حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی القادری البغدادیؒ
خصوصی تحریر
سرزمین عراق کے مقدس شہر بغداد شریف کے باب الشیخ میں واقع حرم دیوان خانہ قادریہ میں شیخ المشائخ نقیب الاشراف سیدنا محمود حسام الدینؓ کے گھر اولاد نرینہ میں سب سے چھوٹے اور چھٹے بیٹے کی 18 ربیع الاول 1352ھ کو ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ کا نام نامی اسم گرامی ’’طاہر علاؤالدین‘‘ رکھا گیا۔ جو بعد ازاں مریدین، معتقدین اور متوسلین میں ’’حضور پیر صاحب‘‘ کے محترم و مکرم نام سے معروف ہوئے۔
16 ویں پشت سے آپ کا خاندانی سلسلہ حضور غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز سے آپ کے فرزند ارجمند حضرت شیخ المشائخ عبدالعزیز قادری جیلانی کے واسطہ سے جاملتا ہے اور 28 واسطوں کے بعد رسول اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔
حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادیؒ کو اپنے جد امجد سیدنا عبدالقادر جیلانی غوث الاعظمؓ کی طرح دونوں ہی نسبتیں حاصل تھیں۔ آپ کو سید الطرفین ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا اور مقامِ ولایت کے بھی عظیم مقام و مرتبہ پر متمکن تھے۔حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدینؒ نے دینی تعلیم کی تحصیل و تکمیل دریائے دجلہ کے کنارے واقع مسجد سید سلطان علی میں کی۔ آپ کے اساتذہ میں ملا سید آفندی، مفتی قاسم القبی، سید خلیل الراوی رحمھم اللہ تعالیٰ جیسی معروف علمی شخصیات شامل ہیں۔ مدرسہ دربار غوثیہ میں آپ نے مفتی دولۃ العراقیہ سے بھی اکتساب علم کیا۔
روحانی تعلیم آپ نے اپنے جلیل القدر والد گرامی شیخ طریقت سیدنا محمود حسام الدینؓ کی خصوصی توجہات کے زیر اثر حاصل کی۔ کثرت عبادت و ریاضت کے ذریعے آپ نے بہت جلد تمام منازل سلوک طے کرلیں۔ اوائل عمری میں ہی آپ نماز عشاء کے بعد حضور سیدنا غوث الاعظمؓ کے مزار اقدس کے سامنے متوجہ ہوکر کھڑے ہوجاتے اور ساری رات نماز فجر تک وہاں اسی حالت میں قیام فرما ہوکر کسبِ فیض کرتے رہے ہیں۔ آپ کے والد گرامی نے آپ کی روحانیت میں ترقی اور علمی و عملی کامیابیوں کے پیش نظر آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا۔ اپنے والد بزرگوار کے علاوہ بھی آپ نے دیگر کئی روحانی شخصیات سے اکتساب فیض کیا۔
1956ء میں آپ اپنے جد امجد سیدنا غوث الاعظمؓ کے حکم کے مطابق اشاعتِ دین حق اور انسانیت کی رشد و ہدایت کا فریضہ ادا کرنے کے لیے پاکستان تشریف لائے اور عارضی مسکن کے طور پر شہر کوئٹہ (بلوچستان) دربار غوثیہ شارع الگیلانی کو منتخب فرمایا۔ قدوۃ الاولیاء حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادی آپ خانوادۂ غوثیت مآب کے چشم و چراغ ہیں جنہوں نے خرقۂ ولایت اپنے والدِ گرامی حضرت سیدنا محمود حسام الدین القادری البغدادی ؒسے زیب تن کرکے نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ دنیائے شرق و غرب کے دیگر ممالک میں بھی سلسلہئ قادریہ کی تجدید و توسیع میں ایسی گرانقدر خدمات سر انجام دیں جن کے نقوش جریدۂ عالم سے کبھی محو نہیں ہوسکتے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین فرزندان ارجمند حضرت السید محمود محی الدین الگیلانی، حضرت السید عبدالقادر جمال الدین الگیلانی، حضرت السید محمد ضیاء الدین الگیلانی اور تین صاحبزادیاں عطا فرمائیں۔
آپ نے رشد و ہدایت کے ساتھ ساتھ درج ذیل تصنیف و تالیف کے ذریعے بھی مفید علمی ورثہ چھوڑا ہے:
- محبوب سبحانی
- تحفہ الطاہریہ اوراد قادریہ
- سوانح عمری حضرت غوث الاعظم (انگریزی)
- فتوح الغیب کا انگریزی ترجمہ
- شجرہ ہائے قادریہ اور اوراد و وظائف
اخلاق و اوصاف حمیدہ
حضور سیدنا غوث الاعظمؓ سے آپ کی نسبی قربت کا منفرد اعزاز تو تھا ہی لیکن آپ نے اپنے حسنِ خلق، پاکیزہ سیرت، اتباعِ شریعت و طریقت، انوارِ معرفت و حقیقت اور برکات و کرامات کے باعث ایک جہان زندہ کردیا۔ نگاہِ مردِ مومن سے تقدیریں بدل جاتی ہیں اور اندر کے احوال تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ کی گفتگو میں ایسی تاثیر رکھ دی تھی کہ حسنِ مقال کی تمام رعنائیاں پھول بن کر آپ کے لفظ لفظ میں کھل اٹھتیں اور جو تشنہ لب بھی آپ کے در پر آتا، وہ معرفت کے آبِ خنک سے سیراب ہوکر اور اپنے دامنِ آرزو میں حکمت و دانش کے جواہر سمیٹ کر جاتا۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے حسن وجمال کی دولت بھی وافر عطا فرمائی تھی چنانچہ اس ظاہری و باطنی جمال اور تقویٰ و طہارت کے کمال نے آپؓ کو عوام و خواص سب کے لیے نہایت اعلیٰ مرتبت بنادیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنے جد امجد حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے روحانی سفیر اعظم تھے۔ اس لیے اللہ پاک نے آپ کو صورت و سیرت میں ان کا جانشین بنایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شخصیت عوام الناس تو کیا صوفیاء اور مشائخ کے لیے بھی باعثِ رشک اور قابلِ تقلید تھی۔ انہیں کئی بار عالمِ عرب و عجم کے علماء و مشائخ کے جھرمٹ میں دیکھا گیا مگر ہر بار وہی سب کے سرخیل نظر آئے۔ آپؓ کی موجودگی میں کسی کی عظمت و جلالت کا چراغ جلتا تھا اور نہ کسی کی پیشوائی ان سے زیادہ معتبر لگتی تھی۔
آپ تزکیۂ نفس، تصفیۂ باطن، صدق و اخلاص، زہد و ورع اور تقویٰ و طہارت کا ایک درخشندہ پیکر تھے۔ آپ کی حیات مبارکۂ زندگی کے ہر پہلو میں راہنمائی کے لیے مینارہ نور تھی۔ آپ منبع فیوض و برکات، چشمہ روحانیت اور درخشاں و تابندہ ستارۂ علم اور فقرو تصوف کے پیکر اتم تھے۔ کشف و کمالات اور عرفان و آگہی کی دولت بے بہا سے مالا مال تھے۔ آپ کی محبت آمیز اور شیریں گفتار کے زیر اثر ملاقات کا شرف حاصل کرنے والا سب دکھ، درد اور غم و آلام بھول جاتا۔ آپ بڑے متقی، پرہیزگار، شب زندہ دار، شریعت محمدی ﷺ کے سخت پابند تھے۔ راست گوئی، صدق مقال اور اکل حلال کی پر زور تلقین فرماتے۔
حضور شیخ المشائخ سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادیؒ کے اخلاق و اوصافِ حمیدہ حسنِ اخلاق کے وہ جواہر ہیں، جن سے ہم اپنی ویران زندگیوں کو پھر سے باغ و بہار میں بدل سکتے ہیں۔ ذیل میں حضور پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادیؒ کے اخلاقِ حمیدہ کے کچھ اوصاف کا ذکر اس غرض سے درج کیا جارہا ہے کہ ایک طرف ہم جہاں حضور پیر صاحبؒ کے اخلاق و اوصاف سے متعارف ہوں تو دوسری طرف ان اخلاقِ حمیدہ کو اپنے اندر بھی پیدا کرنے کی کوشش کریں:
1۔ حضور پیر صاحبؒ مجالس میں کم بولتے اور زیادہ دیر خاموش بیٹھے رہتے۔ آپ کا معمول تھا کہ سر مبارک جھکا کر دیر تک دوسروں کا کلام سنتے رہتے۔ حضور پیر صاحب کی شخصیت میں موجود خلق کا یہ پہلو ہم سب کے لئے بہت سبق آموز ہے۔ آج ہم کثیرالکلام اور قلیل السکوت ہوگئے ہیں اور خاموش نہ رہنے کی عادت کی بناء پر ہم اپنے احوال پر غورو فکر کرنے سے بھی محروم رہ گئے۔
2۔ حضور پیر صاحبؒ حاضرین و سامعین کے حسبِ حال اور حسبِ ضرورت کلام فرماتے۔ علماء کے سامنے علمی گفتگو اور مریدین، فقراء اور روحانی الذہن افراد سے ان کی ضرورت کے مطابق کلام کرتے۔ اسی طرح طلبہ،اطباء، حکماء سامنے ہوتے تو ان کے مطابق لطائف و رموز سے مزین گفتگو فرماتے۔ اسی طرح علم جغرافیہ، سمندری علوم، علم جفر، رمل، علم نجوم، سیاست اور بین الاقوامی امور پر آپ حسب ضرورت ایسی سیر حاصل گفتگو فرماتے اور ایسے ایسے گوشے وا فرماتے کہ اس میدان کے متخصصین بھی حیران رہ جاتے۔
آپ کی یہ فضیلت صرف ظاہری علوم تک محدود نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو اس علم کے علاوہ خصوصی ’’ علمِ لدنی‘‘ سے بھی نوازتا ہے جس طرح وہ انبیاء و رسل علیہم السلام کو علم و معرفت کے سمندروں سے نوازتا رہا۔ سیدنا طاہر علاؤالدینؒ کو بھی اسی علم و معرفت کے خزانے سے نواز رکھا تھا۔ علاوہ ازیں امہات الکتب، تفاسیر، احادیث اور عقائد سے متعلق ذخیرہ کتب پر بھی آپ کی گہری نظر تھی اور مسائل پر ائمہ اربعہ کی آراء سے پوری طرح آگاہ تھے۔
3۔ سچ بولنا، سچ سننا، سچ کو پسند کرنا، ایفائے عہد، سخاوت اور مہمان نوازی میں آپ اپنی مثال آپ تھے۔ یہ تمام اخلاقِ حسنہ آپ کی فطرتِ ثانیہ تھے۔ آپ سراپا صداقت اور سچائی ہی سچائی تھے۔ راست بازی اور راست گوئی آپ کے خمیر میں شامل تھی۔ جو وعدہ کرتے وہ پورا کرتے۔ ایفائے عہد اور پابندی وقت کا بہت اہتمام فرماتے اور لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃً حَسَنَہ کے فرمان الہٰی کے مطابق حضور ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے آپ کی شخصیت رنگی ہوئی تھی اور سیرت محمدی کا فیضان پوری طرح آپ کی زندگی میں رچ بس گیا تھا۔
4۔ حضور پیر صاحب چونکہ خود صاحب علم اور علم کا سمندر تھے، اس لیے آپ علم کے بڑے قدر دان تھے اور علماء کی تکریم فرماتے اور ان کی خاطر مدارات کرنے میں وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے۔ حضور پیر صاحبؒ کے پاس وقت کے حکمرانوں سے لے کر عام سائلین تک ہر شعبہ زندگی کے لوگ حاضر ہوتے، ان میں اکثر دعا کے لیے عرض کرتے اور آپ دعا فرمادیتے۔ بعض لوگ عمداً یا احتیاجا مختلف مسائل پر آپ کی رائے بھی لیتے یا پھر بات سے بات چل نکلتی، دونوں صورتوں میں آپ مخاطب کی ذاتی، علمی، خاندانی اور پیشہ وارانہ حیثیت کو سامنے رکھ کر سیر حاصل گفتگو فرماتے لیکن آپ نے کبھی کسی کی تحقیر نہیں کی اور نہ ہی کسی آنے والے کو نظر انداز کیا۔
آپ کی محفل میں ہر آنے والے کو حسبِ حال مراد مل جاتی۔ گویا علماء کو علم کے موتی، حکماء کو حکمت و تدبر کے جواہر اور اہلِ عشق و محبت کو قرب و نظر کا سکون و قرار میسر آتا۔
5۔ حضور پیر صاحبؒ سربراہِ وقت، امراء و حکام کے دروازے پر کبھی نہ جاتے تھے۔ آپ نے کسی اہل دنیا کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کیا تھا۔ آپ سائل نہیں بلکہ معطی تھے اور ہمیشہ معطی رہے۔ آپ کا ہاتھ دینے والا تھا، لینے والا نہیں تھا، آپ حضور غوث پاکؓ کی سنت پر دل و جاں سے عمل کرتے تھے۔ امراء اور بڑے بڑے متمول افراد کے ہاں آنا جانا کبھی آپ کا معمول نہ تھا بلکہ اس کے برعکس بڑے صاحب ثروت اور دنیا دار لوگ آپ کے دروازے پر سائل بن کر آتے تھے۔ استغناء اور شان بے نیازی آپ کے کردار سے جھلکتی تھی جو کسی اہل دولِ سے رسم وراہ رکھنے میں حائل تھی۔ چشمِ فلک نے بار ہا منظر دیکھا کہ دنیادار لوگ بار ہا آپ کے دروازے پر آتے لیکن آپ نے کسی سربراہ، حاکم، امیر کے دروازے پر جانے کا سوچا بھی نہیں۔
6۔ آپ زہد و ورع، تقویٰ و پرہیزگاری، پابندی شریعت اور اتباع سنت میں استقامت کے کوہِ گراں تھے۔ آپ کی پوری زندگی اطاعتِ حق اور سنتِ نبوی ﷺ کی متابعت کا نمونہ تھی۔ آپ طہارت، تقویٰ و پرہیزگاری کے عظیم پیکر تھے۔ تقوی اور پرہیزگاری کا اتنا خیال رکھتے کہ اتباع سنت اور خلقِ مصطفوی ﷺ آپ کا اوڑھنا بچھونا ہوتا تھا اور پوری زندگی ظاہری و باطنی طہارت کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔
7۔ آپ کے چہرہ مبارک پر ہر وقت تبسم کھلتا رہتا، نیم وا لبوں پر اکثر مسکراہٹ رہتی جو ایک جمال آفریں کیفیت کی آئینہ دار تھی، جب بھی آپ کسی مرید یا عقیدت مند سے بات کرتے تو شفقت پدری بولتی محسوس ہوتی۔ کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دیتے، جو بات کہتے شائستگی اور اخلاق کے دائرے کے اندر ہوتی اور اگر کسی پر غضبناک بھی ہوتے تو خلافِ حق اور ظلم و زیادتی کی بات پر ہوتے ورنہ وہ ہر ایک کے لئے سراپا رحمت اور سراپا شفقت تھے۔ نرمی و شفقت اور اخلاق کے ساتھ ملتے، کسی ملاقاتی سے مصافحہ کرتے تو پورا ہاتھ ملاتے اور ہمہ تن متوجہ ہوتے۔ آپ کی صحبت میں بیٹھنے والا ہر شخص یہ سمجھتا کہ مجھ پر سب سے زیادہ شفیق ہیں۔ مجلس میں ایک ایک آدمی پر نظر ہوتی۔ آپ کی نگاہیں ہر ایک کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہوتیں سب سے یکساں محبت و عاطفت سے پیش آتے۔
8۔ ایک خاص خوبی جو حضور غوث پاک کی نسبت سے خاص اہمیت کی حامل ہے۔ آپ کی سوچ اور فکر میں بہت وسعت اور کشادگی تھی، تنگ نظری نام کو نہ تھی۔ آپ کے انداز میں بے پایاں حکمت و تدبر، بصیرت اور فراست تھی جو سالہا سال کے تجربات کا حاصل تھی۔ کسی کی چھوٹی سی کہی ہوئی بات سن کر فوراً تہہ تک پہنچ جاتے۔
9۔ حضور قدوۃ الاولیاء کا ایک خاص وصف یہ تھا کہ آپ پابندِ شریعت، عارف باللہ اور فنا فی الرسول ﷺ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یقین و ایمان کی فراوانی سے نواز رکھا تھا۔ یہ کیفیت اس وقت نصیب ہوتی ہے جب انسان منبعِ فیض یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نبی کریم ﷺ سے اطاعت و محبت کا مضبوط تعلق رکھتا ہو اور یہ تعلق اسے اٹھتے بیٹھتے سراپا ذکر بنادے۔ اسی تعلق کو تصوف و طریقت میں ''فنائیت'' کہتے ہیں۔ چنانچہ ایک بامراد مرید کی طرح آپ بھی اپنے جد اعلیٰ حضور غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ سے فنائیت کی حد تک عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ بیعت فرمانے کے بعد جب آپ اوراد و وظائف کی تلقین فرماتے تو ہمیشہ فرماتے: ''تم غوث الاعظمؓ کا مرید ہوگیا ہے۔'' یہ معمولی بات نہیں، بہت بڑے حوصلے، اعلیٰ مقام و مرتبہ اور حضور غوث الاعظمؓ سے قربِ تعلق کی علامت ہے۔
محافل ذکر و نعت میں آپؓ جذب و ضبط کا مجسمہ بنے رہتے لیکن کئی بار دیکھنے میں آیا کہ حضور غوث الاعظمؓ کی منقبت سنتے سنتے ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے اور بے اختیار وجد آور کیفیت میں ''المدد یا غوث الاعظم المدد یا دستگیر'' کا ورد فرماتے۔ آپ کو اپنے جد اعلیٰ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ سے جو جذباتی لگاؤ اور موانست تھی اس کا ظہار لفظوں کی زبان سے ناممکن ہے۔
جب بھی دعا فرماتے تو حضور نبی کریم ﷺ اور حضور غوث پاکؓ کے وسیلہ جلیلہ سے مانگتے۔ الغرض آپ کی ہر سانس اور ہر دھڑکن میں ذکرِ الہٰی کے بعد سرورِ کائنات حضور نبی اکرم ﷺ اور سیدنا غوث الاعظمؓ کی یادیں اور ادائیں سمٹ آتی تھیں۔ ان دونوں ہستیوں سے آپؓ کا نہ صرف قابلِ رشک روحانی اور دینی تعلق تھا بلکہ نسبی اور خونی تعلق بھی تھا اور یہ نسبت کوئی عام نسبت نہیں، بہت بڑی سعادت اور منفرد شرف ہے جس پر آپ جتنا ناز کرتے، کم تھا۔آپ اس نسبت کی لاج بھی رکھتے اور ہمیشہ اس کا ادب و لحاظ بھی فرماتے۔ ہر فضل و کمال کی نسبت نبی اکرم ﷺ اور سیدنا غوث الاعظمؓ کی طرف منسوب فرماتے۔ یہ آپ کا اظہار عجز بھی تھا اور مقامِ محبت و فنائیت بھی۔
الغرض حضور پیر صاحبؒ صوفیانہ بصیرت اور معتدل طبیعت کے حامل تھے۔ بطور عقیدت مند اور مرید ہمیں بھی حضور پیر صاحبؒ کے اِن اخلاقِ حمیدہ سے اپنے سیرت و کردار کو سنوارنے کے لیے روشنی حاصل کرنی چاہیے۔ اسی صورت ہم ان کے علم و روحانیت کے صحیح خوشہ چین بنتے ہوئے ان کے فیض سے اپنے دامن کو مالا مال کرسکتے ہیں۔
شریعت اور طریقت پر کاربند
شریعت اور طریقت ہر دو پر حضور پیر صاحبؒ کی شخصیت اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق عمل پیرا تھی۔ آپ نہ صرف عملی طور پر شریعت و طریقت پر کاربند تھے بلکہ اپنے مریدین اور عقیدت مندوں کو بھی ان دونوں کے بارے آگاہ فرماتے رہتے۔
ایک موقع پر شریعت اور حقیقت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے حضور پیر صاحبؒ نے فرمایا:
شریعت اور حقیقت اہل طریقت کے لیے اصطلاحات ہیں۔ شریعت تو ظاہری عمل اور حال کی صحت کو ظاہر کرتی ہے اور حقیقت باطن کے احوال صحت مند ہونے یا نہ ہونے کو۔ اس لیے ایک مومنِ حقیقی میں ہر دو کا اجتماع ضروری ہے۔ حقیقت کتنی ہی قوت سے منکشف کیوں نہ ہو پھر بھی بجز شریعت، حقیقت کا منکشف ہونا قطعی ناممکن ہے کیونکہ حقیقت تو شریعت پر مکمل طور پر مطابقِ سنت نبی علیہ السلام عمل درآمد کرکے نور باطنی پالینے کا نام ہے۔شریعت کسی بھی حال میں کسی شخص سے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو ساقط نہیں ہوسکتی اور اس کی تعمیل ہر حالت میں فرض ہے۔ پس حقیقت سے مراد باطنی اور حقیقی صفات کی تکمیل اور تزکیہ قلب اور مخالفتِ نفس ہے جو تصوف کا بنیادی منشا ہے۔
حقیقت خداوند تعالیٰ کی طرف سے نگہداشت، توفیق، رہنمائی اور عفت و حفاظت کا نام ہے، لہذا حقیقت کا قیام شریعت کے بغیر محال ہے اور اسی طرح شریعت کا قیام حقیقت کے روحانی اور اخلاقی آداب بجا لانے کے بغیر محال ہوگا۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ جیسے کوئی شخص جب تک کہ روح اس کے جسم میں جاری و ساری رہتی ہے وہ زندہ ہے مگر جب وہ علیحدہ ہوجاتی ہے تو وہ بے جان بلکہ مردہ ہوجاتا ہے۔ لہذا شریعت اور حقیقت دونوں ایمان و انسان کے لیے منزلہ روح و جسم کے ہیں جیسے کہ جسم اور روح کی تمام قدرو قیمت ایک دوسرے کے وصل و اتحاد سے ہوتی ہے، اسی طرح شریعت بلا حقیقت یا حقیقت بلا شریعت نفاق اور گمراہی ہے۔
پس شریعت مجاہدہ ہے اور ہدایت و مشاہدہ اس کی حقیقت ہے جو باالفاظ دیگر ظاہر کی باطنی رہنمائی ہے۔ جب مجاہدہ نہ ہوگا تو مشاہدہ کہاں سے ملے گا۔ جب شریعت ترک کردی جائے گی تو حقیقت کے وارد ہونے کے کیا معنی؟ لہذا شریعت اگر ایک دینی چیز ہے تو حقیقت سراسر دینی۔ حقیقت نے آخری دم تک شریعت کے احکام سے کسی حکم کو نظر انداز نہیں کیا تو صرف باطنی نماز اور روزہ کا سبق دینے والے اور شریعت پر عمل نہ کرنے والے پیر نہیں بلکہ ملحد، کافر، بے دین، عیش پرست، تن اور شہوت پرست ہیں جو سادہ لوح مسلمانوں کو گناہگار بنارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے مکرو شر سے بچائے۔
حضور پیر صاحبؒ اور تحریک منہاج القرآن
قدوۃ الاولیاء حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادیؓ دنیائے ولایت کے اس آفتاب درخشاں کا نام ہے جن کے فیض سے احیائے اسلام اور تجدید دین کی عظیم تحریک ’’تحریک منہاج القرآن‘‘ کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت قلیل عرصے میں اس مشن کو وہ فروغ اور پذیرائی نصیب ہوئی کہ آنے والا ہر لمحہ اس تحریک کی قبولیت، مقبولیت اور وسعت کا پیامبر بن گیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تمام تر علمی، فکری، تحریکی اور روحانی سوچ کے پسِ منظر میں درحقیقت حضور پیر صاحبؒ کی روحانی سرپرستی کارفرما ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے ساتھ حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدینؒ کا تعلق ان کی حیات مبارکہ میں بھی جاری و ساری رہا اور آج بھی روحانی طور پر جاری و ساری ہے۔ ایک مرتبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے سوال کیا گیا کہ ان کے موجودہ مقام و مرتبے تک پہنچنے میں ان کے پیر طریقت حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی ؒ نے کیا کردار ادا کیا؟ تو انہوں نے جواباً فرمایا:
’’میں نے رسول اللہ ﷺ کے لطف و کرم اور عنایات سے جو روحانی فیوض و برکات حاصل کئے ہیں، میں بہ دل و جان یہ محسوس کرتا ہوں کہ میرے لیے ان تمام تر فیوض و برکات کا ذریعہ حضور پیر قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدین القادریؒ کی ذات گرامی ہی تھی۔ آپؒ نے مجھے ہر قدم پر روحانی اعتبار سے سنبھالا ہے۔‘‘
حضرت قبلہ سیدنا حضرت طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادیؒ نے تحریک منہاج القرآن پر اپنی ظاہری حیات میں جتنا کرم فرمایا اس پر تحریک منہاج القرآن جتنا بھی فخر کرے کم ہے۔ اس تحریک پر آج بھی حضور پیر صاحبؒ کا خاص کرم ہے اور آپ باطنی اور روحانی طور پر بھی اسی طرح تحریک کو نواز رہے ہیں جس طرح ظاہری طور پر آپ تحریک منہاج القرآن اور بانی تحریک کی دلجوئی اور سرپرستی فرماتے تھے۔ منہاج القرآن نے اپنے اس عظیم روحانی سرپرست کی توجہات اور فیوضات سے کٹھن سے کٹھن مرحلے طے کئے اور چہار دانگ عالم میں ترقی اور کامیابی کی منازل طے کی ہیں اور اب بھی اس کی جملہ کامیابیاں حضور پیر صاحبؒ کے روحانی فیوضات ہی کی مرہون منت ہیں۔