ٍ مثبت و بامقصد معاشرہ کی تعمیر کا اہم عامل باہمی تعاون ہے۔ انسانی دنیا کے اندر موجود مختلف قسم کے تضادات اور اختلافات تخلیقی تعاون کی اولین بنیادہیں۔ ہر انسان کے اندر کچھ خامیاں بھی ہیں اور نقائص بھی۔ انسانوں میں موجود خوبیاں انہیں ایک دوسرے کی طرف مائل ہونے اوران سے تعاون حاصل کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ کوئی بھی انسان نہ تو تمام خوبیو ں کا مالک ہے کہ وہ دوسروں کا محتاج ہی نہ رہے اور نہ ہی ایسا ہے کہ وہ بالکل خالی ہو کہ اس کے پاس دوسروں کو دینے کے لئے کچھ بھی نہ ہو۔ دنیا کے نظام کو چلانے کے لئے ایک جیسے لوگوں کی نہیں بلکہ مختلف لوگوں کی ضرورت تھی۔چنانچہ اللہ تعالی نے اس حکمت اور مصلحت کے تحت لوگوں کے درمیان مختلف قسم کے فرق رکھ دیئے تاکہ دنیا کا نظام حسن و خوبصورتی کے ساتھ چلتا رہے۔
تفاوت کی تین اقسام
یوں تو لوگوں کے درمیان بے شمار فرق پائے جاتے ہیں تاہم تعاون کے ضمن میں مندرجہ ذیل تین اقسام کے فرق کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے:
1۔ مختلف خصوصیات کے حامل افراد
اللہ رب العزت نے ہر انسان کو جو شخصیت (Personality) دی ہے وہ اپنے اندر ایک انفرادیت (Individuality) رکھتی ہے۔ لہٰذا کسی بھی انسان کومکمل طور پر دوسرے پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ نہ تو اپنی کسی خوبی کی بناء احساسِ برتری میں مبتلا ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی خامی کی بناء پر احساس کمتری کا شکار ہونا چاہیے۔اپنا موازنہ دوسروں کے ساتھ اور دوسروں کا موازنہ اپنے ساتھ نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اپنے آپ کویا کسی دوسرے شخص کو مکمل طور پر کامل سمجھنا چاہیے۔ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہوتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی اور دوسروں کی انفرادی صلاحیتوں، مخصوص صفات اور جداگانہ تشخص کو سمجھا جائے اور باہمی معاملات میں اُنہیں ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
2۔ مختلف انداز فکر
ہر ایک شخص کا سوچنے کا انداز دوسرے سے مختلف ہے اور ہر ایک کے اندر جداگانہ اندازِ سوچ کی بناء پر سیکھنے کا انداز بھی مختلف ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کوئی خصوصیت کسی دوسرے سے بہتر نہیں ہوتی، بس ذرا مختلف ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک فرد حسابی اور منطقی انداز سے زیادہ آسانی سے سیکھ سکتا ہے۔ جبکہ دوسرے کو اشکال اور تصاویر کی مدد سے سیکھنے میںزیادہ آسانی محسوس ہوتی ہو۔مگر وہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر ذہین ہوں۔ سوچ کا یہ مختلف انداز بے شمار ترقیوں اور ایجادات کا باعث بنتا ہے۔ باہمی تعاون کے ضمن میں ہمیں دوسروں کی سوچ کے انداز کو ملحوظ خاطر رکھنے اور اُس کی قدر کرتے ہوئے اُس سے استفادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
3۔ مختلف نقطہ ہائے نظر
ہر شخص دنیا کو مختلف انداز میں دیکھتا ہے اور اپنے نقطہ نظر(Point of view) کے مطابق اُس کی تشریح کرتا ہے۔ بیرونی دنیا کے حقائق تو سب کے لئے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں مگر ہر شخص کا اُنہیں دیکھنے اور اُن کی تشریح کرنے کا ایک اپنا اور منفرد انداز ہوتا ہے جس کی تہہ میں اُس کے اپنے عقائد، تصورات اور ماضی کے تجربات و مشاہدات کار فرما ہوتے ہیں۔ یہیں سے آراء کا فرق جنم لیتا ہے اور بعض اوقات یہ فرق اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ دو افراد کسی ایک ہی چیز کی تشریح کرتے وقت ایک دوسرے کے بالکل مختلف مؤقف اپنائے ہوئے ہوتے ہیں۔
ہمیں اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا اور زندگی وہی نہیں ہے جو ہمیں دکھائی دے رہی ہے، اُس کے علاوہ بھی ہو سکتی ہے۔کسی بھی معاملے میں ہمارا تصورہی حرف آخر نہیں ہے کہ اُس میں کسی کمی بیشی یا ردوبدل کی گنجائش ہی نہ ہو۔ ایمانیات کے ضمن میں چند بنیادی باتیں جو دو + دو = چار کی طرح مسلمہ حقائق کا درجہ رکھتی ہیں، اُن کو چھوڑ کر باقی کسی بھی معاملے میں ہمارے تصور میں نظر ثانی کی گنجائش موجود ہوتی ہے اورحقیقت اُس سے مختلف ہوسکتی ہے جیسا کہ ہم اسے تصور کئے ہوئے ہوں۔ تمام جزوی اور فروعی معاملات کے ضمن میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بہترین اصول فراہم کرتا ہے:
’’میری رائے درست ہے مگر احتمالِ خطا کے ساتھ، دوسرے کی رائے غلط ہے مگر احتمالِ صواب کے ساتھ‘‘۔
لہٰذا ہمیں اپنی رائے کو درست سمجھنا چاہیے مگر اس بات کے امکان کو رد نہیں کرنا چاہیے کہ اُس میں غلطی کا احتمال ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دوسرے کی رائے کو غلط سمجھنے کا حق ہمیں حاصل ہے مگر اتنی گنجائش رکھنی چاہیے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ صحیح ہی ہو، مگر اُس کا صحیح ہونا مجھ پر آشکار نہ ہو رہا ہو۔ لہٰذا اپنے دل و دماغ کے دروازوں کو سختی سے بند کرنے کی بجائے ہمیشہ کھلے رکھنا چاہیے تاکہ وہ باہر سے آنے والے نئے نئے تصورات (Ideas) پر غور کرسکیں اور اُن کے اندر جہاں کہیں سچائی موجود ہو اُسے اپنا یا جا سکے۔
ہمارے ہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی معاملے میں اگر ایک فردصحیح ہے تو لازما ً دوسرا غلط ہوگا۔ یہ بات منطقی طور پر تودرست ہو سکتی ہے لیکن نفسیاتی طور پر درست نہیں۔ عین ممکن ہے کہ ایک شخص کسی چیز کو جس مقامِ نظر (Vantage Point) سے دیکھ رہا ہو دوسرا کسی اور سے دیکھ رہا ہو اور پھر دونوں اپنے اپنے مشاہدات کے مطابق اس کی تشریح کر رہے ہوں اور دونوں ہی اپنی اپنی جگہ درست ہوں اور دونوں کی متفر ق آراء مل کر ہی پوری حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔
جب تک ہم اپنے ادراک کے فرق کی قدر نہیں کریں گے اور جب تک ہم ایک دوسرے کی رائے کا احترام نہیں کریں گے اور اس بات کے امکان کو نہیں مانیں گے کہ ہم دونوں صحیح ہو سکتے ہیں اور یہ کہ زندگی ہمیشہ ہاں یا نہیں میں نہیں ہو تی، بلکہ ہمیشہ تیسرے متبادل کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ تب تک ہم کبھی بھی اپنے دیکھنے کے مخصوص انداز سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے اور نہ ہی دوسروں کے ساتھ تخلیقی تعاون کی حقیقی لذتوں سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔
جب تک اشخاص اپنی اپنی رائے پر اڑے رہیں گے اور اپنے اپنے مشاہدے پر اصرار کرتے ہوئے اُسے ہی سچ سمجھتے رہیں گے تب تک اُن دونوں میں نہ اتفاق رائے پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ وہ صرف اُس وقت آپس میں متفق ہو سکتے ہیں جب وہ اپنے اپنے مقامِ نظر سے اُوپر اُٹھ کر دوسرے کے مقامِ نظر سے دیکھنا شروع کریں گے تو پھر پوری حقیقت اُن پر آشکار ہو جائے گی اور اُن کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق کرنا اور اکٹھے چلنا ممکن ہو جائے گا۔
یہی حقیقت زندگی کے جملہ معاملات میں کار فرما ہے۔ اپنی رائے پر اڑنے والا شخص کبھی پوری حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔رائے کے فرق کی قدر کرنے والا شخص ہی پوری حقیقت کو پا سکتا ہے۔ ادھوری حقیقت کو پوری حقیقت سمجھنے والا شخص ہمیشہ غیر مؤثر رہے گا۔ جبکہ فرق کی قدر کر کے پوری حقیقت تک پہنچ جانے والاشخص ہی مؤثر انسان بنے گا۔ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو وہ تمام انسانوں کو ایک ہی گروہ بنا سکتا تھا لیکن اُس نے انسانوں کے درمیان مختلف گروہ بنائے اور اُن کے درمیان طرح طرح کے فرق اور تضادات پیدا کر دئیے۔ ہمیں ان اختلافات کو دل و جان سے قبول کرتے ہوئے ان کی قدر کرنی چاہیے۔شایدا سی نکتے کی طرف ہی اشارہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اختلاف اُمتی رحمة.
(کنز العمال، رقم 28686،10/59)
’’میری اُمت کے اندر اختلاف رائے باعثِ رحمت ہے۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ اختلاف رائے کے مخلصانہ احترام سے ہی ہم حقیقت کے اُن پہلوؤں تک پہنچ سکتے ہیں جو پہلے ہماری نظر سے پوشیدہ ہوتے ہیں، اسی سے ہمارے علم کے اندر وسعت اور ترقی آتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ایک جیسی رائے رکھنے والے دو یا دو سے زائد لوگ جمع ہوں تو اُن کے جمع ہونے سے علم کے نئے دروازے نہیں کھلتے اور معلومات کو دائرہ کارسکڑ کر رہ جاتا ہے۔ لہٰذا لوگوں کے درمیان پائے جانے والے جسمانی، ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی فرق کی قدر کرتے ہوئے اُن سے استفادہ کرنا تعاون کی اولین شرط ہے۔
باہمی اختلاف کے حوالے سے لوگوں کی تین اقسام
اختلاف کا سامنا کرنے کے حوالے سے لوگوں کے اندر درج زیل تین قسم کے طبقات پائے جاتے ہیں اور اسی حوالے سے تعاون کے معرض وجود میں آنے یا نہ آنے کا تعین ہوتا ہے۔
1۔ اختلاف سے نفرت
پہلا طبقہ اُن لوگوں کا ہے جو اختلاف سے نفرت کرتے ہیں اور ڈرتے ہیں۔ اُن کو ہر وہ شخص بیگانہ اور اجنبی دکھائی دیتا ہے جو اُن سے مختلف رنگ یا نسل یا قبیلے کا ہو یا کسی اور علاقے کا رہنے والاہو یا جس کا طرزِ بودوباش ان سے مختلف ہو یا جس کے عقائد و نظریات ان سے مختلف ہوں۔ ایسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا راستہ ہی بہترین، درست اور واحد راستہ ہے اور جو لوگ بھی اُن سے مختلف ہیں وہ غلط ہیں۔ چنانچہ وہ اُن سے نفرت کرتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ نفرت، دشمنی تک میں بدل جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بعض انتہا پسند لوگوں کا اپنے نظریاتی مخالفین کو قتل تک کر دینا اس کی ایک واضح مثال ہے۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے اندر دوسروں سے کسی بھی قسم کے تعاون کا امکان سرے سے معدوم ہوتا ہے۔
2۔ اختلاف برداشت کرنا
دوسراطبقہ ایسے لوگوں کا ہے جن کا خیال ہوتا ہے کہ ہر شخص کو دوسرے سے مختلف ہونے کا حق حاصل ہے۔ اگرچہ یہ لوگ اختلاف سے نفرت نہیں کرتے تاہم وہ اُسے گلے بھی نہیں لگاتے۔ اُن کا خیال یہ ہوتا ہے کہ دوسرے اپنی راہ پر چلیں اور ہم اپنی راہ پر چلیں۔ دوسرے ہمیں زحمت نہ دیںاور ہم دوسروں کو زحمت نہ دیں۔ ایسے لوگوں کے درمیان بھی اول تو تعاون معرض وجود میں ہی نہیں آتا اور اگر کہیں آ بھی جائے تووہ تخلیقی تعاون نہیں ہوتا،بلکہ غیر تخلیقی ہوتاہے کیونکہ اُنہیں باہمی فرق ایک رکاوٹ دکھائی دیتا ہے۔ اس لئے وہ خوش دلی سے باہمی تعاون پر آمادہ نہیں ہوتے۔
3۔ اختلاف قبول کرنا
یہ وہ لوگ ہیں جو اختلاف کو صرف مانتے ہی نہیں بلکہ اُسے دل وجان سے قبول بھی کر لیتے ہیں۔یہ لوگ اختلاف کو کمزوری سمجھنے کی بجائے طاقت سمجھتے ہیں۔وہ خلوص دل سے محسوس کرتے ہیں کہ دو ایسے افراد جو مختلف انداز میں سوچتے ہیں، دو ایک جیسے سوچنے والوں کی نسبت زیادہ کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ اختلاف کے باوجودایک دوسرے کے ساتھ چلنے کا یہ مطلب نہیں کہ تمام اختلافی اُمور پر لازماً متفق ہونا ہے، بلکہ بعض معاملات میں اختلاف کے برقرار رہنے کے باوجود بھی دیگر معاملات میں بھی مل جل کر آگے بڑ ھا جا سکتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں کافروں سے مخاطب ہو کرکہا گیا ہے :
قُلْ يٰـاَهْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اﷲَ.
(اٰل عمران، 3: 64)
’’اے اہل کتاب ! آؤ اُس ایک بات پر جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اتفاق کر لیتے ہیں کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ‘‘۔
کافروں اور مسلمانوں کے درمیان ظاہر ہے کہ بہت سے معاملات میں اختلافات تھے۔ تاہم اُنہیں کہا گیا کہ باقی اختلافی اُمور کو ایک طرف رکھتے ہوئے وہ ایک بات جو ہم دونوں کے نزدیک مسلمہ ہے، اُس پر اتفاق رائے سے چلتے ہیں۔
گویا یہ تیسرا طبقہ ہی وہ طبقہ ہے جو تعاون کے معیار پر صحیح معنوں میں پورا اُترتا ہے اور اس قابل ہے کہ لامحدود امکانات سے بھری ہوئی اس رنگ برنگی دنیا میں نئے جہاں آباد کر سکے۔
تعاون، تواضع و انکساری کا متقاضی
تعاون کو معرض وجود میں لانے کیلئے جہاں اختلافات کی قدر کرنا ضروری ہے وہاں تواضع و انکساری کی صفت کو اپنانا بھی ضروری ہے۔ تواضع کا مطلب ہے اپنی حدودو قیود کو جاننا اور خوامخواہ اپنے آپ کواپنی حیثیتِ اصلی سے زیادہ سمجھنے(Over estimate) سے گریز کرنا۔ تعاون کے ثمرات سے متمتع ہونے کیلئے اس صفت کو اپنے مزاج کا حصہ بنا لینا بہت ضروری ہے۔تواضع کی ضدتکبرہے، جس کا مطلب ہے۔
اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھنا۔تکبر کے ہوتے ہوئے انسان نہ تو اپنی ذات سے باہر کسی سچائی کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوتا ہے اور نہ ہی اُس کی جھوٹی انانیت اور خود پسندی اُسے دوسروں کی سطح پر آ کر اُن کے ساتھ تعاون کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبر کی علامات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
الکبر بطر الحق وغمط الناس
’’تکبر یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔‘‘
(مسلم، الصحيح، باب تحريم الکبر وبيانه، 1، 93، رقم:91)
یہاں تکبر کی جودو علامات بیان کی گئی ہیں اُن میں سے ایک یہ ہے کہ متکبر آدمی کے سامنے جب کوئی سچائی آتی ہے جس کی زد اُس کے پہلے سے خود ساختہ عقائد و نظریات پر پڑرہی ہو تو اُس کی انانیت آڑے آ تی ہے اور وہ اُ سے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کو تسلیم کر لینے سے اُس کا مقام اور مرتبہ گھٹ جائے گا۔چنانچہ اس کا آسان حل اُسے یہ دکھائی دیتا ہے کہ اُسے ماننے سے ہی انکار کر دیا جائے۔ اس کی ایک بڑی واضح مثال کفار مکہ کی ہے جن کے متعلق قرآن نے بتایا کہ :
يَعْرِفُوْنَهُ کَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَهُمْ
’’وہ انہیں ( آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اس طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو۔‘‘
(البقرة،2: 146)
یہود و نصاریٰ کی کتابوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اتنی نشانیاں بیان کر دی گئیں تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کو پہچاننا اُن کے لئے ایسے ہی تھا جیسے اپنے بیٹوں کو پہچان لینا۔ پھر اُنہوں نے ماننے سے انکارکیوں کر دیا ؟ اس کی وجہ اُن کا یہی تکبر اور گھمنڈ تھا جس کا وہ شکار تھے۔
تکبر کی دوسری علامت یہ بتائی گئی ہے کہ اُس میں انسان دوسرے لوگوں کو اپنے سے کمتر سمجھتا ہے، جس کی بناء پر اُن کے ساتھ برابری کی سطح پر معاملات طے کرنے کے لیے تیا رنہیں ہوتا۔یہ دونوں علامات تعاون کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ کامیاب اور مؤثر لوگوں کے اندر اپنی عزت نفس کو برقرار رکھتے ہوئے تواضع اور انکساری کی شان پائی جاتی ہے جس کی بناء پر وہ اپنی سوچ اور احساسات کی حدود کو جانتے ہیں اور اس بات کو مانتے ہیں کہ اُن کا فہم و ادراک بہت محدود ہے۔ وہ دوسروں کے دل و دماغ میں موجود علم کے بے بہا ذرائع کے معترف ہوتے ہیں اور اُن سے رابطے اور تعلق کی بدولت جو علم اُنہیں حاصل ہوتا ہے اُس کی قدر کرنا بھی جانتے ہیں۔ حقیقت کی پہچان کیلئے اپنے علم کے علاوہ اُنہیں دوسرے لوگوں سے جو علم حاصل ہو سکتا ہے وہ ان دونوں کے فرق کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارے علم میں اضافہ ہی اُس وقت ہوتا ہے جب ہمیں وہ علم حاصل ہو جو ہمارے پاس پہلے موجود نہیں تھا اور یقینایہ دوسروں کے ذریعے سے ہی میسر آ سکتا ہے۔جب ہم صرف اپنے تجربات تک محدود ہو جاتے ہیں تو پھر ہم مستقل معلومات کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔
متواضع و منکسر شخصیات
تواضع اورانکسار والے لوگ کس طرح حق کے متلاشی ہوتے ہیں اور اُس کے سامنے آنے پر اپنی انانیت کو ایک طرف رکھتے ہوئے کیسے اُسے فوراً قبول کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔اس کی وضاحت کیلئے مندرجہ ذیل دو مثالوں پر غور کریں :
- اسلام قبول کرنے سے قبل سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی اسلام دشمنی بڑی مشہور و معروف تھی اور شہر مکہ کے اندر وہ اسلام کے بدتر ین مخالفین کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔ ایک دن یہ عداوت یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ برہنہ تلوار لے کر سر عام معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے چل پڑتے ہیں۔ جب وہ اس نیت سے چلے ہوں گے تو راستے میں کئی لوگوں کے علم میں آیا ہو گا کہ وہ کس ارادے سے جا رہے ہیں۔آگے جا کر جب حق اُن کے سامنے آشکارہوگیا، اور اُن کے دل و دماغ نے اُسے مان لیا تو وہ ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی غلامی میں آ گئے۔ اُنہوں نے قطعاً نہ سوچا کہ جن لوگوں کے اندر میں اسلام دشمن کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہوں اور جن لوگوں نے آج مجھے تلوار لے کر آتے دیکھا ہے وہ سب میرے بارے میں کیا سوچیں گے اور کیا کہیں گے۔ اُن کی یہی وہ اعلیٰ ظرفی اور حقیقت پسندی تھی جس نے اُنہیں عمر سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بنا دیا۔
- دوسری مثال قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے وہ ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے۔اُنہوں نے اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال ہندو مسلم اتحاد کیلئے کوششیں کرنے اور اس نظریے کے پرچار میں صرف کئے۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ اُنہیں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا لقب دے دیا گیا۔ پھر جب علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی درد مندی اور دلسوزی کے ساتھ سمجھایا کہ اُن کا نظریہ درست نہیں ہے اور اس کی بجائے اُنہیں مسلمانوں کیلئے ایک جداگانہ مملکت کے قیام کیلئے کوششیں کرنی چاہیے۔ اُن کے دل و دماغ نے اس بات کو تسلیم کر لیا تو اُنہوں نے اپنے ماضی کی تاریخ سے رشتہ کاٹتے ہوئے اور معاشرے کے اندر اپنی ساکھ کو داؤ پر لگاتے ہوئے فورا ً ہی اپنے پہلے نظریے سے رجوع کرتے ہوئے نئے نظریے کو اپنا لیا‘ اور اپنی بقیہ زندگی کے قیمتی سال اس کے لئے کوششیںکرنے اور اُس کی تعبیر حاصل کرنے میں صرف کر دئیے۔تصور کریں کہ اگر وہ یہ سوچنے بیٹھ جاتے کہ میری تو عمر بھر کی اب تک کی جمع شدہ پونجی(معاشرے کے اندر عزت و وقار وغیرہ) لٹ جائے گی اور لوگ مجھے کیا کہیں گے تو دنیا کی تاریخ ہی مختلف ہوتی۔نہ پاکستان کا قیام معرض وجود میں آیا ہوتا اور نہ ہی محمد علی جناح قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ بنے ہوتے۔
چنانچہ ایک طرف تو تواضع والے لوگ سچائی کو کھلے دل سے تسلیم کر لینے والے ہوتے ہیں خواہ وہ اپنی ذات کی نفی کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ امام شافعی کا بیان ہے کہ
’’بحث و مباحثے کے دوران میری خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو میرے مخالف کی زبان سے ہی جاری کرادے اور میں اسے مان لوں‘‘۔
غور فرمائیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو اس سے غرض نہیں ہے کہ بحث و مباحثہ کے دوران حق ان کی زبان سے ہی جاری ہو اور دوسرے سن کر اسے مان لیں اور اس طرح ان کے احساس برتری کو نفسیاتی تسکین ملے۔ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ انہیں صرف حق سے دلچسپی ہے اور وہ ان کے مخالف کی زبان سے بھی نکل آتا ہے تو ان کا مقصد پورا ہوتا ہے۔
متواضع لوگوں کو حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کی خوبیوں اوردوسروں کی خامیوں کو دیکھ دیکھ کر خوامخواہ کے احساس بڑائی میں مبتلا نہیں ہوتے ہیں اور دوسروں کو حقیر سمجھنا نہیں شروع کر دیتے بلکہ وہ پوری دیانت داری سے محسوس کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ کے تحت مختلف لوگوں میں مختلف خوبیاں اور اوصاف رکھے ہوئے ہیں جن کا مقصد نظام کائنات کو بہتر انداز میں چلانا ہے نہ یہ کہ اس بناء پر کسی کو کمتر اورکسی کو برتر سمجھ لیا جائے۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو معاشرے سے منفرد کوئی چیز سمجھنے کی بجائے خود کو ماحول اور معاشرے کا حصہ سمجھتے ہوئے دوسرے لوگوں کے ساتھ گھل مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔دوسروں سے تعاون کرنے اور دوسروں سے تعاون لینے میں عار محسوس نہیں کرتے اور یوں وہ تعاون کے ثمرات سے بہرہ ور ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
باہمی اعتماد، تعاون کا جزو لاینفک
تعاون کیلئے ’’باہمی اعتماد کا ہونا‘‘ ایک لازمی امر ہے۔ جب تک دو افراد کو ایک دوسرے پر اعتماد ہی نہیں ہو گا تب تک وہ کسی بھی طرح ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر آماد ہ نہیں ہوں گے بلکہ تعاون تو دور کی بات ہے وہ ایک دوسرے کے قریب آنے اور بات چیت کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہوں گے۔ لہٰذا دوسروں کے ساتھ مل جل کر چلنے اور تعاون کے ذریعے بہترین حل تلاش کرنے کیلئے بہت ضروری ہے کہ پہلے دوسروں کی نظر وں میں ہمارا اعتماد قائم ہو چکا ہو۔یعنی دوسرے ہمارے اُوپر اعتبار اور بھروسہ کرنے کیلئے تیار ہوں۔
دوسروں کی نظروں میں اعتماد کا بننا ایک دن کی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلسل اور متواتر عمل ہے جو آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے۔ جوں جوں لوگوں کی نظروں میں ہمارا اعتماد بڑھتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے تخلیقی تعاون کے لئے زمین ہموار ہوتی چلی جاتی ہے۔ سائنس کے اندر بعض مقداروں میں راست تناسب کا تعلق پایا جاتا ہے یعنی کسی ایک کے بڑھنے یا گھٹنے سے اُسی مناسبت سے دوسری بھی زیادہ یا کم ہو جاتی ہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ یہاں ہے کہ تعاون کا دارومدار باہمی اعتماد پر ہے۔ جس درجے میں باہمی اعتماد ہو گا اُسی درجے میں تعاون کو معرض وجود میں لایا جا سکتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جہاں اعتماد ہو وہاں لازماً تعاون بھی اُسی درجے میں پایا جارہا ہو مگر یہ ضروری ہے کہ جہاں تعاون ہو تواُس کی بنیاد میں اُسی سطح کا اعتماد بھی موجود ہو۔
تعاون کا عملی منصوبہ
تعاون کوعملی طور پر معرض وجود میں لانے کیلئے ذیل میں دئیے گئے پانچ درجاتی (Five Steps) فارمولے پر عمل پیرا ہونا خاصے مفید نتائج فراہم کر سکتا ہے اور تعاون کے راستے پر گامزن ہونے میں آسانیاں پیدا کر سکتا ہے:
1۔ مسئلہ یا موقع کی نشاندہی
سب سے پہلے اس بات کا تعین کیا جانا ضروری ہے کہ زیر بحث یا حل طلب مسئلہ کیا ہے ؟ جس کے بارے میں غور وفکر کرنا اور کسی بہتر نتیجے پر پہنچنا ہے۔
2۔دوسروں کے خیالات سے آگہی
پہلے دوسروں کو موقع دیں کہ وہ اُس مسئلے کے حوالے سے اپنے خیالات کو تفصیل سے بیان کر سکیں اور اپنے نقطہء نظر کی وضاحت کر سکیں بعد ازاں خلوص دل کے ساتھ اُن کے زاویہ نگاہ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
3۔ اپنے نقطہ نظر کی وضاحت
دوسروں کے خیالات کو جاننے کے بعد اپنے خیالات بڑے مربوط انداز میں دلائل و براہین کے ساتھ اُن کے سامنے رکھیں اور کوشش کریں کہ آپ کے نقطہ نظر کو پوری طرح سمجھ لیا جائے۔
4۔غور و فکر
اپنے اور دوسروں کے خیالات کے اظہار کے بعد کا جائزہ لیتے ہوئے نئے امکانات اور متبادلات تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ ہر قسم کے تعصبات سے اُوپر اُٹھ کر پوری دیانتداری سے بہترین نتائج اخذ کرنے کی کوشش کریں۔
اس حوالے سے درج ذیل باتوں کو یاد رکھیں:
- تخلیقی انداز اپنائیے: اپنے پہلے سے سوچے سمجھے نظریات علیحدہ رکھ کر ایسے حل کی طرف توجہ مرکوز کریں جس سے دوسرا فریق بھی مطمئن ہوسکے۔
- تنقید کی پرواہ مت کریں : غور و فکر کا کام مکمل طور پر ذہن کو پر سکون رکھتے ہوئے کریں۔ اس بات سے مت گھبرائیں کہ لوگ کہیں تنقید ہی نہ کریں۔ تنقید جیسی شے تخلیق کا راستہ نہیں روک سکتی۔
- اچھی بات سوچئے: اپنی تجاویز کی بنیاد بہترین خیالات پر رکھیں۔ ایک بہترین نظریہ دوسرے کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور دوسرا تیسرے کی طرف۔
5۔ بہترین حل
معاملے کے ہر ہر رُخ پر اور مذکورہ تین اصولوں کے ساتھ فراخدلانہ غور وفکر کرنے کے بعد تمام آراء وتجاویز کی روشنی میں بہترین حل کو دریافت کریں۔ ایسا حل جو انفرادی طور پر ذہنوں میں آنے والے حل کی نسبت زیادہ بہتر، قابل ِعمل اور تمام فریقین کے لئے زیادہ فوائد و ثمرات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہو۔ مسئلے کا یہ حل عام طور پر پہلے کسی کے ذہن میں نہیں آتا مگر جب چند لوگ مل جل کر تخلیقی انداز میں سوچ بچار شروع کرتے ہیں تو کسی نہ کسی کے ذہن میں آ جاتا ہے اور دوسروں کے ذہن بھی اس پر یوں متفق اور مطمئن ہو جاتے ہیں کہ جیسے یہ خیال ان کے اپنے ہی ذہن کی پیدا وار ہو۔ یہی سب سے بلند راستہ ہے جو تعاون کا مقصود ہوتا ہے۔
بعض اوقات یوں بھی ہوتاہے کہ فریقین کے درمیان باہمی اعتماد کی سطح بہت بلند ہوتی ہے اور مسئلہ بھی جانا پہنچانا ہوتاہے نیز اس کے حوالے سے تقریباً سب کی رائے بھی پہلے سے معلوم ہوتی ہے۔ایسی صورت میں پہلے تین مراحل کو نظرانداز کرتے ہوئے براہ راست چوتھے درجے سے مسئلے کا حل تلا ش کر نا شروع کیا جا سکتاہے۔ لہذا اپنے دل و دماغ میں اتنی وسعت اور کشادگی پیدا کریں جو ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ خوش دلی سے تعاون کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔
اس بات کو دل و دماغ میں نقش کر لیں کہ آپ ساری کائنات میں ایک بالکل منفرد و جود رکھتے ہیں۔ کوئی بھی دوسرا شخص آپ کی طرح کا نہیں ہے۔ لہذا کسی بھی شخص سے اپنا موازنہ کرتے ہوئے احساس برتری یا کمتری کا شکار ہونا حماقت ہے۔ اپنی انفرادیت کو ماننے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی انفرادیت کا بھی اقرار کر لیں کہ اُن میں سے بھی ہر فرد ایک منفرد وجود رکھتا ہے جو اپنی جدا گانہ اور مخصوص صفات و خصوصیات کا مالک ہے۔کسی بھی شخص کا کسی دوسرے شخص سے موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔ ہر شخص دوسرے سے مختلف ہے اور ایک مخصوص تشخص اور انفرادیت کا مالک ہے جسے تسلیم کرتے ہوئے اُس کی صلاحیتوں، توانائیوںاور استعداد سے بھر پور فائدہ حاصل کرنا ہے اور تخلیقی تعاون کے ذریعے نئی راہوں کو تراشنا اور نئی منزلوں کو حاصل کرنا ہے۔ لہذا جو بھی شخص سامنے آئے اُس کی شخصیت کا بغورجائزہ لیتے ہوئے اُس کی اچھوتی اہلیتوں اور مخصوص جوہر (Talent) کو دریافت کرنے کی کوشش کریں۔ پھر اُن صلاحیتوں کو اپنی صلاحیتوں سے ملاتے ہوئے اعلیٰ مقاصد کے حصول کیلئے منصوبہ بندی کریں۔