اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ اس نے ہم پر کرم فرماتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ماہِ رمضان المبارک کے یہ بابرکت دن اور راتیں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلے اور صدقے سے ہمیں عطا فرمائیں۔ اللہ رب العزت کی ذات کتنی مہربان ہے کہ وہ اپنے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کے امتیوں کے لیے اِن مبارک ایام کو بار بار لے آتی ہے تا کہ ہم اپنے گناہوں پر پچھتاتے ہوئے، ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے اور اپنے اعمالِ سیئہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے اللہ کے حضور مغفرت طلب کریں۔ اللہ رب العزت کی ذات کتنی غفور و رحیم ہے کہ وہ سارا سال کبھی رمضان المبارک کی شکل میں، کبھی محرم الحرام کی شکل میں، کبھی اپنے محبوب ﷺ کے مقدس ماہِ ولادت کی شکل میں، کبھی رجب کی شکل میں، کبھی شبِ برأت کی شکل میں اور کبھی ذوالحجہ کی شکل میں کوئی نہ کوئی موقع ضرور عطا کرتی ہے تا کہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو بھولا ہوا سبق یاد آ جائے اور ان مبارک ایام میں ذکر و اذکار اور تعلیماتِ اسلام ان کے کانوں میں رس گھولتے ہوئے ان کے دل کے دریچوں میں سرایت کر جائیں اور انھیں عالمِ ارواح میں سیکھا ہوا وہ سبق دوبارہ یاد آ جائے جو وہ بھول چکے ہیں اور ان کی کایا بدل جائے۔
عالمِ ارواح میں ارواح پیار، محبت اور مؤدت کا پیکر تھیں۔ وہاں وہ ایک دوسرے کو پہچانتی تھیں اور ایک دوسرے کی قربت میں بیٹھتی تھیں۔ وہ جمعہ کے روز جمع ہو کر اللہ کے انوار و تجلیات کی بارشوں سے سیراب ہوتیں اور مالائے اعلی کے فیوضات سے مستفیض ہوتی تھیں۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے:
الارواح جنود مجندة فما تعارف منها ائتلف وما تناكر منها اختلف.
(صحیح بخاری، كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ، بَابٌ: الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ، الرقم : 3336)
”روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی، ان میں یہاں بھی محبت ہوتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ خلاف رہتی ہیں۔“
آقا ﷺ کے اس فرمان کے مطابق اگر عالمِ ارواح میں روحیں مل جل کرکے رہا کرتی تھیں اور گروہوں اور کنبوں کی صورت میں رہتی تھیں تو لازماً وہاں بھی کوئی منہج تو ہوگا جو انہیں آپس میں جوڑے رکھتا ہوگا۔ کسی نہ کسی مشترکہ قدر کے سبب یا کسی اعلیٰ روح کی صحبتوں میں وہ بیٹھتی ہوں گی۔ عالم ارواح میں جو روحیں ایک دوسرے کو پہچان گئیں اور ایک دوسرے کی معرفت حاصل کر گئیں تو وہ دنیا میں بھی ایک دوسرے سے جڑ گئیں اور جن کی وہاں آپس میں پہچان نہ ہوسکی، یہاں بھی پہچان نہ ہوسکی۔ معلوم ہوا کہ یہ رشتے یہاں سے نہیں بلکہ وہاں سے جڑے ہیں۔۔۔ یہ دل یہاں سے نہیں بلکہ وہاں سے ملے ہوئے ہیں۔ دنیا میں آ کر ایک دوسرے کو مسکراتے ہوئے چہرے سے تکن، ایک دوسرے کی صحبت اور محبت میں رہنا اورایک دوسرے سے جڑے رہن، یہ سلسلہ اس دنیا کا نہیں بلکہ عالمِ ارواح سے متعلق ہے۔
اس ناسوتی دنیا میں انسان کو بشریت کا لبادہ پہنانے سے قبل کے بارے میں اللہ رب العزت کے ساتھ فرشتوں اور شیطان کے ایک مکالمہ کا قرآن مجید میں ذکر ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ قَالَ یٰۤـاِبۡلِیۡسُ مَا لَکَ اَلَّا تَکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ قَالَ لَمۡ اَکُنۡ لِّاَسۡجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ قَالَ فَاخۡرُجۡ مِنۡہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ وَّ اِنَّ عَلَیۡکَ اللَّعۡنَۃَ اِلٰی یَوۡمِ الدِّیۡنِ قَالَ رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ اِلٰی یَوۡمِ الۡوَقۡتِ الۡمَعۡلُوۡمِ قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ اِلَّا عِبَادَکَ مِنۡہُمُ الۡمُخۡلَصِیۡنَ
(الحجر، 15: 28۔ 40)
اور (وہ واقعہ یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں سِن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے ایک بشری پیکر پیدا کرنے والا ہوں۔ پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکرِ (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لئے سجدہ میں گر پڑنا۔ پس (اس پیکرِ بشری کے اندر نورِ ربانی کا چراغ جلتے ہی) سارے کے سارے فرشتوں نے سجدہ کیا۔ سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا۔ (اللہ نے) ارشاد فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہ ہوا۔ (ابلیس نے) کہا: میں ہر گز ایسا نہیں (ہو سکتا) کہ بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سِن رسیدہ (اور) سیاہ بودار، بجنے والے گارے سے تخلیق کیا ہے۔ (اللہ نے) فرمایا: تو یہاں سے نکل جا پس بیشک تو مردود (راندۂ درگاہ) ہے۔ اور بیشک تجھ پر روزِ جزا تک لعنت (پڑتی) رہے گی۔ اُس نے کہا: اے پروردگار! پس تو مجھے اُس دن تک (زندہ رہنے کی) مہلت دے دے جس دن لوگ (دوبارہ) قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔ اللہ نے فرمایا: (جا) بے شک تو مہلت یافتہ لوگوں میں سے ہے۔ وقتِ مقررہ کے دن (قیامت) تک۔ ابلیس نے کہا: اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقیناً ان کے لئے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوش نما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔ سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں۔
اللہ کی بارگاہ سے دھتکارے جانے کے بعد شیطان رُکا نہیں بلکہ سرکشی پر اتر آیا اور کہنے لگا کہ میں بھی اب آرام سے نہیں بیٹھوں گا بلکہ تیرے بندوں کے راستے پر گھات لگا کر بیٹھ جاؤں گا، انہیں ورغلاؤں گا، گمراہ کروں گا، ظلم و فساد میں مبتلا کروں گا، ان کے دلوں میں دراڑ پیدا کروں گا، جڑے ہوؤں کو توڑوں گا اور جو ٹوٹ گئے ہوں گے انہیں اور پھوڑتا چلا جاؤں گا۔ میں اُن پر ایسی ایسی جگہوں سے وار کروں گا کہ وہ مجھے دیکھ بھی نہیں پائیں گے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کی اس گھات کے حوالے سے فرمایا:
اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ وَ قَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ؕ
(الاعراف، 7: 27)
’’بیشک وہ (خود) اور اس کا قبیلہ تمہیں (ایسی ایسی جگہوں سے) دیکھتا (رہتا) ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔‘‘
جن روحوں کو عالمِ ارواح میں ایک دوسرے کی پہچان اور معرفت ہوگئی وہ دنیا میں آکر بھی ایک دوسرے سے مانوس رہیں۔ معلوم ہوا کہ دنیا میں جسے جن کی محبت و قربت نصیب ہوتی ہے، اس کا سلسلہ عالمِ ارواح سے ہی قائم ہوتا ہے۔
شیطان اپنے پے درپے حملوں کے بارے میں خود آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآىِٕلِهِمْ ؕ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ
(الاعراف، 7: 17)
’’ پھر میں یقیناً ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا، اور (نتیجتاً) تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گا۔‘‘
اس آیت میں اس بات کا واضح ذکر ہے کہ شیطان بھی انسان کی سرشت اور فطرت سے بہ خوبی واقف تھا، اسی وجہ سے وہ کہہ رہا ہے کہ اکثر لوگ اللہ کے شکر گزار نہیں ہوں گے۔ کیونکہ انسان جس مٹی سے بنایا گیا ہے اس کی جبلت میں ناشکری اور بے صبری ہے۔
شیطان نے اللہ کی بارگاہ میں اتنا بڑا چیلنج کرنے اور پے درپے مختلف صورتوں اور جگہوں سے حملے کرنے کے اعلان کے بعد اپنے حملوں سے بچ جانے والوں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ میرے اس قدر شدید حملوں سے صرف وہی لوگ بچ پائیں گے جو:
اِلَّا عِبَادَکَ مِنۡہُمُ الۡمُخۡلَصِیۡنَ
(الحجر، 15: 40)
’’سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں۔‘‘
گویا شیطان بھی اس امر کا اقرار کررہا ہے کہ وہ لوگ جو اللہ کی خاص حفاظت میں ہوں گے۔ وہ اِن شیطانی حملوں سے محفوظ رہیں گے۔ معلوم ہوا کہ اگر اس دنیا میں شیطان اور اس کے چیلے برسرِ پیکار ہیں تو رحمانی قوتیں بھی اس کے مقابلے میں موجود ہوں گی۔
گویا شیطان اگر اپنی شیطانی طاقت استعمال کررہا ہے تو رحمٰن اپنی رحمانی طاقت استعمال کررہا ہے۔ شیطان ورغلاتا رہے گا جبکہ اللہ بچاتا رہے گا۔۔۔ شیطان گمراہ کرتا رہے گا جبکہ اللہ واپس سیدھے راستے پر لاتا رہے گا۔۔۔ شیطان گنہگار کرتا رہے گا جبکہ اللہ رمضان المبارک اور اس جیسے دوسرے لمحات کے ذریعے مغفرت کے مواقع عطا کرتا رہے گا۔
شیطان کہتا ہے کہ میں ان پر حملے کروں گا مگر ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی روحانی طاقت کے بل بوتے پر میرے حملوں سے بچ جائیں مگر میں پھر بھی ان کی تاک میں رہوں گا۔ اگر وہ میرے ظاہری حملوں سے بچ جائیں گے تو میں اُن کے سافٹ ویئر یعنی قلوب و اذہان میں وائرس ڈالنے کی کوشش کروں گا۔
الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِۙ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ۠
’’جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔‘‘
(الناس، 114: 5۔ 6)
یہ وسوسے روحانی وائرس ہیں جو ہمارے اذہان اور قلوب کو گندہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ ان وسوسوں کے ذریعے ہمارے آپس کے تعلقات کو خراب کرنے اور ہماری معاشرتی، انفرادی اور عائلی زندگی کو تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کرتا رہتا ہے۔ وہ ہمارے اندر نفاق اور دوری پیدا کرنے اور ہمیں ایک دوسرے سے جدا کرنے کے لیے مصروف عمل رہتا ہے۔ مگر اسے اس بات کی خبر نہیں کہ جو مخلصین ہوجاتے ہیں، اُن کے سافٹ ویئر یعنی قلوب و اذہان میں اس وائرس کو ختم کرنے والے اینٹی وائرس بھی موجود ہوتے ہیں۔
جب شیطان کے داخل کیے گئے وائرس یعنی وسوسے بھی ناکام ہوجائیں گے تو وہ اس سافٹ ویئر یعنی قلوب و اذہان میں موجود روحانیت و معرفت کے خزانہ کو کرپٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ والے اللہ کی دی ہوئی طاقت و قدرت سے شیطان کے ان حملوں کو بھی ناکام بنادیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ
(الشمس، 91: 9)
’’بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)۔‘‘
یعنی ہم نے تزکیہ و تصفیہ کے ذریعے فلاح عطا کرنے کا نظام بھی قائم کررکھا ہے۔ اگر توڑنے والے موجود ہیں تو ہم نے جوڑنے والے بھی پیدا کیے ہیں۔ اگر روحانی سافٹ ویئر کو کرپٹ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اللہ تعالیٰ نے منہاج القرآن اور دیگر روحانی نسبتوں کے ذریعے نہ صرف اس روحانی سافٹ ویئر کو بچانے بلکہ روحانی firewall لگانے کا بھی اہتمام فرمارکھا ہے۔
شیطان اس سافٹ ویئر کو کرپٹ کرنے کی لاکھ کوشش کرتا ہے لیکن اس سافٹ ویئر کے گرد لگا ہوا Firewall ہمیشہ اس کی اور اس سے منسلک Systems کی حفاظت کرتا رہتا ہے۔ جب بندہ تائب ہو کر اللہ کے حضور ندامت سے گڑ گڑاتے ہوئے رو پڑتا ہے تو اللہ اسے کچھ ایسی طاقت عطا کردیتا ہے کہ پھر شیطان اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کچھ بھی نہیں کر پاتا۔
عالمِ ارواح میں جو نظام موجود تھا، وہ عالمِ اجساد میں بھی منتقل ہو گیا ہے۔ وہاں روحیں دوسری روحوں کو سنتی ور اُن کو مانتی تھیں جبکہ یہاں جب قلب؛ روح کی سنتا ہے اور مانتا ہے تو روح؛ قلب پر غالب آ جاتا ہے۔ جب دل؛ روح کی سنتا ہے تو پھر دل؛ روح کا روحانی پیغام دماغ کی طرف لے جاتا ہے اور پھر دماغ بھی روحانی و عرفانی ہو جاتا ہے۔
طلبِ مغفرت کے دو اسالیب اور ان کے نتائج
روح کے دل پر غلبہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مغفرت و بخشش طلب کرتے رہنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں دو ایسے مقامات بیان فرمائے ہیں جہاں توبہ استغفار اور بخشش و مغفرت طلب کرنے کے طریقے بیان کیے ہیں۔ دونوں مقامات پر عمل کی نوعیت ایک ہے یعنی مغفرت طلب کرنا مگر ان کے طریقے کار جدا جدا ہیں:
1. ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں وسیلہ کے ذریعے اپنی بارگاہ میں توبہ کے لیے لے جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا
(النساء، 4: 64)
’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘
یعنی مغفرت میں نے ہی دینی ہے اور توبہ بھی میں نے ہی قبول کرنی ہے مگر شرط یہ ہے کہ میرے حبیب ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤ۔ اس طریقہ میں اللہ رب العزت نے اپنی مغفرت کا راستہ آقا ﷺ کی شفاعت، سفارش اور وسیلے کے ذریعے قائم کیا۔
اللہ رب العزت نے انسان میں موجود روحانی سافٹ ویئر کو وائرس زدہ اور کرپٹ ہونے سے بچانے کے لیے اہل اللہ کی صحبتوں اور مبارک ایام کی صورت میں اینٹی وائرس اور Firewall کا اہتمام کررکھا ہے۔ ماہِ رمضان المبارک اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی ہے۔
2. مغفرت کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں بغیر وسیلہ و سفارش کے براہِ راست
اللہ سے مغفرت طلب کی جائے۔ اس طریقے میں شفاعت اور وسیلے کا ذکر نہیں جبکہ پہلے طریقے
میں آپ ﷺ کی بارگاہ کی حاضری لازمی قرار دی گئی تھی۔
اس دوسرے طریقے اور راستے میں جہاں آپ ﷺ کی بارگاہ کی حاضری اور وسیلہ کے بغیر طلبِ
مغفرت کا ذکر ہے، یہاں اللہ رب العزت کی بارگاہ سے طلبِ مغفرت کا اندازِ بیان الگ ہے
اور جہاں حاضری اور توسل شامل ہے، وہاں اللہ رب العزت کی بارگاہ سے مغفرت طلب کرنے
کا اندازِ بیان الگ ہے۔ مغفرت و بخشش کے دوسرے طریقے کا ذکر کرتے اللہ رب العزت نے
فرمایا:ے
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠
(النَّصْر، 110: 3)
’’تو آپ (تشکراً) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح فرمائیں اور (تواضعاً) اس سے استغفار کریں، بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا (اور مزید رحمت کے ساتھ رجوع فرمانے والا) ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے یہاں خطاب حضور ﷺ سے فرمایا ہے مگر مخاطب امتِ مسلمہ ہے۔ اللہ نے ان آیات میں طلبِ مغفرت کا حکم دیا ہے مگر اس کے تین مرحلے رکھے:
1. پہلا مرحلہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ کی حمد و ثنا اور تسبیح بیان کرو۔
2. دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ پھر اللہ سے مغفرت طلب کرو۔
3. تیسرے مرحلہ پر فرمایا کہ بے شک وہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا ہے۔
غور کریں کہ اللہ فرمارہا ہے کہ مجھ سے اگر مغفرت چاہیے تو سب سے پہلے میری بارگاہ میں تسبیح اور مناجات کرو۔۔۔ پھر اگر مان جاؤں تو پھر میری بارگاہ میں استغفار کرو۔۔۔ اور پھر فرمایا کہ میری شان یہ ہے کہ میں بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا ہوں۔
استغفار اور بخشش کے اس اسلوب میں کوئی یقینی اور قطعی بات نہیں ہے۔ بندہ اس کی حمد و ثناء اور تسبیح کرتا رہے، اسے یاد کرتے رہے، اس سے مغفر ت طلب کرتا رہے کہ وہ مغفرت فرمادے گا مگر اس کی بارگاہ سے یہ جواب نہیں آیا کہ میں نے مغفرت و بخشش عطا کردی بلکہ فرمایا کہ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابا بے شک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ بندہ پوچھتا ہے کہ مولا! ابھی تک تیری بارگاہ سے مجھے توبہ کا پروانہ نہیں ملا۔ فرمایا کہ جب مجھے تیرا انداز اچھا لگے گا تو توبہ کر لوں گا۔۔۔ جب تیری منت سماجت، تیری رقت اور تیری آہ و بکا مجھے پسند آ گئی تو قبول کر لوں گا۔۔۔ تیرا کام ہے کہ مجھے راضی کرتا رہ۔۔۔ میری بارگاہ میں عرض گزار رہ۔۔۔ مگر میری مرضی کہ کب تیری گذارشات قبول کروں۔ یعنی اللہ کی طرف سے کوئی قطعی جواب نہیں مل، معلوم نہیں کہ کب بخشش و مغفرت عطا فرمائے گا، اس لیے کہ اس نے توبہ و بخشش اور تسبیح و تہلیل کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ میں نے توبہ قبول کرلی بلکہ اپنی شان کا ذکر کیا ہے کہ وہ بہت توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ اس اسلوب سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اے بندے اگر تجھے اپنے اعمال پر بھروسہ اور یقین ہے تو میری منت سماجت کرتا رہ مگر تجھے قطعیت کے ساتھ مغفرت و بخشش کی بشارت نہیں مل سکتی۔
میری شان یہ ہے کہ میں استغفار قبول کرتا ہوں مگر میں نے یہ نہیں کہا کہ تیری مغفرت ہوگئی۔
جبکہ توبہ کے پہلے طریق کے اندر اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ میرے محبوب ﷺ کے وسیلہ سے مغفرت طلب کرنے والوں کے لیے میرا یہ اعلان ہے کہ لوجدوا اللہ توابا رحیما کہ اُن کے لیے میری بخشش و مغفرت یقینی و قطعی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کی، اگر وہ مغفرت چاہتے ہیں تو براہِ راست مجھ سے مغفرت طلب نہ کریں بلکہ اپنی عبادت اور اپنی توبہ کو نتیجہ خیزی کے ساتھ ہمکنار کرنا چاہتے ہیں تو سیدھے میرے پاس آنے کے بجائے پہلے میرے مصطفی ﷺ کے دَر پر آئیں۔۔۔ میرے محبوب ﷺ کی بارگاہ میں درود و سلام کے نذرانے پیش کرکے اُن کی منت سماجت کریں۔۔۔ میرے مصطفی ﷺ کے در پر سرِ تسلیم خم کریں۔۔۔ اور پھر میرے محبوب ﷺ بھی تمھارے لیے مغفرت مانگیں تو میں اسی وقت پروانۂ مغفرت عطا کردوں گا۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم صرف میرے ہو یا میرے مصطفیٰ ﷺ کے بھی ہو۔ جو پہلے ان کے در پر جھکتا ہے اور ان سے مانگتا ہے اور پھر ان کو مان کر مجھ سے مانگے تو پھر میں ان کا مان نہیں توڑتا۔
پہلے فرمایا تھا بے شک اللہ تعالی بہت توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ مگر اب جب محبوب ﷺ کی بارگاہ آئی تو یہاں پر صیغہ ہی بدل گیا اور فرمایا کہ جب کوئی آپ ﷺ کے در پر آ کر آپ ﷺ کی سفارش سے مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو وہ اللہ کو ضرور توبہ قبول فرمانے والا اور مہربانی فرمانے والا پائے گا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ یقینی و قطعی مغفرت صرف حضور ﷺ کی ظاہری زندگی میں آنے والوں کے لیے خاص تھی یا بعد والوں کے لیے بھی ہے۔۔۔ ؟ جو دن رات آپ کو تکتے رہتے تھے، یہ پروانہ ان کے لیے ہے یا تا قیامت آنے والے دیوانوں کے لیے بھی اس میں سے کچھ ہے۔۔۔ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بعد میں آنے والوں کے لیے بھی وہی قانون ہے، جو میرے ظاہری زمانہ والوں کے لیے ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
حَيَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ، تُحَدِّثُونَ وَيُحَدَّثُ لَكُمْ، فَإِذَا أَنَا مُتُّ كَانَتْ وَفَاتِي خَيْرًا لَكُمْ، تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُكُمْ، فَإِنْ رَأَيْتُ خَيْرًا حَمِدْتُ اللَّهَ، وَإِنْ رَأَيْتُ غَيْرَ ذَلِكَ اسْتَغْفَرْتُ اللَّهَ لَكُمْ.
میری حیات بهی تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم حدیثیں بیان کرتے ہو اور تمہارے لئے حدیثیں (دین کے احکام) بیان کی جاتی ہیں، اور میری وفات بھی تمہارے لئے بہتر ہے کہ تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں، تمہارا جو نیک عمل دیکھتا ہوں اس پر الله کا شکر ادا کرتا ہوں، اور اگر برے اعمال پاتا ہوں تو تمہارے لئے اللہ سے مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔
(الخصائص الكبرى، لسيوطي، الرقم: ٢/٤٩١)
اگر کوئی پوچھے کہ انبیاء کرام علیہ السلام کی بارگاہ میں وسیلہ دے کر مغفرت کیسی ملتی ہے اور وسیلے کے بغیر مغفرت کیسی ملتی ہے تو قرآن مجید کے مذکورہ دو اسالیب سے اس سوال کا جواب میسر آگیا کہ جو حضور نبی اکرم ﷺ کا دامن تھام کر اللہ سے مانگتا ہے تو اللہ یقینی اور قطعی طور پر مغفرت و بخشش فوراً عطا فرمادیتا ہے، جیسے انتظار میں ہو کہ میرے محبوب ﷺ کے لب ہلیں اور میں مغفرت کردوں جبکہ جو اپنا زور لگاتا ہے اور اپنے اعمال کے بل بوتے پر مغفرت طلب کرتا ہے تو معلوم نہیں کہ اس کی ساری عمر بھی گزر جائے اور پروانۂ مغفرت ملے یا نہ ملے۔
اللہ سے مناجات بزبانِ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ
رمضان المبارک کا یہ مقدس مہینہ مغفرت اور بخشش کے لیے ایک نادر موقع ہے۔ ہمیں اس ماہ اپنے گناہوں اور نافرمانیوں پر نادم ہوتے ہوئے حقیقی معنیٰ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے وسیلہ سے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں گریہ و زاری اور مناجات کے ذریعے مغفرت کا طالب بننا ہوگا۔ اس سلسلے میں ہمیں امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی مناجات کو مشعلِ راہ بنانا ہوگا۔ آپ نے اپنی مناجات میں بندوں کو اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہونے کا سلیقہ سکھایا ہے۔ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مغفرت و بخشش کے لیے اسے یوں مخاطب ہوتے ہیں:
إِلٰهِي إِنْ کَانَ النَّدَمُ عَلَی الذَّنْبِ تَوْبَۃً، فَإِنِّي وَعِزَّتِکَ مِنَ النَّادِمِیْنَ، وَإِنْ کَانَ الْاِسْتِغْفَارُ مِنَ الْخَطِیْئَۃِ حِطَّۃً فَإِنِّي لَکَ مِنَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ، لَکَ الْعُتْبٰی حَتّٰی تَرْضٰی إِلٰهِي بِقُدْرَتِکَ عَلَيَّ تُبْ عَلَيَّ، وَبِحِلْمِکَ عَنِّي اعْفُ عَنِّي، وَبِعِلْمِکَ بِيَ ارْفَقْ بِي.
یاالھٰی! اگر گناہ پر پشیمانی کا مطلب توبہ ہی ہے تو مجھے تیری عزت کی قسم کہ میں پشیمان ہونے والوں میں ہوں، اور اگر خطا کی معافی مانگنے سے خطا معاف ہو جاتی ہے تو بیشک میں تجھ سے معافی مانگنے والا پہلا ہوں، تیری چوکھٹ پر ہوں حتی کہ تو راضی ہو جائے۔ یا الھٰی! اپنی قدرت سے میری توبہ قبول فرما اور میرے متعلق اپنے علم سے مجھ پر مہربانی کر۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے وسیلہ سے طلب کی گئی مغفرت و بخشش یقینی اور فوری قبولیت کی شان کی حامل ہے جبکہ اپنے اعمالِ صالحی پر بھروسہ کرتے ہوئے براہِ راست اللہ سے طلب کی گئی مغفرت و بخشش میں قطعیت موجود ہے اور نہ ہی فوری قبولیت کی ضمانت موجود ہے۔
ایک اور مقام پر امام صاحب رضی اللہ عنہ بارگاہِ الٰہی میں یوں التجا کرتے ہیں:
اَللّٰهُمَّ تُبْ عَلَيَّ حَتّٰی لَا أَعْصِیَکَ، وَأَلْهِمْنِي الْخَیْرَ وَالْعَمَلَ بِهٖ، وَخَشْیَتَکَ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ، أَبَدًا مَا أَبْقَیْتَنِي یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ.
یا الھٰی! مجھے ایسی توبہ کی توفیق دے کہ پھر تیری نافرمانی نہ کروں، میرے دل میں نیکی و عمل کا جذبہ ابھار دے اور جب تک مجھے زندہ رکھے، دن رات اپنا خوف میرے قلب میں ڈالے رکھ، اے جہانوں کے پالنے والے۔
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ جہنم اور اس کے عفریتوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پناہ کے یوں طلب گار ہوتے ہیں:
اللّٰهُمَّ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَقَارِبِھا الْفَاغِرَۃِ أَفْوَاهَهَ، وَحَیَّاتِهَا الصَّالِقَۃِ بِأَنْیَابِهَ، وَشَرَابِهَا الَّذِي یُقَطِّعُ أَمْعَآءَ وَأَفْئِدَۃَ سُکَّانِهَ، وَیَنْزِعُ قُلُوْبَهُمْ، وأَسْتَهْدِیْکَ لِمَا بَاعَدَ مَنْهَ، وَأَخِّرْ عَنْهَا.
اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں جہنم کے ان بچھوؤں سے جن کے منہ کھلے ہوں گے، اور ان سانپوں سے جو دانتوں کو پیس پیس کر پھنکار رہے ہوں گے، اور اس کے کھولتے ہوئے پانی سے جو انتڑیوں اور دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور سینوں کو چیر کر دلوں کو نکال دے گا۔
قلبِ سیاہ اور جامد آنکھوں کی بارگاہِ الٰہی میں شکایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
إِلٰهِي إِلَیْکَ أَشْکُوْ قَلْبًا قَاسِیً، مَعَ الْوَسْوَاسِ مُتَقَلِّبً، وَبِالرَّیْنِ وَالطَّبْعِ مُتَلَبِّسًا وَعَیْنًا عَنِ الْبُکَائِ مَنْ خَوْفِکَ جَامِدَۃً، وَإِلٰی مَا یَسُرُّهَا طَامِحَۃً.
اے میرے معبود! میں تجھ سے سیاہ قلب کی شکایت کرتا ہوں اور بدلنے والے وسوسوں کی شکایت کرتا ہوں جو رین و تیرگی سے آلودہ ہیں، اس آنکھ کی شکایت کرتا ہوں جو تیرے خوف میں گریہ نہیں کرتی اور جو چیز اسے اچھی لگے اس سے خوشی ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کی طرف اشارہ کر کے اس کی عفو و درگزر کو یوں طلب کرتے ہیں:
إِلٰهِي رَبَّیْتَنِي فِي نِعَمِکَ وَإِحْسَانِکَ صَغِیْرً، وَنَوَّهْتَ بِاسْمِي کَبِیْرً، فَیَا مَنْ رَبَّانِيْ فِي الدُّنْیَا بِإِحْسَانِهٖ وَتَفَضُّلِهٖ وَنِعَمِهٖ، وَأَشَارَ لِي فِي الْآخِرَۃِ إِلٰی عَفْوِهٖ وَکَرَمِهٖ.
اے اللہ! جب میں بچہ تھا تو نے مجھے اپنی نعمت اور احسان کے ساتھ پالا اور جب میں بڑا ہوا تو مجھے شہرت عطا کی، پس اے وہ ذات جس نے دنیا میں مجھے اپنے احسانِ نعمت اور عطا سے بڑا کیا اور آخرت میں مجھے اپنے عفو و کرم کا اشارہ دیا ہے۔
اللہ رب العزت اپنی اس مغفرت کی شان کے ساتھ اس ماہِ رمضان المبارک میں ہمارے لیے وہ فیصلہ کردے کہ ہم گناہ گاروں، سیاہ کاروں، خطا کاروں کو نیکی اور پاکیزگی کا رستہ مل جائے اور بے راہ روی کے شکار لوگوں کو صراطِ مستقیم مل جائے۔ آج کے دور میں توبہ آسان نہیں ہے، ہر قدم پر شیطان اور اس کے چیلے جال بچھائے ہوئے ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ کسی علمی، فکری اور روحانی نظام کا حصہ بن کر اس کے حصار میں آجائیں۔ منہاج القرآن اور دیگر حقیقی روحانی نسبتیں ایک نعمت ہیں، اُن سے جڑیں۔ ہمیں کوئی ضمانت نہیں کہ کیسے بچیں گے مگر یہ ضمانت ہے کہ اللہ والوں کے ساتھ جڑ جائیں تو حفاظت کا ایک اہتمام ضرور ہو جاتا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں نسبتوں سے جڑنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری زندگیوں کو ایسا بنا دے جس پر اللہ اور اس کے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام راضی ہوں۔