فلسفۂ خودی: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
ڈاکٹر شفاقت علی شیخ
’’خودی‘‘ کی اصطلاح اردو ادب میں لفظی و لغوی معنی کے طور پر کئی ایک مفہوم لیے ہوئے ہے۔ مثلاً انانیت، خود پرستی، خودمختاری، خودسری، خود غرضی، غرور، نخوت، تکبر وغیرہ۔ خودی کا مفہوم شروع میں بالعموم مذکورہ منفی معنوں میں ہی استعمال ہوتا رہا ہے لیکن بعد ازاں اس لفظ کو خود پرستی، غرور اور تکبر کی بجائے انسان کی عظمت، حقیقت اور جوہر تخلیق کے مفہوم میں استعمال کیا جانے لگا۔خودی کے اس مثبت مفہوم کو جب ہم قرآن و حدیث پر پیش کرتے ہیں تو یہ ہمیں اسلام کی اس تعلیم سے ماخوذ نظر آتا ہے کہ
من عرف نفسه فقد عرف ربه.
(مرقاة الفاتیح، 1: 246)
’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔‘‘
اس کے مطابق عرفانِ ذات، خود آگاہی، ایمان و یقین کی گہرائی، جرأت و شجاعت، عزم و استقلال، ذوقِ تسخیر اور کائنات کو مسخر کرکے توحید کا راز آشکار کرنے والی قوت کا نام خودی ہے۔
خودی کا دائرہ کار
خودی کے مذکورہ مفہوم کی روشنی میں اس کا دائرہ کار درج ذیل امور کو محیط ہے:
(1) خود شناسی:
خود کو جاننا، اپنی ذات کا عرفان حاصل کرنا، اپنی خوبیوں اور خامیوں سے آگہی، خوبیوں کو چمکانا اور خامیوں پر قابو پانا۔ اپنے مقامِ بلند کو جان لینا۔ اپنے مقصدِ تخلیق کو پہچان لینا اور اس مقصد کی تکمیل کے ذریعے خالق کا قرب اور خوشنودی حاصل کرنا۔
(2) خودنگری:
اپنی نگرانی کرنا۔ خود کو شرک، بدعت، کمزوری، بزدلی اور اخلاق و کردار کی دیگر تمام خامیوں سے پاک رکھنے کی کوشش کرنا، اس لیے کہ ان میں سے ہر عیب خودی کے لیے زہر ہے۔
(3) خود گری و خود نمائی:
خود کو بنانا، اپنی شخصیت کی تعمیر و ترقی میں کوشاں رہنا، بلندیوں کی طرف بڑھنا، فطرت کی ودیعت کردہ صفات کو اجاگر کرنا اور اپنے جوہر ملکوتی کو پہچان کر اسے چمکانا۔ کیونکہ گوہر میں آبِ گہر کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
(4) خودگیری:
اپنا احساب کرنا، ہر وقت اور ہر دور میں، ہر منزل پر سختی سے خود احتسابی کرتے رہنا تاکہ اعمال و کردارپاکیزہ ہوتے چلے جائیں، شخصیت سنورتی اور نکھرتی چلی جائے اور انسان اپنے اس مقام و مرتبے پر فائز ہوسکے جس کے لیے اسے تخلیق کیا گیا ہے۔
خودی کا اصل مقام انسانی ذات ہے جو پیدائش سے لے کر موت اور پھر بعد از موت بتدریج آگے بڑھتی جاتی ہے۔ تربیت سے خودی بے حد مضبوط ہوجاتی ہے جس وجہ سے موت بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے۔ وہ خدا کے روبرو بھی اپنا مقام رکھتی ہے اسی لیے ہمہ وقت اس جہانِ فانی میں برسر پیکار رہتی ہے۔
خودی کی تربیت کے اہم مراحل
خودی کو توانا اور مستحکم رکھنے، اسے تکمیل تک پہنچانے اور اس سے صحیح طور پر استفادہ کرنے کے لیے اس کی باقاعدہ تربیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ نہ تو کمزور ہو اور نہ ہی اِدھر اُدھر بھٹکنے پائے اور ایک تسلسل کے ساتھ ترقی و ارتقاء کے سفر کو جاری رکھے۔ اب سوال یہ ہے کہ خودی کی تربیت کیسے ممکن ہے۔۔۔؟ کس طرح انسان خودی کو تربیت دے کر اسے بہترین بناسکتا ہے۔۔۔؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو انسانی خودی کو تربیت دیں تو وہ مثالی خودی بن جائے۔۔۔؟
خودی کو زندہ رکھنے اور اسے مثالی حالت تک لے جانے کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ خوب سے خوب تر کی جستجو ہی خودی کو نکھارتی ہے۔ خودی کے حصول اور اسے سنوارنے کی اخلاقی جدوجہد ہی مقامِ بندگی ہے۔ یہی مقام انسان کو دیگر مخلوقات سے منفرد کرتا ہے۔
تربیتِ خودی کے اہم اور ضروری مراحل درج ذیل ہیں:
(1) اطاعت
اطاعت خودی کی تکمیل کا پہلا اور اہم مرحلہ ہے اس سے مراد اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت ہے۔ اطاعت سے خودی کو اپنی آزادی کی حدود متعین کرنے کا پتہ چلتا ہے۔خدا کی حاکمیت اور اقتدارِ اعلیٰ کو برضا و رغبت تسلیم کرلینا اطاعتِ خداوندی ہے۔ اپنی زندگی کو نظامِ خدا کے قوانین و ہدایات کے مطابق ڈھالنا اطاعت کا لازمی حصہ ہے۔ خدائی ہدایات اور آئین کے تحت زندگی بسر کرنا اور تمام تر معاملاتِ زیست انہی بنیادوں پر استوار کرنا اپنی انا اور خودی کی صحیح تربیت کرنے کی ابتدا ہے۔ اس طرح انفرادی زندگی کی تربیت سے پورا معاشرہ اطاعت کی زندگی گزارتا ہے۔ یہی خودی کی مثبت تربیت کا پہلا مرحلہ ہے۔ اگر ابتدا ایسے مثبت ہوگی تو پھر اگلے مرحلہ میں داخل ہونے کے ہم اہل ہوسکیں گے۔ آئین خداوندی کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ انفرادیت کے ساتھ ساتھ پورا معاشرہ اطاعتِ خداوندی کرتے ہوئے خدا کی حاکمیت کو تسلیم کرے جس سے مسرت اور تسکینِ قلب حاصل ہوتی ہے۔
تربیتِ خودی میں اطاعت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اگر اطاعت نہ ہو تو کوئی فرد کسی بھی نوعیت اور حالت میں ترقی نہیں کرسکتا ہے۔اطاعت حقیقت میں عبودیت ہے جو عبادت کی اصل بنیاد ہے یعنی انسان ایک ایسی مطلق ہستی کی اطاعت کرتا ہے جس نے انسان کو ایک وجود کے ساتھ بے شمار خوبیاں عطا کی ہیں۔
(2) ضبطِ نفس
جب انسان اطاعت میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے تو پھر دوسرا مرحلہ ضبطِ نفس کا آتا ہے جس میں انسان کو اپنی طبیعت، مزاج، عادات اور جذبات پر قابو حاصل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں جن چیزوں پر مجبوری کے عالم میں عمل کرنا ہوتا ہے، دوسرے مرحلے میں وہ چیزیں طبیعت اور مزاج کا حصہ بن جاتی ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونا آسان ہوجاتا ہے۔ ضبط نفس کے حصول کے لیے ارکانِ اسلام کی پابندی سے مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ توحید و رسالت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج یہ ارکان بنیادی طور پر وہ وسائل ہیں جن سے ضبطِ نفس پیدا ہوتا ہے۔ضبطِ نفس کے مرحلہ کو پورا کرنے کے لیے ارکانِ اسلام پر ایمان لانا اور عمل کرنا ضروری ہے۔
(3) نیابتِ الہٰی
خودی کی تربیت کا تیسرا اور آخری مرحلہ نیابتِ الہٰی کا تصور ہے۔ یہ ایک اعلیٰ درجے کا احساسِ ذمہ داری ہے۔ اس مرحلہ میں داخل ہونے کے بعد انسان خلیفۃ اللہ فی الارض ہوجاتا ہے۔ جو شخص نائب الہٰی اور خلیفۃ اللہ فی الارض ہونے کا مستحق ٹھہرتا ہے وہی انسان کامل ہے۔ انسانِ کامل کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ یہ انسان کے روحانی ارتقاء کا خلاصہ ہے۔ خودی اپنی انتہا تک پہنچنے کے لیے بے حد تگ و دو کرتی ہے پھر جاکر ایک انسانِ کامل پیدا ہوتا ہے۔ اس دانائے راز کا ظہورِ حقیقت حضور نبی اکرمﷺ کی صورت میں ہمارے رہنما کی حیثیت سے موجود ہے۔قرآن مجید میں ارشادِ خداوندی ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ.
(الاحزاب، 33: 21)
’’ فی الحقیقت تمہارے لیے رسول الله (ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘
انسان حضور نبی اکرمﷺ کی ذاتِ بابرکات کو نمونہ قرار دے کر انسانِ کامل بننے کی کوشش کرسکتا ہے۔ انسان نائب الہٰی بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انسانِ کامل ہی دنیا میں خدا کا حقیقی نائب اور انسانیت کا صحیح علمبردار اور حقیقی حکمران ہے۔ وہ جس ہمت و کاوش سے خدا کے قریب جاتا ہے، خدا اتنا ہی اس کو اپنے قریب تر کرلیتا ہے۔ اس عمل سے انسان درجۂ کمال تک پہنچنے کی طرف بڑھتا ہے۔ یہ سب کچھ انسان کے اعمال پر منحصر ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرکے انسانِ کامل بن سکتا ہے۔ انسانِ کامل دراصل کامل ترین خودی ہے۔
خودی کے ضعف و استحکام کا معیار
وہ اعلیٰ اقدار جن کو ملحوظِ خاطر رکھ کر انسان خودی کی منازل کو طے کرسکتا ہے۔ ان اقدار کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1۔ ایجابی اقدار
2۔ سلبی اقدار
(1) خودی کی ایجابی اقدار
وہ اقدار جن پر عمل کرنے سے خودی مستحکم ہوتی ہے اور خودی کی تکمیل کے لیے جنہیں اپنانا ضروری ہے، وہ خودی کی ایجابی اقدار کہلاتی ہیں۔ خودی کی ایجابی اقدار میں درج ذیل اقدار نہایت اہم ہیں:
i۔ عشق
استحکام خودی کے لیے جن اخلاقی اقدار کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ ان میں عشق بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔روایتی عشق اپنے آپ کو محبوب میں مستغرق کردینا سکھاتا ہے۔ جبکہ محبوب کو اپنی ذات میں جذب کرلینے کا نام عشق ہے۔ عشق ہی وہ مرحلہ ہے جو خودی کو استحکام بخشتا ہے۔عشق و محبت سے مراد اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرمﷺ کی محبت ہے جو مومن کا کل سرمایہ ہوتا ہے۔ یہ سرمایۂ عشق اللہ اور رسول اللہﷺ کی اطاعت اور محبت سے ہی ممکن ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس جذبۂ عشق کے بغیر مومن نہ تو معرفتِ حق حاصل کرسکتا ہے اور نہ اس کی رضا کا حقدار بن سکتا ہے جو تمام عبادات کا مقصود و مدعا ہے۔ علاوہ ازیں عشق بندۂ مومن کو غیر معمولی جرأت و ہمت بھی عطا کرتا ہے۔یہ عشق ہی ہے جس کی بدولت انسان خطرات میں کود پڑتا ہے اور بڑے بڑے معرکے سرانجام دیتا ہے۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
صدقِ خلیل بھی ہے عشق، صبرِ حسین بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق
ii۔ فقرو استغناء
خودی کا دوسرا رکن فقر ہے۔ فقر طریقت کی ایک اصطلاح ہے۔ انسانی خودی کی تکمیل تب ہوتی ہے جب اس میں شانِ فقر پیدا ہوجائے۔ گویا کہ تکمیلِ خودی اور فقر ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔فقر کو عام طور پر بے کسی، مسکینی، مجبوری اور رہبانیت کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقی فقر و استغناء سے مراد وہ بے نیازی ہے جسے مادی وسائل کی موجودگی اور غیر موجودگی کا خیال تک نہ ہو۔ اگر یہ وسائل میسر ہوں تو انسان ان میں منہمک نہ ہوجائے اور اگر یہ وسائل میسر نہ ہوں تو ان کے حصول کے لیے بے چین اور مضطرب نہ ہو۔ وہ ان سے بے نیاز ہو نہ کہ ان کے متعلق فکر مند۔ یہ فقر ایسا فقر ہے جو مادی وسائل کو حاصل کرنے یا ان کی حفاظت کے لیے اعلیٰ اقدار کو قربان نہیں کرتا۔ اس کی نگاہ میں شانِ سکندری بھی ہیچ ہے۔ بالفاظ دیگر دل کو حرص و ہوس سے پاک کرکے تھوڑے پر قناعت کرلینے، غیر اللہ سے بے نیاز ہوجانے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا نام فقر ہے۔
فقر ذہن کی ایسی کیفیت کا نام ہے جس کے مطابق انسان کسی اعلیٰ نصب العین کے لیے کوشاں رہتا ہے لیکن اس کے لیے کسی معاوضہ کا طلبگار نہیں ہوتا۔ وہ اپنے آپ کو دنیوی حرص و لالچ اور مادی سامانوں سے بہت اوپر اٹھا لیتا ہے۔اس طرح ان صفات کے حامل شخص یعنی فقیر کا ایک مخصوص مزاج بن جاتا ہے۔ وہ سکون و آرام کا طالب نہیں ہوتا بلکہ تبدیلی و تحرک کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اندھیروں سے لطف اٹھاتا ہے اور طوفانی موجوں سے کھیلنا پسند کرتا ہے تاکہ روح و بدن کی بالیدگی اور نشوونما کا سلسلہ جاری رہے اور خودی اپنے کمال کو پہنچ جائے۔
iii۔ جرأت و ہمت
تکمیلِ خودی کے لیے جرأت رندانہ اور ہمتِ مردانہ ضروری ہے۔ راستے کی تمام منزلیں جتنی بھی مشکل کیوں نہ ہوں وہ جرأت و ہمت سے ہی عبور ہوسکتی ہیں۔یہ جرأت اور ہمت زندگی کے ہر شعبہ میں ضروری ہے کہ اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ اس میں اخلاقی اور ایمانی جرأت بھی شامل ہے۔ رواداری، قوت و طاقت، یقین، جفاکشی، صبر و استقلال، حریت، مساوات، اخوت اور وحدتِ مقاصد وغیرہ بھی استحکامِ خودی میں ایجابی اقدار کی حیثیت رکھتی ہیں۔
(2) خودی کی سلبی اقدار
جس طرح خودی کے استحکام کے لیے بعض صفات کو اپنانا ضروری ہے اسی طرح خودی کو ضعف سے بچانے کے لیے بعض امور سے پرہیز ضروری ہے۔ خودی کو ضعف سے بچانے اور اس کی حفاظت کے لیے جن اقدار سے بچنا ضروری ہے، وہ سلبی اقدار کہلاتی ہیں۔ ان اقدار میں سے تین نمایاں اقدار یہ ہیں:
i۔ سوال اور طلب
خودی میں غیرتِ ایمانی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے بلکہ خودی کو عزتِ ایمانی کا مترادف کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ یہ عزت استغنی اور توکل سکھاتی ہے۔ ’’سوال کرنا‘‘ یا کسی سے کچھ ’’مانگنا‘‘ ایک ایسا عمل ہے جس سے خودی کمزور ہوجاتی ہے۔ سوال کرنے والا اپنے آپ کو کمتر ظاہر کرتا ہے اور جس سے مانگتا ہے اس کو اعلیٰ و برتر گردانتا ہے جس کی وجہ سے انسانی خودی طاقتور ہونے کے بجائے کمزور ہوجاتی ہے۔ ’’سوال‘‘ انسان کی وہ مذموم عادت ہے جس کی وجہ سے وہ خودداری، شرافت اور عزتِ نفس جیسی گراں مایہ چیزوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ غربت کی وجہ سے اگر کوئی شخص ذلیل ہوگیا ہے تو ’’سوال‘‘ سے وہ ذلیل تر اور اگر نادار ہے تو نادار تر ہوجاتا ہے۔ ’’سوال‘‘ سے خودی کے اجزا متفرق، اس کی قوت زائل اور اس کا مرتبہ کم ہوجاتا ہے۔
ایجابی اقدار میں جو عظمت عشق کو حاصل ہے، سلبی اقدار میں سوال کا درجہ اتنا ہی پست ہے۔ عشق انسان کو عملی زندگی کی ترغیب دیتا ہے اور عمل سے خودی مستحکم ہوتی ہے جبکہ سوال کرنے سے انسان بے عملی اور تن آسانی کا شکار ہوجاتا ہے، جس سے خودی ضعیف اور کمزور ہوتی ہے۔ عشق مجسمِ خیر ہے جبکہ سوال مجسمِ شر ہے۔ کسی کے سامنے دست دراز کرنے سے خودی اور عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے۔ جس عمل سے خودی میں ضعف پیدا ہو اس عمل سے دوری اختیار کرنی چاہیے حتی کہ خودی کو کمزور کرنے کے بجائے موت زیادہ بہتر ہے:
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
سوال کے لفظ کا مفہوم دینی اقدار اور روح دین کے پیشِ نظر بہت وسیع ہے۔ ہر وہ چیز سوال میں داخل ہے جو ذاتی کوشش اور شخصی جدوجہد کے بغیر حاصل ہو۔ محنت و مشقت سے جو پھل ملتا ہے وہ یقیناً اطمینانِ قلب کا باعث بنتا ہے۔ جس شخص کو بغیر محنت کئے ہوئے مال و دولت ورثے میں ملے، وہ بھکاری ہے کہ اس نے اس کے حصول کے لیے کسی قسم کی محنت نہیں کی۔ اسلام نے تو اس رزق کو حلال ہی نہیں سمجھا بلکہ اسے سود سے تشبیہ دی ہے۔ ایسے لوگ جو خود کو دینی رہنما اور پیشوا سمجھتے ہیں اور ان کا ذریعۂ روزگار مریدوں اور عقیدت مندوں کے عطیات ہیں، انہیں اپنے طرزِ عمل پر غور کرنا ہوگا۔
خدا کی ایک صفت بے نیازی ہے، انسان بھی اگر اپنے اندر شانِ بے نیازی پیدا کرے تو وہ مانگنے یعنی سوال کرنے کی ذلت سے بچ سکتا ہے۔ بے نیازی میں انسان کی خوداری، شرافت اور عزتِ نفس پنہاں ہے۔
ii۔ جامد تقلید
خودی کی تکمیل کی راہ میں جامد تقلید کی روش بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ جامد تقلید بہت سی اعلیٰ صفات کو ختم کردیتی ہے۔ وہ فکرو عمل کے لیے سمِ قاتل ہے۔ جامد تقلید تلاشِ حق کی راہ میں ایک ایسا سنگِ گراں ہے کہ جب تک اسے راستہ سے ہٹایا نہ جائے حقیقت تک رسائی ممکن نہیں۔
تاہم ایک مقام ایسا ہے جہاں تقلید کی اجازت ہے بلکہ ضروری ہے اور یہ وہ موقع ہے جب کوئی قوم زوال اور انحطاط کا شکار ہوچکی ہو تو اس زمانے میں قوم کے عام افراد کی ذہنی صلاحیتیں ماؤف ہوجاتی ہیں اور وہ اس سطح پر آجاتے ہیں کہ اپنا برا بھلا سوچنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔۔۔ ہر چمکدار چیز کو سونا سمجھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں۔۔۔ ہر ایک سے مرعوب ہوجاتے ہیں۔۔۔ اپنی ہر چیز کو بدتر اور دوسروں کی ہر بات کو بہتر سمجھتے ہیں۔۔۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ آزادیٔ فکر و عمل کو محدود کردیا جائے۔ وگرنہ اس کا نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اقبال اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادیٔ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
iii۔ یاس، حزن اور خوف
ان تینوں کا تعلق منفی سوچ کے ساتھ ہے۔ ’’یاس‘‘ مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت کو کہتے ہیں۔ ’’حزن‘‘ کسی نقصان یا ناخوشگوار واقعہ کے پیش آنے پر ذہن کے افسردہ اور غمزدہ ہونے کی حالت کا نام ہے جبکہ مستقبل میں پیش آنے والے کسی حقیقی یا فرضی حادثے کے متعلق سوچ کر ذہن میں پیدا ہونے والے ڈر اور پریشانی کے خیالات کو خوف کہتے ہیں۔ یہ تینوں ام الخبائث اور قاطع حیات ہیں اور جو بھی سلبی اقدار قاطعِ حیات اور زندگی کی دشمن ہوں گی وہ یقیناً خودی کی منزل تک پہنچنے میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوں گی۔ مایوسی و ناامیدی، حزن و ملال اور خوف کی قرآن و حدیث میں بھی سختی سے ممانعت آئی ہے۔
خلاصۂ کلام
تصورِ خودی اصل میں نظریۂ اخلاق ہے جو قرآن و حدیث اور اکابر صوفیاء کی تعلیمات سے ماخوذ ہے۔ یہ نظریہ ایک طرف تو اسلامی تعلیمات کی روح کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور دوسری طرف فلسفیانہ معیار پر پورا اترتا ہے۔ اس میں جہاں فرد کی ذاتی نشوونما اور تکمیل کا سامان موجود ہے، وہاں اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر ماحول اور معاشرہ میں اپنا جاندار کردار ادا کرنے کی ترغیب بھی موجود ہے۔ نظریۂ خودی کے پہلے دو مراحل تسخیرِ ذات کے حوالے سے ہیں جبکہ تیسرا مرحلہ جو کہ نیابتِ الہٰی ہے وہ ایک بندۂ مومن سے ماحول کو مسخر کرنے اور اس کی اصلاح کے حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا تقاضا کرتا ہے جوکہ خلافتِ ارضی کے منصب کا تقاضا ہے۔
نظریۂ خودی کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ آسان، عام فہم اور قابلِ عمل ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ اطاعتِ الہٰی یعنی قرآن و سنت کی تعلیمات کی پابندی سے کام شروع کرنا ہے، ابتداء میں اس پابندی کے لیے خود پر کچھ جبر کرنا پڑے گا، رفتہ رفتہ طبیعت کے اندر نظم و ضبط پیدا ہوگا اور خوش دلی سے عمل کرنا آسان ہوجائے گا۔ جوں جوں انسان آگے بڑھتا چلا جائے گا، ویسے ویسے اس میں منصبِ خلافت یعنی نیابتِ الہٰی کی اہلیت اور کمالات پیدا ہوتے جائیں گے۔ تاہم اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مختلف لوگوں کے درمیان فہم و فراست اور استعداد کا جو فطری فرق ہوتا ہے وہ برقرار رہے گا۔ تمام لوگ یکساں درجے پر نہیں ہوسکتے بلکہ ہر شخص اپنی ذہانت و فطانت، صلاحیت و استعداد اور سعی و محنت کے بقدر تکمیلِ خودی کے بلند درجہ تک جاسکے گا۔