مقصدِ حیات اور حقیقتِ دنیا

عبدالستار منہاجین

زندگی کو کامیاب بنانے کیلئے سب سے پہلے زندگی کا مقصد جاننا بہت ضروری ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی زندگی میں کامیابی کیلئے اپنا کوئی مقصد طے کرتا ہے اور پھر اُسے حاصل کرنے کیلئے کوشش کرتا ہے۔ کسی کا مقصد ڈھیر سارا پیسہ کمانا ہے اور کوئی کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچنا چاہتا ہے، الغرض ہر ایک کے دل میں بہت سے خواب سمائے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اِنسان کو اِس سیارے پر اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر اُتارا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کی زندگی کا مقصد کیا طے کیا ہے! سب سے پہلی بات یہ ذہن نشین کر لیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو کسی جرم کی سزا کے طور پر جنت سے نہیں نکالا تھا، بلکہ آدم و حوا کا زمین پر آنا اللہ تعالیٰ کے قدیم منصوبے کا ایک حصہ تھا، ورنہ اُنہیں اِتنے اِعزاز و اِکرام کے ساتھ اپنا خلیفہ ہونے کا ٹائٹل دے کر نہ بھیجا ہوتا اور اَشرف المخلوقات قرار نہ دیا ہوتا۔

اِنسانی تخلیق اور خلافتِ ارضی کا بنیادی مقصد اِنسان کی آزمائش ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ الملک کی آیت 2 میں ارشاد فرمایا:

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا.

’’جس نے موت اور زندگی کو (اِس لئے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے۔‘‘

جو اِنسان اِس آزمائش پر پورا اُترنے کی بجائے اپنی مرضی سے اپنی زندگی کا کوئی نیا مقصد طے کر لیتے ہیں اور اللہ ربّ العزت کے طے کردہ مقصد کو مدِنظر رکھنے کی بجائے زمین سے واپسی (یعنی موت اور آخرت) کو بھول جاتے ہیں اور اِسی دُنیاوی زندگی کو سب کچھ سمجھ کر ہمیشہ یہیں رہنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، اُن کا انجام بربادی ہے۔ چنانچہ ہمیں چاہیئے کہ ہم اللہ ربّ العزت کی رضا اور خوشنودی کو اپنی زندگی کا پہلا مقصد بنائیں اور ہمیشہ ایسے لوگوں کی صحبت اور سنگت اختیار کریں جو اللہ کی رضا کے طالب ہوں۔ اللہ تعالی نے قرآنِ مجید (الکہف، 18: 28) میں ہمیں واضح الفاظ میں حکم فرمایا ہے کہ ہم اپنی زندگی کا مقصد پانے کے لیے نیک لوگوں کی صحبت و سنگت اِختیار کریں اور اِس زمینی دُنیا کی خوبصورتی میں کھو کر یہیں کے ہو کر رہ جانے والے لوگوں کے ساتھ دوستی نہ لگائیں۔

جب ہماری زندگی کا اصل مقصد اللہ ربّ العزت کی رضا اور خوشنودی ہے تو ہمیں چاہیئے کہ لوگوں کی خوشی پر ہمیشہ اللہ کی خوشی کو ترجیح دیں۔ البتہ دُوسروں کو کسی دُنیاوی مفاد کی بجائے اگر صرف اِس نیت سے خوش کریں کہ اِس نیک عمل سے اللہ اور اُس کا رسول ﷺ خوش ہوتے ہیں تو اِس نیت سے یہ بھی کارِ ثواب ہے۔ اپنے دل و دماغ میں اِس بات کو پختہ کر لیں کہ ہر وہ عمل جو دُوسروں کیلئے سہولت اور آسانی کا باعث بنے، وہ نیکی ہے اور ہر وہ عمل جس سے دُوسروں کو کسی قسم کی تکلیف پہنچے، وہ گناہ ہے۔

ہمیں چاہیئے کہ ہم اِس زمینی دنیا میں کھو کر اپنی پیدائش کے مقصد کو نہ بھولیں۔ جو اِنسان اپنی تخلیق کے مقصد، زمین سے واپسی اور آخرت کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور اِس دُنیاوی زندگی کو عارضی اور فانی سمجھتے ہیں، اللہ تعالی پر اِیمان لاتے ہیں اور اُس کے رسول ﷺ کے لائے ہوئے دین کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہی کامیاب ہیں اور وہی بالآخر اِس سیارۂ زمین سے واپس جنت میں جانے میں کامیاب ہوں گے۔

موت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور موت ہی زندگی کی سب سے بڑی نعمت بھی ہے۔ اِنسانوں کو اِس زمین سے واپس جنت کی طرف لے کر جانے والا راستہ موت کے دروازے سے ہو کر گزرتا ہے۔ بہت سے سادہ لوح لوگ ایک طرف جنت کے طلبگار ہوتے ہیں جبکہ دُوسری طرف وہ موت سے خوف بھی کھاتے ہیں۔ چنانچہ موت سے ڈرنے کی بجائے ہمیں خود کو موت کیلئے تیار کرنا چاہیئے۔ اللہ ربّ العزت اور آخرت پر اِیمان رکھنے والا کوئی شخص موت سے نفرت نہیں کر سکتا۔ موت سے نفرت صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت پر اِیمان نہیں رکھتے اور صرف اِسی زمینی حیات کو ہی زندگی سمجھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اِنسانوں کی ہدایت کیلئے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو اِنسانیت کی طرف پیغامبر بنا کر بھیجا، جو اِنسانوں کو سیارۂ زمین سے جنت کی طرف واپسی کی یاد دلانے اور واپسی کا لائحہ عمل دینے کیلئے آتے رہے ہیں۔ اِس سلسلہ کے آخری رسول ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں اور اُن پر اُترنے والی کتاب قرآنِ مجید اِنسانیت کیلئے آخری منشور اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اِنسانیت کی نجات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے آخری اور حتمی ضابطۂ حیات ’’قرآنِ مجید‘‘ کو زندگی کا منشور بنانے میں ہے۔

یہ مادّی دُنیا ایک فریبِ نظر ہے

یاد رکھیں! اِس مادی دُنیا کی رنگینیاں سراسر ایک دھوکہ ہیں، کیونکہ حقیقت میں یہ کرۂ ارض ایسا خوبصورت نہیں ہے جیسا ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ ہمارا نفس اِسے بہت خوشنما بنا کر دکھاتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن ہماری رہنمائی یوں کرتا ہے:

وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا.

(الانعام، 6: 130)

’’اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا۔‘‘

بنی نوعِ انسان کے ازلی دُشمن اِبلیس (شیطان) کو جب جنت سے نکالا گیا تو اُس نے اللہ ربّ العزت کے سامنے پختہ عہد کیا تھا کہ وہ اِنسانوں کی نظر میں زمینی زندگی کو خوب آراستہ اور خوشنما بنا کر دکھائے گا تاکہ وہ جنت کی طرف واپسی کے سفر کو بھول جائیں او اِسی دُنیا کو حقیقی زندگی سمجھنے لگ جائیں۔ قرآن اس کے اس چیلنج کو یوں بیان کرتا ہے:

قَالَ رَبِّ بِمَآ أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ.

(الحجر، 15: 39)

’’ابلیس نے کہا: اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقیناً ان کے لئے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوش نما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔‘‘

نسلِ انسانی کی اکثریت شیطان اور اُس کے چیلوں کے مکر و فریب میں آ کر اِس حقیقت کو بھول بیٹھی ہے کہ کرۂ ارض پر اِنسانی زندگی کی حیثیت عارضی کھیل تماشے سے زیادہ کچھ نہیں۔ آخرت کے گھر (جنت کی دائمی زندگی) کو بھول کر اگر اِنسان اِسی دنیا کے کھیل تماشوں جیسی عارضی زندگی میں مگن رہنا چاہے تو وہ سراسر خسارے میں ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہیں اور اپنے دلوں میں اُس کا خوف رکھتے ہیں وہ زمینی زندگی کو فانی سمجھ کر ہر لمحہ واپسی کے سفر کیلئے تیار رہتے ہیں، اصل وہی کامیاب ہیں۔

مولانا رومؒ کا ایک مشہور قول ہے:

’’دُنیا کو دھوکے کا گھر اِس لئے کہا جاتا ہے کہ یہاں پر حقیقتیں اُلٹی نظر آتی ہیں۔‘‘

ہماری آنکھوں میں دیکھنے کی جو صلاحیت ہے، وہ ہمیں اِس زمینی دُنیا کو بہت خوشنما بنا کر دکھاتی ہے۔ اِس زمینی ماحول میں ہمارے اِردگرد ایسی بہت سی بدنما چیزیں بھی موجود ہیں کہ اگر ہم اپنے ماحول کو اُس کی اصلی حالت میں دیکھ لیں تو ہمیں اِس زمینی دُنیا سے کبھی محبت نہ ہوسکے، مگر ہم یہ صلاحیت نہیں رکھتے۔

ہماری آنکھیں اِس زمینی ماحول کی حقیقت کیوں نہیں دیکھ پاتیں، یہ جاننے کیلئے ہم چند مختلف پہلوؤں سے اس کا جائزہ لیتے ہیں:

(1) ناقابل دید برقی مقناطیسی لہریں (electromagnetic waves)

روشنی کی قابلِ دید شعائیں تقریباً تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سورج سے زمین کی طرف آتی ہیں، جن کی وجہ سے ہم دن کے وقت دیکھ پاتے ہیں۔ اِسی طرح بیرونی کائنات سے دیگر بے شمار قسم کی لہریں بھی ہماری زمین کی طرف آتی ہے۔ اُن میں سے کچھ زمین کے بالائی کرّوں میں فلٹر ہو جاتی ہیں، جو تھوڑی بہت زمین کی سطح تک پہنچتی ہیں اُنہیں بھی ہم دیکھ نہیں پاتے۔ (ملاحظہ کیجیئے: www.imagine.gsfc.nasa.gov)

اِنسانی آنکھ کو دکھائی دینے والی روشنی visible light کہلاتی ہے۔ یہ‏ الٹرا وائلٹ اور اِنفراریڈ کے درمیان پایا جانے والا بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔ ہماری آنکھ روشنی کی موجودگی میں صرف سات رنگوں کو دیکھ سکتی ہے۔ اُن سات فریکیوئنسیز (frequencies) کے علاوہ بھی ہمارے چاروں طرف بےشمار قسم کی ایسی فریکیوئنسیز موجود ہیں، جنہیں ہماری آنکھیں نہیں دیکھ پاتیں۔ (ملاحظہ کیجیئے: www.askabiologist.asu.edu) جیسا کہ:

  1. radio waves

  2. microwaves

  3. infrared

  4. ultraviolet

  5. x-rays

  6. gamma-rays

  • اگر ہم gamma-vision میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو ہمیں دُنیا ‏میں موجود ریڈی ایشن نظر آنا شروع ہو جائے گی۔
  • اگر ہم x-ray vision میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو ہمارے لئے موٹی سے موٹی دیواروں کے اندر دیکھنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی۔
  • اگر ہم ultraviolet-vision میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو ہم توانائی کے مختلف روپ دیکھنے کے قابل ہو جائیں گے۔
  • اگر ہم infrared-vision میں دیکھنا شروع کر دیں تو ہمیں مختلف اَجسام سے نکلنے والی حرارت نظر آنے لگے گی۔
  • اِسی طرح اگر ہم microwave-vision اور radio wave-vision کو بھی دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو ایک طرف تو ہم اُن نظاروں کی وجہ سے سپرپاور صلاحیتیں حاصل کر لیں گے، مگر دُوسری طرف موجودہ دُنیا کا سارا حسن خاک میں مل جائے گا۔

کسی قسم کی سائنسی تفصیلات میں جائے بغیر ہم صرف موبائل فون کے سگنلز پر ہی غور کر لیں کہ اگر ہماری آنکھیں اُنہیں دیکھنے کے قابل ہو جائیں تو ہمارے لئے جینا کس قدر دُشوار ہو کر رہ جائے گا! ہمارے اِردگرد ہر وقت ہزاروں قسم کے ناقابلِ دید سگنلز موجود ہوتے ہیں۔ اگر ہماری آنکھیں اُن سگنلز کو دیکھنے کے قابل ہوجائیں تو یہ دُنیا ہمارے رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔ اندازہ کریں کہ جب ہمیں اپنے ہر طرف سگنلز کی بھرمار دکھائی دینے لگے گی تو آس پاس کی اشیاء کو دیکھنا کتنا دُشوار ہوجائے گا! اب چشمِ تصور میں سوچیں کہ موجودہ قابلِ دید مناظر موبائل سگنلز کی موجودگی میں ہمیں کیسے دکھائی دیں گے!! یہ بھیانک منظر ہم اپنے تصور میں بھی دیکھ لیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں!!!

(2) قابلِ دید رنگوں کی دُنیا (the world of visible colors)

زمینی ماحول کی حقیقت کو جاننے کے لیے دوسرا پہلو قابلِ دید رنگوں (colors) کے حوالے سے ہے۔ یہ دُنیا ہر جاندار کو حتیٰ کہ ہر اِنسان کو بھی ایک جیسی دکھائی نہیں دیتی۔ ہر جاندار اِسے مختلف رنگوں میں دیکھتا ہے۔ اِسی طرح بہت سے اِنسان بھی اِسے مختلف رنگوں میں دیکھتے ہیں۔ جو لوگ دیگر عام اِنسانوں کی طرح روشنی کے ساتوں رنگوں کو نہیں دیکھ پاتے، اُنہیں عام طور پر ’’کلر بلائنڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ دُنیا میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو پیدائشی طور پر کلربلائنڈ ہیں، یعنی وہ چند رنگوں کو ٹھیک سے دیکھ نہیں پاتے۔ زیادہ تر کلربلائنڈ اَفراد کو سرخ اور سبز رنگ ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتے۔ روشنی کی کمی کی صورت میں تمام اِنسان کلر بلائنڈ ہوجاتے ہیں، جس کا نظارہ ہم چاندنی رات میں بخوبی کر سکتے ہیں۔ چاندنی رات میں کسی ایسے باغ کا وزٹ کریں جہاں چاندنی کے سِوا کسی قسم کی روشنی موجود نہ ہو تو ہم رنگ برنگے پھولوں کے حقیقی رنگ نہ دیکھ پائیں گے۔

ہماری ہی دُنیا میں ایسی مخلوقات بھی موجود ہیں جن کا visual-spectrum ہم سے مختلف ہے۔ بہت سے جانوروں کیلئے عام اِنسانوں کی طرح ساتوں رنگوں کو دیکھ پانا ممکن نہیں ہوتا۔ اِس لئے وہ بھی اِس دنیا کی رنگینیوں سے مستقل طور پر ناآشنا ہوتے ہیں۔ جبکہ دُوسری طرف بعض جانداروں کے ہاں قابلِ دید رنگوں کی کون (cone) اِنسان کی طرح تین رنگوں (سرخ، سبز، نیلے) تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ وہ مزید رنگوں کو بھی دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

شہد کی مکھیاں اور تتلیاں ایسے رنگ دیکھ سکتی ہیں جو ہم اِنسان نہیں دیکھ سکتے۔ اُن کے رنگین وِیژن کی حدود بالابنفشی (ultraviolet) رنگ تک پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ (ملاحظہ کیجیئے: www.askabiologist.asu.edu) اُن کی آسانی کیلئے خالقِ کائنات نے بعض پھولوں کی پتیوں میں خاص قسم کے بالابنفشی پیٹرن بنا رکھے ہیں، جو پھولوں کی گہرائی تک اُن کی رہنمائی کرتے ہیں۔

چھپکلیوں کے رنگوں کی دُنیا میں اِنسان کے قابلِ شناخت رنگوں کے علاوہ بھی بہت سے رنگ موجود ہیں۔ اُن کی کلر کون (color cone) اِنسان کی طرح تین کی بجائے چار رنگوں پر منحصر ہے۔ حتیٰ کہ وہ رات کے اندھیرے میں بھی بعض رنگوں کو بخوبی دیکھ سکتی ہیں۔ اسی طرح اُلوؤں سمیت رات کو جاگنے والے اکثر جانداروں میں اللہ تعالی نے یہ طاقت رکھی ہے کہ وہ گہرے اندھیرے میں بھی بخوبی دیکھ سکیں۔ ایسا اُن کا وِیژن اِنسانوں کی نسبت بہت مختلف ہونے کی وجہ سے ہے۔ اِنسانی صلاحیتوں کے برعکس غوطہ خور پرندے خاصی اُونچی اُڑان کے دوران پانی کے نیچے موجود مچھلی کو دیکھ کر شکار کر لیتے ہیں، جس سے اُن کے خاص وِیژن کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح بعض اَقسام کے بندر صرف نیلا اور پیلا رنگ دیکھ سکتے ہیں، اُنہیں سبز اور سرخ رنگ دکھائی نہیں دیتے۔ گھوڑے اور گدھے سرخ رنگ کو نہیں دیکھ سکتے، چنانچہ اُن کا ویژن اِنسانوں کی نسبت بہت مختلف ہے اور یہ دُنیا اُنہیں عجیب پھیکے رنگوں میں دکھائی دیتی ہے۔ اِنسانوں کے ساتھ رہنے کے باوُجود وہ دُنیا کی وہ رنگینیاں نہیں دیکھ سکتے جنہیں اِنسان روز دیکھتا ہے۔ (ملاحظہ کیجیئے: www.washingtonvisiontherapy.com) اس کا تجربہ ہم یوں کرسکتے ہیں کہ اپنے موبائل کی مدد سے کسی خوبصورت منظر کی تصویر بنائیں اور پھر اُس کے بعد اُس میں سے سرخ رنگ کو غائب کرکے دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ دُنیا گھوڑوں اور گدھوں کو کیسی دکھائی دیتی ہے!

شمالی امریکہ میں پائے جانے والے Pronghorn Antelope نامی منفرد ہرن کی قوتِ بصارت اِتنی تیز ہے کہ وہ رات کے وقت سیارہ زحل (Saturn) کے گرد واقع ہالے (rings) کو بآسانی دیکھ سکتا ہے۔ (ملاحظہ کیجیئے: www.snopes.com)

(3) سہ جہتی دنیا سے ماوراء (beyond the three-dimensional world)

زمینی ماحول کی حقیقت کو جاننے کے تیسرے پہلو کا تعلق جہات (directions) سے ہے۔ ہم اِنسان ایک ایسی دُنیا میں رہنے کے عادی ہیں جہاں تین جہات(3d) ’’لمبائی، چوڑائی، اُونچائی‘‘ یا دُوسرے لفظوں میں ’’دائیں-بائیں... آگے-پیچھے ... اُوپر-نیچے‘‘ پائی جاتی ہیں۔ ہمارے اِردگرد دکھائی دینے والی تمام چیزیں تین جہات یا اَبعاد (three dimenssions) پر مبنی ہوتی ہیں، چنانچہ ہم تین جہات کے ایسے عادی ہوچکے ہیں کہ کسی چوتھی جہت کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

جہات اور اَبعاد کا تصور سمجھنے کیلئے اِن چار بنیادی اِصطلاحات کو سمجھنے کی ضرورت ہے:

  • نقطہ (point): نقطے میں کوئی جہت نہیں ہوتی۔
  • خط (line): دو نقطوں کو ملانے والے خط یعنی لائن میں صرف ایک جہت ’’لمبائی‘‘ پائی جاتی ہے۔ جو کہ دائیں-بائیں ہے۔
  • سطح (surface): کسی کمرے کے فرش یا دیوار کی سطح میں صرف دو جہات ’’لمبائی‘‘ اور ’’چوڑائی‘‘ پائی جاتی ہیں۔ جو کہ دائیں-بائیں اور اُوپر-نیچے ہیں۔
  • مکعب (cube): صندوق نما چیزوں میں تین جہات ’’لمبائی‘‘، ’’چوڑائی‘‘ اور ’’اونچائی‘‘ کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ دائیں-بائیں، اوپر-نیچے اور آگے-پیچھے تین جہات ہیں۔

بعض جاندار ہو بہو اِنسانوں کی طرح تین جہات (3d) کو نہیں سمجھ پاتے، اُن کیلئے دُنیا تین سے کم یا زیادہ جہات پر مبنی ہوسکتی ہے۔ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں چیزوں کی لمبائی، چوڑائی اور اُونچائی کو محسوس کر سکتے ہیں۔ اَب اگر کسی جاندار کے پاس اپنے ماحول کو صرف دو جہتوں میں جاننے کی حِس موجود ہو اور وہ تیسری جہت کو سمجھنے والی حِس نہ رکھتا ہو تو اُس کیلئے تین جہات (3D) کو سمجھنا ناممکن ہوگا۔ سائنسدانوں کے نزدیک یہی وجہ ہے کہ ہم اِنسان تین جہات سے آگے کسی جہت کو نہیں دیکھ سکتے۔ ہمیں تیسری جہت (یعنی گہرائی یا بُعد) کو ٹھیک سے سمجھنے کیلئے کم از کم دو آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ چوتھی جہت کو سمجھنے کیلئے یہ دو آنکھیں ناکافی ہیں۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالی نے کوئی ایسی مخلوقات پیدا کر رکھی ہوں جو معروف تین جہات (لمبائی، چوڑائی، گہرائی) سے الگ کسی اور جہت کو بھی محسوس کر سکتی ہوں۔

ایک تھیوری کے مطابق صرف وہی جاندار اِس دُنیا میں تین جہات (لمبائی، چوڑائی، اُونچائی) کو محسوس کر پاتے ہیں جن کی دونوں آنکھیں اِنسانوں کی طرح سر کے سامنے والی سمت میں نصب ہوں (ملاحظہ کیجیئے: www.washingtonvisiontherapy.com)۔ سر کے دائیں بائیں الگ الگ ویژن رکھنے والے جاندار صرف دو جہات (لمبائی اور چوڑائی) کو محسوس کر سکتے ہیں، اُونچائی یا گہرائی کو نہیں۔ اس کو اس بات سے سمجھیں کہ اگر ہم اپنی ایک آنکھ پر پٹی باندھ کر اُسے بند کر دیں اور ٹیبل ٹینس کھیلیں تو ہمیں اپنی طرف آتی ہوئی گیند کا رُخ درست سمجھ میں نہیں آتا ہے!!

اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے کہ شیطان اور اُس کا قبیلہ اِنسانوں کو گمراہ کرنے اور وسوسہ اندازی کرنے کے لیے وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے اِنسان اُسے نہیں دیکھ سکتے۔ گویا وہ لمبائی، چوڑائی، گہرائی جیسی معروف تینوں جہات سے ہٹ کر کسی اور جہت سے اِنسانوں کو دیکھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:

إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَ قَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ.

(الاعراف، 7: 27)

’’بیشک وہ (خود) اور اُس کا قبیلہ تمہیں (وہاں سے) دیکھتا (رہتا) ہے جہاں سے تم اُنہیں نہیں دیکھ سکتے۔‘‘

بہت سے لوگ اِس نظریہ پر یقین رکھتے ہیں کہ بعض جانداروں کو طوفان، زلزلے اور قدرتی آفات کا وقت سے پہلے اِس لئے پتہ چل جاتا ہے، کیونکہ وہ اِنسانوں کے ہاں معروف تین جہات (3d) سے بڑھ کر مزید کچھ جہات کو بھی سمجھ پاتے ہیں۔

سہ جہتی دُنیا کو سمجھے کیلئے ذرا یوں سوچیں کہ زمین پر چلتے پھرتے وقت ہم عمارتوں کی دیواروں کو تو دیکھ سکتے ہیں، مگر بالعموم اُن عمارتوں کی چھتوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ پرندے چونکہ اُڑنا جانتے ہیں اِس لئے وہ اُڑتے وقت صحیح معنوں میں تینوں جہات (3d) کو محسوس کرسکتے ہیں۔ اِنسان عام طور پر زمین کے اُوپر چلتے پھرتے وقت صرف آگے کی سمت چلتا ہے یا کبھی کوشش کرکے اُلٹے قدموں چل سکتا ہے۔ اِسی طرح دائیں اور بائیں سمت بھی چلا جا سکتا ہے، مگر چونکہ وہ پرندوں کی طرح اُڑ نہیں سکتا اِس لئے اُوپر نیچے جانے کیلئے اُسے سیڑھیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اپنی پیدائش کے ہزاروں سالوں بعد پچھلی صدی میں اِنسان نے ہوائی جہاز اِیجاد کر لیا، جس کے بعد اُس نے باقاعدہ اُڑنا شروع کر دیا اور پرندوں کی طرح تین جہات (3d) کو محسوس کرنا ایک معمول بن گیا۔ مگر اُس کے باوجود اِکیسویں صدی میں بھی اربوں اِنسانوں سے آباد سیارے پر ایسے اِنسانوں کی تعداد بہت کم ہے جنہوں نے جہاز میں سفر کرتے ہوئے باقاعدہ طور پر بالائی جہت سے زمین کو دیکھ رکھا ہو۔ اِسی طرح بہت کم اِنسان سیٹلائٹ امیجز کی مدد یہ سمجھ سکتے ہیں کہ بیرونی خلاء سے زمین کیسی دکھائی دیتی ہے! یوں اُن کے محسوسات کی جہتیں عملاً محدود رہتی ہیں۔

(4) وقت مطلق نہیں اِضافی ہے

وقت ایک اِحساس کا نام ہے، جو مختلف کائناتوں میں مختلف حیثیت رکھتا ہے۔ اِسی طرح زمین پر موجود مختلف جانداروں کیلئے بھی وقت کی حیثیت مطلق (absolute) نہیں بلکہ اِضافی (relative) ہے۔ اِس کرۂ ارض پر ایسی مخلوقات بھی موجود ہیں جن کی عمر چند گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتی، اور اِسی طرح ایسی مخلوقات بھی ہیں جن کی عمر صدیوں طویل ہوتی ہے۔

وقت کے حوالے سے ہر مخلوق کا اِحساس ایک دُوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ سب مخلوقات پہ وقت اِنسانوں جیسے اِحساس کے ساتھ نہیں گزرتا۔ بحیثیتِ اِنسان ہمیں شارک مچھلی کی 500 سالہ زندگی بہت طویل العمری محسوس ہوتی ہے اور اُس کے برعکس بعض کیڑوں مکوڑوں کی چند گھنٹوں یا چند دنوں کی زندگی بہت مختصر محسوس ہوتی ہے۔ جبکہ عین ممکن ہے کہ شارک مچھلی کے اِحساسات کے تناسب سے اُس کی صدیوں طویل عمر اُسے بہت تیزی سے گزرتی ہوئی محسوس ہوتی ہو اور کیڑوں مکوڑوں کو اپنی چند دن کی زندگی بھی طویل محسوس ہوتی ہو۔

جب کبھی وقت اِنسانی محسوسات کے برخلاف زیادہ تیزی سے یا سُست روِی سے گزرتا ہوا محسوس ہو تو اِسلامی لٹریچر کی اِصطلاح میں اُسے طئ زمانی کا نام دیا جاتا ہے۔ قیامت کا دن بھی طئ زمانی ہی کی ایک صورت میں برپا ہوگا، جس میں وقت کے گزرنے کی شرح مختلف ہوگی۔ وہ دن بعض لوگوں کیلئے محض پلک جھپکنے میں گزر جائے گا اور بعض دُوسرے لوگوں کے لئے ایک ہزار یا پچاس ہزار سال تک طوِیل ہو جائے گا۔ ارشاد فرمایا:

تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ.

(المعارِج، 70: 4)

’’اس (کے عرش) کی طرف فرشتے اور روح الامین عروج کرتے ہیں ایک دن میں، جس کا اندازہ (دنیوی حساب سے) پچاس ہزار برس کا ہے۔‘‘

چونکہ وقت محض ایک نفسی اِدراک ہے، جسے ہر فرد اپنے مخصوص حالات کے پس منظر میں محسوس کرتا ہے، اِس لئے اللہ کے برگزیدہ و محبوب بندوں کیلئے وہ دن مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں نہایت تیزی سے گزر جائے گا، جبکہ دُوسری طرف عام لوگوں پر مشاہدۂ حق کی بجائے کرب و اذیّت کا اِحساس غالب ہوگا، جس کی وجہ سے اُن کیلئے وہی دِن حسبِ حالت ایک ہزار یا پچاس ہزار سال پر محیط ہوگا۔

اِس زمینی دنیا میں کسی شخص کی پوری زندگی جو اُسے 60 یا 70 سال کی طویل تاریخ کے طور پر محسوس ہوتی ہے، وہ اِس کائنات کی اربوں سالہ زندگی کے مقابلے میں بہت مختصر ہے۔ جب اِنسان موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو وہ سوچے گا کہ اُس کی زندگی تو چند ساعتوں سے زیادہ نہیں تھی۔ ارشاد فرمایا:

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُواْ إِلاَّ سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ.

(يونس، 10: 45)

’’اور جس دن وہ انہیں جمع کرے گا (وہ محسوس کریں گے) گویا وہ دن کی ایک گھڑی کے سوا دنیا میں ٹھہرے ہی نہ تھے۔‘‘

ما حصل

اِس زمینی دُنیا میں جاری و ساری نظام اور روز بروز پیش آنے والے واقعات اِنسانی عقل کو عاجز کرنے کیلئے کافی ہیں۔ اگرچہ سائنسی ترقی کی بدولت ہم اِس کائنات کے فطری قوانین کو جزوِی طور پر سمجھنے لگ گئے ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ سارا نظامِ کائنات اِنسانی عقل میں نہیں سما سکتا۔ دُنیا میں جو بھی ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ایک معجزہ ہی ہے، البتہ اُن میں سے بعض کی ہمیں عادت ہو گئی ہے اور ہم اُنہیں معمولی سمجھتے ہیں۔ اگر ہم رک کر سوچیں تو ہماری عقل اِس نظام کو مکمل طور پر سمجھنے سے عاجز ہے۔ آخرت کا درجہ و مرتبہ دُنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

اللہ ربّ العزت کے نزدیک زمینی زندگی کی رنگینیوں میں کھو کر واپسی کے سفر کو بھول جانے والے لوگ خسارے میں ہیں۔ دُنیا کو آخرت پہ ترجیح دینے والے قرآنِ مجید کی نظر میں گمراہ ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اِس دنیا میں یوں زندہ رہیں کہ ’’ہم تو دُنیا میں رہیں مگر دُنیا ہمارے دل میں نہ رہے۔‘‘ اگر ہم دُنیا کو دل میں جگہ دے دیں تو ہم آخرت کو بھول کر دُنیوی خواہشات کے پیچھے مارے مارے پھرتے رہیں گے، نتیجتاً ہم اپنی عاقبت برباد کر بیٹھیں گے۔