حمد باری تعالیٰ
تو ہی رحمن ہے رحیم ہے تو
میرے مولا! بڑا کریم ہے تو
انجمن انجمن ترے جلوے
بوئے گل ہے کہیں شمیم ہے تو
ہر کوئی سرنگوں ہے تیرے حضور
ہر شہنشاہ سے عظیم ہے تو
دور ہے آنکھ کی رسائی سے
اور دلوں میں سدا مقیم ہے تو
ہے ترے پاس سب حساب عمل
کاتب و محرم و منعم ہے تو
تیری رحمت، کہ کوئی حد نہ شمار
اور کرم گستر و حلیم ہے تو
تجھ سے پوشیدہ کب عمل ہے کوئی
سب تجھے علم ہے علیم ہے تو
صابری، پُرخطا ترا بندہ
طالبِ فضل ہے، رحیم ہے تو
(محمد علی صابری)
نعتِ رسولِ مقبول ﷺ
اُسوہ ہمیں سرکار کا محبوب ہوا ہے
اللہ کو بھی پیاری محمد ﷺ کی ادا ہے
پڑھتا ہے درود احمدِ مختار ﷺ پہ جو بھی
سمجھو کہ صفوں میں وہ ملائک کی کھڑا ہے
رہتے ہیں مرے خانۂ دل میں وہ ہمہ دم
سرکار کے رہنے کو یہ دل کُنجِ حِرا ہے
یہ طرزِ سخن بھی ہے کرم شاہِ اُمم کا
مدحت کا قرینہ بھی اسی دَر کی عطا ہے
دیتا ہے توانائی مجھے حمد و ثنا کی
وہ نورِ محبت جو مرے دل میں بسا ہے
ہر لمحہ مرا ہو جو بسر نعتِ نبی میں
سمجھوں گا کہ دنیا میں بڑا کام کیا ہے
یہ کیف ثناؤں کا جو ہے مجھ کو ودیعت
سب صدقۂ بوصیریؒ و حسانؓ و رضاؒ ہے
الفاظ و تراکیب و معانی یہ تخیل
بس ان کی عنایت سے قصیدہ یہ لکھا ہے
ہمذالیؔ ہے فیضانِ نگاہِ شہِ عالم
جس کو بھی ملا، جتنا ملا، جو بھی ملا ہے
{انجینئر اشفاق حسین ہمذالیؔ}