حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اولیاء، صلحاء اور دینی شخصیات سے محبت و عقیدت کو ’’شخصیت پرستی‘‘ کا نام دینے والوں کی خدمت میں چند گزارشات
اِنسانی فطرتِ سلیمہ کا تقاضا ہے کہ جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خدمت کی توفیق حاصل ہو جائے تو اس کی شخصیت اور کردار سے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسا پیار و محبت اور عقیدت و اِحترام شخصیت پرستی کے زُمرے میں نہیں آتا۔ بلکہ ایسے انسان سے عقیدت و محبت درحقیقت اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ اُنہی کے پیغام ہی کی برکت ہے کہ جس نے ایک عاجز اِنسان کو اِس قابل بنا ڈالا کہ دنیا کے لاکھوں لوگ اس سے محبت و عقیدت کا دم بھرتے ہیں۔ جماعتی و تحریکی محبتوں اور اِن جذبوں کے پیچھے درحقیقت اِسلام سے محبت ہی چھپی ہے۔
یہ سُنتِ نبوی پر عمل کی برکت ہوتی ہے کہ لوگ ایک عاجز کو قابلِ احترام سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اُس کے چہرے کو دیکھ کر اللہ اِس لیے یاد آتاہے کیونکہ اُس کے چہرے کی نورانیت کے پیچھے نورِ محمدی ہی کا فیض موجود ہوتا ہے۔ حضرت عمرو بن جموح g روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ أَحِبَّائِي وَأَوْلِيَائِي الَّذِيْنَ يُذْکَرُوْنَ بِذِکْرِي، وَأُذْکَرُ بِذِکْرِهِمْ.
( أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 430، رقم:15588)
’’بے شک میرے احباب اور اولیاء وہ لوگ ہیں کہ میرا ذکر کرنے سے وہ یاد آجاتے ہیں اور ان کا ذکر کرنے سے میں یاد آ جاتا ہوں (یعنی میرا ذکر ان کی یاد دلاتا ہے اور ان کا ذکر میری یاد دلاتا ہے)‘‘۔
اِسی مضمون کو ’مسند اَحمد‘ اور ’سنن ابن ماجہ‘ میں یوں روایت کیا گیا ہے:
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيْدَ رضی الله عنها، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوَْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: أَ لَا أُنَّبِئُکُمْ بِخِيَارِکُمْ؟ قَالُوْا: بَلٰی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ: خِيَارُکُمُ الَّذِيْنَ إِذَا رُؤُوْا، ذُکِرَ اﷲُ عزوجل.
(ابن ماجة، السنن، کتاب الزهد، باب من لا يؤبه له، 2 : 1379، رقم:4119)
’’حضرت اَسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکو فرماتے ہوئے سنا: کیا میں تمہیں تم میں سے بہترین لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں کہ جب انہیں دیکھا جائے تو اﷲتعالیٰ یاد آ جائے‘‘۔
دین اسلام کے نام پر ساری محبتیں بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جا پہنچتی ہیں، ہر محبت کے پیچھے محبتِ الٰہی اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھپی بیٹھی ہے۔ اِسی لیے مولانا جلال الدین رومی نے کیا خوب فرمایا:
گفت طَوبَی مَن رآنی مصطفیٰ
والذی یبصِر لِمَن وَجھی رَاَی
’’مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا: خوش خبری ہے اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا۔ اور جو اُس کو دیکھے جس نے میرا چہرہ دیکھا‘‘۔
چون چراغی نورِ شمعی را کشید
ھرکہ دیدآن را یقین آں شمع دید
’’جب چراغ نے شمع کی روشنی حاصل کر لی، جس نے اُسے دیکھا یقینا اُس نے شمع کو دیکھا‘‘۔
ہم چنیں تا صد چراغ ار نقل شُد
دیدنِ آخر لَقای اصل شُد
’’اِسی طرح اگر وہ سو چراغوں میں منتقل ہوئی تو آخری کا دیکھنا بھی اصل کی ملاقات تھی‘‘۔
خواہ از نور پسین بُستان تو آں
ہیچ فرقی نیست خواہ از شمع دان
’’خواہ آخری روشنی سے تو وہ لے، کوئی فرق نہیں خواہ شمع سے سمجھ لے‘‘۔
خواہ نور از اوّلیں بستاں بجاں
خواہ از نور لسپیں فرقے مداں
’’خواہ پہلے والے سے تُو دل و جان سے روشنی لے، خواہ آخری روشنی سے کوئی فرق نہ سمجھ‘‘۔
خواہ بین نور از چراغِ آخرین
خواہ بین نورش ز شمعِ غابرین
’’خواہ روشنی آخری چراغ کی دیکھے، خواہ اُس کی روشنی گزرے ہوؤں کی سمجھ‘‘۔
(مثنوی، دفتر اول، 1946-1950)
دینی شخصیات سے حد درجہ عقیدت کیوں؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اپنی اپنی پسندیدہ دینی شخصیات کے ساتھ جنوں کی حد تک عقیدت اور محبت کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں؟ آیئے! قرآن و سنت کی روشنی میں اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّاo
(مريم، 19 : 96)
’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے تو (خدائے) رحمن ان کے لیے (لوگوں کے) دلوں میں محبت پیدا فرما دے گا‘‘۔
حافظ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’نیک عمل کرنے والے ایمان داروں سے خدا تعالیٰ خود محبت کرتا ہے اور زمین پر بھی ان کی محبت اور مقبولیت اتاری جاتی ہے۔ مومن ان سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ ان کا ذکرِ خیر ہوتا ہے اور ان کی موت کے بعد بھی ان کی بہترین شہرت باقی رہتی ہے۔ ہرم بن حیان کہتے ہیں کہ جو بندہ سچے اور مخلص دل سے اللہ کی طرف جھکتاہے، اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں کو اس کی طرف جھکا دیتا ہے۔ وہ اس سے محبت اور پیار کرنے لگتے ہیں۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے بندہ جو بھلائی و برائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کی چادر اُڑا دیتا ہے‘‘۔
(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ج: 3، ص: 35)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَنْ عَادٰی لِي وَلِيًّا، فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي، يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي، لَأُعِيذَنَّهُ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْئٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ، يَکْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَهُ مَسَاءَتَهُ.
( بخاری، الصحيح، کتاب الرقاق، باب التواضع، 5 : 2384، رقم:6137)
’’جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اُس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو اور میرا بندہ نفلی عبادات کے ذریعے برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی اس طرح متردد نہیں ہوتا جیسے بندہِ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں۔ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں‘‘۔
جب یہ شخص قربتِ اِلٰہی کے اس مقام پر پہنچتا ہے تو پھر نہ صرف وہ محبوبِ اِلٰہی بن جاتا ہے بلکہ اﷲ کی مخلوق بھی اُس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہg سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا أَحَبَّ اﷲُ الْعَبْدَ نَادٰی جِبْرِيْلَ: إِنَّ اﷲَ يُحِبُّّ فُـلَانًا، فَأَحْبِبْهُ، فَيُحِبُّهُ جِبْرِيْلُ، فَيُنَادِي جِبْرِيْلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ: إِنَّّ اﷲَ يُحِبُّ فُـلَانًا، فَأَحِبُّوْهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوْضَعُ لَهُ الْقَبُوْلُ فِي الْأَرْضِ.
( بخاری، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکة، 3 : 1175، رقم:3037)
’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو آواز دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ تو جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر جبرائیل علیہ السلام آسمانی مخلوق میں ندا دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور پھر زمین والوں (کے دلوں) میں (بھی) اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ اور اُس کی مخلوق کے محبوب سے اِظہارِ محبت کو شخصیت پرستی کا عنوان دے کر محبت کے پاکیزہ جذبے کو بدنام کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔ بلکہ ہمارے نزدیک تو یہ سوچ بذاتِ خود غلط ہے اس لئے کہ اس کی نہ تو کوئی عقلی اور نہ ہی کوئی شرعی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے۔
عقیدہِ اَہلِ سنت اور شخصیات سے محبت
عقیدہ اہل سنت وجماعت میں شخصیات پر مدار کیوں کیا جاتا ہے؟ اس سوال کے جواب سے پہلے آیئے یہ جانتے ہیں کہ اَہلِ سنت و جماعت سے کیا مراد ہے؟
یاد رہے کہ ’سنت‘ سے مراد درحقیقت قرآن اور حدیث نبوی پر مبنی اصول و قوانین ہیں، جبکہ ’جماعت‘ کا لفظ اکثریتی طبقہ اور جمہور اُمت پر بولا جاتا ہے۔ اَہلِ سنت سے مُراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور آثارِ صحابہ پر عمل پیرا ہونے والے لوگ ہیں، دوسرے لفظوں میں اِس طبقہ کا اِطلاق اُن اشخاص پر ہوتاہے جن کے اعتقادات، اعمال اور مسائل کا محور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ صحیحہ اور صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کے آثار ہیں۔ ’اَھل السنۃ والجماعۃ‘ کی اِصطلاح تیسری صدی ہجری میں اِمام ابو الحسن اَشعری کی تحریک کے بعد عام ہوگئی۔ اُس دور میں جمہور اُمت، جماعت اور اَھل السنہ کی جگہ اَھل السنۃ والجماعۃ کی اِصطلاح زیادہ مروج ہوئی۔
اَہلِ سنت و جماعت وہ لوگ ہیں جن کے ہاں اُصول اور قوانین کو شخصیات کے ذریعہ سے اور شخصیات کو قوانین و اُصول کے ذریعہ سے سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ نہ تو تنہا قوانین کو شخصیات سے علیحدہ کرکے محض اپنی عقل کے مطابق اُن کی تشریح کی جاتی ہے اور نہ ہی شخصیات کو اُصول و قوانین سے بالاتر سمجھ کر اُن ہی کے ذاتی اَعمال اور کیفیات کو قانون و اُصول کا درجہ دیا جاتا ہے۔
اِس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس اُمت کو صرف قرآن ہی نہیں دیا بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں مجسم و مشخص ذاتِ عالی بھی عطا فرمائی ہے جنہوں نے قرآن کو سُنایا، سمجھایا اور اِس کا عملی نمونہ پیش کیا ہے اور پھر اِس پر عمل کرنے اور ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ذہنوں اور دلوں کو صاف کیا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ اگر تم مجھ سے محبت چاہتے ہو تومیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرو:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْ نِيْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَيَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔
(آلِ عمران، 3 : 31)
بات عقیدہ کی ہو یا عمل کی، جب تک اُس کی تصدیق بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں ہوگی وہ شریعتِ اِسلامیہ کا حصہ نہیں بنے گا، مثلا وحدتِ اِلٰہی جب تک زبانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان نہیں ہوگی وہ توحید الٰہی میں نہیں بدلے گی۔ وحدتِ اِلٰہی تو دوسرے اَدیان کے پیروکار بھی مانتے ہیں، توحید تب بنے گی جب اُس کا ماننا صرف بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہوگا۔ اللہ کو ایک تو سب مانتے ہیں مگر جاننا صرف بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی ممکن ہے۔ سارے کا سارا اِسلام ذاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسلک ہے۔ ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی حقیقی اِسلام ہے۔ اِسلام اور کفر میں اَصل فرق ذاتِ محمدی ہی ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فَمَنْ اَطاَعَ مُحَمَّدًا فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ، وَمَنْ عَصٰی مُحَمَّدًا فَقَدْ عَصَی اﷲَ، وَمُحَمََّدٌ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ.
(بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب الاقتداء بسنن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، 6 : 2655، رقم:6852)
’’جس نے محمد کی فرماں برداری کی اس نے اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کی، اور جس نے محمد کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اور محمد لوگوں کے درمیان فرق و امتیاز کرنے والے ہیں‘‘۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی اس حدیث کی شرح ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’فَمَنْ اَطاَعَ مُحَمَّدًا سے مراد ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق لوگوں کو بلاتے ہیں اس لئے جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرماں برداری کرتا ہے فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ تو بے شک وہ اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کرتا ہے۔ وَمَنْ عَصٰی مُحَمَّدًَا فَقَدْ عَصَی اﷲَ اور جو انسان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کرتا ہے تو بلاشبہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے۔ وَمُحَمَّدٌ فَرْقٌ بَيُنَ النَّاسِ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فر و ومن اور نافرمان و فرمانبردار لوگوں کے درمیان فرق و تمیز کرنے والے ہیں کہ جس نے آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی صاحب ایمان ہو گیا اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کی، وہ کافر ہوگیا‘‘۔
(عبد الحق محدث دهلوی، اشعة اللمعات، 1 : 426)
نامِ احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چوں چنیں یاری کند
حضرت مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں کہ پہلے انبیاء کی اُمتوں کو عزت و اکرام اور اُن کی نسلوں کو بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اسلام قبول کرنے کی توفیق صرف ادب و تعظیم نبوی کی وجہ سے ہوئی۔ پس جب ’احمد‘ نام مضبوط قلعہ بنا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس کس اَعلیٰ درجہ کی ہوگی؟ مزید فرماتے ہیں:
بود درِ انجیل نامِ مصُطفٰی
ُمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام انجیل میں تھا
آن سَرِ پیغمبراں بحرِ صَفا
جو پیغمبروں کے سردار اور صفا کے سَمندر ہیں
بود ذکِر حُلیہ ہا وشکِل اُو
اُن کے حلیہ اور شکل کا ذکر تھا
بود ذکِر غزو وصوم واکل اُو
اُن کے جہاد اور روزے اور کھانے کا ذکر تھا
طائفہ نصرانیاں بہرِ ثواب
مسیحیوں کی ایک جماعت ثواب کے لئے
چوں رسید ندے بداں نام وخطاب
جب اُس نام اور خطاب پر پہنچتے
بوسہ دادندے برآں نامِ شریف
اُس متّبرک نام کو بوسہ دیتے
رُونہا دندے بداں وصفِ لطیف
اُس پاک تعریف پر منُہ رکھ دیتے
اندریں قصّہ کہ گفتم آں گروہ
اُس قصّہ میں جس گروہ کا میں نے ذکر کیا ہے
ایمن از فتنہ بُد ندواز شکوہ
وہ خوف و خطر سے بے خوف تھا
ایمن از شراِ میران و وزیر
سرداروں اور وزیر کے شر سے مطمئن
درپناہِ ناِم اَحمد مُستجیر
اور احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کی پناہ میں پناہ گزیں تھا
نسل ایشاں نیز ہم بسیار شُد
اُن کی نسل بھی زیادہ ہو گئی
نوِر احمد ناصر آمد یار ُشد
اور احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور ساتھی اور مددگار بن گیا
واں گروہِ دیگر از نصرانیاں
لیکن مسیحیوں کا دوسرا گروہ
نامِ احمد داشتندے مُستہاں
احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کی بے حرمتی کرتا تھا
مُستہان و خوار گشتنداز فِتن
وہ فتنوں کی وجہ سے ذلیل و خوار ہو گئے
از وزیر ِشوم رائے شوم فن
بد رائے اور بدکار وزیر کے
مُستہان و خوار گشتند آں فریق
وہ فریق ذلیل اور خوار ہو گیا
گشتہ محروم از خود وشرطِِ طریق
اپنے سے بھی محروم ہوا اور مذہب کے آداب سے بھی
ہم مُخبّطَ دین شاں و حُکِم شاں
اُن کا مذہب اور اُن کا قانون بھی تہ وبالا ہو گیا
ازپئے طومار ہائے کثربیاں
کج بیان دفتروں کی وجہ سے
ناِم احمد چوں چنیں یاری کند
احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام جب اس طرح مدد کرتا ہے
تاکہ نورش چوں مددگاری کند
تو اُن کا نور کس قدر مدد کر سکتا ہے؟
ناِم احمد چوں حِصارے شد حَصیں
احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام جب مضبوط قلعہ بنا
تاچہ باشدِ ذاتِ آں روحُ الَامیں
تو اُس روح الامین کی ذات کس درجہ کی ہوگی؟
(مثنوی مولاے روم، دفتر اول، ص: 102-103)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات کے ہر پہلو کے فیض کو اُمت میں بذریعہ صالح شخصیات تاقیامت جاری رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی فقیہ و مجتہد اور عملی و روحانی شخصیات بھی اُمت کو عطا فرمائی ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریق پر دین سکھایا، سمجھایا اور عمل کرکے دکھلایا ہے اور اسی طرح انسانی ذہنوں کو اپنی تربیت کے ذریعے ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے بیدار اور تیار کیا ہے۔
اِسی لیے اَہلِ سنت و جماعت کے ہاں دین اور دینی تربیت کے لیے تنہا کتاب یا تنہا شخصیت ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ قانون کے ساتھ قانون سکھانے والے اور قانون پر عمل کرکے دکھلانے والے کی موجودگی بھی ناگزیر اور اشد ضروری ہوتی ہے تاکہ صرف قانون ہی علم میں نہ آئے بلکہ اِس قانون کا حقیقی رنگ دلوں پر چڑھ جائے اور اِس کی حقیقی و معنوی یعنی روحانی کیفیات بھی دلوں میں جذب ہو جائیں۔ یہ حالت شخصیات سے تعلق کے بعد ہی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اَہلِ سنت و جماعت کے مسلک میں یہ دو چیزیں یعنی ’’شخصیات‘‘ اور ’’قوانینِ شریعتِ محمدی‘‘ بنیادی رکن یا ستون کا درجہ رکھتی ہیں۔ اِن شخصیات سے محبت عین محبتِ اسلام ہے اور تعلیماتِ اسلام کے مطابق ہے۔
شخصیت پرستی سے کیا مراد ہے؟
آئیے اب سمجھیں کہ شخصیت پرستی سے کیا مراد ہے؟ شخصیت پرستی بنیادی طور پر ایک منفی رویہ ہے جس میں حق و اِنصاف اور عقل و فکر کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر کسی مذہبی و سیاسی لیڈر سے اس قدر محبت و عقیدت پیدا کی جاتی ہے کہ اس کے قول و عمل کو رفقاء اور پیروکاروں میں نفسیاتی سطح پر عقیدہ کا درجہ مل جاتا ہے۔ کہنے کو تو بات سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی ہو رہی ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں اگر کوئی مذہبی و سیاسی رہنما سے علمی یا انتظامی نوعیت کا بھی اختلاف کرنے کی کوشش کرے تو اسے دین و مذہب اور جماعت و تحریک سے غیر مْخلص اور منافق سمجھاجاتا ہے۔ پس ایسے رہنماؤں کے پیچھے لگ جانا جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطیعِ فرمان نہ ہوں اور اپنے مذہبی پیشواؤں اور سیاسی قائدین کے اَعمال کو کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر ان کی اطاعت کرتے رہنا، شخصیت پرستی ہی ہے۔
اس کی مثال ہمیں حضرت مجدد الف ثانی کی اُس نصیحت میں ملتی ہے کہ آپ سے کسی سائل نے عرض کیا: حضرت! کوئی نصیحت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا:
’’بیٹے! دو نصیحتیں ہیں۔ زندگی میں نہ کبھی خدا بننے کی کوشش کرنا اور نہ کبھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بننے کی‘‘۔ وہ بڑی حیرانی سے عرض کرنے لگا: ’حضرت! اللہ معاف فرمائے، کوئی مسلمان بھلا ایسا بھی کرسکتا ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟‘ آپ نے فرمایا:
اس کا معنی یہ ہے کہ یہ اللہ ہی کی شان ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کر دیتا ہے۔لہٰذا کبھی یہ گمان اپنے بارے میں نہ کرنا کہ میں جو چاہوں گا وہ اسی طرح ہو جائے گا۔ کبھی کوئی کام تمہارے چاہنے کے موافق ہوگا اور کبھی خلاف۔ اگر کام تیری منشاء کے خلاف ہو جائے، تو غصے اور جلال میں آجائے کہ ایسا کیوں ہوگیا؛ تو یہ تجھے زیبا نہیں دیتا کیونکہ یہ اللہ کی شان ہے کہ اس کی منشاء کے مطابق ہر چیز وقوع پذیر ہوتی ہے۔ تو بندہ ہے اور بندے کا یہ منصب نہیں کہ وہ جو چاہے وہی ہو جائے۔ لہذا اگر کام نہ ہو تو صبر کر۔ اسی طرح اگر کوئی کام تیری منشاء کے مطابق ہو جائے تو اللہ کا شکر ادا کر اور کام کو اُسی کی ذات کی طرف منسوب کر کہ یہی صبرو شکر مقامِ بندگی ہے۔
رسول بننا یہ ہے کہ چونکہ رسول جو کچھ کہے اس کونہ ماننے والا کافر ہو جاتا ہے اس لیے اگر تو بھی یہ چاہے کہ تیری ہر بات مانی جائے اور نہ ماننے پر ناراض ہو جائے اور نہ ماننے والے پر برس پڑے تو پھر یہ سمجھ کہ تو اپنے آپ کو منصب رسالت پر بٹھا رہا ہے۔ یہ حق تو صرف رسول کو حاصل ہوتا ہے کہ جس نے ان کی بات مان لی وہ مومن ہو گیا اور جس نے رد کردی وہ کافر۔
یہی رویہ شخصیت پرستی کی وہ شکل ہے جس کی اسلام میں سختی سے ممانعت ہے۔ تاریخ میں بعض مذہبی رہنماؤں کے اِنہی رویوں کی وجہ سے مذہب بدنام ہوا اور مذہب بے زار رویوں کو فروغ ملا اور تحریکیں ناکام ہوئیں۔
عقیدت و اِحترام کا قرآنی معیار
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق دینی اور سیاسی رہنما خواہ عقیدت و احترام کے کتنے ہی اونچے منصب پرفائز ہو جائیں اختلاف و تنقید سے ماورا نہیں ہوتے۔ غیر مشروط اِطاعت و فرماں برداری صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ہے۔ باقی سب سے عقیدت و محبت مشروط ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
يٰـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَطِيْعُوا اﷲَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْج فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِط ذٰلِکَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا.
(النساء، 4 : 59)
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے‘‘۔
{اُولیِ الْاَمْر} کے مفہوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے قائد و سربراہ ہیں۔ خواہ وہ ذہنی و فکری رہنمائی کرنے والے علماء ہوں یا سیاسی رہنمائی کرنے والے لیڈر، یا ملکی انتظام چلانے والے حکام، یا عدالتی فیصلے کرنے والے جج، یا تمدنی و معاشرتی امور میں قبیلوں اور بستیوں اور محلوں کی سربراہی کرنے والے شیوخ اور سردار، غرض جو جس حیثیت سے بھی مسلمانوں کا صاحبِ امر ہے وہ اطاعت کا مستحق ہے۔ مگر یہ بات قابل غور ہے کہ {اَطِيْعُواﷲَ} کا لفظ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کے لیے الگ الگ آیا ہے لیکن اُولیِ الْاَمْر کے لیے اس لفظ کو دہرایا نہیں گیا۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت مستقل اور غیر مشروط ہے لیکن اُولیِ الْاَمْر کی اطاعت مستقل اور غیر مشروط نہیں بلکہ وہ اس شرط کے ساتھ ہے کہ ان کے احکام اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے تابع ہوں اور ان میں کتاب و سنت کے ساتھ کوئی تضاد اور تخالف نہ ہو۔حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَةُ حَقٌ مَا لَمْ يُؤمَرْ بِالْمَعْصِيَةِ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَـلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ.
(بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد والسّير، باب السمع والطاعة الامام، 3 : 1080، رقم:2796)
’’امیر کی بات سننا اور اطاعت کرنا ضروری ہے جب تک وہ معصیت کا حکم نہ دے۔ اگر وہ نافرمانی کا حکم دے تو نہ اس کی بات سنو اور نہ اس اَمر میں کہا مانو‘‘۔
یہ محبتیں، یہ سوز و جنوں
جس کو کسی ستارے سے وابستگی ہے اُس کی اپنے ستارے کے ساتھ دوڑ ہے۔ کسی دینی شخصیت سے محبت کے پیچھے محبتِ اسلام اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی چھپی ہے۔اِسی لیے دینی شخصیات سے محبت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ہم اسلامی عقائد اور تصورات پر بحث کرتے ہیں تاکہ ہماری محبتیں شخصیت پرستی سے بچی رہیں اور شریعت کے دائرے کے اندر رہیں اور ہمیں ہماری اپنے اپنے ستاروں سے محبت بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک لے جائے، جہاں ساری محبتیں محبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جاکر ضم ہو جاتی ہیں۔ اپنوں سے محبت تو اپنی جگہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو عقائد و نظریات پر اختلاف کے باوجود غیر مسلم دینی و سیاسی راہنما سے ملاقات پر اَخلاقی رواداریوں کا پاس کرتے ہوئے اُس کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی ہے۔ حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ
قَدِمَ وَفْدُ النَّجَاشِيِّ عَلَی النَّبِيِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَامَ يَخْدُمُهُمْ. فَقَالَ أَصْحَابُهُ: نَحْنُ نَکْفِيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ. قَالَ: إِنَّهُمْ کَانُوْا لِأَصْحَابٍ مُکْرِمِيْنَ، فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أُکَافِئَهُمْ.
( بيهقی، شعب الإيمان، 6 : 518، رقم:9125)
’’شاہِ حبشہ نجاشی کا ایک وفد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اُن کی خاطر تواضع فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم آپ کی طرف سے (مہمان نوازی کا فریضہ سر انجام دینے کے لئے) کافی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِن لوگوں نے (میرے) اصحاب کی عزت افزائی کی تھی۔ اس لئے میں نے پسند کیا کہ میں خود اِن کی اُس تکریم کا بدلہ دوں‘‘۔
اچھے اخلاق اور اچھی صحبتیں محبتیں پیدا کرتی ہیں، جس کو صحبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض ملا، اُس فیض یافتہ سے محبت دین و دنیا میں خیر و برکت کا باعث بن جاتی ہے۔ زِندوں کی صحبت، مرُدوں میں زندگی کے آثار پیدا کر دیتی ہے اور اُس کے نصیب جاگ جاتے ہیں۔ اسی لیے مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں:
ہیں غذائی دِل بدہ از ہمدلی
رَو بجُو اِقبال را از مُقبلی
’’ہاں! کسی دل والے سے (لے کر) دل کو خوراک دے۔ جا! کسی نصیبہ والے سے نصیبہ تلاش کر‘‘۔
(مثنوی، دفتر اول، 726)
آج لوگ اِسلام سے اِس لیے محبت نہیں کرتے کہ اُنہیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری سے محبت ہے بلکہ وہ شیخ الاسلام سے اِس لیے محبت کرتے ہیں کہ اُنہیں اسلام سے محبت ہے۔ یہ محبت الٰہی اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے جس سے ایک فانی وجود کو اُمتِ محمدی میں بقا حاصل ہوجاتی ہے۔
تاریخِ اِسلام کے مشکل اَدوار میں دینی شخصیات سے محبت میں ’خود سپردگی اور جذب و جنوں‘ سے ہی اسلام کو سربلندی ملی اور اسلام ہر آزمائش میں سے سرخرو ہو کر نکلا۔ آج اسی ’یکسوئی اور عشق و جنوں‘ سے پاکستان کو عالم اسلام میں منفرد قائدانہ مقام ملے گا اور اِسلام انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے چھٹکارہ حاصل کرے گا۔ (اِن شاء اللہ)
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی