اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ.
(آل عمران، 3: 32)
’’آپ فرما دیں کہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو۔ ‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ.
(النساء، 4: 59)
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو۔ ‘‘
مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول دونوں کی اطاعت کا ذکر آیا
ہے۔ جب دو کا ذکر آتا ہے تو درمیان میں ’و‘ آتی ہے، جس کا اردو میں ترجمہ ’’اور‘‘ ہے۔
اس ’’واؤ‘‘ کو ’’واؤ عاطفہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس سے معطوف کا معطوف علیہ پر عطف واقع ہوتا
ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کے باب میں قرآن مجید میں واؤ عاطفہ
دو طرح وارد ہوئی ہے یعنی یہ عطف دو شکلوں میں ہوا ہے:
1۔ ایک عطف اس طرح ہوا ہے کہ اسمِ رسول کا عطف اسمِ اللہ پر ہوا ہے۔ جس طرح مذکورہ
پہلی آیت؛ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ.
میں ہے۔ اسے عربی میں عطف إسم الرسول علیٰ إسم اﷲ تعالیٰ کہتے ہیں کہ اسم ’رسول‘ کا
عطف اسم ’اللہ‘ پر واقع ہوا ہے۔
2۔ واؤ عاطفہ کی دوسری شکل یہ ہے کہ اطاعتِ رسول کا عطف اطاعتِ الٰہی پر ہوا ہے جس طرح مذکورہ دوسری آیت؛ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ میں ہے۔ گویا ایک آیت میں لفظ ’رسول‘ کا عطف لفظ ’اللہ‘ پر ہے اور دوسری آیت میں اطاعتِ رسول کا عطف اطاعتِ الٰہی پر واقع ہوا ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ ان دو طرح کے عطف کے وارد ہونے کی بھی کوئی حقیقت، افادیت اور حکمت ہے۔ قرآن مجید میں جب بھی کوئی اسلوب اختیار کیا جاتا ہے یا اسلوب تبدیل کیا جاتا ہے تو وہ خالی از حکمت نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک اسلوب کوئی نہ کوئی حکمت اور معنویت اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ یہ ہماری زبان کی طرح نہیں ہے کہ ہم جس طرح چاہیں بیان کر دیں اور اُس کا کوئی خاص معنی اور مراد نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا کلام اس امر سے پاک ہے۔
آیئے! عطف کی ان دونوں قسموں اور شکلوں پر غور کرتے ہیں کہ ان میں کیا حکمت اور افادیت کار فرما ہے:
1. اطاعتِ رسول ﷺ کے باب میں قرآن مجید کا پہلا اسلوبِ بیان اور اس کے فوائد:
اطاعتِ رسول کے باب میں قرآن مجید کا پہلا اسلوبِ بیان یہ ہے کہ اسمِ ’رسول‘ کا اسمِ ’اللہ‘ پر عطف واقع ہوتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید میں کئی آیات وارد ہیں۔ چند آیات ملاحظہ ہوں:
1. قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ.
(آل عمران، 3: 32)
’’آپ فرما دیں کہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو۔ ‘‘
اس آیت میں أطیعوا کا لفظ ایک بار آیا ہے، رسول کے لیے یہ لفظ دوبارہ نہیں آیا۔ گویا اسم ’الرسول‘ کا عطف اسم ’اللہ‘ پر ہوگیا۔
2. وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ.
(الأنفال، 8: 1)
’’اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت کیا کرو۔ ‘‘
3. وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ
(الأحزاب، 33: 33)
’’اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت گزاری میں رہنا۔ ‘‘
4. وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ.
(الأحزاب، 33: 71)
’’ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرتا ہے۔ ‘‘
5. وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ.
(الحجرات، 49:14)
’’اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال (کے ثواب میں) سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا، بیشک اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔ ‘‘
مذکورہ آیات پانچ مختلف صیغوں کے ساتھ بیان ہوئی ہیں اور ان میں سے ہر ایک آیت میں ’الرسول‘ کا عطف لفظ ’اللہ‘ پر ہے۔ ان آیات میں لفظ أطیعوا کو ’’رسول‘‘ کے لیے دوبارہ بیان نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ اور رسول پر أطیعوا کا حکم ایک ہی بار وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ یہ اسلوب درج ذیل فوائد کا حامل ہے:
(1) ہر وہ امر جس میں اللہ کی اطاعت واجب ہے، اس امر میں رسول کی اطاعت بھی واجب ہے
اس اسلوب سے پہلا شرعی، قرآنی، اعتقادی اور فقہی فائدہ یہ حاصل ہوا کہ جس جس شے اور امر میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت واجب ہے، اُسی اُسی شے اور امر میں رسول ﷺ کی اطاعت بھی واجب ہے۔ اب ہم یہ نہیں کر سکتے کہ نماز کے معاملات ہوں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننا واجب ہو اور رسول ﷺ کا حکم نہ مانا جائے یا نماز، روزہ، حج، زکٰوۃ کے لیے رسول ﷺ کی اطاعت مان لی جائے اور باقی معاملات کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم کو مانا جائے۔ اس طرح نہیں کریں گے۔ قرآن مجید کے اس اسلوبِ عطف نے اس تفریق کی جڑ کاٹ دی ہے۔ یہ سمجھنا کہ زندگی کے تمام امور میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا واجب ہے اور رسول اکرم ﷺ کے احکام اور احادیث و سنت کی اطاعت واجب نہیں یا بعض امور کے لیے اطاعت واجب ہے اور بعض کے لیے نہیں، یہ تفریق نہیں کی جاسکتی۔ اس تفریق کا جو امکان ہو سکتا تھا، اس اسلوب کے ذریعے اُس کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ پر أطیعوا کا جو حکم آیا، اُسی أطیعوا کے ساتھ ہی الرسول آیا ہے۔ لہٰذا اطاعت کے دائرے کو الگ الگ نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور قرآن مجید کے احکام کو ماننے کا دائرہ وسیع کر دیں اور رسول ﷺ کے احکام اور احادیث و سنت کو حجت ماننے کا دائرہ تنگ کر دیں یا انھیں صرف اُس دور یا محدود امور کے لیے مختص کر دیں۔ نہیں، ایسا کرنا جائز نہیں۔ قرآن مجید کے اس اسلوب کے ذریعے محدودیت بھی نہ رہی اور توقیت بھی نہ رہی۔
اس حوالے سے یہ امر بھی نہایت قابلِ غور ہے کہ قرآن مجید کے مذکورہ تمام مقامات جن میں ’’الرسول‘‘ کا عطف ’اللہ‘ پر آیا ہے، اگر ہم ان کے سیاق و سباق کا مطالعہ کریں تو یہ امر سامنے آتا ہے کہ حکمِ اطاعت صرف عبادات کے لیے مختص نہیں ہے بلکہ کہیں امن و جنگ کے احکام میں اطاعت کا ذکر ہے، کہیں مالِ غنائم اور لین دین کے معاملات میں اطاعت کا ذکر ہے، کہیں ریاستی پالیسی کی بات میں اطاعت کا حکم ہے۔ کہیں نجی، خاندانی و عائلی معاملات کی بات میں اطاعت کا حکم ہے۔ کہیں معاملات اور مالیات کی بات میں اطاعت کا حکم ہے۔ کہیں بین الاقوامی امور کی بات میں اطاعت کا حکم ہے، کہیں مصالح عامۃ یعنی سوسائٹی کے حقوق کی بات میں اطاعت کا حکم ہے۔
جب ان امور میں اطاعت کا حکم آیا ہے تو اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ دونوں کے لیے ایک ہی مرتبہ أطیعوا وارد ہوا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اطاعت کا حکم خواہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہو یا رسول ﷺ کے لیے، یہ صرف عبادات کے لیے مختص نہیں ہے بلکہ معاملات، حالتِ امن و جنگ، جنگی قوانین، عامۃ الناس کے مصالح، حقوق اور فرائض و واجبات میں بھی رسول ﷺ کی اطاعت اُسی طرح واجب ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت واجب ہے۔ حتیٰ کہ جمیع دینی، اخروی اور دنیوی امور میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت یکساں واجب ہے اور اُن میں تفریق نہیں کی گئی۔ اگر اس میں تفریق کرنا چاہیں گے تو یہ قرآن مجید پر اپنی عقل اور رائے کو معاذ اللہ غالب کرنا قرار پائے گا اور ایسا کرنا کفر ہے۔
قرآن مجید میں فقط اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا ذکر کہیں نہیں کیا گیا۔ کسی بھی معاملے میں خواہ وہ عبادات کا معاملہ ہو یا مالیات، اخلاقیات اور اقوام و ملل کا معاملہ ہو، بین الاقوامی، ملکی، سوشل، سیاسی، معاشی یا ثقافتی امور کا معاملہ ہو یا کوئی بھی معاملہ، اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں کہیں فقط اللہ تعالیٰ کی اطاعت یا قرآن کے حکم کی اطاعت کا اکیلے ذکر نہیں کیا۔ قرآن مجید میں یا تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کا یکجا ذکر موجود ہے یا صرف اکیلے رسول ﷺ کی اطاعت کا ذکر کیا ہے۔ (ہم تفصیل کے ساتھ اس مضمون کے سابقہ حصوں میں اس امر کا مطالعہ کرچکے ہیں) لہٰذا اب یہ تفریق کیسے قائم کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت تو تمام امور میں واجب ہوگی مگر رسول ﷺ کا حکم، حدیث اور سنت فلاں امور میں ہوگی اور فلاں امور میں نہیں ہوگی۔ پورے قرآن مجید میں اس تفریق کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
(2) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت حقیقت میں ایک ہی اطاعت ہے
قرآن مجید میں جہاں بھی اسم ’’رسول‘‘ کا عطف اسمِ جلالت ’’اللہ‘‘ پر قائم ہے اور أطیعوا کو ایک مرتبہ ذکر کر کے دونوں اسمائے گرامی آئے ہیں تو اُس سے یہ ثابت کرنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی اطاعت حقیقت میں ایک ہی اطاعت ہے۔ یہ دو الگ الگ اطاعتیں نہیں ہیں کہ کوئی رسول ﷺ کی اطاعت کا انکار کر کے یہ سمجھ لے کہ اس نے صرف رسول ﷺ کی اطاعت کا انکار کیا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر تو عقیدہ قائم ہے۔ اگر رسول ﷺ کی اطاعت، حکم، حدیث و سنت کے حجت ہونے کا انکار ہوگیا تو ازخود حکمِ الٰہی کی حجیت کا انکار ہوگیا اور ایسا کر کے اس نے حکمِ الٰہی کے واجب ہونے کو رد کر دیا۔ واؤ عاطفہ کے ذریعے اللہ رب العزت نے دونوں اطاعتوں کو ایک اطاعت قرار دیا اور اُنہیں امرِ واحد بنا دیا۔ یہ اسلوب وحدتِ طاعتین یعنی دو اطاعتوں کی وحدت اور عینیت پر دلالت کرتا ہے کہ دونوں اطاعتیں جمیع امور میں عین یک دیگر ہیں۔
2۔ اطاعتِ رسول کے باب میں قرآن مجید کا دوسرا اسلوبِ بیان اور اس کے فوائد
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے باب میں قرآن مجید کا دوسرا اسلوب یہ ہے کہ اطاعتِ رسول کا عطف اطاعتِ الٰہی پر قائم کیا گیا ہے۔ یعنی اطاعت کا اطاعت پر عطف ہے۔ اس حوالے سے بھی قرآن مجید میں کئی آیات وارد ہیں۔ چند آیات ملاحظہ ہوں:
1. یٰٓاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ.
(النساء، 4: 59)
’’ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو۔ ‘‘
یہاں اَطِیْعُوا کا امر اللہ تعالیٰ کے لیے الگ اور رسول ﷺ کے لیے الگ بیان کیا گیا جبکہ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ کو تابع کر دیا، اُن کے لیے اطیعوا کو مکرر نہیں کیا۔ یعنی اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ کو ایک درجہ بنا دیا اور اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ کے لیے أطیعوا کے حکم کو بیان نہ کر کے ایک الگ درجہ بنا دیا۔ پھر فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ فرماکر دوبارہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسول ﷺ کے حکم کو ایک درجہ میں رکھ دیا اور اولی الامر کو یہاں بیان نہیں کیا۔ اس اسلوب سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اولی الامر سے تم اختلاف کر سکتے ہو مگر اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے اختلاف نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے اختلاف اُسی طرح نہیں کیا جا سکتا جیسے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔
اس آیت میں یہ بات بھی نہایت قابلِ غور ہے کہ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ میں لفظ أطیعوا کو دوہرایا تا کہ اس کا ایک تصور واضح ہو جائے اور جب اختلاف اور تنازعہ کے معاملے میں حتمی فیصلہ لینے کی باری آئی تو فرمایا کہ فَرُدُّوْہٗ (اسے لوٹا دو)، یہاں حرفِ جار ’إلیٰ‘ کو دوبارہ بیان نہیں کیاکہ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰهِ وَ اِلیَ الرَّسُوْلِ. اگر یوں کہہ دیا جاتا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اور اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی طرف رجوع کرو تو معنی یہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کچھ اور ہے اور رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنا کچھ اور ہے۔ اس لیے حرفِ جار ’’الیٰ‘‘ کو دوبارہ لانے کے بجائے واؤ عاطفہ لگا دیا اور لفظِ رسول کا عطف لفظِ اللہ تعالیٰ پر قائم کر دیا تا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف رجوع ایک ہی تصور ہوجائے۔ رجوع میں وحدت اور عینیت ہے۔ رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنے کا معنی ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور رسول ﷺ کی طرف رجوع یہ دو الگ رجوع نہیں ہیں بلکہ ان میں وحدت ہے۔ پس اس آیت میں اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول کے ذریعے بھی عطف کی ایک شکل بیان کردی اور فردوہ الی اللہ والرسول کے ذریعے عطف کی دوسری قسم بیان کر دی۔
اسی اسلوب پر دیگر آیات یہ ہیں:
2. وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْا ۚ
(المائدۃ، 5: 92)
’’اور تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور (خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت سے) بچتے رہو۔ ‘‘
3. قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ
(النور، 24: 54)
’’ فرما دیجئے: تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو۔ ‘‘
4. یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ لَا تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ
(محمد، 47: 33)
’’اے ایمان والو! تم اللہ کی اطاعت کیا کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اور اپنے اعمال برباد مت کرو۔ ‘‘
یعنی رسول کی اطاعت کے انکار کرنے سے تمہارے اعمال برباد ہو جائیں گے اور اعمال کا کلیتاً تباہ ہو جانا یہ کفر کی علامت ہے۔
5. یَقُوۡلُوۡنَ یٰلَیۡتَنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰہَ وَ اَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا.
(الأحزاب، 33: 66)
’’وہ کہیں گے: اے کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت کی ہوتی اور ہم نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی ہوتی۔ ‘‘
مذکورہ آیات میں اطاعت کے باب میں اطاعت کا عطف اطاعت پر ہورہا ہے۔ جیسے پہلے اسلوب کے اعتقادی فوائد ہیں، اسی طرح یہ اسلوب بھی افادیت و حکمت کا حامل ہے۔ ائمہ، محدثین، امام حجر عسقلانی، امام قسطلانی، امام نووی اور دیگر اکابر ائمہ نے اس پر بحث کی ہے۔ ذیل میں اس اسلوب کے اعتقادی فوائد ملاحظہ ہوں:
(1) اطاعتِ رسول ایک مستقل اطاعت ہے:
اس اسلوب کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس سے استقلالِ طاعت الرسول یعنی اطاعتِ رسول کے مستقل اور مطلق ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ یعنی جس طرح اَطِیْعُوا اﷲَ کا حکم الگ دیا کہ اللہ کی اطاعت کرو تو جو حیثیت ایک مستقل اطاعت ہونے کی اطاعتِ الٰہی کو حاصل ہے، وہی حیثیت، درجہ اور ماہیت اطاعتِ رسول کی ہے۔ یہ بھی اُسی طرح مستقل ہے، عارضی نہیں ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت مستقل ہے، عارضی نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں سورۃ النسآء کی آیت 59 کی تفسیر میں یہ نکتہ بیان کیا ہے۔ یہی نکتہ امام طیبی (شارح مشکوٰۃ) نے بیان کیا اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی امام طیبی کو نقل کیاہے۔
امام عسقلانی کہتے ہیں کہ إعاد الفعل یعنی اَطِیْعُوا اللّٰهَ کے بعد اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کی صورت میں جو فعل کا اعادہ کیا گیا یہاں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ رسول کی اطاعت بھی مستقل ہے۔ اولی امر میں اس کو نہیں دوہرایا گیا۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اس میں ایسے امور بھی شامل ہیں کہ اگر اولی الامر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت نہ کریں تو پھر اُن کے احکام کی اطاعت واجب نہیں ہوتی۔ یہ فرق کرنے کے لیے وہاں فعل کا اعادہ نہیں کیا۔
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ
میں اللہ اور اُس کے رسول کی طرف رجوع کرنے کے حکم کو اکٹھا کر کے اور اولی الامر کا ذکر وہاں سے نکال کر اس تصور کو مزید واضح کر دیا۔پس اس اسلوب سے پہلی چیز یہ ثابت ہوئی کہ رسول ﷺ کی اطاعت بھی مستقلاً اور مطلقاً قبول کی جائے گی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت مستقل واجب ہوگی۔ وہی حیثیت اطاعتِ رسول کی ہوگی۔ جس طرح قرآن مجید کا حکم واجب، مطلق اور مستقل ہوگا، اس طرح سنتِ رسول کا حکم بھی اپنے وجوب اور لزوم میں مستقل، مطلق اور لازم ہوگا۔۔۔ جس طرح قرآن مجید کے حکم سے انحراف نہیں کر سکتے، اُس کا درجہ کم نہیں کر سکتے، اسی طرح رسول ﷺ کے حکم سے بھی اختلاف اور انکار نہیں کرسکتے۔۔۔ ہمارے لیے لازم اور واجب ہونے اور اصلاً حجت ہونے میں قرآن مجید کے حکم اور رسول ﷺ کے حکم کی حجیت میں کوئی فرق نہیں۔ ان کا مرتبہ اور حیثیت اصلاً ایک ہی ہے۔
صرف ایک لحاظ سے ان کے درمیان فرق کریں گے اور وہ اُن کے رتبے اور درجے کا فرق ہے۔ جب اُن کے درمیان رتبہ بندی کریں گے تو قرآن مجید کا رتبہ اونچا ہے اور رسول ﷺ کی سنت کا درجہ قرآن مجید کے بعد ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا درجہ پہلے اور رسول ﷺ کا درجہ بعد میں ہے، اسی طرح قرآن مجید کا حکم پہلے اور رسول ﷺ کا حکم بعد میں ہے۔ اُن کے درمیان جب فرقِ مراتب کریں گے تو قرآن مجید پہلے آئے گا اور سنت بعد میں آئے گی مگر جب اصلِ حجیت کی بات کریں گے، اُس کی original capacity اور authenticity اور اُس کے حجت ہونے کی بات کی جائے گی تو انکار کی مجال نہ رہے گی اور اصلِ حجیت میں قرآن و سنت برابر ہوں گے۔ لہٰذا اس سے یہ ثابت ہوا کہ سنت رسول کی حجیت کو بھی وجوباً لزوماً، مطلقاً اور مستقلاً قبول کیا جائے گا۔
(2) حدیث و سنت ہمیشہ قرآن کی مطابقت اور موافقت میں ہی ہوتی ہیں:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم حدیث اور سنت کو حجت مانتے ہیں، بشرطیکہ قرآن مجید کے ساتھ اُس کی مطابقت اور موافقت ہو۔ یعنی شرطِ موافقت کے ساتھ حدیث کو حجت مانتے ہیں۔ یہ طرزِ فکر اور سوچ بھی ایک نیا فتنہ ہے اور کفر ہے۔ اس لیے کہ اطاعتِ رسول کا عطف اطاعتِ الٰہی پر قائم ہونے سے اس لغو مؤقف کی نفی ہو رہی ہے۔ اللہ رب العزت نے دونوں کے لیے واؤ عاطفہ کے ساتھ اَطِیْعُوا کا حکم الگ لگا کر ثابت کر دیا ہے کہ اس اطاعت کا مطلب یہ نہیں کہ اگر رسول ﷺ کی بات حکمِ الٰہی کے تابع ہو اور اس کے موافق ہو تو تب قبول کرو اور اگر اُس کی مطابقت میں نہ ہو تو قبول نہ کرو۔ ایسی سوچ رکھنا اس لیے کفر ہو جائے گا کہ ایسا کرنے سے اطاعتِ رسول کو اپنی الگ الگ حیثیت (capacity) میں قبول نہیں کیا جا رہا بلکہ بشرطِ موافقت قبول کیا جارہا ہے کہ اگر وہ قرآن مجید کے حکم کی موافقت میں ہے، تب اسے قبول کرنا ہے۔ اس صورت میں تو سنت حجت ہی نہ رہی اور اصلاً تو فقط قرآن ہی کی بات مان رہے ہیں۔ یعنی اصل تو حکمِ قرآن مجید کو حجت مان رہے ہیں اور حدیث کو اُس شرط پر مان رہے ہیں کہ اگر وہ قرآنی حکم کی موافقت پر ہو۔ پس اس صورت میں حدیث کی اپنی حیثیت میں کوئی حجیت اور وجوب و لزوم نہ رہا۔ اسی طرح یہ بھی سنتِ رسول کی حجیت کا انکار ہوا۔
اللہ رب العزت نے اپنے لیے اور رسول ﷺ کے لیے الگ الگ حکم اَطِیْعُوا لگا کر اور اطاعتِ رسول کا عطف اطاعتِ الٰہی پر قائم کر کے اور دونوں اطاعتوں کو الگ الگ بیان کر کے اُس فتنے کی جڑ کاٹ دی کہ کسی شخص کو اس بات کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی یہ حدیث اور سنت قرآن کے موافق و مطابق ہے یا نہیں ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس فیصلے کا اختیار اس طرح کی سوچ رکھنے والے نے اپنے ہاتھ میں لےلیا کہ معاذ اللہ رسول ﷺ کو معلوم نہیں تھا کہ میرا حکم قرآن مجید کے مطابق ہے یا مخالف ہے؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ، اللہ کے حکم اور قرآن کی عدمِ موافقت میں کیسے حکم دے سکتے ہیں۔۔۔؟ نہ جانے ان لوگوں نے یہ تصور کہاں سے لے لیا اور اس فتنہ اور گمراہی کو پھیلا رہے ہیں کہ اگر حکمِ رسول قرآن مجید کی موافقت میں ہے تو قبول کرو۔ سوال یہ ہے کہ یہ ’اگر‘ کہاں سے آ گیا۔۔۔ ؟ رسول ﷺ تو وہ ذات ہے جو اللہ کا حکم لے کر آتی ہے، قرآن مجید بھی اسی رسول ﷺ نے دیا اور سنت و حدیث بھی اسی رسول ﷺ نے دی، ان میں عدمِ موافقت یا تضاد کیسے ممکن ہے۔۔۔؟ یہ ہو ہی نہیں ہو سکتا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی تشریعی حیثیت حدیث و سنت کی حجیت کو ثابت کرتی ہے:
ایسی سوچ اس وقت جنم لیتی ہے جب بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ ظاہراً قرآن مجید سے کچھ اور نظر آ رہا ہے اور حدیث رسول کو ہماری سمجھ کسی اور تناظر میں دیکھ رہی ہے اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ حدیث کا یہ حکم قرآن کے حکم کے خلاف ہے، اس کے موافق نہیں۔ لہٰذا ہم اپنی سمجھ سے فیصلہ کر کے نتیجہ نکالتے ہیں کہ چونکہ یہ حدیث اور سنت قرآن مجید کے فلاں حکم کے خلاف ہے، لہٰذا اس حدیث کو ترک کر دو اور قرآن کو مانو۔ یہ سارا قضیہ ’اگر‘ اور ’چونکہ‘ کے اوپر مبنی ہے۔ دین میں ایسا کوئی ’اگر‘ اور ’چونکہ‘ نہیں ہے۔ یہ ہماری سمجھ کا نقص تھا کہ ہم رسول اکرم ﷺ کی حدیث کا اصل معنیٰ و مراد نہیں سمجھے۔ قرآنی حکم اور حدیث میں مذکور حکم میں فرق کی وجوہات درج ذیل ہیں:
(1) مجمل کی تفصیل
رسول اکرم ﷺ کی شان یہ ہے کہ قرآنی احکام اگر مجمل آئیں تو حضورﷺ ان مجمل احکام کی تفصیل بھی بیان کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس تفصیل کی حقیقت کو نہ سمجھتے ہوئے ہم سمجھیں کہ یہ قرآن اور حدیث کے حکم میں اختلاف ہے حالانکہ یہ اسی کی تفصیل تھی۔
(2) عام کی تخصیص
اسی طرح کئی بار قرآن مجید کا حکم عام ہوتا ہے اور حضور علیہ السلام اپنی حدیث و سنت کے ذریعے اس حکم کو خاص کر دیتے ہیں۔ تخصیص العام قرآن کی وضاحتی امور میں سے ہے۔ قرآن مجید میں حکم عام تھا، آقا علیہ السلام نے اس کو مخصوص کر دیا اور ہم اپنی کم عقلی کی وجہ سے یہ سمجھنے لگے کہ قرآن مجید نے تو عام حکم دیا تھا، حدیث اسے خاص کر رہی ہے لہٰذا (معاذ اللہ) یہ قرآن مجید کے حکم کے خلاف ہے، اس کو قبول نہ کرو۔ یہ ہماری سمجھ اور فہم کا نقص ہے، ورنہ یہ قرآن مجید کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی قرآن مجید سے عدمِ موافقت ہے بلکہ یہ تخصیص العام ہے۔ مثلاً: قرآن مجید نے کہا:
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ.
(المائدۃ، 5: 3)
’’تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے۔ ‘‘
مردار سے مراد وہ جانور یا پرندہ ہے جو اصلاً حلال ہے مگر شرعی طریقے سے ذبح کیے بغیر مر جائے۔ اس سے اصلاً حرام جانور مثلاً کتا یا خنزیر مراد نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ جانور ہے جسے ذبح کر کے کھائیں تو حلال ہے، مثلاً مرغی، بکرا، گائے وغیرہ، اگر ذبح کرنے سے پہلے یہ مر گیا تو یہ مردار ہے۔ قرآن مجید نے مردار کو حرام کر دیا اور اس میں کوئی استثناء نہیں دیا کہ فلاں چیز اگر ذبح کے بغیر مر جائے تو حلال ہے، ایسی کسی چیز کا تذکرہ قرآن مجید میں نہیں آیا۔ رسول اکرم ﷺ نے اس حکم میں سے مچھلی اور ٹڈی کو مستثنیٰ کردیا۔ آقا علیہ السلام نے انھیں میتۃ (مردار) نہیں کہا۔ جب ہم مچھلی کو پکڑتے ہیں تو پھر اس کو ذبح نہیں کرتے بلکہ پانی سے نکلنے کے بعد وہ خود ہی کچھ دیر بعد مر جاتی ہے۔ حدیث و سنت کو حجت نہ ماننے والے بھی بڑے شوق سے مچھلی کھاتے ہیں، اگر ان کے بقول صرف قرآن مجید کافی ہے تو قرآن مجید نے تو بلا استثناء ہر مردار کو حرام کہا ہے تو وہ مچھلی کھانا ہی چھوڑ دیں۔ یہ حرام کیوں کھاتے ہیں؟ جب قرآن نے ہر مردار کو بغیر کسی استثناء کے حرام کیا ہے تو مچھلی کو کس نے بغیر ذبح کے حلال کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسے رسول اکرم ﷺ نے حلال کیا ہے۔ یہ تخصیص العام ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی تشریعی حیثیت سے ایک عام حکم میں سے مچھلی کو خاص کرتے ہوئے استثناء عطا فرمادیا۔
اسی طرح قرآن میں گدھے کے حرام ہونے کا ذکر کہیں نہیں آیا۔ محض قرآن کو حجت سمجھنے والے کوئی ایک آیت بتا دیں جہاں گدھے کو حرام کہا گیا ہو۔ اگر صرف قرآن مجید حجت ہے تو قرآن نے تو گدھے کو حرام نہیں کہا لہذا وہ گدھا بھی کھانا شروع کر دیں۔ گدھے کو کھانا آقا علیہ السلام نے حرام فرمایا ہے۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے کہ خیبر کے دن لوگ گدھے پکا رہے تھے کہ آقا علیہ السلام نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اعلان کر دو کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے آج سے گدھا تمہارے اوپر حرام کر دیا ہے۔ پس اب وہ قیامت تک حرام ہے۔ اگر حضور ﷺ کی حدیث حجت نہیں اور صرف قرآن مجید سے حکم لینا ہے تو مچھلی کھانا چھوڑ دو اور گدھے کھانا شروع کردو، اس لیے کہ مچھلی کو حدیثِ رسول ﷺ نے حلال کہا ہے اور گدھے کو حدیثِ رسول ﷺ نے ہی حرام قرار دیا ہے۔
اس طرح کئی چیزیں ہیں، جنہیں قرآن مجید نے حرام نہیں کہا بلکہ آقا ﷺ نے ان کو الگ سے حرام فرمایا اور ہم حضور ﷺ کی حرام کردہ ان اشیاء کو نہیں کھاتے۔
(3) تشریحِ احکام
کبھی حدیث و سنتِ رسول ﷺ تشریحِ احکام میں وارد ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں کوئی حکم آیا مگر اُس کی تفصیل نہیں آئی، مثلاً: قرآن مجید میں حکم ہے کہ اقیموا الصلوۃ نماز قائم کرو۔ مگر نماز قائم کس طرح کرنی ہے، اس کی کوئی تفصیل قرآن مجید میں نہیں آئی؟ نماز جس ہیت اور طریقہ پر ہم ادا کرتے ہیں، وہ بھی قرآن مجید میں مذکور نہیں ہے، اس کی ادائیگی کا طریق ہمیں حدیث و سنت رسول ﷺ ہی سے ملتا ہے۔
اسی طرح اگر حدیث و سنت کی حجیت نہ مانیں تو ہم نہ روزہ رکھ سکتے ہیں، نہ حج اور عمرہ کر سکتے ہیں، نہ قربانی کے کامل احکام ادا کر سکتے ہیں اور نہ حلال و حرام کے باقی احکام پر عمل ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ ان تمام کی عملی رہنمائی حدیث و سنت سے ہی میسر آتی ہے۔ اگر حدیث و سنت کو حجت نہیں مانیں گے تو قرآنی احکامات پر عمل کرنا ناممکن ہوجائے گا۔
(4) استثناء
آقا ﷺ اپنے فرامین کے ذریعے کبھی احکام کی تشریح فرماتے، کبھی مطلق کی تقیید فرماتے، کبھی عام کی تخصیص فرماتے، کبھی مجمل کی تفصیل فرماتے، کبھی اصول کی تفریع (فرع) بیان کرتے، کبھی عموم کا استثناء کرتے اور کبھی ایسے احکام کی تصریح فرماتے جن کا ذکر ہی قرآن مجید میں نہیں آیا۔ مثلاً: مردوں پر ریشم پہننا حرام ہے۔ قرآن مجید نے اسے بیان ہی نہیں کیا۔ اسے آقاﷺ نے ہی حرام کیا اور آقا ﷺ نے ہی بعض صحابہ کرام کی امراض کے پیش نظر انھیں اسے پہننے کی اجازت بھی دی۔
اسی طرح اگر کوئی روزہ رکھ کر توڑ بیٹھے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ساٹھ روزے رکھے، یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے، یا غلام آزاد کرے۔ روزہ توڑنے کے اس کفارہ کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے بلکہ یہ حدیث و سنتِ رسول سے ثابت ہے۔
جو شخص یہ کہتا ہے کہ صرف قرآن مجید کافی ہے، سنت و حدیث حجت نہیں اور احکام و شریعت صرف قرآن مجید سے ملتی ہے تو پھر وہ روزہ کے کفارہ کے بارے میں رہنمائی کہاں سے لائے گا؟
ہم روزمرہ زندگی سے اس کی کئی مثالیں لے سکتے ہیں کہ جن میں ہم کبھی حدیث مبارک کے مطابق عمل کرتے ہوئے استثناء اور کبھی تخصیص العام کے حکم پر عمل پیرا ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ حدیث و سنت کبھی قرآن مجید کی عدمِ موافقت میں نہیں ہوتی بلکہ وہ قرآن کی شرح ہوتی ہے۔
پس بعض وہ احکام جو قرآن میں منصوص نہیں تھے، آپ ﷺ ان کی تصریح فرماتے۔ کبھی قرآنی حکم کے اوپر آپ ﷺ اضافتاً ارشاد فرماتے تا کہ اہداف و مقاصد کی تکمیل ہو سکے۔ قرآن مجید میں کبھی مطلق حکم آتا ہے اور رسول اکرم ﷺ اس کو مقید کر دیتے ہیں۔ کبھی قرآن کا حکم مجمل تھا تو حدیث اس کی تفصیل بیان کرتی ہے، کبھی قرآن کا حکم عام تھا تو حدیث نے تخصیص کر دی یا استثناء آگیا۔
آپ ﷺ کی اسی تشریعی و تشریحی حیثیت کے پیشِ نظر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ.
(النحل، 16:44)
’’اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں۔ ‘‘
اگر قرآن مجید بذاتِ خود ہر شخص کے لیے واضح ہوتا اور ہر ایک کو قرآن کا ہر حکم، ہر آیت اور ہر معنیٰ و مراد سمجھ آجاتی تو رسول اکرم ﷺ کو یہ حکم نہ دیا جاتا۔ صرف یہ کہا جاتا کہ ہم نے قرآن مجید آپ ﷺ پر نازل کر دیا ہے اور لوگوں کو سمجھنے کے لیے یہ خود کافی ہے۔ قرآن مجید نے الحمد سے والناس تک کہیں ایسا نہیں کہا۔ قرآن مجید پڑھنے اور نصیحت کے لیے آسان ہے: مگر قرآنی احکام، قرآنی عقائد اور قرآنی علوم کی تفہیم کے لیے فرمایا:
لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ.
یعنی جو ان کی طرف نازل ہوا، اس کی وضاحت کرنا میرے حبیب ﷺ، یہ آپ ﷺ کی شان ہے۔ قرآن مجید میں بے شمار احکام، قصص، تذکیرِ آخرت، وعظ و نصیحت، عقائد اور اصولِ عامہ بیان ہوئے ہیں مگر قرآن مجید ان کی تفصیلات، تبیین، فروعات اور باریک باریک باتوں کی وضاحت میں نہیں جاتا بلکہ اس ضمن میں صرف اصولی باتیں کرتا ہے۔ قرآن مجید نے بنیادیں اور اصولی چیزیں دے دیں اور ان ساروں کی تفصیلات، تفریعات، تشریحات، تعبیرات اور اطلاقات چھوڑ دئیے اور فرمایا: میرے محبوب آپ ﷺ کی طرف قرآن اتارا ہے اور آپ ﷺ سے بہتر میری وحی کا منشاء کوئی نہیں جانتا، یہ سارے کام آپ ﷺ کریں گے۔ پس اس حکمِ خداوندی کی اتباع میں وہ سارے کام جو رسول اکرم ﷺ نے کیے، انھیں حدیث و سنت کہتے ہیں۔
پس حدیث و سنت؛ قرآن کی تشریح، تعبیر، معنیٰ کا تعیین، تفصیل اور تفریع بن گئی۔ اسی طرح حدیث و سنت؛ قرآنی احکام میں سے بعض کی تقیید، تخصیص، استثناء اور مقاصد کی تکمیل بن گئی۔ جو کچھ احادیثِ نبوی میں ہے، عین ممکن ہے کہ ظاہر بین کو اس میں اور قرآن مجید کی نص میں فرق نظر آئے مگر اسے یہ سمجھ نہیں کہ قرآن مجید میں جو چیز مبہم تھی، اسی کو حدیث و سنت میں سمجھایا جا رہا ہے، اس کے اصول کی تشریح ہو رہی ہے اور اس میں مزید اضافہ کر کے لوگوں کے لیے آسانی پیدا کی جا رہی ہے۔ اس لیے کہ یہ حضور ﷺ کا مقام اور منصب ہے۔ پس قرآن مجید کے حجت ہونے پر عمل ہی نہیں ہو سکتا، جب تک حدیث و سنتِ نبوی کی حجیت پر کامل ایمان اور عمل نہ ہو۔
المختصر یہ کہ اپنے ناقص علم کی وجہ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حدیث و قرآن میں تضاد اور مخالفت آگئی ہے اور ان میں مطابقت نہیں رہی، یہ سوچ سراسر غلط اور کفر ہے۔ یاد رکھیں! آقا ﷺ سے بہتر قرآن مجید کا منشاء کوئی نہیں جانتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آقا ﷺ پر دو قسموں کی وحی اترتی تھی:
ایک وحی لفظاً اور معناً جبرائیل امین لے کر اترتے تھے، یہ قرآن مجید ہے اور دوسری وحی آقا علیہ السلام کے قلبِ اطہر اور روحِ مبارک پر فقط معنیٰ کی صورت میں القاء ہوتی تھی، آقا ﷺ اسے سمجھ لیتے اور اپنے الفاظ میں بیان کرتے۔ یہ الفاظ قرآن مجید نہیں ہوتے تھے، یہ حدیث اور سنت ہے مگر یہ بھی وحی ہوتی تھی۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ وحی جس ذات پر اترتی تھی، ان سے بہتر قرآنی وحی کے منشاء کو اور کون جانتا ہے؟ لہٰذا آقا ﷺ جو بھی ارشاد فرمائیں، وہ قرآن مجید کی مطابقت اور موافقت میں ہے، اس لیے کہ آپ ﷺ قرآن مجید کے اصل منشاء کی وضاحت فرما رہے ہیں، اس کی شرح کر رہے ہیں اور اس کی عملی تطبیق عطا فرمارہے ہیں۔
(جاری ہے)