقت ایسے فرماتا ہے کہ بعثت اور اعلانِ نبوت سے پہلے کی زندگی میں بھی وہ بد خُلقی نہیں کر سکتے۔ جھوٹ نہیں بولتے، بخیل اور کنجوس نہیں ہوتے، کسی پر ظلم و جبر نہیں کرتے، وہ سچے، بھلائی اور احسان کرنے والے ہوتے ہیں، وہ کسی سے نفرت نہیں کرتے، وہ ہر ایک سے محبت کرتے ہیں، سخاوت اور طہارت و پاکیزگی پیدائشی طور پر ان میں موجود ہوتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے بعد نچلے درجے میں پھر یہ خوبیاں اللہ تعالیٰ اولیاء کرام کے اندر پیدا کر دیتا ہے اور پھر یہ طبقہ ان اوصاف کو اپنی محنت، ریاضت اور عبادت سے develop کرتا رہتا ہے اور کمال تک پہنچادیتا ہے۔
اِس لحاظ سے اَخلاق حسنہ یا خُلق، پیدائشی بھی ہے اور اکتسابی بھی ہے۔ بعض علماء نے کہا کہ یہ جبلت میں ہوتا ہے، اکتسابی نہیں ہوتا اور بعض نے کہا اکتسابی ہوتا ہے، جبلت میں نہیں ہوتا مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس کے دونوں پہلو ہیں۔
اخلاق؛ محنت و ریاضت سے پروان چڑھتے ہیں
اخلاق کا محنت و ریاضت سے پروان چڑھنا اور کمال تک پہنچنے کے حوالے سے ایک حدیثِ مبارک نہایت ہی قابلِ غور ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے ایک صحابی حضرت الاشج کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
ان فیک خصلتین یحبهما الله تعالیٰ الحلم والاناة.
(مسلم، الصحیح، 1: 48، الرقم: 17)
تمہارے اندر دو خصلتیں اور خوبیاں ایسی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن سے محبت کرتا ہے اور وہ حلم اور صبر ہے۔
یعنی پہلی خوبی نرمی اور ملاطفت ہے جبکہ دوسری خوبی یہ ہے کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو اسے تو برداشت کرتا ہے، غصے میں نہیں آتا اور ردعمل نہیں دیتا۔
جب حضرت الاشج نے یہ سنا تو انھوں نے آقا علیہ السلام سے پوچھا:
قدیما کان فی أو حدیثا.
یارسول اللہ ﷺ یہ فرمائیے کہ یہ دو خوبیاں میرے اندر پرانی ہیں یا ابھی نئی پیدا ہوئی ہیں؟
آقا علیہ السلام نے فرمایا: بل قدیما: نہیں بلکہ قدیم وقت سے ہیں۔
قلت الحمد الله الذی جبلنی علی خصلتین یحبھما اللہ.
(کنزالعمال، ج: 13، ص: 124، الرقم: 36824)
میں نے کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے میرے اندر دو ایسی خوبیاں پیدا کیں جن سے وہ محبت کرتا ہے۔
یعنی اللہ نے تمہاری خلقت میں اِن خوبیوں کا بیج رکھ دیا تھا اور تم نے محنت کرکے انھیں develop اور مستحکم کر دیا اور بالآخر تمہاری سیرت اور اَخلاق اِن خوبیوں کے ساتھ منور ہوگئی۔
صحابی رسول کے سوال اور آپ ﷺ کے جواب سے معلوم ہوا کہ اخلاق جبلی بھی ہوتا ہے اور کئی لوگ زندگی میں محنت اور ریاضت کرکے اسے develop بھی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نیکی اور بھلائی کے بیج ہر شخص کی طبیعت کی زمین میں بوئے ہوئے ہوتے ہیں، اگر ہم محنت کریں اور انھیں develop کریں تو وہی نمو پا کر پودے اور پھل دار درخت بن جاتے ہیں اور اِنسان کی پوری زندگی اچھے اخلاق کے ساتھ روشن اور مزین ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی ان اخلاق کو سنوارنے میں محنت نہیں کرتا تو اس میں یہ صلاحیت پروان نہیں چڑھتی۔
اسے اس مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر بینائی کمزورہو جائے تو اُس کے لیے ہم عینک لگا لیتے ہیں، کوئی بیماری آتی ہے تو علاج کرکے شفایابی پا لیتے ہیں، جسم کمزور ہوتا ہے تو مختلف وٹامنز لیتے ہیں، اسی طرح بندے کے نفس میں جو خرابیاں اور کمزوریاں ہوتی ہیں، ان کا بھی علاج ہے۔ اچھی صحبت، اچھا مطالعہ، اچھائی سیکھنے، توجہ و محنت کرنے اور ریاضت و مجاہدہ سے ہم اپنے اندر اچھے اخلاق کو develop کرسکتے ہیں۔
آقا علیہ السلام نے اپنے عمل مبارک سے امت کو یہ تعلیم دی جس کے راوی عبداللہ بن مسعود ہیں کہ آپ ﷺ دعا کرتے تھے:
اللھم کما حسنت خلقي فحسن خلقي.
(هندی کنزل العمال، 3: 7، الرقم: 5197)
اے اللہ! جس طرح تونے میرے ظاہر کو خوبصورتی دی ہے، اِسی طرح میرے اَخلاق بھی خوبصورت بنا دے۔
آپ ﷺ کے اَخلاق تو پہلے ہی خوبصورت تھے مگر جب اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض کرتے ہیں تو اِس کا مطلب ہے کہ ایک طرف آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اظہارِ بندگی کرتے اور دوسری طرف اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاق کے حصول اور کمال پر کمال حاصل کرنےکی درخواست کرتے۔ معلوم ہوا کہ باکمال لوگ وہ ہوتے ہیں جو کمال پا کر اپنا سفر روک نہیں دیتے بلکہ کمال کے بعد بالا ترکمالات کے لیے سفر کرتے چلے جاتے ہیں اور جو آدمی کمال پاکر بے نیاز ہوجائے اور سمجھے کہ میں مکمل و کامل ہوگیا ہوں اور محنت اور توجہ چھوڑ دے، تو اُس کا کمال بھی کم ہوتے ہوتے نقص میں بدل جاتا ہے۔ کمال کو برقرار رکھنے اور اسے مزید بلندیوں سے ہمکنار کرنے کے لیے ریاضت اور مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔
آقا علیہ السلام یہ دعا بھی فرماتے:
اللهم اهدنی لاحسن الاعمال واحسن الاخلاق.
(سنن النسائی الکبریٰ، ج: 1، ص: 312، الرقم: 970)
کہ باری تعالیٰ مجھے حسنِ اعمال اور حُسن اَخلاق کی راہ پر چلا۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اچھے اَخلاق، اچھی طبیعت، اچھی صلاحیت، اچھا مزاج، اچھے طور طریقے موجود ہوں تو بندہ بے نیاز نہ ہو بلکہ اُن کی حفاظت بھی کرے اور اُن کو مزید ترقی دینے کے لیے ریاضت بھی کرے اور ان کی حفاظت بھی کرے۔اگر توجہ ہٹ گئی اور غفلت آگئی تو پہلا کمال بھی جاتا رہے گا۔
اخلاق اور اعتدال کا تعلق
اخلاق کی تعریف کو مزید واضح انداز میں جاننا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ نفس کے اندر اچھائی اور بھلائی آسانی اور سہولت کے ساتھ ہمیشہ جاری رکھنے کے امور کی صلاحیت کو اَخلاق کہتے ہیں۔ اس اچھائی اور بھلائی کا اعتدال پر ہونا بھی لازم ہے۔ حدیث مبارک میں ہے کہ:
السمت الحسن والتوئدة والاقتصاد جزء من اربعة وعشرین جزء من النبوة.
(ترمذی، السنن، 4: 366، الرقم: 2010)
حسنِ اخلاق اور طبیعت کا اعتدال، نبوت کا چوبیسواں حصہ ہے۔
یعنی بندے کی طبیعت میں افراط اور تفریط نہ ہو، بلکہ اعتدال ہو اور بندہ متوازن و معتدل ہو۔ معلوم ہوا حُسن اَخلاق انبیاء علیہ السلام کے فضائل و خصائل میں سے ہے اور جس خوش نصیب کو حُسنِ اَخلاق کی خوبیاں نصیب ہوگئیں، وہ سمجھے کہ اُس نے براهِ راست نبوت کا فیض پایا ہے۔ اگر یہ اعمال اعتدال پر نہ رہیں تو اچھائی، اچھائی نہیں رہتی۔ مثلاً: قوتِ عقل میں اعتدال ہو تو اُس کو ذہانت اور فطانت کہتے ہیں۔ ذہین اور فطین وہ شخص ہوگا جس کی ذہانت میں اعتدال ہو اور اگر اُس ذہانت میں افراط آجائے تو وہ مکاری اور عیاری میں بدل جاتی ہے اور بندہ عیار اور مکار بن جاتا ہے۔ اگر ذہانت میں تفریط آجائے تو کمی آنے سے بندے میں حماقت اور بے وقوفی آجاتی ہے۔ یعنی ذہانت میں زیادتی ہوئی تو بندہ عیار ہوگیا، اگر کمی ہوئی تو بندہ بیوقوف ہوگیا اور عقل کی صلاحیت اعتدال پر رہی تو ذہین و فطین ہوا۔
اِسی طرح اگر غصہ نہ آئے تو بندہ دشمن سے لڑہی نہیں سکتا اور نہ اپنا دفاع کرسکتاہے۔ اگر غصہ اعتدال میں ہو تو وہ بہادری اور شجاعت کہلاتا ہے، اگر اُس میں زیادتی ہوجائے تو وہ بندے کو ظلم اور جبر کی طرف لے جاتا ہے اگر اُس میں کمی ہوجائے تو یہ بندے کو بزدل بنا دیتا ہے۔ چنانچہ اعتدال میں حُسن ہے جبکہ زیادتی اور کمی دونوں خراب چیزیں ہیں۔
اِسی طرح خرچ کرنا اگر اعتدال کے ساتھ ہو تو اُسے سخاوت کہتے ہیں اور اگر خرچ کرنا اعتدال سے بڑھ جائے تو یہ فضول خرچی، اسراف اور تبذیر ہے۔ اس کے برعکس تفریط ہوجائے تو بندہ میں بخیلی اور کنجوسی آجاتی ہے۔ پس اسراف میں خیر ہے اور نہ کنجوسی میں خیر ہے۔ سخاوت تب بنتی ہے کہ خرچ کرنے کا عمل اور جذبۂ اعتدال کے ساتھ رہے۔
ہم روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ انسانی جسم میں اونچا قد اچھا لگتا ہے مگر کسی کا قد بے حساب اونچا ہوجائے تو اچھا نہیں لگتا، قد بہت چھوٹا ہوجائے تو وہ بھی اچھا نہیں لگتا۔ جسم کی طاقت کے اندر بھی اعتدال ہو تو بندہ حسین لگتا ہے، آنکھ، ناک، چہرہ، پیٹ الغرض جس عضو کو دیکھیں، اُس میں اعتدال ہے اور ایک کا دوسرے کے ساتھ ایک ربط ہے۔ یہ توازن اور اعتدال ہر جگہ ہو تو اُس کو حسین کہتے ہیں۔ انسانی اعضاء میں توازن اور اعتدال سے انسان حسین بن جاتاہے۔ الغرض خوبیاں اگر درمیان کی حد پر قائم ہوں تو اُن کو حُسنِ اَخلاق کہتے ہیں اور اگر وہ حد سے اِدھر اُدھر ہو جائیں تووہ حُسن اَخلاق نہیں رہتا۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ کے مصداق آپ ﷺ کی جملہ خوبیاں، اچھائیاں اور اَخلاق سب کمال پر ہیں مگر سارے کمالات کی انتہاء میں اعتدال بھی ہے۔ یعنی ایک خوبی دوسری خوبی کو نظر انداز نہیں ہونے دیتی۔ ساری خوبیاں بدرجہ اتم، بدرجہ کمال ہیں اور کمال کا کمال یہ ہے کہ ہر شے غایتِ اعتدال پر ہے۔
اخلاقِ مصطفیٰ ﷺ ناقابلِ شمار ہیں
ایک صحابی نے ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ حضور علیہ السلام کے اَخلاق کیسے تھے ؟ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ:
کَانَ خُلُقهٗ الْقُرْآن.
’’آپ ﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔‘‘
(احمد بن حنبل، المسند، 6: 216، الرقم: 25855)
یعنی سارا قرآن حضور کے اَخلاق کا بیان ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس جواب کے ذریعے سوال کرنے والے کی غلطی کی بھی نشاندہی کی اور اس کی اصلاح کی۔ وہ سوال یہ سمجھ کر کررہا تھا کہ شاید آپ ﷺ کے اَخلاق گنے چنے اور محدود تھے، تو وہ گن کر بتا دیں گی کہ حضور ﷺ کے اَخلاق یہ یہ تھے۔
یاد رکھیں! محدود چیز ہو تو گن کر بتایا جاسکتا ہے۔مثلاً: اگر کوئی کسی شخص سے پوچھے کہ اس کے پاس کتنے پیسے ہیں تو اگر تو وہ قابلِ شمار ہوئے تو وہ کوئی نہ کوئی عدد بتادے گا لیکن اگر وہ اَن گنت ہوں تو وہ کہے گا کہ میرے پاس گنتی ہی نہیں، میں کیا بتاؤں کہ کتنے ہیں؟
چنانچہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کے اَخلاق کے بارے پوچھا گیا تو سوال کرنے والے کا خیال تھا کہ گنے چنے کچھ اَخلاق ہوں گے، جیسے سچائی، جرأت، بہادری، بھلائی، سخاوت، نرم طبیعت، وغیرہ وغیرہ۔ آپؓ نے اس طرح کے کسی وصفِ مصطفیٰ ﷺ کو بیان نہ کیا بلکہ جواب دیا کہ تم نے آقا علیہ السلام کے اَخلاق اور صفات کو محدود سمجھا ہے۔سارا قرآن، اُس کی ہر ہر آیت اور ہر ہر لفظ، حضور نبی اکرم ﷺ کے اَخلاق کا بیان ہے۔ گویا وہ بتانا یہ چاہتی تھیں کہ حضور ﷺ کے اَخلاق شمار سے باہر ہیں۔ جیسے قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور اُس کے معانی و معارف کی کوئی حد نہیں، اِسی طرح حضور ﷺ کے اَخلاق کی کوئی حد نہیں۔ چودہ سو سال گزر گئے، ہر آنے والا عالم اور عارف جب قرآن مجید کی آیت کو پڑھتا ہے تو نیا معنی بیان کرتا ہے۔ قیامت تک لاکھوں، کروڑوں لوگ ہر روز قرآن مجید کی اُسی آیت کو پڑھتے رہیں گے اور ہر ہر آیت سے نئے سے نئے معانی منکشف ہوتے چلے جائیں گئے۔ قرآن مجید کے معانی ختم نہیں ہوئے، پس ام المومنینؓ کا فرمانا یہ تھا کہ جس طرح اللہ کے کلام کے معانی کی حد نہیں ہے، اِس طرح مصطفی ﷺ کے اَخلاق کی حد نہیں ہے۔
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے عوارف المعارف (ص: 400) میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ سوال کے جواب میں ام المومنینؓ یہ جواب دینا چاہتی تھیں کہ حضور ﷺ کے اَخلاق اللہ کے اَخلاق تھے مگر بارگاهِ صمدیت کے ادب میں یہ لفظ نہیں بول سکیں کہ وہ اللہ کے اَخلاق سے متخلق تھے، لہذا اللہ کا نام لینے کے بجائے انھوں نے اللہ کے کلام کا نام لے دیا۔ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور اللہ کا کلام اللہ کی صفات میں سے صفت ہے۔ پس انھوں نے اللہ کے کلام کا نام لے کر ادبِ الوہیت بھی رکھا اور عظمتِ نبوت بھی بیان کر دی کہ سارا قرآن مجید حضور ﷺ کا اَخلاق تھا۔ یعنی اگر مصطفیٰ ﷺ کے اَخلاق کو جاننا چاہتے ہو تو قرآن مجید کو دیکھو۔ اللہ تعالیٰ کے اَخلاق اور صفات کا بیان قرآن مجید میں ہے، اُن صفات کا ایک رخ شانِ الوہیت کی طرف تھا اور ایک رخ شان عبدیت اور مصطفی ﷺ کے اَخلاق کی طرف تھا۔
پس اگر تم پڑھنا چاہو تو قرآن مجید ایک کتاب کی شکل میں ہے اور اگر آنکھوں سے دیکھنا چاہو تو حضور سراپا قرآن تھے۔
اَخلاقِ حسنہ رسمی عبادات کا نام نہیں
اَخلاق حسنہ کی مثال اس طرح ہے جیسے زمین میں آسمان آجائے۔ اِس لیے کہ اِنسان کا اپنا نفس زمین کی مانند ہے اور اخلاقِ حسنہ اصل میں اللہ تعالیٰ کے صفات ہیں۔ جب بندے کے نفس میں ملکوتی صفات سما جائیں یا بشری پیکر میں مالا اعلیٰ کی کائنات سما جائے تو یہ ایسے ہے جیسے زمین میں آسمان سما جائے۔ اگر یہ کیفیت ہو تو یہ اَخلاقِ حسنہ ہے۔ صرف نماز پڑھنا اور تسبیح کرنا عبادات نہیں بلکہ اِنسان کی زندگی، اس کی سیرت، مزاج اور اَخلاق ملکوتی صفات سے معمور ہوجائیں، یعنی بندہ فرشتہ تو نہ ہو مگر ایسا ہو کہ فرشتے اُس پر رشک کریں۔ اس کا وجود اس صورت میں ملکوتی بن جاتا ہے کہ جسم تو بشر ہی کا ہوتا ہے مگر اُس کے من کے اندر ملکوتی صفات اور انوار وتجلیات سما جانے کے سبب وہ بندہ رزائل سے پاک ہوجاتا ہے۔ اس سے بخل نکل جاتا ہے اور وہ سراپا سخاوت بن جاتا ہے۔۔۔ وہ جھوٹ سے نکل جاتا ہے اور سراپا سچ ہو جاتا ہے۔ پھر اُس بندے کے اَخلاق بدل جاتے ہیں اور وہ نیک کام کے لیے تکلیف، مشقت، محنت اور کوشش نہیں کرتا بلکہ نیکی بغیر ارادے کے اُس سے خود بہ خود صادر ہوتی چلی جاتی ہے۔ وہ چاہے بھی تو کسی سے زیادتی نہیں کر سکتا، اس لیے کہ بداَخلاقی اور بُرائی اُس سے صادر ہی نہیں ہو سکتی۔
فرشتے اگر برائی نہیں کرتے اور ظلم نہیں کرتے تو اس میں اُن کا کمال نہیں ہے۔اِس لیے کہ اُن کے اندر برائی کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے اور وہ معصوم ہیں۔ انسان میں اچھائی اور برائی دونوں صلاحیتیں رکھ دی گئی ہیں۔ اب جب انسان بُرائی نہ کرے اور اچھائی کرے تو اس صورت میں ملائکہ بھی اس پر رشک کرتے ہیں۔
قرآن حضور ﷺ کا اخلاق: قرآن مجید کی آیات سے استنباط
قرآن مجید کی آیات تین طرح کی ہیں:
1۔ کچھ آیات محکمات ہیں، ان آیاتِ محکمات کی ہر ایک کو سمجھ آتی ہیں، ان کے معانی سادہ اور عام فہم ہیں۔
2۔ کچھ آیات متشابہات ہیں جو ہر کسی کو سمجھ نہیں آتیں۔ اُن کا علم اللہ کو ہے یا ان اہل اللہ کو ہے جنہیں اللہ معرفت عطا کرتا ہے۔
3۔ آیاتِ قرآنی کی تیسری قسم وہ ہے جن کو حروفِ مقطعات کہتے ہیں: الم، کہیعص وغیرہ۔ یہ حروفِ مقطعات قرآن مجید کی چودہ سورتوں کے شروع میں آئے ہیں۔ یہ بھی متشابہات میں سے ایک قسم ہیں۔ اِن کی خوبی یہ ہے کہ اِن کو اہل اللہ بھی نہیں جانتے، انھیں صرف اللہ جانتا ہے یا رسول اللہ ﷺ جانتے ہیں۔
آقا علیہ السلام کے اَخلاق، صفات اور کمالات کو پورے قرآن مجید سے تشبیہ دینے کا مطلب یہ ہوا کہ حضور ﷺ کے کچھ اَخلاق اور کچھ کمالات ایسے ہیں جنہیں ہر کوئی سمجھ سکتا ہے، وہ علماء بھی جانتے ہیں، فقہاء بھی جانتے ہیں اور واعظ لوگ بھی جانتے ہیں۔ مصطفی ﷺ کے یہ اَخلاق اور صفات آیاتِ محکمات کی مانند ہیں جو ہر کسی کی سمجھ میں آگئے۔
آقا علیہ السلام کے کچھ اَخلاق اور صفات ایسی ہیں جن کا صرف عرفاء کو پتہ چلا۔ اُن کو ابو بکر و عمر اور عثمان و علیl اور دیگر عرفاء کی آنکھ نے اپنے اپنے انداز اور مختلف رنگ میں دیکھا۔ گویا کچھ اَخلاق آیاتِ متشابہات کی طرح تھے کہ جو صرف خاص لوگوں کو معلوم ہوئے۔ اب جنھیں ان کا علم نہیں تو وہ انکار کرتے ہیں، اس لیے کہ اُنہیں ان کی سمجھ نہیں۔
اسی طرح آقا علیہ السلام کے اَخلاق اور کمالات کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو حروفِ مقطعات کی طرح ہے جنہیں صرف اللہ اور حضور ﷺ ہی جانتے ہیں، مخلوق میں سے کوئی جانتا ہی نہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جملہ تو ایک بولا مگر اُس کے اندر معانی کے سمندر بہادیئے۔ حضور کا اَخلاق قرآن ہے۔ گویا حضور کے اَخلاق آیاتِ محکمات کی مانند بھی ہیں ، آیاتِ متشابہات کی مانند بھی ہیں اور حروفِ مقطعات کی مانند بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ گزر گیا ہے مگر حضور ﷺ کے مقام ومرتبہ کی حقیقت کو انسان نہیں جان سکا۔ انسان اُتنا جانتا ہے جتنا علم اُس تک پہنچا۔ آقا علیہ السلام کے اَخلاق اور کمالات کا احاطہ اور ادراک کوئی نہیں کرسکا۔
اَخلاق بہتر کیسے ہوتے ہیں؟
اَخلاق کیسے بہتر ہوتے ہیں؟ اس کے لیے یہ امر ذہن میں رہے کہ اس کے لیے ریاضت و مجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سلسلے میں سب سے کارگر نسخہ نیک صحبت ہے کہ اچھوں کی سنگت میں اَخلاق اچھے ہوتے چلے جائیں گے اور بُرے لوگوں کی صحبت اور سنگت میں اَخلاق بُرے ہوتے چلے جائیں گے۔ جیسی صحبت ہوگی، ویسا رنگ چڑھے گا اور اُسی طرح کے اَخلاق بنیں گے۔ گویا اخلاق؛ صحبت، سنگت اور رفاقت سے تبدیل ہوتا ہے۔
کنجوسوں کے ساتھ بیٹھیں گے تو کنجوس ہوجائیں گے۔۔۔ سخیوں کے ساتھ بیٹھے گے تو طبیعت میں سخاوت آتی جائے گی۔۔۔ عبادت گزاروں کے ساتھ بیٹھیں گے تو عبادت کا شوق پیدا ہوتا چلا جائے گا۔۔۔ غافلوں کے پاس بیٹھیں گے تو طبیعت سے دین نکلتا چلا جائے گا۔۔۔ چوروں، اُچکوں اور کرپٹ لوگوں کے ساتھ بیٹھیں گے تو بندے میں کرپشن داخل ہوتی چلی جائے گی۔۔۔ الغرض جیسی صحبت اور سنگت ہوگی، اخلاق پر ویسا ہی رنگ چڑھ جائے گا۔ لہذا صحبت اچھی اختیار کریں۔ بُری صحبت سے عبادتیں اور ریاضتیں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے دوست و رفیق کے انتخاب کے معاملہ میں احتیاط اور غوروفکر کا حکم دیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
المرء علی دین خلیله فلینظر أحدکم من یخالط.
(احمد بن حنبل ، المسند، 2: 303، الرقم: 8015)
یعنی ہر شخص اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، ہر شخص اپنے دوست کی روش پر ہوتا ہے، جیسا اُس کا دوست ہو، اُسی طرح کی روش اور اُسی طرح کا طرزِ زندگی اُس بندے میں آجاتا ہے۔ اگر کسی کا تعین کرنا چاہیں کہ یہ بندہ کیسا ہے تو اُس کی سنگت، دوستی اور صحبت کو دیکھا کریں کہ اس کی سنگت اور دوستی کیسی ہے۔۔۔؟ کن کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا ہے۔۔۔؟ اس سے اُس بندے کے کردار کی رنگت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔یورپی دنیا میں جب کسی کو سیکیورٹی یا پولیس سروس وغیرہ میں لینا ہو تو وہ صرف اُس بندے کا ہی نہیں بلکہ اس کے والدین اور اُس کے دوستوں کا بھی انٹرویو کرتے ہیں کہ ان کا کردار کیسا ہے؟ اُس سے انھیں اس متعلقہ بندے کے کردار و سیرت کے بارے میں پتہ چل جاتا ہے۔ اِس لیے قرآن مجید نے کہا:
وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ.
(التوبة، 9: 119)
’’اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔‘‘
آقا علیہ السلام نے فرمایا: اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
هُمُ الْقَوْمُ لَا یَشْقَی بِهِمْ جَلِیسُهُمْ.
(مسلم، الصحیح، باب: فضل مجالس الذکر ، 4: 2069، الرقم: 2689)
اللہ کا ذکر کرنے والے ایسے اچھے لوگ ہیں کہ جو اُن کی صحبت اور سنگت میں بیٹھ جائے، وہ بھی محروم نہیں رہتا بلکہ کچھ نہ کچھ رنگ ان ذاکرین کا اُس پر بھی چڑھ جاتا ہے۔
معلوم ہوا کہ صحبت سے اَخلاق اور سیرت بدلتی ہے اور جن کی سنگت اختیار کرتے ہیں، ان کا رنگ انسان کی شخصیت پر چڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبار ائمہ بھی اولیاء و صلحاء کی سنگت اور صحبت کو اختیار فرماتے۔
امام اعظم ابو حنیفہؓ علم اور فقہ کے بہت بڑے امام تھے مگر اپنے وقت کے مجذوب بہلول دانا کی صحبت میں جا کر بیٹھتے تھے کیوں کہ مجذوب اللہ کی سنگت میں بیٹھنے والا ہوتا ہے۔۔۔ امام مالکؒ خود فقہ کے امام تھے مگر حضرت محمد بن المنکدر کی سنگت میں بیٹھتے تھے۔۔ ۔ امام شافعیؒ اپنے وقت کے امام تھے مگر حضرت معروف کرخیؒ اور حضرت ابو حمزہ بغدادیؒ کی سنگت اور صحبت میں بیٹھتے تھے۔۔۔ امام احمدبن حنبلؒ علم کے امام تھے مگر حضرت بشرالحافیؒ اور ابو حمزہ بغدادیؒ کی صحبت میں بیٹھتے تھے۔
سوچنے کی بات ہے کہ یہ لوگ خود فقہ، قرآن اور حدیث وسنت کے علم کے اِتنے بڑے امام تھے کہ ساری دنیا اِن کی طرف رجوع کرتی تھی اور یہ اُن اولیاء اور صوفیاء اور اللہ والوں کی صحبت اور سنگت میں بیٹھتے جو ظاہری علم میں اِن کے برابر نہیں تھے۔ یاد رکھیں کہ یہ ائمہ اُن کی صحبت اس لیے اختیار کرتے کیونکہ اُن کی صحبت سے اِن کے اَخلاق بدلتے تھے، اِن کے احوالِ باطنی بدلتے تھے اور انھیں اللہ کی قربت نصیب ہوتی تھی۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ بندہ جس کی صحبت میں ہو گا، اُسی کا رنگ اس پر چڑھے گا۔ چنانچہ اوائل اسلام میں جو لوگ مولیٰ علی المرتضؓی، امام حسنؓ، امام حسینؓ، امام علی زین العابدینؓ، امام محمد الباقرؓ، امام جعفر الصادقؓ، حسن البصریؒ، بایزیدبسطامیؒ، ذوالنون مصریؒ، معروف کرخیؒ، سری سقطی رحمھم اللہ اور ان جیسے دیگر اولیاء کی صحبت میں بیٹھتے تو ان اولیاء کی صحبت اور مجلس ان حاضری دینے والوں کے اَخلاق، باطن اور احوال کو بدل کر رکھ دیتی۔ اِس لیے وقت کے بڑے بڑے عالم اور امام، اولیاء کی صحبت میں بیٹھتے تھے تاکہ اُن کا رنگ بھی ان کی شخصیت پر چڑھے۔ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ رنگ محض کتابوں، مدرسوں، عقل اور فہم سے نہیں چڑھتا بلکہ رنگ صحبت سے چڑھتا ہے۔
حضور علیہ السلام اللہ کی صحبت اور سنگت میں تھے
جو جس کی صحبت اور سنگت میں زیادہ رہے ، اُس کا رنگ اس پر چڑھتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ ساری عمر اللہ تعالیٰ کی صحبت اور سنگت میں رہے، اندازہ لگائیں کہ ان پر اللہ کا کتنا رنگ چڑھا ہوگا۔ آقا علیہ السلام نے چونکہ تمام وقت اللہ کی صحبت اور سنگت میں گزارا ہے، اس لیے ہر وقت آقا علیہ السلام پر اللہ کے اخلاق و صفات کا رنگ چڑھتا رہا، اور یہ رنگ چڑھتے چڑھتے وہ مقام آگیا کہ سارے اخلاقِ الہٰیہ حضور علیہ السلام کی ذات میں آگئے۔ حدیث مبارک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
انا ارحم الراحمین خلقت بضعة عشر وثلاث مائة خلق من جاء بخلق منھا مع شهادة ان لا اله الا الله دخل الجنة.
(طبرانی، المعجم الاوسط، 2: 20، الرقم: 1093)
’’میں رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہوں۔ میں نے تین سو دس (310) اخلاق پیدا کیےجو اِن اخلاق میں سے ایمان اور توحید کے ساتھ ایک خُلق بھی اپنی زندگی میں داخل کر لے، وہ جنت میں جائے گا۔ ‘‘
اللہ کے سارے کے سارے 310 اَخلاق سوائے حضور نبی اکرم ﷺ کے کسی نبی اور رسول میں جمع نہیں ہوئے۔جس طرح اللہ کی لاتعداد صفات ہیں اور ان ہی صفات کی مناسبت سے اس کے اسماء ہیں مگر معروف صرف 99 اسماء ہیں، اِسی طرح اللہ کے اَخلاق بھی لاتعداد ہیں مگر بیان کرنے میں تین سو ساٹھ اَخلاق بیان کیے جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بظاہر آقا علیہ السلام کا پیکر بھی بشری تھا، بشری اوصاف کے ساتھ آپ ﷺ کا اَخلاق، خُلقِ عظیم اور اَخلاقِ الہیہ کیسے بن گیا۔۔۔؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ پیکر بشری کی صفات آپ ﷺ کی خلقت کے اندر موجود تھیں مگر جب اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات اُتاریں تو ہر آیت کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک صفت اُتاری، جوں جوں اللہ کی صفات اُترتی چلی گئیں، توں توں آپ ﷺ کے بشری اَخلاق ایک ایک کرکے اُترتے گئے۔ صفاتِ الہٰیہ اور اَخلاق الہٰیهِ کی جو جو صفت نازل ہوتی گئی، اُس نے آپ ﷺ کے ایک ایک بشری خُلق کو الگ کر دیا۔ جب سارا قرآن مکمل ہوا تو ذاتِ مصطفیٰ ﷺ میں بشری اَخلاق کا کچھ بھی نہ بچا تھا۔ اب جسم مصطفی ٰ ﷺ کا تھا مگر اَخلاق خدا کا تھا۔ اَخلاقِ الہیہ کے سارے رنگ نہ صرف آپ کی ذاتِ مبارکہ پر چڑھ گئے بلکہ آپ ﷺ کے بشری خُلق اور طبیعت کے تمام خصائص اور مزاج بھی بدل گئے تھے۔
حضور علیہ السلام سے بشری صفات کے ظہور کی حقیقتقت
آپ ﷺ سے جب کبھی بشری صفات کا ظہور ہوتا تھا تو اس کی حکمت امت کو تلقین کرنا اور اس امر کو امت کے لیے سنت بنانے کے لیے تھا۔ آپ ﷺ کھاتے تھے مگر آپ کا جسم کھانے کا محتاج نہ تھا بلکہ آپ ﷺ کھانے کو سنت بنانے کے لیے کھاتے تھے۔۔۔ آپ ﷺ نے شادی کی مگر آپ کو شادی کی محتاجی نہ تھی بلکہ اسے سنت بنانے کے لیے ایسا کیا۔۔۔ علالت و بیماری ہوتی مگر جسم اس کا محتاج نہ تھا، یہ سارے عوارضِ بشریہ اس لیے ہوتے تاکہ امت اپنی زندگیاں حضور ﷺ کی زندگی کے مطابق ڈھال سکے۔۔۔ اگر ان ساری چیزوں کا ظہور نہ ہوتا تو اِنسانوں کا حضور ﷺ کی زندگی کے ساتھ ربط نہ رہتا اور آقا علیہ السلام کی زندگی سے اَخذکرنے اور سبق لینے کا امکان نہ رہتا۔
ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی اور چار رکعتیں پڑھانے کے بجائے دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ صحابہ کرامl آپس میں بات کرنے لگے:
قَصُرَتِ الصَّلَاة.
(بخاری، الصحیح، 5: 2249، الرقم: 5704)
شاید نماز چھوٹی کر دی گئی ہے؟
مگر کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ آقا علیہ السلام سے پوچھتا کہ نماز پوری نہیں پڑھائی۔ ادب کے ساتھ سب خاموش تھے۔ ایک صحابی جن کو ذو الیدین کہتے تھے، وہ دیہات کے رہنے والے تھے، لہذا اپنی سادہ لوحی کے سبب انھوں نے سوال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کی اور آگے بڑھے اور عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ!
أَنَسِیتَ أَمْ قَصُرَتِ؟
یار سول اللہ ﷺ! کیا آپ بھول گے ہیں یا نماز آدھی کر دی گئی ہے؟
آقا علیہ السلام نے صحابہ سے پوچھا:
أَکَمَا یَقُولُ ذُو الْیَدَیْن؟ فَقَالُوا نَعَم.
کیا اِسی طرح ہوا ہے جیسے ذوالیدین کہہ رہا ہے؟
صحابہ نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
لَمْ أَنْسَ وَ لَمْ تُقْصَرْ.
نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز چھوٹی کی گئی ہے۔
آقا علیہ السلام نے پھر دو رکعتیں بقایا پڑھائیں اور سجدہ سہو کیا۔
(بخاری، الصحیح، باب: من یکبرفی سجدۃ السهو، 1: 182، الرقم: 468)
غور طلب بات یہ ہے کہ دو رکعتیں بھی پڑھائیں، سجدہ سہو بھی کیا مگر یہ بھی فرمایا کہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز چھوٹی ہوئی ہے۔
اِس کی وضاحت امام مالکؒ نے موطا میں ایک اور حدیث کے ذریعے دی ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
انی لأنسی أو أنسی لأسن.
(موطا مالک، 1: 100، الرقم: 225)
جب دیکھتے ہو کہ میں بھولا ہوں تو یاد رکھ لو کہ میں بھلایا گیا ہوں اور میں بھلایا اِس لیے جاتا ہوں تاکہ میرا ہر فعل تمہارے لیے سنت بن جائے۔
یعنی اگر میں اس طرح نہ کروں گا تو کل جب تم نماز میں بھولو گے تو کیا کرو گے؟ میں تمھیں اس امر پر تعلیم دینے کے لیے کہ اگر نماز میں بھول جاؤ تو کیا کرنا ہے؟ بھول کر سجدہ سہو کرکے دکھا رہا ہوں کہ اگر کوئی میرا اُمتی بھول جائے تو ایسے کرنا ہے۔ گویا آپ ﷺ نے واضح فرمادیا کہ اگر بھول بھی ہوتی ہے تویہ سنت بنانے کے لیے ہوتی ہے۔ اس حدیث مبارک سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ میں اگر بشری صفت کا ظہور ہوتا تھا تو اُمت کے لیے ہوتا تھا، آقا علیہ السلام اُس کے محتاج نہ تھے اور یہ آقا علیہ السلام کی کمزوری نہ تھی۔
حاصلِ کلام
آقا علیہ السلام کی سیرت اور اَخلاق سے ساری بشری کمزوریاں نکال دی گئیں تھیں اور اُن پر اللہ کا رنگ چڑھ گیا تھا۔ اِس لیے اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کو سر تا پا انسانیت اور ساری کائنات کے لیے رحمت بنا دیا تھا۔ آپ ﷺ بلا تفریق مذہب و رنگ و نسل ہر ایک کا بھلا چاہنے والے تھے۔
مکی زندگی میں آپ ﷺ پر ظلم و ستم کے کون کون سے پہاڑ نہیں ڈھائے گئے، طائف و احد میں پیش آنے والے واقعات سے کون آگاہ نہیں کہ جسمِ اقدس لہولہان ہوجاتا ہے، مگر ان کفار و مشرکین کے لیے زبان اقدس پر پھر بھی ہدایت طلبی کی دعا ہے۔ مکہ کے مشرکین و کفار نے حضور نبی اکرم ﷺ پر کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے۔ آپ ﷺ کا تلواروں سے محاصرہ کیا تھا، آپ کو شہید کرنا چاہتے تھے، آپ کی دعوت کو رد کر دیا تھا، صحابہ کو قتل کرتے تھے، اذیت دیتے تھے، ہجرت پر مجبور کردیا اور پھر اس پر بس نہیں کی بلکہ ہر سال مدینہ پر حملہ کرتے، غزوات و سرایا کی ایک تفصیل ہے۔ الغرض آپ کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا اور ہر وقت آپ کو پریشان رکھا مگر اس کے باوجود آقا علیہ السلام کے حلم، بردباری، عفو ودرگزر اور اَخلاق میں رحمت کمال پر نظر آتی ہے اور ایسا ہونا عام بشری خصائص میں ممکن ہی نہیں ہے۔
طائف کے میدان میں جب آپ کو لہولہان کردیا جاتا ہے تو اس وقت بھی آپ اہلِ طائف کے لیے بددعا نہیں فرماتے بلکہ ان کے لیے ہدایت کی دعا فرماتے ہیں اور ان کی آئندہ نسلوں میں ایمان و اسلام قبول کرنے کی امید پر اُن کی بربادی کے لیے دعا نہیں فرماتے۔۔۔ اسی طرح اُحد کے میدان کو دیکھیں، جب آقا علیہ السلام پر پتھر لگے، تلواریں لگیں، آپ کا چہرہ مبارک زخمی ہوگیا۔ دندان مبارک شہید ہوگئے، آپ گر گئے، لوگوں نے سمجھا کہ شہید ہوگئے، میدانِ احد میں حضور نبی اکرم ﷺ کی کیفیت دیکھ کر صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! اِنہیں بد دعا دیں۔ صحابہ کا ایمان تھا کہ اگر آپ ﷺ نے ہاتھ اُٹھا دئیے تو آپ ﷺ کی بددعا سے سارے کفار ختم ہو جائیں گے۔ آقا علیہ السلام نے ہاتھ اُٹھائے لیکن فرمایا:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي و فی روایة اھد قومي فَإِنَّهُمْ لَا یَعْلَمُونَ..
(بخاری، الصحیح، 3: 1282، الرقم: 3290)، (المقدسی، الاحادیث المختارۃ، 10: 14)
اے اللہ! میری قوم کو معاف کر دے۔ دوسری روایت میں ہے کہ میری قوم کو ہدایت دے، بے شک انھیں سمجھ نہیں ہے۔
آپ ﷺ کی رحمت اور اخلاقِ کریمانہ کی ایک جھلک فتح مکہ کے موقع پر بھی نظر آتی ہے کہ جب فتح مکہ کے لیے آقا علیہ السلام دس ہزار افراد پر مشتمل فوج لے کر داخل ہوئے تو کفار کے سر جھک گئے۔ ہر شخص سمجھ رہا تھا اب ہمارے سر کٹ جائیں گے، ہم آج تک جو کرتے رہے، آج ہمارے 21 سال کے ظلم کا بدلہ لیا جائے گا۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے کفار مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
یَا معْشَر قُرَیْشٍ، مَا تروْنَ أَنِّی فَاعِلٌ فیِکُمْ؟
(عسقلانی، فتح الباری، 8: 18، الرقم: 4038)
اے قریشیو! بتاؤ تم کیا سوچ رہے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟
قَالُوا: خَیْرًا أَخٌ کَرِیمٌ وَابْنُ أخٍ کَرِیمٍ.
ہم توقع کر رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے، اچھے ہیں اچھوں کی اولاد ہیں، اور آپ کریم بھائی ہیں۔
اِس پر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
اذْهَبُوا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاء..
تم سب کو آزاد کیا جاتا ہے۔
اِتنا وسیع ظرف یقیناً بشری اور اِنسانی ظرف نہیں ہے بلکہ یہ اُلوہی ظرف ہے۔ جس طرح کئی لوگ خدا کے وجود کو مانتے بھی نہیں مگر اللہ اُن کو بھی رزق دیتا ہے۔ کفار و مشرکین شرک کرتے ہیں بتوں کو پوجتے ہیں، اللہ کو گالی دیتے ہیں پھر بھی اللہ ان کو رزق دیتا ہے۔۔۔ وہ بیمار ہوں تو ان کو شفا دیتا ہے۔ اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ کی جملہ صفات پر چونکہ الوہی رنگ چڑھ گیا تھا، لہذا یہ کرم اور عفو و درگزر کی یہ صفت حضور نبی اکرم ﷺ کے اندر بھی بدرجہ اتم موجود تھی۔