پاکستان میں ہر آئے روز ہونے والی دہشت گردی کے واقعات نے پوری قوم کو خوف اور دہشت سے دوچارکردیا ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد وہ بڑے بڑے سیاسی شعبدہ باز اور دہشت گردی کے سہولت کار جن کی زبانیں ’’دہشت گردوں سے مذاکرات‘‘ کے بیانات دینے سے نہیں رکتی تھیں اب اُن کی زبانوں کو بھی قفل لگ گئے ہیں اور اُن کے پاس بھی دہشت گردوں کو ’’تحفظ‘‘ دینے کا کوئی جواز نہیں بچا۔ پاکستان پچھلے بارہ سالوں میں تقریباً 60 ہزار جانیں دہشت گردی کی نذر کرچکا ہے۔ مگر افسوس کہ حکومتی سطح پر آج تک دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح پالیسی میسر نہیں آسکی۔ سانحہ پشاور کے بعد حکومت نے فوج کے دبائو کی وجہ سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے قومی ایکشن پلان تو دیا مگر آج 2 ماہ گزرنے کے باوجود اس پر کماحقہ عمل نہ ہوسکا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لئے فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر سیاسی اقدامات بھی ناگزیر ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران ان دہشت گردوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، اسی وجہ سے وہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے کوئی واضح پالیسی آج تک نہیں دے سکے اور اگر کسی طرف سے کچھ ٹھوس تجاویز آ بھی جائیں تو اُن پر عمل کرنے میں وہ روایتی ہٹ دھرمی اور لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے معاملات کو التواء کا شکار کر دیتے ہیں۔ حکومت کی ’’دانشمندی اور بصیرت‘‘ کا تو یہ عالم ہے کہ دہشت گردی کے خلاف دیے جانے والے قومی ایکشن پلان کی وہ شقیں جن پر فوری عملدرآمد نہایت ناگزیر تھا، اُن شقوں کو بحث و مباحثہ کی نذر کرتے ہوئے اب تک موخر کررکھا ہے اور مساجد سے لاوڈ سپیکر اتار کر یہ سمجھا جارہا ہے کہ دہشت گردی کا بڑا سبب ہی یہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض مذہبی رہنمائوں اور اُن کے پیروکاروں نے مساجد کو اپنے نام نہاد نظریات و افکار کے فروغ کے لئے بے دریغ استعمال کیا مگر حکومتی کارندے اکثر اُن مساجد کے لائوڈ سپیکرز اتروارہے ہیں جہاں سے دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھتی ہے۔ لہذا یہ کہنا بالکل بے جانہ ہوگا کہ موجودہ حکمران دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کوئی موثر قدم اٹھانے میں یکسر ناکام ہوچکے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ان حکمرانوں میں اتنی اہلیت و صلاحیت ہی موجود نہیں کہ وہ اس اہم اور حساس معاملہ سے کماحقہ نبرد آزما ہوسکیں۔
٭ کیا وجہ کہ ہم اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت میں ناکام ہو گئے۔۔۔؟ کیا وجہ ہے کہ افلاس، بھوک، قحط اور مہلک امراض ہمارے ملک میں عرصہ دراز سے ڈیرہ جمائے ہوئے ہے؟ جو دہشت گردی سے بچ جائیں تو وہ حکمرانوں کی معاشی دہشت گردی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عوام کی اکثریت دو وقت کی روٹی، تعلیم، علاج معالجہ اور دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ معاشی دہشت گردی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ایک سروے کے مطابق عام پاکستانی خاندان کی کل آمدن کا 50 فیصد حصہ خوراک پر خرچ ہوتا ہے جس کی وجہ کم آمدن اور مہنگی خوراک ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 7.6 فیصد ہے۔ ہندوستان (دنیاکی چالیس فیصد بھوک پالنے والا ملک) میں عام خاندان اپنی اوسط آمدن کا 25 فیصد خوراک پر خرچ کرتا ہے۔ اس سے ہمارے حکمرانوں کی اہلیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت کے اپنے غذائی سروے کے مطابق 60 فیصد آبادی غذائی عدم استحکام کا شکار ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی بڑھ رہی ہے، اگر اس سلسلہ میں کوئی واضح پالیسی نہ اپنائی گئی تو خدانخواستہ آنے والے چند سالوں میں ملک قحط سالی کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔
قومی غذائی سروے میں کہا گیا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے 44 فیصد بچے ذہنی اور جسمانی طور پر نامکمل نشونما کا شکارہیںاور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں سے 35 فیصد اموات براہِ راست غذائی قلت کی وجہ سے ہے۔ پاکستان میں صرف 3 فیصد بچوں کو غذائی ضروریات کے مطابق خوراک ملتی ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان میں گذشتہ چند سالوں میں مہنگائی نے مزید 34لاکھ افراد کو خطِ غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ 14 - 2013 کا معاشی سروے پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے خود اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی اس وقت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
٭ انسانیت کی بقا کے لیے دوسری اہم ضرورت پانی ہے۔ مملکتِ خداداد پاکستان میں پینے کا صاف پانی بھی حکومت کی نااہلیوں کے سبب عام آدمی کو میسر نہیں۔ 2001 تا 2010ء کے درمیان ایک سروے کے مطابق پاکستان کی 80 فیصد آبادی بیکٹیریا، آرمینک، نائٹریٹ اور سلفر ملا پانی پینے پر مجبور ہے۔ ملک میں 40 فیصد اموات کی وجہ آلودہ پانی ہے۔ 80 فیصد بیماریوں کی وجہ گندا پانی ہے۔ بچوں میں 60 فیصد اموات گندے پانی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔پچھلے 67 سالوں میں عوام کے ان فرمانبردار اور خادم حکمرانوں نے اس حوالے سے کوئی پالیسی سرے سے ہی وضع نہیں کی۔ زمین میں واٹر لیول ہر سال دس فیصد نیچے گررہا ہے، اگر یہی صورتحال رہی تو آئندہ آنے والے سالوں میں پانی کی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ مگر افسوس خوراک کی طرح ہمارے حکمرانوں نے پانی کے بحران سے نبرد آزما ہونے اور صاف پانی کی فراہمی کے لئے بھی کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کئے۔ حتی کہ پنجاب کے خشک ترین علاقے چولستان میں حکومتِ پنجاب نے 5سالوں میں پانی کا ایک بھی منصوبہ شروع نہیں کیا۔
٭ خوراک اور پانی کے بعد آئیے اب انسان کی تیسری بڑی ضرورت رہائش، مکان کے حوالے سے حکومتی ’’اقدامات‘‘ پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
پنجاب حکومت نے آشیانہ ہاؤسنگ منصوبے کا اعلان کررکھا ہے مگر یہ منصوبہ بھی ڈھونگ اور کرپشن کا میگا پروگرام ثابت ہوا۔ عوام کے خون پسینے کے ٹیکسوں کی کمائی لوٹ مار کی نظر ہورہی ہے۔ پنجاب حکومت کم آمدنی والے شہریوں کو سستے گھر دینے کا چکمہ دیکر فارم فروخت کر کے اب تک کروڑوں روپیہ وصول کر چکی ہے جس کا کوئی حساب نہیں اور 3 سال سے آشیانہ کے نام پر سیاست چمکانے کے باوجود چند سو گھر بھی تیار نہیں ہو سکے۔ فارم کی فروخت سے حاصل ہونیوالے کروڑوں روپے صوبہ کا وزیراعلیٰ اپنی ذاتی تشہیر پر خرچ کررہا ہے۔ اب پھر 60 ہزار شہریوں سے درخواست کے نام پر پیسے بٹور لیے گئے۔
پنجاب میں ہر بے گھر کو گھر دینے کیلئے ہر سال اگر 4 لاکھ گھر دئیے جائیں تو 15 سال میں 70 فیصد کم آمدنی والے بے گھر خاندانوں کو گھر مل سکیں گے جبکہ پنجاب حکومت تمام تر نجی و سرکاری وسائل بروئے کار لانے کے باوجود اب تک چند سو گھر بھی تعمیر کر کے نہیں دے سکی۔ 6ماہ قبل آشیانہ اقبال روڈ برکی (لاہور) کے ٹینڈرز میں وسیع پیمانے پر گھپلے سامنے آئے، ان گھپلوں کی انکوائری کرنے والے ڈی جی اینٹی کرپشن کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے او ایس ڈی بنا دیا گیا کیونکہ اس میں اہم حکومتی افراد کے نام آرہے تھے اور آشیانہ میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرنے والے ایک رکن اسمبلی کو بھی پراجیکٹ سے الگ کر دیا گیا۔
٭ اسی طرح پنجاب حکومت کاگرین پنجاب پروگرام بھی ایک ڈھونگ منصوبہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 2008ء تک پنجاب میں دیہات میں فارم ٹو مارکیٹ روڈز کی شکل میں 100 ارب روپے کی مالیت سے 37 ہزار کلو میٹر سڑکوں کا انفراسٹرکچر موجود تھا۔ ان سڑکوں کی حفاظت کیلئے ہر تین سال بعد مرمت ضروری تھی اور مرمت کیلئے خزانے سے ہر 3سال بعد 38 ہزار روپیہ فی کلو میٹر مرمتی فنڈ بھی جاری ہوا جو مسلسل 6 سال خرچ نہیں کیا گیا۔ اگر 6 سالوں میں ہر تین سال بعد ڈیڑھ ارب روپیہ ان فارم ٹو مارکیٹ روڈز کی مرمت کے لیے استعمال کر لیا جاتا تو آج 100 ارب روپے مالیت کا انفراسٹرکچر برباد نہ ہوتا۔ پنجاب حکومت اپنے اس مجرمانہ کردار پر پردہ ڈالنے اور دیہات میں ن لیگ کی حکومت کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت پر قابو پانے کیلئے گرین پنجاب پروگرام کے نام سے منصوبہ شروع کررہی ہے۔ اگر پنجاب حکومت اپنے اقتدار کے بقیہ تین سال ہر سال 15 ارب روپے ان سڑکوں کی مرمت اور تعمیر پر خرچ کرے تو تین سال میں 45 ارب روپے کی خطیر رقم سے صرف 45 فیصد انفراسٹرکچر بحال کر سکے گی۔
فارم ٹو مارکیٹ روڈز جنہیں تکنیکی اصطلاح میں ’’ٹرپل سرفیس ٹریٹمنٹ‘‘ روڈز کہا جاتا ہے اس مد میں 6 سالوں میں خزانے سے جاری ہونے والی 3 ارب روپے کی رقم ہڑپ کر لی گئی جس کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے اور اب اپنے اس مجرمانہ عمل پر پردہ ڈالنے کیلئے پنجاب حکومت نے گرین پنجاب پروگرام کے نام سے ڈھونگ منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب حکومت کی ساری توجہ لاہور میٹروبس روڈ، رائے ونڈ روڈ لاہور رنگ روڈ لاہور اور آزادی چوک لاہور، راولپنڈی میٹرو روڈ تک محدود ہے جس کی وجہ سے 70 فیصد ’’دیہاتی پنجاب‘‘ کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔
ان حالات و واقعات کی روشنی میں یہ کہنا قطعاً غلط نہیں کہ نہ صرف دہشت گردی بلکہ غربت کے خاتمے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود حکومت، اس کی غلط پالیسیاں اور غلط انداز حکمرانی ہے۔ حکومت کے ان رویوں اور منفی رجحانات کو قطعاً حقیقی جمہوریت کا لبادہ نہیں پہنایا جا سکتا۔