یہ مسلمہ امر ہے کہ دور غلامی میں قوموں کا مزاج تبدیل ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کا المیہ بھی یہی ہے کہ بطور قوم مجموعی طور پر پوری امت دین کے خود ساختہ ادھورے تصورات لے کر عملاً متحرک اقوام عالم کے مقابلے میں تنہا کھڑی ہے۔ حالانکہ اس وقت پوری دنیا میں صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس کے پاس ہدایت کے بنیادی ذرائع مبنی بر وحی ہیں، جن میں خطا اور تبدیلی کا کوئی شائبہ بھی نہیں۔ تبدیل شدہ ان ادھورے اور مبہم تصورات میں دین و دنیا کی تقسیم اور عبادت کا محدود تصور سرِ فہرست ہے۔ ان اسباب کی بناء پر مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے آخری اور حتمی دین کے تحرک اور فیض رسانی کو دوسری اقوام تک پہنچانے میں نہ صرف غفلت کا مظاہرہ کیا بلکہ اس الہامی اور فطری نظام زندگی کو دوسروں تک پہنچنے میں بھی ہم خود رکاوٹ بن گئے ہیں۔
قرآن نے امت مسلمہ کی اہم ترین خصوصیت امت وسط بیان کی ہے۔ وسط کے مفہوم میں اعتدال اور میانہ روی شامل ہیں۔ ’’خيرالامور اوسطها‘‘ یعنی اعتدال اور میانہ روی پر مبنی امور ہی سراپا خیرو برکت ہیں۔ اعتدال انسانی فطرت اور نفسیات کے عین مطابق ہے جبکہ شدت میں زبردستی، زور آوری اور دبائو کا عنصر شامل ہوتا ہے جسے انسانی سرشت قبول نہیں کرتی اور اگر انسان پر کوئی چیز مسلط کردی جائے تو اس کے نتائج ہمیشہ منفی نکلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لا اکراہ فی الدین فرماکر اپنے پسندیدہ دین اسلام کی خوبی بھی یہی بیان کی ہے کہ اس میں کوئی عمل بھی زبردستی نہیں ٹھونسا گیا۔ اسلامی تعلیمات عقائد و معاملات اور عبادات سب کے سب فطرت سلیمہ کے عین مطابق ہیں۔ فرائض اور واجبات کی ادائیگی میں بھی انسان کا اپنا جسمانی یا روحانی، دنیوی یا اخروی فائدہ مضمر ہے۔
ہم لوگ عبادت بھی کرتے ہیں اور مساجد میں بھی آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ دعوت و تبلیغ کا کام بھی پہلے سے زیادہ وسیع پیمانوں پر جاری و ساری ہے۔ اگر آپ جہادی سرگرمیوں پر نظر ڈالیں تو وہ بھی پہلے سے زیادہ نظر آتی ہیں بلکہ اب تو جس کو اور کوئی کام نہیں آتا وہ بھی جہاد کے لئے چل پڑتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کا مجموعی تاثر نہایت غیر تسلی بخش بلکہ پریشان کن کیوں ہے؟ اقوام عالم کی قطار میں اس کی سست رفتاری اور غیر فعالی سوالیہ نشان کیوں ہے؟ نجی زندگی سے لے کر قومی اور بین الاقوامی زندگی تک ہر سطح پر بدامنی، بے چینی، اضطراب مسلمانوں کا مقدر کیوں ہے؟ میرے نزدیک اس کی کئی وجوہات اور اسباب میں سے بنیادی وجہ مسلمانوں کا فکری انتشار، عدم اخلاص اور غیر اخلاقی رویے ہیں۔ مسلمان سیاستدان، معیشت دان، تاجر، اساتذہ، طلباء اور دانشور بالعموم چند عبادات اور عقائد کو کل دین سمجھ بیٹھے ہیں۔ انہوں نے معاملات یعنی پبلک ڈیلنگ کو کلیتاً دین سے علیحدہ کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کے مجموعی رویوںمیں بھی دین اور دنیا کی تقسیم جڑ پکڑ چکی ہے۔ ہم جب مسجد میں آتے ہیں تو خود کو اسلام میں داخل سمجھتے ہیں مگر جب دفتر، دکان، فیکٹری اور گھر میں جاتے ہیں تو خود کو مذہب سے فارغ کرلیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے اخلاق غیر مستحکم بلکہ کئی موقعوں پر بالکل کمزور ہوچکے ہیں۔
مذہبی شخصیات میں قول و فعل کا تضاد، نفرت و حقارت، فرقہ پرستی کا فروغ اور اب انتہاء پسندی کے نتیجے میں عروج پر پہنچی ہوئی دہشت گردی اسی انتشارِ فکری اور اخلاقی فقدان کا نتیجہ ہے۔
ہمارا تعلیمی نظام جس انتشار اور تضاد کا شکار ہے اس میں بھی تدریسی اخلاقیات کا فقدان نظر آتا ہے۔ سیاستدان اور حکمران ریاستی امور میں جس قدر ہوس پرستی اور کرپشن کی دلدل میں اتر چکے ہیں اور اب اعلانیہ کرپشن روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ ہر بار انتخابی وعدے ہوتے ہیں قسمیں اور حلف اٹھائے جاتے ہیں مگر اقتدار کی راہداریوں میں پہنچتے ہی سب وعدے سب حلف اور تمام تعمیری عزائم ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ انہیں قوم کے مسائل سے کوئی غرض ہی نہیں رہی۔ ان کا ضمیر مردہ ہوکر مردار پسند بن چکا ہے۔ وزراء اور بیوروکریٹ قومی املاک کو گروی رکھ کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ کمیشن کھاتے ہیںاور قومی دولت کو مال غنیمت سمجھ کر بے دریغ لٹانے کے بعد قومی خزانہ خالی ہوجانے کی نوید سنادیتے ہیں لیکن آج تک نہ کسی کرپٹ حکمران افسر اور سیاستدان کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور نہ کوئی چور ڈاکو عبرت ناک انجام کو پہنچ سکا۔ اس کی وجہ بھی ہر طرف پھیلی ہوئی منافقت اور مفادات ہیں۔ ہمارے قومی اور صوبائی عوامی نمائندگان انتخابی مہم میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لئے تمام تر غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں حتی کہ قاتلانہ حملے اور کھانوں میں زہر تک ملادینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ اقتدار کی ہوس میں انسانی اقدار کا یہ جنازہ کیوں نکلتا ہے؟ محض اس لئے کہ ہمارے اندر اخلاقی اور ایمانی جذبات ختم ہورہے ہیں۔
ویسے تو ہر شعبہ زندگی میں اخلاقیات کا فقدان نظر آتا ہے لیکن ان لوگوں کے معاملات دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے جو مذہبی پیشوائیت اور رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ علماء اور مشائخ ہماری مسلم سوسائٹی میں دین کی علامت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ اسی نسبت سے لوگ انہیں احترام اور عزت دیتے ہیں مگر کتنی تعجب کی بات ہے کہ صبح و شام قرآن و حدیث کی تعلیمات کا درس دینے والے اور دین کی خدمت میں اپنی زندگیاں وقف کردینے والے بزرگوں کی گدیوں پر بیٹھے ہوئے ان حضرات کی اکثریت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہِ حسنہ اور خلقِ عظیم سے محروم ہے۔ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمنوں کو گلے لگایا، یہ لوگ اپنوں کو دین سے باہر نکالنے پر کمربستہ ہیں۔ پیغمبر اسلام نے کئی کئی روز تک مدینہ میںحاکم ریاست ہونے کے باوجود فاقے کئے، چند کھجوریں اور جو کی روٹی کے چند نوالے بھی میسر آئے تو اپنے جانثاروں میں تقسیم کردیئے مگرہمارے کتنے روحانی خانوادے اور دینی قائدین ہیں جو خود تو پرتکلف اور پرتعیش زندگی گزارتے ہیں لیکن ان کے اردگرد ان کے حلقہ ہائے ارادت میں مسلمان بھوک اور افلاس سے دم توڑ رہے ہیںمگر ان کا ضمیر اس پر انہیں کبھی ملامت نہیں کرتا۔ ہمارے بعض ناسمجھ علماء کے منفی رویوں، دوسروں سے نفرت اور بے جا فتوی بازی سے معاشرتی توازن بگڑ چکا ہے۔ نوجوان دین سے بیزار ہورہے ہیں اور اغیار ہماری ہنسی اڑا رہے ہیں مگر ان حضرات نے کبھی بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کی۔ کیا یہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق عظیم کی اتباع ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے دین اسلام کو من پسند صورت دے دی ہے۔ جیسے ایک عمارت بہت سے ستونوں سے مزین ہو مگر وہ چھت کے بغیر مکمل اور محفوظ نہیں ہوسکتی، اسی طرح دین کی چھت حسنِ خلق ہے جس کے بغیر ہم میں سے کسی کا دین محفوظ نہیں۔ ہم داعیِ توحید بھی ہیں، محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعویدار بھی ہیں، نمازوں کی پابندی بھی کرتے ہیں اور جہادی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں مگر ہماری زندگیاں اسوہِ حسنہ کی سب سے نمایاں خوبی سے کلیتاً خالی ہیں۔ ہم دوسروں کو اعلیٰ مقام دینے کی اخلاقی جرات تو کیا اسے برابر کی حیثیت دینے کے لئے بھی تیار نہیں۔ ہم دوسروں کی خیر خواہی کے جذبے سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ دوسرے مکتبہ فکر کے حامل افراد سے ملنا اور ان کے ساتھ کھڑے ہونا بھی اپنی کسرِ شان اور توہین سمجھتے ہیں۔ اسلام کی عمارت کے ستون اور دیواریں بھی ہیں مگر اس کی چھت قائم نہیں اور ہم چھت کے بغیر عمارت کے مکین ہیں۔