الفقہ: مسائل حج اور قربانی
مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی
سوال: حج کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں آگاہ فرمائیں؟
حج اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ یہ ہر اس شخص پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو صاحب استطاعت ہو۔ حج، اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ایک ایسا رکن ہے جو اجتماعیت اور اتحاد و یگانگت کا آئینہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَ لِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلاً.
(آل عمران: 97)
''اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔''
حج کرنے والے کے لئے جنت ہے۔ حجاج کرام خدا کے مہمان ہوتے ہیں اور ان کی دعا قبولیت سے سرفراز ہوتی ہے۔ یہ نفوس ہر قسم کی برائی کا خاتمہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے نیکیوں کے حصول کی جانب ایک نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص زندگی میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرے تو وہ رب کائنات کی رحمتوں سے نہ صرف محروم ہوجاتا ہے بلکہ ہدایت کے راستے بھی اس کے لئے مسدود ہوجاتے ہیں۔ احادیث مبارکہ میں حج کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے:
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلْعُمْرَةُ إِلَی الْعُمْرَةِ کَفَّارَةٌ لِمَا بَیْنَھُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلاَّ الْجَنَّةُ.
(البخاری فی الصحیح، ابواب العمرة، 2: 629، رقم: 1683)
’’ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کا درمیانی عرصہ گناہوں کا کفارہ ہے، اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ جنت ہی ہے۔‘‘
2۔ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ کرم سے نکال دیتا ہے۔ حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ لَمْ یَمْنَعْهُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ أَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ، فَمَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَآءَ یَھُوْدِیًّا وَإِنْ شَآءَ نَصْرَانِیًّا.
’’ جس شخص کو فریضۂ حج کی ادائیگی میں کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا روکنے والی بیماری (یعنی سخت مرض) نہ روکے اور وہ پھر (بھی) حج نہ کرے اور (فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر ہی) مر جائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر (اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے)۔‘‘
(الترمذی فی السنن، باب ماجاء فی التغلیظ فی ترک الحج، 3/ 176، رقم: 812)
3۔ اس عظیم سعادت کو حاصل کرنے والے کو بخشش کی نوید سناتے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلْحُجَّاجُ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ اللهِ. إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَھُمْ، وَإِنِ اسْتَغْفَرُوْهُ غَفَرَ لَھُمْ.
’’ حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخش دیتا ہے۔ (ایک روایت میں) جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا (کے الفاظ بھی ہیں)۔‘‘
(ابن ماجہ فی السنن، باب فضل دعاء الحج، 2/9، رقم: 2892)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حجاج کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ دَخَلَ الْبَیْتَ دَخَلَ فِي حَسَنَةٍ وَخَرَجَ مِنْ سَیِّئَةٍ مَغْفُوْرًا لَهُ.
(ابن خزیمہ فی الصحیح، 4/332، رقم: 3013)
’’ جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوگیا وہ نیکی میں داخل ہوگیا اور برائی سے خارج ہو کر مغفرت پا گیا۔‘‘
سوال : کیا عازمینِ حج حرم کے علاوہ اپنے وطن میں بھی قربانی کریں گے؟
جواب: حج کی تین اقسام ہیں:
- حجِ قِران
- حجِ تَمتُّع
- حجِ اِفراد
حجِ قران:
حجِ قران اس طریقۂ حج کو کہتے ہیں جس میں احرام باندھتے ہوئے حج اور عمرہ دونوں کی نیت کر لی جائے کہ حج اور عمرہ ایک ہی احرام میں ادا کیے جائیں گے۔ عازمِ حج مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ کرتا ہے پھر اسی احرام میں اسے حج ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس دوران احرام میلا یا ناپاک ہونے کی صورت میں تبدیل تو ہو سکتا ہے مگر اس کی جملہ پابندیاں برقرار رہیں گی۔ حج اور عمرہ جمع کر کے ایک ہی احرام میں ادا کرنے کے سبب اسے حجِ قران کہتے ہیں اور اس کی ادائیگی کرنے والا حاجی قارن کہلاتا ہے۔
حجِ تمتع:
وہ طریقۂ حج جس میں حج اور عمرہ الگ الگ ادا کیا جاتا ہے اور اس صورت میں عمرہ ادا کرنے کے بعد عازمِ حج حلق و قصر کراکر احرام کھول دے گا۔ اس طرح اس پر آٹھ ذوالحجہ یعنی حج کے ارادے سے احرام باندھنے تک احرام کی پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ آٹھ ذوالحجہ سے حج کے لئے دوسرا احرام باندھنا پڑتا ہے۔ یہ حج صرف میقات کے باہر سے آنے والے ہی ادا کر سکتے ہیں۔ حجِ تمتع کرنے والا حاجی مُتَمَتِّع کہلاتا ہے۔
حج افراد:
حجِ افراد اس طریقۂ حج کو کہتے ہیں جس میں صرف حج کا احرام باندھا جاتا ہے۔ عازمِ حج اس میں عمرہ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف حج ہی کر سکتا ہے۔ احرام باندھنے سے حج کے اختتام تک عازمِ حج کو مسلسل احرام کی شرائط کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔ حج افراد کرنے والے حاجی کو مفرد کہتے ہیں۔
اس ابتداء کے بعد اب سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں:
حجِ تمتع اور حجِ قران ادا کرنے والے پر استطاعت کی صورت میں قربانی (ہدی) واجب ہے اور حج افراد کرنے والے کے لیے مستحب ہے۔ قارن یا مُتَمَتِّع اگر استطاعت نہ ہونے کے سبب جانور ذبح نہ کر سکے تو پھر روزے رکھے گا، جن کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان فرمائی ہے کہ:
فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُواْ اللهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ.
(البقرة، 2: 196)
پھر جو کوئی عمرہ کو حج کے ساتھ ملانے کا فائدہ اٹھائے تو جو بھی قربانی میّسر آئے (کر دے)، پھر جسے یہ بھی میّسر نہ ہو وہ تین دن کے روزے (زمانۂ) حج میں رکھے اور سات جب تم حج سے واپس لوٹو، یہ پورے دس (روزے) ہوئے، یہ (رعایت) اس کے لئے ہے جس کے اہل و عیال مسجدِ حرام کے پاس نہ رہتے ہوں (یعنی جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو)، اور الله سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ الله سخت عذاب دینے والا ہے۔
قارن اور متمتع کی یہ قربانی ’دمِ شکر‘ کہلاتی ہے اور ایامِ نحر (10، 11 اور 12 ذوالحجہ) کو حلق یا قصر سے پہلے منیٰ یا حدود حرم میں یہ قربانی کرنا واجب ہے، جبکہ مفرد کے لیے دمِ شکر مستحب ہے‘ واجب نہیں۔
قربانی کی دوسری صورت وہ ہے جسے عرفِ عام میں بقر عید کی قربانی کہا جاتا ہے جو ہر صاحبِ استطاعت و مقیم پر واجب ہوتی ہے‘ خواہ وہ حج کرنے جائے یا نہ جائے۔ اس کے وجوب کے لیے کسی بھی مسلمان کا مقیم اور صاحبِ استطاعت ہونا شرط ہے۔ اگر حاجی مسافر ہے یعنی مکہ میں اس کا قیام پندرہ دن سے کم ہے یا دمِ شکر کے علاوہ قربانی کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس پر دمِ شکر کے علاوہ قربانی واجب نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس اگر حاجی صاحبِ استطاعت ہے اور ایامِ قربانی کے دوران مکہ مکرمہ میں مقیم ہے‘ یعنی مکہ مکرمہ میں اس کا قیام پندرہ دن ہے یا مکہ میں ہی مستقل رہائش پذیر ہے تو اس پر جانور قربان کرنا واجب ہے۔ اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ یہ دوسری قربانی چاہے تو مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں ذبح کرلے، چاہے اپنے وطن میں قربانی کی رقم بھیج دے یا وطن میں کسی کو قربانی کرنے کا کہہ دے۔ اگرچہ منیٰ میں قربانی کرنے کا ثواب ساری دنیا کی تمام جگہوں سے زیادہ ہے، لیکن کسی بھی جگہ قربانی کرنے سے واجب ادا ہوجائے گا۔ امام کاسانی فرماتے ہیں:
وَذَكَرَ في الْأَصْلِ وقال وَلَا تَجِبُ الْأُضْحِيَّةُ على الْحَاجِّ وَأَرَادَ بِالْحَاجِّ الْمُسَافِرَ فَأَمَّا أَهْلُ مَكَّةَ فَتَجِبُ عليهم الْأُضْحِيَّةُ.
(الكاسانی، بدائع الصنائع، 5: 63)
الاصل میں ہے کہ حاجی پر (دمِ شکر کے علاوہ) قربانی واجب نہیں ہے۔ یہاں مراد مسافر حاجی ہے جبکہ اہل مکہ حج کریں تو اُن پر قربانی واجب ہو گی۔
اور امام محمد بن علی بن محمد حصکفی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
(عَلَى حُرٍّ مُسْلِمٍ مُقِيمٍ) بِمِصْرٍ أَوْ قَرْيَةٍ أَوْ بَادِيَةٍ، فَلَا تَجِبُ عَلَى حَاجٍّ مُسَافِرٍ؛ فَأَمَّا أَهْلُ مَكَّةَ فَتَلْزَمُهُمْ وَإِنْ حَجُّوا.
(حصكفي، الدرالمختار، 6: 315)
(عمومی قربانی واجب ہے) آزاد مسلمان مقیم پر جو شہر، دیہات یا جنگل میں مقیم ہو۔ یہ مسافر حاجی پر واجب نہیں ہے، جہاں تک اہل مکہ کا تعلق ہے تو ان پر (مقیم ہونے کے سبب صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں) قربانی واجب ہو گی اگرچہ وہ حج کریں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ حجِ قران کرنے والے اور حجِ تمتع کرنے والے پر صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں صرف پہلی قسم کی قربانی یعنی دمِ شکر لازم ہے اور مقیم و صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں دونوں قسم کی قربانیاں یعنی دمِ شکر کے علاوہ بقر عید کی قربانی بھی لازم ہو گی۔ استطاعت نہ ہونے کی صورت میں قارن یا متمتع دس روزے رکھے گا جن کی ترتیب اوپر بیان کر دی گئی ہے۔ حجِ افراد کرنے والے پر دمِ شکر نہیں ہے البتہ اس کے مقیم اور صاحبِ استطاعت ہونے کی صورت میں صرف بقر عید کی قربانی واجب ہوگی، اور اگر مقیم نہ ہو یا حج کے ضروری اخراجات کے علاوہ جانور خریدنے کی استطاعت نہ ہو تو اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہوگا۔
سوال: کیا حج سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں؟
جواب: متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من حج هذا البيت، فلم يرفت، ولم يفسق، رجع کما ولدته امه.
(بخاری، الصحيح، 2: 645، رقم : 1723)
’’ جس نے اس گھر (کعبہ) کا حج کیا اور وہ نہ تو عورت کے قریب گیا اور نہ ہی کوئی گناہ کیا تو (تمام گناہوں سے پاک ہو کر) اس طرح واپس لوٹا جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔‘‘
وہ متعدد احادیث مبارکہ ہیں جن میں اسی طرح کا مضمون بیان ہوا ہے، شارحین حدیث نے اس حوالے سے مختلف آراء پیش کی ہیں:
1۔ حج کرنے سے صرف گناهِ صغیرہ معاف ہوتے ہیں۔
2۔ صغیرہ، کبیرہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں جو حقوق اللہ میں آتے ہیں، لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے ہیں۔
3۔ تیسری رائے یہ ملتی ہے کہ حقوق اللہ، حقوق العباد اور صغیرہ وکبیرہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
بہرحال ہمیں اس بحث ومباحثہ میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس کو بھی حج وعمرہ کی سعادت نصیب ہو، اسے صدق دل سے اور خلوصِ نیت کے ساتھ اس عمل کو اچھی طرح سرانجام دینا چاہیے۔ باقی معاملہ اللہ تعالی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کی مرضی جتنا اجر دے۔ یہ تو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایک شخص گنہگار وسیاہکار ہو، وہ صدقِ دل سے اللہ تعالی سے توبہ کرے تو اللہ تعالی توبہ قبول فرمانے والا ہے، وہ اس کو معاف فرمائے گا۔ اللہ تعالی تو نیتوں کے بھید جانتا ہے۔ صدقِ دل اور خلوصِ نیت ہو تو بعید نہیں کہ سب کے سب گناہ معاف ہو جائیں۔ اگر کوئی ہو ہی ظلم کرنے والا، ڈاکو، قاتل اور دھوکہ باز اور وہ حج بھی اسی نیت سے کرے کہ لوگ اس کو نیک سمجھیں اور اس کے فریب میں آتے رہیں تو ایسے حج وعمرہ، نماز، روزہ وغیرہ اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہوں گے۔
سوال: قربانی کی فضیلت بیان فرمائیں؟
لغت میں قربانی کا مفہوم بیان کیا گیا ہے کہ
القربان مایتقرب به الی الله و صارفی التعارف اسماً للنسیکة التی ھی الذبیحة.
(المفردات للراغب، ص: 408)
’’قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، اصطلاح شرع میں یہ قربانی جانور ذبح کرنے کا نام ہے۔‘‘
ارشاد فرمایا:
وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوْ اسْمَ اللّٰهِ عَلٰی مَارَزَقَھُمُ اللّٰهُ مِنْ م بٰھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ.
(الحج، 22: 34)
’’اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں، اس کے دیئے ہوئے بے زبان چوپائیوں پر۔‘‘
احادیث مبارکہ میں بھی قربانی کی فضیلت کو واضح کیا گیا ہے:
1۔ امام ترمذی وابن ماجہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ مٰنی اِھْرَاقِ الدَّم ِواِنَّہ، لَیَاْتِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاشعارِھَا وَاَظْلاَفِھَا وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰهِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ بِالْاَرْضِ فَطِیْبُوْا بِھَا نَفْسًا.
(مشکوٰۃ، ص: 128، باب الاضحیه)
’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔‘‘
2۔ حضور ﷺ قربانی کرتے وقت دعا فرماتے:
بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ.
(مشکوۃ، ص: 127)
’’الہی محمد ﷺ، آپ کی آل اور آپ کی امت کی طرف سے قبول فرما۔‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ
اَللّٰھُمَّ ھٰذَا عَنِّیْ وَعَمَّنْ لَّمْ یُضَحِّ مِن اُمَّتِیْ.
(مشکوۃ، ص: 128)
’’الہی یہ میری طرف سے اور میرے ان امتیوں کی طرف سے قبول فرما جو قربانی نہیں کرسکے۔‘‘
3۔ آقائے کریم ﷺ نے قربانی کے جانوروں کو لٹا کر یہ پڑھا:
اِنِّی وجَّھْتُ وَجَھْیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوْاتِ وَالْاَرْضَ عَلٰی مِلَّۃِ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لاَ شَرِیْکَ لَہ، وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّاُمّتِہٖ بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَکْبَرُ.
(احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ دارمی، مشکوٰۃ، ص: 128)
’’بے شک میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ملت ابراہیم پر یکسو ہوکر اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔ بے شک میری نماز اور قربانی میری زندگی اور موت اللہ پروردگار عالمیاں کے لئے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ الہی تجھ سے اور تیرے لئے محمد ﷺ اور ان کی امت کی طرف سے اللہ کے نام سے اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ پھر ذبح فرمایا۔‘‘
4۔ احنش کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے دیکھا، میں نے پوچھا یہ کیا؟ فرمایا:
اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ ﷺ اَوْصَانِیْ اَنْ اُضَحِّی عَنْهُ. فَاَنَا اُضَحِّ عَنْهُ.
(ابوداؤد، ترمذی وغیرہ، مشکوۃ، ص: 128)
’’رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس بات کی وصیت فرمائی تھی کہ میں حضور کی طرف سے قربانی کروں۔سو میں سرکار کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں۔‘‘
سبحان اللہ! کیسے سعادت مند ہیں وہ اہل خیر، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، رسول اکرم ﷺ کی طرف سے آج بھی عمدہ قربانی دیتے ہیں۔ یقیناً آقا ﷺ کی روح خوش ہوگی اور یقینا اس کے طفیل ان کی اپنی قربانی بھی شرف قبولیت پائے گی۔
5۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ، یَارَسُوْلَ اللّٰهِ مَاھٰذِهِ الْاَضَاحِیْ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ عِلیہ السَّلاَمُ قَالُوْا فَمَالَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰهِ بِکُلِّ شَعْرَةٍ مِّنَالصُّوْفِ حَسَنَةٌ.
(احمد، ابن ماجہ، مشکوۃ)
’’رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ ہمارے لئے ان میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی۔ عرض کی: یارسول اللہ! اون کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا اون کے ہر بال بدلے نیکی ہے۔‘‘
6۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اُمِرْتُ بِیَوْمِ الْاَضْحٰی عِیْداً حَوَلَهُ اللّٰہ لِھٰذِهِ الْاُمَّۃ، قَالَ لَہ، رَجُلٌ یَارَسُوْلَ اللّٰهِ، اَرَاَیْتَ اِنْ لَّمْ اَجِدْ اِلاَّ مَنْیِحَۃَ اُنْثٰی اَفَاضَحِیّ بِھَا قَالَ لاَ وَلٰکِنْ خُدْ مِنْ شَعْرِکَ وَاَظْفَارِکَ وَتَقُصَّ شَارِبَکَ وَتَحَلْقَ عَانَنَکَ فَذٰلِکَ تَمَامُ اُضْحِبْتُکَ عِنْدَاللّٰهِ.
(ابوداؤد، نسائی، مشکوۃ، ص: 129)
’’حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے قربانی کے دن عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے مقرر کی ہے۔ ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ! یہ بتائیں کہ اگر میرے پاس منیجہ مؤنث (وہ جانور جو کوئی شخص دوسرے کو دودھ، اون وغیرہ کا فائدہ اٹھانے کے لئے کچھ عرصہ کے لئے دے، بعد میں واپس کرلے) کے سوا کچھ نہ ہو، کیا اسی کی قربانی کردوں؟ فرمایا نہیں، تم اپنے بال اور ناخن تراشواؤ، مونچھیں ترشواؤ (نہ کہ مونڈھواؤ) زیر ناف بال مونڈھو۔ اللہ کے ہاں تمہاری یہی مکمل قربانی ہے۔‘‘
آپ نے قربانی کا مفہوم کتنا عام فرمادیا کہ اہل ثروت بھی عمل کرسکیں اور عام مفلس مسلمان بھی۔ خیروبرکت کا دریا بہہ رہا ہے، کہ ہر پیاسا سیراب ہو۔
سوال: قربانی کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: اگر شرعِ متین میں بیان کردہ قربانی کی تمام شرائط کسی شخص کے ہاں موجود ہوں، تو اس پر قربانی واجب ہے اور اگر ان میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تو اس صورت میں قربانی واجب نہیں بلکہ سنت و نفل ہوگی۔ وہ شرائط درج ذیل ہیں:
1۔ مسلمان ہونا: چنانچہ غیرمسلم پر قربانی واجب نہیں۔
2۔ مقیم ہونا: چنانچہ مسافر پر قربانی واجب نہیں۔ شرعاً مسافر وہ شخص ہے جو اپنے شہر کی حدود سے تقریباً 48 میل (تقریباً 78 کلو میٹر) دور جانے کے ارادے سے نکلا ہو، یا 48 میل (تقریباً 78 کلومیٹر) دور کسی مقام پر پہنچ چکا ہو اور اس نے پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کی ہو یا اگر پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو یہ شخص کہیں آنے جانے میں اپنی مرضی کا مالک نہ ہو بلکہ کسی دوسرے شخص کی مرضی کے تابع ہو، جیسے بیوی شوہر کے تابع ہے یا نوکر اپنے مالک کے حکم کے تابع ہے اور جس کے تابع ہیں، اس نے پندرہ دن سے کم کی نیت کی ہے۔
3۔ مالک نصاب ہونا: اس سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا تجارت کا مال یا اتنی مالیت کا ضروریاتِ زندگی سے زائد سامان ہو اور اس پر اتنا قرضہ نہ ہو کہ جسے ادا کرنے سے مذکورہ نصاب باقی نہ رہے۔
4۔ بالغ ہونا: چنانچہ نابالغ پر قربانی واجب نہیں۔ نابالغ شخص صاحبِ نصاب ہی کیوں نہ ہو، اس پر قربانی واجب نہیں۔
قربانی کا وجوب قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ.
(الْکَوْثَر، 108: 2)
پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکرّ ہے)۔
درج بالا آیتِ مبارکہ میں اِنْحَرْ صیغہ امر ہے اور عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب امر کو مطلق ذکر کیا جائے تو اس سے وجوب مراد ہوتا ہے۔ لہٰذا اس آیت سے قربانی کا واجب و ضروری ہونا ثابت ہوتا ہے۔حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عرفہ میں رسول الله ﷺ کے پاس کھڑے تھے، آپ نے فرمایا:
اَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ عَلٰى كُلِّ اَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ اُضْحِيَّةً.
(احمد بن حنبل، مسند احمد، 4: 215)
’اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر ایک قربانی واجب ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَ له سعة فلم يضح، فلا يقربن مصلانا.
(ابن ماجہ، رقم الحديث: 3123)
’’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘
مذکورہ احادیث میں رسول الله ﷺ نے قربانی کرنے کا حکم فرمایا اور قربانی نہ کرنے والوں پر اظہارِ ناراضگی فرمایا ہے۔ ناراضگی کا اظہار اسی مقام پر ہوتا ہے جہاں کوئی چیز واجب و ضروری ہو۔
سوال : قربانی کے وجوب کیلئے کتنا مال ہونا شرط ہے؟
جواب: جن فقہاء کرام کی رائے کے مطابق وسعت و آسانی رکھنے والے شخص پر قربانی واجب ہوتی ہے، ہماری رائے بھی انہی کے مطابق ہے۔ ضروریاتِ اصلیہ کے علاوہ وسعت وآسانی رکھنے والے شخص پر قربانی واجب ہوتی ہے یعنی جس کے پاس گھریلو ضروریات کے علاوہ اس قدر مال موجود ہو کہ وہ قربانی کا جانور خرید سکے تو اس پر قربانی واجب ہے۔ علامہ علاء الدین حصکفی کسی شخص پر قربانی واجب ہونے کی تین شرائط لکھتے ہیں:
الْإِسْلَامُ وَالْإِقَامَةُ وَالْيَسَارُ الَّذِي يَتَعَلَّقُ بِهِ وُجُوبُ صَدَقَةِ الْفِطْرِ.
(حصكفي، الدرالمختار، باب جناية البهيمة، 6: 312)
مسلمان ہونا، مقیم ہونا اور ایسی خوشحالی ہونا جس کے ساتھ صدقہ فطر کا وجوب متعلق ہوگا۔
علامہ شامی خوشحالی کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’اس کی یہ صورت ہے کہ وہ دو سو درہم کا مالک ہو یا ایسے سامان کا مالک ہو جو اس کے دو سو درہم کے مساوی ہو۔ یہ اس کی رہائش، لباس کے کپڑے، یا اس سامان کے علاوہ ہو جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس کی جائیداد ہو جس سے منافع حاصل کرتا ہے تو ایک قول یہ کیا گیا ہے: اس پر قربانی لازم ہوگی، اگر اس منافع کی قیمت نصاب تک پہنچتی ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے: اگر اس جائیداد سے سال بھر کی خوراک حاصل ہوتی ہو تو قربانی لازم ہو گی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے: اگر ماہ بھر کی خوراک حاصل ہوتی ہو تو قربانی لازم ہو گی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے: جب نصاب بھر مال بچ جائے تب قربانی لازم ہو گی۔ اگر جائیداد وقف ہو، اگر قربانی کے دنوں میں نصاب ثابت ہو تو قربانی لازم ہو گی۔‘‘
(ابن عابدين شامي، رد المحتار، كتاب الأضحية، 6: 312)
امام ابن نجیم فرماتے ہیں:
وَلَوْ كَانَ لَهُ أَرْضٌ يَدْخُلُ عَلَيْهِ مِنْهَا قُوتُ السَّنَةِ فَعَلَيْهِ الْأُضْحِيَّةُ حَيْثُ كَانَ الْقُوتُ يَكْفِيهِ وَيَكْفِي عِيَالَهُ، وَإِنْ كَانَ لَا يَكْفِيهِ فَهُوَ مُعْسِرٌ.
(ابن نجيم، البحر الرائق، كتاب الأضحية، 8: 198)
اگر کسی کے پاس ایسی زمین ہو جس سے اس کو ایک سال کا پورا خرچ حاصل ہوتا ہو، اس پر قربانی واجب ہے۔ اگر یہ خرچ اس کے اور اس کے اہل وعیال کے لیے کافی ہو اور اگر کافی نہ ہو تو وہ تنگدست ہے۔
مذکورہ بالا تصریحات کے مطابق جس زمین سے سال بھر یا مہینے کی خوراک حاصل ہوتی ہے، اس زمین کے مالک پر قربانی لازم ہے۔ ایسے شخص کے پاس اگر ان دو پلاٹوں کے علاوہ ایام قربانی میں جانور خریدنے کے لیے مال نہ ہو تو قربانی واجب نہ ہوگی۔ محض قربانی کا جانور خریدنے کے لیے پلاٹ فروخت کرنا لازم نہیں ہے۔
سوال: کیا صاحبِ نصاب کے لیے عید قربان پر جانور ذبح کرنا ضروری ہے؟ کیا قربانی کی رقم نقد بطور صدقہ کسی کو دی جاسکتی ہے؟
جواب: صاحبِ نصاب مسلمان مرد و عورت پر ایام النحر (10 ذوالحجہ کے طلوعِ صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک) میں جانور قربان کرنا واجب ہے۔ قربانی کی قیمت صدقہ کرنے سے واجب ادا نہیں ہوتا۔ اس دن کا صدقہ یہ ہے کہ جانور ذبح کر کے اس کا گوشت صدقہ دیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا أُنْفَقَتِ الْوَرِقُ فِى شَىْءٍ أَفْضَلَ مِنْ نَحِيرَةٍ فِى يَوْمِ عِيدٍ.
(طبراني، المعجم الكبير، 4: 83، رقم: 1493)
کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے افضل نہیں۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ.
(ترمذي، السنن، 4: 83، رقم: 1493)
اس دن میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے جانور کا)خون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کا کوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے۔
جس شخص کے ذمہ قربانی واجب تھی لیکن کسی وجہ سے ایام النحر میں اس نے قربانی نہیں کی تو اس کے بعد قربانی کی نیت سے جانور ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس شخص کو توبہ و اِستغفار کرنی چاہئے اور قربانی کے جانور کی مالیت کے برابر صدقہ خیرات کر دینا چاہیے۔