کسی بھی ملک کے رہنے والے سوجھ بوجھ کے مالک ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر رواں دواں دیکھے۔ چنانچہ ایسے افراد اپنے ملک کو مستحکم بنیادوں پر قائم کرنے، اس میں سچی جمہوریت کو فروغ دینے، اس میں بسنے والے افرادِ قوم کو علم اور خواندگی کی دولت سے مالا مال کرنے، اس میں موجود غربت و افلاس کو دور کرنے اور اس کے گوناگوں مسائل کو حل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کا اشتراک حاصل کرنے کے لئے مخلصانہ کوششیں کیا کرتے ہیں۔ اپنی قوم کو ایک مضبوط اور باوقار قوم بنانے کے لئے اپنے وقت، اپنی بہترین صلاحیتوں، اپنے مال حتی کہ اپنی جان تک کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ایسے افراد اپنی ذات کو بھرپور اجتماعی جدوجہد کے حوالے کردیا کرتے ہیں اور اس وقت تک دم نہیں لیتے جب تک ان کی قوم گمراہی کی اندھیری پگڈنڈیوں سے نکل کر ہدایت کی سیدھی اور روشن شاہراہ پر چل نہیں پڑتی۔ وہ ہر طرح کی ذاتی اغراض اور بے جا طرفداریوں سے بالا ہوکر قوم میں سے بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد کو اعتماد میں لیتے ہیں۔
ایسے ہی افراد بجا طور پر اپنی قوم کے قائد اور رہنما قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ قوم ان کے ایثار، محنت اور قابلیت سے متاثر ہوکر ان پر اعتماد کا اظہار اور ان سے تعاون کرتی ہے اور ہر دو عوامل مل کر ملک کی تعمیر کرتے ہیں۔ اس طرح ایک قوم سچے جمہوری عمل کے ذریعے حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتی ہے۔
اہل پاکستان کی یہ بدقسمتی ہے کہ سیاسی جدوجہد کے میدان میں ایسے افراد وافر تعداد میں نہیں نکل سکے جو ان صفات کے مالک ہوتے جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ قیادت کے منصب پر عموماً ایسے لوگ فائز ہوگئے ہیں جو عوام کی صحیح رہنمائی کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ یہ بات محض اتفاقیہ اور ایک حادثہ کے طور پر رونما نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ اس سیاسی ڈھانچے کا منطقی نتیجہ ہے جو قیام پاکستان کے وقت وجود میں آیا تھا۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ تحریک پاکستان کے دوران مسلمانوں کی سیاسی جماعت مسلم لیگ میں قیادت و رہنمائی کا مقام چند ایک لیڈروں کو چھوڑ کر زیادہ تر ان افرادکو حاصل ہوا جنہیں غلامی کے دور میں مال و دولت کی بنیاد پر معاشرے میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ جو انگریزوں کے دورِ حکومت میں نواب اور جاگیردار تھے یا اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ عوام کی حیثیت اس وقت ایسے سادہ لوح مسلمانوں کی تھی جو اپنے کھوئے ہوئے تشخص کو ازسر نو قائم کرنے کی خواہش لئے اُس آواز کے پیچھے غول در غول چل پڑنے پر مجبور تھے جو ان کے آگے چلنے والے بڑے طمطراق سے بلند کررہے تھے۔ اسلام کے نعرے سے زیادہ ان بے چارے مسلمانوں کے لئے اور کس چیز میں کشش ہوسکتی تھی کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ ان کے تمام دکھوں کا مداوا خالق کائنات اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے گئے زندگی کے اصولوں پر کاربند ہونے میں ہے۔ لیکن صدہا سال کے دور غلامی میں عام مسلمانوں کی اس نہج پر تربیت نہ ہوسکی بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ان سے یہ بات مخفی رکھی گئی کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بیان کردہ اسلامی اصولوں کی پاسداری اجتماعی فریضہ ہے اور اس فریضہ کی بجا آوری کے لئے ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
قیام پاکستان کے بعد بھی ان سیاسی اور مذہبی قائدین نے اپنا یہ اولین فریضہ ادا کرنے کی ذمہ داری قبول نہ کی کہ مسلم عوام کو اپنا فریضہ زندگی ادا کرنے کے قابل بناتے اور ان میں عدل و انصاف اور انسانی فلاح و ترقی کی بنیادوں پر معاشرے کی تعمیر کا جذبہ پیدا کرتے۔ اس کے برعکس یہ عمائدین اپنی گدیوں کو مزید مضبوط کرنے اور ملک کے ذرائع پیداوار کو خود اپنے لئے دولت کے انبار لگانے کے لئے استعمال کرنے میں لگ گئے اور اسلام کے نام پر عوام کو دیئے گئے اپنے قول کی انہوں نے اپنے عمل سے تکذیب کردی۔ انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور عوام کو جہالت میں مبتلا کرنے اور انہیں سیاسی اختیار سے بے دخل کرنے میں صرف کردیا اور اسمبلیوں کو ملک کے ایک فیصد جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور ان کے حواریوں کے لئے وقف کردیا۔ ان اسمبلیوں میں پاکستان کے محروم و محکوم عوام کا داخلہ ناممکن بنادیا گیا اور انہیں مستقل طور پر اس مہیب فریب میں مبتلا کردیا گیا کہ یہی جاگیردار اور سرمایہ دار ان محنت کاروں اور غریب عوام کی نمائندگی کرسکتے ہیں اور ان کی ترقی و خوشحالی کے لئے کوشاں ہوسکتے ہیں۔
اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ۔۔۔
اب پاکستانی قوم ایک ایسے دوراہے پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں ہمیں دو واضح راستوں میں سے ایک راستے پر چلنے کا قطعی اعلان کرنا ہوگا۔
- ایک راستہ موجودہ فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام اور روایتی جمہوریت پر پے درپے نقصان کے باوجود بھروسہ کرنا۔
- دوسرا راستہ سچی جمہوریت اور انسانی فلاح و بہبود کے اقرار کا راستہ۔
ہمیں اس موقع پر یہ بین فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں اقوام عالم میں پاکستانی قوم کی تذلیل اور پاکستان کے ننانوے فی صد محنت کار عوام کی ایک فیصد جاگیردار اور سرمایہ دار اقلیت کے ہاتھوں غلامی مطلوب ہے یا کہ پاکستانی قوم کی بے بہا مگر خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرنا اور اسے ایک باعزت، باوقار، ترقی یافتہ اور خوشحال قوم بنانا مقصود ہے جس کا ہر ہر فرد بجا طور پر اس بات پر فخر کرسکے کہ وہ حقیقی جمہوری نظام کا حصہ ہے جس میں اختیارات و اقتدار حقیقی معنوں میں عوام الناس کو حاصل ہے۔
اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنی پرانی طرز سیاست کو یکسر بدل ڈالنا ہوگا۔ قوم کی رہنمائی کا منصب آئندہ صرف ایسے افراد کے سپرد کرنا ہوگا جن کا تعلق لوٹ کھسوٹ اور قوم کے استحصال کے ذریعے قوت و حیثیت حاصل کئے ہوئے افراد سے نہ ہو، جو ان گروہوں سے تعلق نہ رکھتے ہوں جنہوں نے گذشتہ 67 برس میں قوم کی سیاسی زندگی کو مکدر کیا ہے اور جو ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ کس طرح قوم کی پیٹھ پر اپنے ظلم و تشدد اور جبرو استحصال کی کاٹھی جماسکتے ہیں۔
یہ کام اگر ہمیں کرنا ہے تو اس کے لئے ناگزیر ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے اندر چھپی ہوئی خودغرضی اور مفاد پرستی کو بے نقاب کریں اور ہر قسم کی منافقت اور زبانی جمع خرچ کو ترک کرکے اپنی ذات کو قومی مفاد اور وسیع تر انسانی فلاح کی خاطر بھرپور اجتماعی جدوجہد کے لئے وقف کردیں اور انسانی برادری کے ساتھ حقیقی محبت اور یگانگت کا جذبہ لے کر آگے بڑھیں۔ ہمیں اس امر کا مکمل شعور حاصل کرنا ہوگا کہ سماج کی بہبود اور ترقی ہی میں فرد کی خوشحالی اور اس کا سکون مضمر ہے۔
ہمارا پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ اسے گندی اور اشتعال انگیز سیاست کے خطرناک کھیل میں مبتلا کیا جائے۔ ہمارا پاکستان علم اور شعور کا پیاسا ہے، وہ سائنسی اور فنی ترقی کا خواہاں ہے، وہ اپنے دامن سے غربت و افلاس اور ظلم و ناانصافی کے دھبے دھو ڈالنا چاہتا ہے، وہ ایمان اور عمل کے تضاد کو ختم کردینا چاہتا ہے۔ وہ اپنے حدود میں رہنے والے ہر فرد کی زندگی سے (خواہ وہ کسی گروہ، نسل، مذہب اور فرقے سے تعلق رکھتا ہو اور کوئی سا بھی نظریہ رکھتا ہو) جہالت اور غربت کو دور کرنا چاہتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے اخلاق اور روحانیت کا امرت درکار ہے جو اس کی ترقی و خوشحالی کو دوام بخش سکے گا اور اسے غلط راہوں پر چل نکلنے سے باز رکھ سکے گا۔
پاکستان عوام میں پیدا ہونے والا شعور اور حالات کا بدلتا ہوا رخ صاف بتا رہا ہے کہ پاکستان سے اس فرسودہ سیاسی نظام کے کرپٹ محافظ اور ان کی معاون قوتیں پسپا ہوں گی، عوامِ پاکستان یقینا غالب آئے گی اور ہمارا پاکستان دنیا میں سرخرو ہوگا۔
تکمیلِ پاکستان مگر کیونکر؟
پاکستان کا کیا بنے گا؟ یہ سوال زبان زد عام ہے لیکن کوئی اس بات پر غور نہیں کرتا کہ آخر یہ سوال پیدا کیوں ہوا؟ کیا دنیا میں کوئی اور بھی ایسا ملک ہے جس کے رہنے والے اپنے وطن کے بارے میں اس قسم کا کوئی سوال ذہن میں لاتے ہوں؟
یہ صورت حال صرف ایسی قوم میں پیدا ہوا کرتی ہے جس میں قومیت اور وطنیت کا احساس مردہ ہوچکا ہو اور افراد قوم ذاتی خودغرضیوں میں مبتلا ہوچکے ہوں۔ قوم کو ایسے گھپ اندھیروں سے وہی اشخاص نکال سکتے ہیں جو وطن کی محبت سے سرشار ہوں اور جو اپنی انفرادیت کو اجتماعیت میں گم کردینے کے لئے آمادہ ہوں۔
حقیقی معنوں میں تکمیل پاکستان کے لئے ہمیں ایک مسلسل اور بھرپور جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا جس میں پوری قوم کا شریک ہونا ناگزیر ہے۔ یہ جدوجہد ہمیں اس واضح تصور کے ساتھ کرنا ہوگی کہ جمہوری قدروں کا احیاء اور ان کا فروغ ہی ہماری سیاست کا وہ بنیادی پتھر ہے جس کی بنیاد پر آئندہ کے تمام ترقی پسند اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں ظلم اور جہالت و تاریکی کی طاقتوں کے مقابلے میں بطور قوم سینہ سپر ہونا ہوگا۔۔۔ ہمیں بڑے پیمانے پر جہالت اور غربت و افلاس پیدا کرنے والی طاقتوں کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔۔۔ ہمیں جھوٹ، فریب، تعصب اور نفرت کی بنیاد پر کی جانے والی سیاست کو ختم کرنا ہوگا۔۔۔ ہمیں اجارہ دار، خودغرض اور غیر محب وطن عناصر کو اپنے ملک کی سیاست سے بیدخل کرنا ہوگا۔۔۔ ہمیں یہاں کی سیاست کو ملک کے محنت کش اور نیک دل عوام کی مرضی کے تابع کرنا ہوگا۔۔۔ ہمیں پاکستانی عوام کے وقار کو، جو بری طرح مجروح ہوچکا ہے، بحال کرنا ہوگا اور ایک ایسی قوم کو وجود میں لانا ہوگا جو ہر قسم کے استحصال کے مقابلے میں سینہ سپر ہوسکے، جو ظالم سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں مظلوم کی پشت پناہ ہو اور جو اپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثوں کو دنیا کی دوسری اقوام کے ورثوں کے ساتھ شامل کرکے انسانیت کی ترقی کے لئے نئی راہوں کی نشاندہی کرسکے۔
بگڑتے ملکی حالات۔۔ ذمہ دار کون؟
ملک کے حالات مسلسل بگڑتے چلے جارہے ہیں۔ عوام کا حکومت کرنے کا جمہوری اختیار چھینا جاچکا ہے۔ شہری آزادیاں سلب کی جاچکی ہیں۔ حکومت پر قابض لوگ من مانی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی مسلط کرکے عوام کی زندگی دوبھر کردی گئی ہے۔ ملک کی دولت کو فضول خرچیوں اور حاکمانہ ٹھاٹھ باٹھ پر ضائع کیا جارہا ہے۔ ملک کی ہمہ جہتی پیداواری ترقی رک گئی ہے۔ ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نے تو قوم کی معاشی زندگی کا رخ قطعی طور پر تباہی کی جانب موڑ دیا ہے اور نئی نئی سماجی الجھنیں پیدا کر دی ہیں۔
ان حالات میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ پاکستان کے مزدور اور کسان، متوسط طبقوں کے ذی ہوش افراد، عوامی دانشور اور قومی مفادات سے گہری وابستگی رکھنے والے صنعتکار اور تاجرحضرات اپنے ملک میں برپا ہونے والے سیاسی عمل کو بعض مخصوص افراد کے حوالے کئے رکھنے اور خود اس سے بے تعلق رہنے کی بجائے آگے بڑھیں اور عوامی قوت کو مضبوط و متحرک بنانے کی سنجیدہ اور بھرپور کوشش کریں۔ یہ کوشش تبھی بار آور ہوسکتی ہے جبکہ پہلے ہم چند باتیں اچھی طرح ذہن نشین کرلیں:
اول: بگڑتے معاشی حالات دراصل اسی بات کا نتیجہ ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان کی معیشت کو سیاسی مفادات کے تابع کررکھا ہے۔ قومی دولت میں سے اپنا حصہ / کمیشن وصول کرنے اور عالمی مالیاتی اداروں کے مطالبات پورے کرتے رہنے کے لئے وہ ایسے اقدامات کرتے رہتے ہیں جس سے عوام پر معاشی بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔
دوم: تمام اختیارات ایک خاندان اور ان ہی کے کاسہ لیسوں کے ہاتھوں میں دے دینے کی غلطی ملک کو یقینی طور پر تباہی و بربادی کی طرف لے جارہی ہے۔
سوم: اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد اس حکومت نے مسلسل ایسے اقدامات کئے ہیں جن کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کی نشوونما رک گئی ہے۔ قومی اداروں کے امور میں بے جا مداخلت اور اپنی مرضی کے افراد کا اُن اداروں میں بطور سربراہ تعین ملک میں جمہوری اقدار کو مضبوط بنانے کے بجائے مزید کمزور کرنے کی سازش ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کی موجودگی میں ملک کو مزید مدت کے لئے ایسے لوگوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا جو قوم کو پے در پے مصائب و آلام میں مبتلا کرتے چلے جارہے ہیں۔ عوام کے لئے اب اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں رہ گیا ہے کہ وہ ملک کو اس آمرانہ جمہوریت سے نجات دلانے کے لئے موثر جدوجہد کریں۔
سیاسی و معاشی آزادی کی ناگزیریت
پاکستان ایک منفرد حیثیت کا ملک ہے۔ دنیا میں یہ واحد ملک ہے جو خالصتاً نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ اس نظریہ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ انسان کی فطری صلاحیتوں کے اظہار اور اس کی شخصیت کے نشوونما کے لئے مکمل سیاسی اور معاشی آزادی کا حاصل ہونا ناگزیر ہے۔ یعنی جب تک کوئی معاشرہ اپنے ہر ہر فرد کو اس بات کی ضمانت فراہم نہیں کرتا کہ بنیادی ضروریات زندگی حاصل کرنے کی جدوجہد میں اس کی راہ میں کسی قسم کی اجارہ داریاں حائل نہیں ہونے دی جائیں گی اور دوسروں کے مقابلے میں زندگی میں ترقی کرنے کے تمام مواقع اسے مساوی طور پر حاصل ہوں گے، اس وقت تک وہ معاشرہ ترقی کی راہ پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
ایک ایسے نظریہ حیات پر مبنی نظام کے قیام کے لئے ضروری تھا کہ پاکستان میں ایک ایسا نظام حکومت قائم کیا جاتا جو اس بنیادی مسئلہ کی طرف اپنی تمام تر توجہ مبذول کرتا کہ پاکستانی معاشرے کے افراد میں قیام پاکستان کے اعلیٰ مقاصد کے ساتھ لگن اور ہر طرح کی غلامی سے آزاد ہوکر قدرت کی ودیعت کی گئی بہترین انسانی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی شدید تڑپ پیدا کی جائے۔ لیکن افسوس کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ایسا نہیں ہوسکا۔ اس کوتاہی کی آخر کیا وجہ ہے؟ کیا اسلامی اقدار خالی خولی نعرے اور محض خیالی باتیں ہیں؟ کیا ہماری تاریخ میں اس کی عملداری کی درخشاں مثالوں کا وجود نہیں ہے؟ مثال کے طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس تاریخی قول کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ ’’لوگو! اللہ نے مجھے اس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے کہ تمہاری دعائوں کو خدا تک پہنچنے سے روک دوں‘‘۔ (طبری) بظاہر عجیب سا دعویٰ معلوم ہوتا ہے لیکن ان کا یہ دعویٰ حقیقت بن کر رہا۔
انہوں نے عظیم قربانیاں دے کر ایک ایسا نظام حکومت قائم کیا جس کے تحت رہنے والے افراد کی تمام احتیاجیں بخوبی پوری ہونے لگیں اور ان کی کوئی بھی معاشی ضرورت ایسی نہ رہی جس کے لئے انہیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پیش آتی یا جس کی خاطر انہیں اپنے نظریات اور اپنی دینی قدروں کو چھوڑ کر کچھ دوسرے نظریات اور دوسری ہی قدروں کا سہارا لینا پڑتا۔
پاکستان میں ایک ایسے نظام حکومت کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ موجودہ فرسودہ سیاسی نظام ہے جس نے بڑی بڑی اجارہ داریوں کو جنم دے کر معاشرے کے ہر ہر فرد کو معاشی لحاظ سے خود کفیل بنانے کی بجائے قوم کی اکثریت کو بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم کردیا ہے۔ اس نے ملکی دولت اور ذرائع و وسائل کو صرف چند ہاتھوں میں جمع کرکے ملک کی بیشتر آبادی کو محرومیوں سے دوچار کردیا ہے۔ اب ہمارے معاشرے کے افراد کا مقام اس کی علمی و عملی صلاحیتوں، اخلاقی برتری اور ذاتی کردار کی بجائے اس کے پاس موجود دولت اور سرمایہ کے پیمانوں سے متعین کیا جانے لگا ہے اور سوسائٹی میں اس کے مرتبے کا معیار روپیہ پیسہ بن گیا ہے، چاہے یہ روپیہ پیسہ دوسروں کا حق مار کر ہی کیوں نہ حاصل کیا گیا ہو۔
ہماری راہ کی ایک بڑی رکاوٹ ہمارے مذہبی رہنمائوں کی ’’بے راہ روی‘‘ بھی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے عوام کو اسلام کی اصل روح اور اس کی انقلابی تعلیمات سے بہرہ ور کرنے کی بجائے اس سے بے بہرہ رکھا اور امت کو ایک وحدت بنانے کی بجائے اسے بیشمار گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا۔ انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ہمارے صلحائے عظام کی وہ باتیں ہمیں بتانے سے گریز کیا جو ایک مسلم معاشرے کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی پہلوئوں کو اجاگر کرنے والی تھیں اور جو ایک منصفانہ اور عادلانہ نظام کے قیام کا ذریعہ بن سکتی تھیں۔ وہ ان باتوں کو اچھالتے رہے جن کا تعلق فروعی مسائل یا جزوی اخلاق سے تھا اور جن کا اسلام سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہ تھا۔ اس کے نتیجے میں ہماری قوم سرمایہ داروں کی معاشی غلامی میں مبتلا اور غیر پختہ افکار و نظریات کا شکار ہوکر اپنے آپ سے بیگانہ ہوگئی اور اپنے شاندار ماضی سے کٹ گئی۔
اجتماعی ضمیر کی بیداری کی ضرورت
کسی بھی معاشرے میں اس وقت تک تعاون اور اعتماد کی فضا پیدا نہیں ہوسکتی اور کوئی قوم اس وقت تک حقیقی طور پر ترقی نہیں کرسکتی جب تک کہ اس معاشرے میں معاشی انصاف اور معاشرتی عدل قائم نہ کردیا جائے۔ جب تک کسی قوم میں معاشی ناہمواری اور سماجی اونچ نیچ کو بڑی حد تک دور نہیں کیا جاتا اور لوگوں کی آمدنیوں میں فرق کو خاطر خواہ کم نہیں کیا جاتا۔ اس وقت تک نہ تو زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی ہوس اور معاشی دوڑ میں دوسروں کو پیچھے چھوڑ جانے کے رحجان کو کم کیا جاسکتا ہے اور نہ افراد قوم میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و اشتراک اور ایک دوسرے کے معاشی استحکام اور اخلاقی ترقی کے لئے ہاتھ بٹانے کے جذبہ ہی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
معاشی و معاشرتی ناہمواری کا خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ قوم کا اجتماعی ضمیر انہیں رد کردینے کے لئے آمادہ ہوجائے اور قوم اجتماعی ارادے سے کام لیتے ہوئے اس ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ کوئی بھی قوم خودبخود اور کسی قیادت کے بغیر میدان عمل میں نہیں اترا کرتی۔ اس کے لئے ایک ایسی قیادت کا میسر آنا ضروری ہوا کرتا ہے جو خود غرضی کے مرض میں مبتلا نہ ہو۔۔۔ جو اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے والے نہ ہو۔۔۔ جو انسان دوست ہو اور قومی مقاصد کو اچھی طرح سمجھتی ہو۔۔۔ جس کے قول اور عمل میں واضح تضاد موجود نہ ہو۔۔۔ جو جان و مال، وقت اورآرام و آسائش کی قربانی دینے پر قدرت رکھتی ہو۔۔۔ جس میں صبرو تحمل اور سنجیدگی و بردباری کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔۔۔ جو قوم کے مختلف عناصر میں اختلاف اور نفرت و حقارت کے بیج بونے کی بجائے ان میں موجود اختلافات کی خلیج کو پاٹنے اور رفاقت و ہمدردی، محبت و یگانگت اور تعاون و اشتراک پیدا کرنے پر قادر ہو۔۔۔ جو قیادت یا حکومت کو مالی منفعت اور عزت و شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ بنانے کی بجائے اسے ایک اہم ذمہ داری اور اپنی نجات دارین کا ذریعہ جان کر خدا و خلق کے سامنے جوابدہی کے احساس کے ساتھ اور خدمت عوام کے جذبے سے کام کرسکتی ہو۔۔۔ جو عوامی خدمت کے اس میدان کو اپنے اور اپنی اولاد کے لئے کچھ حاصل کرنے کا ذریعہ بنانے کی بجائے جو کچھ اس کے پاس موجود ہو اسے بھی اس راہ میں صرف کردینے کی ہمت رکھتی ہو۔۔۔ اور جسے اس بات کا کامل شعور حاصل ہو کہ ان کی اپنی بھلائی کی ضمانت دوسروں پر خرچ کرنے اور ان کی خاطر قربانی دینے ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔
واضح اصول و قوانین
ہمیں واضح اصول مرتب کرنے ہوں گے جن کی پابندی ہر اس شخص کے لئے لازم قرار دی جانی چاہئے جو عوامی قیادت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرے۔ مثلاً
- ہمیں اس اصول کو قومی سطح پر اپنانا ہوگا کہ ہر شخص کے سپرد وہی کام کیا جائے جس کا وہ اہل ہے۔ نااہل کو اہل تر پر ترجیح دینے کو قوم سے غداری قرار دیا جائے اور پوری قوم میں اس جذبے کی پرورش کی جائے کہ ہر شخص خود اپنے اندر بہتر سے بہتر صلاحیتیں ابھارنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بہترین افراد کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر آگے لائے اور ان کی طرف اپنا دست تعاون بڑھائے۔
- قوم کو اقتدار کی جنگ کا تماشا خاموش تماشائیوں کی طرح دیکھنے کا مشغلہ اب ترک کردینا ہوگا۔ اسے اپنے قائدین کا اس لحاظ سے جائزہ لینا ہوگا کہ ان میں کون ایسا ہے جو عوام کی حقیقی خدمت میں مصروف ہے اور کون ہے جو محض لیڈر بننے کی شوق میں دیوانہ ہورہا ہے اور اس غرض سے اپنے پاس نہ جانے کس کس طرح جمع شدہ دولت کو بے دریغ لٹاتے ہوئے اصول و نظریات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے سے اہل تر افراد کو پیچھے دھکیل رہا ہے اور خود آگے بڑھنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔
- ہر سیاسی قائد عوامی خدمت کے میدان میں قدم رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے پاس موجود اثاثوں کا اعلان کرے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کمی ہورہی ہے یا اضافہ اور اگر کچھ اضافہ ہوا ہے تو وہ کہاں تک جائز اور مناسب ہے۔
- یہ باطل تصور بھی یکسر بدل دینا ہوگا کہ حکومت کا کاروبار چلانے والے حاکم ہیں اور عوام (جو ان کے ہاتھ میں حکومت کو اختیار دیتے ہیں) محکوم ہیں۔
- یہ اصول اپنانا ہوگا کہ حکومت کا اختیار ایک بہت بڑی ذمہ داری اور عوام کی طرف سے اس کے ہاتھوں میں ایک امانت ہے۔ حکومت کرنے والے کی حیثیت حاکم کی نہیں بلکہ ایک منتظم کی ہے۔ وہ حکومت کے اختیارات کے استعمال کے بارے میں عوام کے سامنے جوابدہ ہے اور یہ جوابدہی مسلمہ جمہوری اصولوں کے مطابق عوامی اداروں اور عوامی احتساب کے ذریعے مسلسل ہوتی رہے گی۔
اگر ہمیں پاکستان کو ایک مثالی فلاحی مملکت بنانا ہے اور دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے میں کوئی قابل رشک کردار اداکرنا ہے تو پھران اصولوں کو اپنائے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔