دہشتگردی کے خلاف شیخ الاسلام کا فتویٰ - تجزیاتی مطالعہ

ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی

دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے خلاف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کے مبسوط تاریخی فتویٰ کو تحقیق و تجزیہ کی میزان پر پرکھنے سے قاری کے سامنے جو حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے ایک سنجیدہ فکر اور علم و تحقیق سے شغف رکھنے والا قاری پہلی نظر میں ہی یہ نتیجہ اخذ کرلیتا ہے کہ دہشت گردی کی مذمت میں لکھا گیا یہ فتویٰ محض فتویٰ نویسی کے شوق کے غلبہ کے زیر اثر نہیں لکھا گیا بلکہ یہ ایک قلبِ سلیم میں محبتِ دین رکھنے والے عالمِ ربانی اور عارفِ حقانی کا انسانیت کے لیے درد کا اظہار ہے۔

اس فتویٰ کا ایک ایک لفظ قلوب و اذھان اور افکار و نظریات کی تسخیر کی قوت کا آئینہ دار ہے جو ’’از دل خیزد بر دل ریزد‘‘ کی تمام تر تاثیر و شان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس لیے کسی بھی علاقہ یا ملک، کسی بھی قوم و نسل، کسی بھی مسلک و عقیدہ اور کسی بھی دین و مذہب سے تعلق رکھنے والا غیر متعصب و غیر جانبدار اور انتہا پسندی و شدت پرستی کی زنجیروں سے آزاد کوئی بھی قاری بہ دل و جان اس کے مندرجات سے اتفاق کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ فتویٰ عصری مقتضیات کی روشنی میں مذاہبِ عالم بالخصوص ابراہیمی مذاہب، یہودیت، مسیحیت اور اسلام کی مذہبی تعلیمات اور اخلاقیات کی جامع تاریخی دستاویز ہے جو قبلہ شیخ الاسلام مدظلہ نے علم و تحقیق کے مصادرِ اصلیہ کی بنیاد پر تحریر کی ہے۔

فتویٰ کے تشکیلی عناصر

فقہاء اسلام اور علماء ومحققین بلا امتیاز مذہب و مسلک اس امر پر متفق ہیں کہ کوئی بھی مفتی ہو، اس کے لیے فتویٰ دیتے ہوئے قرآن مجید (کتاب اللہ) سنت و حدیث نبوی، اقوال و فتاویٰ صحابہ اور مسلّمہ فقہاء کرام کی فقہی آراء کو مذکورہ ترتیب کے مطابق پیش نظر رکھنا لازمی ہے اور یہی آداب رسم المفتی میں مقرر کیے گئے ہیں اور یہی چار عناصر فقہ اسلامی کی بنیاد ہیں جن پر اسلامی تاریخ کی فقہ کی مضبوط عمارت کھڑی ہے۔ چنانچہ رسم المفتی کے ان مقررہ آداب کی روشنی میں فقہ وافتاء سے دلچسپی رکھنے والے اہلِ علم جب اس فتویٰ کو دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں اور وہ بے ساختہ صاحبِ فتویٰ شیخ الاسلام مدظلہ کی فنِ فتویٰ نویسی میں مہارت دیکھ کر جھوم اٹھتے ہیں اور ان کے دل پکار اٹھتے ہیں کہ مفتیانِ وقت کو حضرت شیخ الاسلام مدظلہ کے حضور زانوئے تلمذ طے کرتے ہوئے فنِ فتویٰ نویسی کی مشق کرنی چاہیے تاکہ انہیں رسوخ فی رسم الافتاء حاصل ہوسکے۔ دہشت گردی اور خوارج کے بارے میں اس تاریخ فتویٰ میں رنگِ رسم المفتی ملاحظہ ہو:

(1) قرآنی دلائل سے مزین

فقہ اسلامی کی پہلی بنیاد کتاب اللہ ہے۔ مفتی پر یہ امر لازم ہے کہ وہ کسی بھی درپیش مسئلہ کے حل کے لیے قرآنی دلائل و شواہد پیش کرے لیکن اگر مسئلہ زیر بحث و تحقیق میں کسی آیت تک مفتی کی رسائی نہ ہو تو پھر وہ عبارت النص، دلالت النص، اقتضاء النص یا اشارۃ النص میں سے کسی طریق پر اپنے استدلال کی بنیاد رکھے۔ اسی طرح مسئلہ کی نوعیت اور اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی مستدل آیت کے بارے میں ناسخ و منسوخ، حقیقت و مجاز، تشبیہ و استعارہ اور صریح و کنایہ کے پہلوؤں کو بھی سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ بصورتِ دیگر فتویٰ لکھتے ہوئے مفتی خطاء فی الفکر کا مرتکب ہوسکتا ہے اور اس کے فتویٰ کے غلط نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔

شیخ الاسلام مدظلہ کا فہمِ قرآن اور رسوخ فی علوم القرآن ان کے معاصر اہلِ علم کے ہاں ایک مسلّمہ حقیقت بن چکا ہے۔ دہشت گردی کے بارے میں اُن کا فتویٰ اُن کے فہمِ قرآنی کی ایک ناطق دلیل ہے۔ صدہا صفحات پرمشتمل اس فتویٰ میں قبلہ شیخ الاسلام نے قرآن مجید کی مختلف سورتوں سے ایک سو بیالیس آیات بطورِ استشہاد پیش کی ہیں۔ مزید یہ کہ فتویٰ میں پیش کردہ آیات کی روشنی میں مختلف مفسرین کی دہشت گردی سے متعلق آراء پیش کرتے ہوئے تیسری صدی ہجری سے تیرھویں صدی ہجری تک قرآن مجید کے تفسیری ادب سے منتخب معتبر و مستند اور متداول کتب سے استفادہ کرتے ہوئے اسلام کی پرامن تعلیمات کو پیش کیا ہے۔ تاریخی شواہد کی روشنی میں دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے صحیح اسلامی فکر کو دنیائے عالم کے سامنے رکھا ہے۔

(2) احادیثِ نبویہ اور اقوالِ صحابہ و آثارِ تابعین سے استدلال

قرآن مجید کے بعد فقہ اسلامی کی دوسری بنیاد احادیثِ نبویہ ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے منصبِ نبوت کے تناظر میں احکامِ قرآنی کی تبیین و توضیح آپ ﷺ کا ایک اہم فریضہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے امورِ حیات جن میں قرآن مجید نے خاموشی اختیار کی ہے، ان میں امت کی راہنمائی کرتے ہوئے شرعی حکم واضح کرنا بھی اسی تبیین میں شامل ہے۔ یوں اقوال و افعال اور احوال و تقریراتِ رسول ﷺ کو ایک قانونی و آئینی حیثیت دے دی گئی۔ ان ہی امور کو اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے۔

 اس لیے شریعتِ اسلامیہ میں قرآن مجید کے بعد وضعِ احکام میں مصدرِ ثانی کے طور پر حدیثِ رسول پر ساری امت کا اجماع ہے۔ احادیثِ نبویہ کے معانی و مطالب کی معرفت اور مفاہیم تک رسائی کے لیے آپ ﷺ کے تربیت یافتہ حضراتِ صحابہ کرام کے اقوال کو بھی سند کا درجہ حاصل ہے۔ اس لیے کسی بھی مفتی کے لیے یہ بات لازم ہے کہ وہ فتویٰ لکھتے وقت اسلامی ادلہ کی اس ترتیب کا لحاظ رکھے اور زیر بحث و تحقیقِ مسئلہ میں اسی ترتیب کے مطابق دلائل فراہم کرتے ہوئے پوچھے گئے مسئلہ کا شرعی حکم واضح کرے۔

شیخ الاسلام مدظلہ کے اس تاریخی اور جامع ترین مفصل فتویٰ میں رسم الافتاء کے ان مسلّمہ اصولوں کے مطابق ہی دہشت گردی اور خوارج سے متعلق اسلامی احکام کو پوری شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اپنے اس فتویٰ میں صاحبِ فتویٰ نے کل 523 احادیثِ نبویہ، اقوالِ صحابہ و آثارِ تابعین سے استفادہ کیا ہے۔

(3) جمیع اسلامی علوم کا جامع

لفظ فتویٰ کے ساتھ ذہن فوری طور پر اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ ایک فقہ کی کتاب ہوگی۔ بلاشبہ اس فتویٰ کا تعلق فقہ سے ہی ہے مگر شیخ الاسلام کے علمی رسوخ، فنی مہارت اور اسلوبِ تحقیق نے اس کو محض فقہی مسئلہ تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ فتویٰ نویسی میں وسعت پیدا کردی ہے کہ یہ فتویٰ خود علوم کا دائرۃ المعارف بن گیا ہے۔ ذیل میں اس کا ایک اجمالی جائزہ ملاحظہ ہو:

1۔ علم تفسیر القرآن: 17 معتبر تفاسیر

2۔ علم الحدیث: صحاح ستہ سمیت 54 مستند کتبِ حدیث

3۔ شروح الحدیث: 12مستند شروحاتِ حدیث

4۔ اسماء الرجال: 4 کتب ائمہ اسماء الرجال

5۔ فقہ و اصول الفقہ: دوسری صدی ہجری سے لے کر عصرِ حاضر تک 50 معتبر ترین کتب بطور مآخذ شامل ہیں۔

6۔ کتبِ سیرت: 2 کتب

 7۔ العقائد: 8 کتب

9۔ تصوف: 2 کتب

 10۔ تاریخ: 8 کتب

11۔عربی لغات: 4 کتب

دیگر کتب کے علاوہ مستشرقین کی دو کتب فتویٰ کے مصادر میں شامل ہیں۔ یوں اس فتویٰ کے کل مصادر کی تعداد 172 تک پہنچتی ہے۔ گویا یہ فتویٰ مختلف اسلامی علوم و فنون کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔

اجتہادی بصیرت کا آئینہ دار فتویٰ

فتویٰ کے مصادر کا موضوعاتی اور عددی جائزہ لینے کے بعد اہلِ علم اور شوقِ مطالعہ رکھنے والے قارئین کے لیے قبلہ شیخ الاسلام مدظلہ کے فہمِ قرآن و سنت اور اجتہادی بصیرت کی مظہر صرف ایک مثال ضیافتِ علمی کے طور پر پیش کی جاتی ہے، جس سے حضرت قبلہ کی فقہی مہارت روزِ روشن کی طرح ہرکس و ناکس کے سامنے آجاتی ہے۔

1۔ بعض مخصوص اعتقادی پسِ منظر رکھنے والے لوگ دہشت گردوں کے مسلم نما چہروں کو دیکھتے ہوئے اور ان کے خوش کن مذہبی مطالبات ونعروں کو سن کر غلط فہمی کا شکار ہوکر اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو دہشت گرد اور خارجی قرار دینا کوئی درست عمل نہیں ہے۔ اس قسم کے مغالطوں کا ازالہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام مدظلہ اپنے اس فتویٰ میں لکھتے ہیں:

’’بالعموم لوگوں کو خوارج کی ظاہری دین داری اور پرہیزگاری کی بنا پر مغالطہ لاحق ہوجاتا ہے اور وہ انہیں طبقۂ مسلمین میں شامل سمجھنے لگتے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ خوارج کا پتہ ہی اس وقت چلتا ہے جب وہ مسلح ہو کر قتل عام شروع کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کے ماتھے پر نہیں لکھا ہوتا کہ وہ خوارج ہیں۔ ان کا وحشت و بربریت اور درندگی و قتل عام پر مبنی عمل ہی انہیں Expose کرتا ہے۔ یہ خود ساختہ باطل مذہبی نظریات کی بنا پر عام انسانوں اور مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں۔‘‘

(فتویٰ، ص: 543)

2۔ اس بحث کو جاری رکھتے ہوئے ’’اہم فقہی نکتہ‘‘ کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں کہ دہشت گردوں پر خوارج کا اطلاق اجتہادی نہیں، منصوص ہے، اس کی مزید وضاحت اس طرح کرتے ہیں:

’’موجودہ دور میں دہشت گردی اور قتل و غارت گری کرنے والے لوگ خوارج ہی کا تسلسل ہیں۔ اس امر کا اطلاق اجتہادی نہیں اور نہ ہی تشریحی ہے بلکہ یہ اطلاق منصوص ہے۔ خوارج سے مراد صرف سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے عہد میں نکلنے والا گروہ ہی نہیں بلکہ وہ خوارج کا پہلا گروہ تھا۔ خوارج ایک ایسا فتنہ ہے جو گروہ در گروہ ظاہر ہوتا رہا اور اس کے لوگ دجال کے زمانے تک ظاہر ہوتے رہیں گے اور قیامت تک وقتاً فوقتاً نکلتے رہیں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جن کا ظہور ہوا، وہ فتنہ الخوارج کے بانی تھے۔ حضورنبی اکرم ﷺ نے ان کی واضح نشانیاں بیان فرمادی ہیں، جن میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ ہر دور میں نکلتے رہیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ خوارج کا آخری گروہ دجال کے ساتھ اس کی حمایت میں نکلے گا۔‘‘

شیخ الاسلام مزید لکھتے ہیں:

’’حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی تصریح فرمادی ہے کہ قیامت تک اس طرح کے مسلح اور باغی گروہ مسلمانوں کی ریاستوں اورمعاشروں میں نکلتے رہیں گے۔ حدیث مبارک میں مذکور الفاظ؛ لا یزالون یخرجون کا واضح معنی یہ ہے کہ وہ سارے گروہ خوارج ہی ہوں گے اور یہ بغیر انقطاع کے تسلسل کے ساتھ پیدا ہوتے رہیں گے حتی کہ ان کا آخری گروہ قیامت سے قبل دجال کے ساتھ نکلے گا۔‘‘

(فتویٰ، ص: 543 تا 548)

شیخ الاسلام کے امن بیانیہ کے امتیازات

دہشت گردی کے خلاف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے بیانیہ کے چند امتیازات ملاحظہ ہوں:

1۔ اسلام بحیثیتِ دین بلا امتیاز رنگ و نسل تمام افرادِ انسانی کے حقوق کی حفاظت کا ضامن ہے۔

2۔ اسلام تمام کرۂ ارضی پر بسنے والے انسانوں کو ہر قسم کے تعصبات سے بالا تر ہوتے ہوئے حقِ زندگی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔

3۔ کسی ایک انسان کے ناحق قتل کو اسلام پوری دنیائے انسانی کا قتل قرا ردیتا ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں کسی ایک شخص کی جان بچانے کو پوری دنیائے انسانی کی جان بچانا قرار دیتا ہے۔

4۔ اسلام تمام مذاہب کے مذہبی مراکز و مقامات کی حفاظت کرنے اور ان کے مذہبی راہنماؤں کے قتل کی ممانعت اور ان کی زندگی کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔

5۔ اسلام غیر مسلموں کے دیوتاؤں، معبودوں کی تحقیر و توہین اور ان کو سب و شتم کرنے سے منع کرتا ہے۔

6۔ اسلام معاشرے کے تمام افراد کےساتھ ہر قسم کے مذہبی تعصبات سے بالاتر ہوکر تکریمِ انسانی کا رویہ اپنانے اور باہمی عزت و احترام کا سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔

7۔ اسلام ہر مذہب کی مذہبی کتب اور رسومات کا احترام کرنے کا درس دیتا ہے۔

8۔ اسلام معاشرے میں ہر سطح پر کسی بھی قسم کا خوف و ہراس پیدا کرنا، افراتفری پیدا کرنا، دہشت گردی پھیلانا، فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا، کسی بھی قسم کے تعصبات کو ہوا دینا، ایسے امور کو پسند ہی نہیں کرتا بلکہ سختی کے ساتھ ان تمام امور سے منع کرتا اور ان کو جرم قرار دیتا ہے۔

9۔ اسلام نہ صرف مسلم شہری بلکہ غیر مسلم شہری کے مال و اسباب کو لوٹنے، چرانے یا اس کو نقصان پہنچانے کی ممانعت کرتا ہے بلکہ ایسا کرنے پر بلا امتیازِ مذہب سزا کے لیے اسلامی حد نافذ کرنے کا حکم دیتا ہے۔

10۔ اسلامی ریاست جس طرح اپنے مسلم شہریوں کی عزت و ناموس، جان و مال کی حفاظت کرنے اور انہیں اندرونی و بیرونی جارحیت سے محفوظ رکھنے کی ذمہ دار ہے، اسی طرح اپنے غیر مسلم شہریوں کی عزت و ناموس، جان و مال کی حفاظت اور انہیں اندرونی دشمنوں اور بیرونی حملہ آوروں سے بچانے اور ان کی جان و مال کی حفاظت کی بھی ذمہ دار ہے۔

11۔ مراکزِ دینی، مساجد، خانقاہوں، درس گاہوں، ہسپتالوں پر حملے کرنا ظلم بھی ہے اور دینی و اخلاقی اور سماجی جرم بھی ہے۔

12۔نہتے اور معصوم انسانوں (مسلم ہوں یا غیر مسلم) کا قتل کفر کی مثل اور شرک کی طرح ظلمِ عظیم ہے۔

13۔ ریاست کے حکمران فاسق و فاجر بھی ہوں تو ان کے خلاف مسلح بغاوت کرنا جائز نہیں۔ ایسی صورت میں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حکمران طبقہ کی غلط پالیسیوں پر احتجاج اور ان کی اصلاح کے لیے وعظ و نصیحت کی صورت میں انہیں ان کی ذمہ داریوں اور ذاتی اصلاح کی طرف متوجہ کرتے رہنے کا عمل جاری رہے۔

14۔ کسی بھی گروہ کو اپنے مذہبی عقائد پر قائم رہنے اور ان کے مطابق عمل کرنے، عبادت بجا لانے کی مکمل اجازت ہے۔

15۔ کسی بھی مذہب کے پیروکار کو عقیدہ و مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی مذہبی اختلاف کی وجہ سے کسی غیر مسلم کی جان و مال کا تلف کرنا حرام ہے۔

16۔ اعتقادی اختلاف کی بنیاد پر کسی مسلمان کا قتل کرنا، اس کے مال و اسباب کا لوٹنا اور اس کی املاک کا تباہ کرنا، ایک ایسا جرم ہے جس پر مجرم کو سزا دینا حکومتِ وقت کا اہم فریضہ ہے۔

17۔ خوارج امت سے کٹ جانے والا گروہ ہے جو مسلمانوں کو کافر قرار دے کر معاشرے میں خوف و ہراس پھیلاتا اور ایسی کارروائیاں کرتا ہے جو دہشت گردانہ ہیں۔ وہ مسلمانوں اور دوسرے انسانوں کا خون بہانا جہاد اور دخولِ جنت کا ذریعہ گردانتے ہیں۔ یہ سب جاہلانہ اور باغیانہ روش ہے۔ ایسی کوئی کارروائی جہاد نہیں اور اس طرح مرنے والے خوارج جنت کے مکین نہیں بلکہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔

18۔ خوارج انسانی لباس میں معاشرے کا ایک بدترین گروہ اور شرار الخلق ہیں جن کا قتل اسلامی ریاست کا فریضہ ہے۔

19۔ اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے کسی بھی شہری، گروہ اور تنظیم کے لیے ریاست کی اجازت کے بغیر مسلح جدوجہد کرنا اور بے گناہ شہریوں کی جان لینا جائز نہیں ہے۔ یہ ایک بغاوت ہے۔ ایسی حالت میں شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہوئے پوری قوت سے ان شرپسندوں، فتنہ پروروں اور امن دشمنوں کو کچلنا اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

20۔ بالخصوص اسلامی ریاست کے حکمرانوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان وجوہ و اسباب و احوال و واقعات کا بڑی گہری بصیرت سے جائزہ اور ہر پہلو سے غورو فکر کرے کہ وہ کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں ایسے گروہ اور ایسے افکار ونظریات نے جنم لیا ہے۔ اسی طرح ریاست خوارج اور ان کی دہشت گردانہ کاروائیوں، ان کے معاشرتی و سماجی، دینی و اخلاقی اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے سرکاری سطح پر ان اسباب و واقعات کا قلع قمع کرتے ہوئے ان کا ازالہ کرے اور شہریوں کو پرامن ماحول مہیا کرے۔

دہشت گردی کے خلاف شیخ الاسلام مدظلہ کا بیانیہ معاشرے کے اندر موجود فرقہ وارانہ دیواروں کو گرا کر تمام انسانوں کو الفت و محبت اور وحدت کی لڑی کی صورت میں پرونے کی عظیم کاوش ہے۔

شیخ الاسلام کے امن بیانیہ کی پذیرائی

دہشت گردی کے انسداد کے لیے قبلہ شیخ الاسلام کے پیش کردہ بیانیہ کو ہر سطح فقیدالمثال پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس بیانیہ کی عالمی سطح پر پذیرائی و مقبولیت متعدد پہلوؤں سے جدید سیاسی و تہذیبی تاریخ کے صفحات پر اپنے انمٹ نقوش مرتب کرچکی ہے۔ عالمِ مغرب اور یورپ کی مشہورِ عالم بڑی بڑی یونیورسٹیز سے تعلق رکھنے والے ماہرین سماجیات اور سیاسیات، کالم نگاروں، تجزیہ کاروں اور مفکرین کی بڑی تعداد نے شیخ الاسلام مدظلہ کے امن بیانیہ سے متعلق آگاہی حاصل کرنے اور دہشت گردی سے متعلق فتوی کا مطالعہ کرنے کے بعد برملا اس حقیقت کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور اسامہ بن لادن کے اسلام میں فرق ہے اور ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا پیش کردہ دینِ اسلام جو کہ امن اور محبت کا درس دیتا ہے، وہی حقیقی اور اصلی اسلام ہے۔

اپریل 2019ء میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں OIC کے زیرِ اہتمام دہشت گردی اور انتہا پسندی کے سدِّباب کے لیے ایک کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں کثیر مسلم ممالک کے سربراہان، سفراء اور وفود نے شرکت کی اور دہشت گردی کے انسداد کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں 2010ء میں دہشت گردی اور خودکش بم دھماکوں کے خلاف جاری کردہ شیخ الاسلام کے مبسوط تاریخی فتویٰ کا ذکر کرتے ہوئے دہشت گردی کے انسداد کے لیے آپ کی لازوال کوششوں اور بے مثال خدمات کا تذکرہ آپ کا نام لے کر کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی شیخ الاسلام کے مرتب کردہ ’’فروغِ امن نصاب‘‘ کی تدوین و اجراء پر بھی آپ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا جو یقیناً شیخ الاسلام کی شخصی علمی کمالات اور فکری صلابت کا عالمی سطح پر اعتراف اور تحریک منہاج القرآن کا اعزاز ہے۔

جملہ مغربی و یورپین ممالک نے بھی اسلام کے آفاقی پیغامِ امن اور دہشت گردی کے خلاف شیخ الاسلام کی کاوشوں کو نہ صرف سراہا بلکہ اس کی تائید و تصویب سے متعلق اپنے بیانات و آراء بھی مختلف صورتوں میں پیش کیے۔ عالمِ اسلام کے قدیم علمی مرکز جامعۃ الازہر مصر کی لجنۃ کی طرف سے شیخ الاسلام کے جاری کردہ دہشت گردی کےانسداد اور فتنہ خوارج سے متعلق مبسوط تاریخ فتویٰ پر مفصل تقریظ لکھی گئی اور اس میں فتویٰ کے مشتملات اور صاحب فتویٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اخذ کردہ نتائج، تجزیئے اور خوارج سے متعلق بیان کردہ شرعی حکم کے ساتھ مکمل اتفاق کرتے ہوئے اس کی تصویب کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا گیا۔

شیخ الاسلام کی امن کاوشوں کا اعتراف اس طرح بھی کیا گیا اور یہ اب جاری بھی ہے کہ مختلف عالمی اداروں اور حکومتوں کی طرف سے آپ کو ان گنت اعزازات کے ساتھ نوازا گیا۔ آپ کی حیات میں ہی آپ کی جہدِ مسلسل پر مشتمل علمی و فکری احوالِ حیات، آثارِ علمیہ، افکار ونظریات، علمی و فکری اثرات و امتیازات الغرض مختلف پہلوؤں اور حوالوں سے دنیا کی متعدد یونیورسٹیز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں جاری کی جاچکی ہیں اور بہت سی یونیورسٹیز میں آپ کی شخصیت اور افکار پر تحقیق جاری ہے۔

خلاصۂ کلام

دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اس مبسوط فتویٰ اور دیگر علمی و فکری کاوشوں کو اگر پاکستان کے حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ملکِ پاکستان کا خیر خواہ ہر درد مند اور مخلص پاکستانی شیخ الاسلام کو خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ہمارا وطن پاکستان اپنے قیام کے دن سے ہی فرقہ واریت اور مسلک پرستی کی زد میں رہا ہے۔ ہر شہر اور قریہ میں شرک و بدعت کی منڈی ہمیشہ عروج پر رہی ہے۔

مساجد پر قبضے کا کاروبار بھی عروج پر رہا ہے۔ تحمل و برداشت اور رواداری کے الفاط محض کتبِ لغت کی زینت ہی بن کر رہ گئے تھے اور معاشرتی طور پر اپنی معنویت کھوچکے تھے۔ ایسے میں قوم کا حساس طبقہ کسی ایسے خضر کی راہ تک رہا تھا جو اس کو مذہبی و اخلاقی اقدار اور سماجی رویوں کے تنزل اور تنگ نظری کے گرداب سے نکال کر اعلیٰ اخلاقی و انسانی اقدار اور نرم و ٹھنڈے رویوں کی چاشنی سے لطف آشنا کرکے وحدت کی لڑی میں پرو دے۔

چنانچہ رحمتِ حق کی طرف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں پاکستانی قوم کو ایک ایسا مسیحا مل گیا جس نے تفرق و انتشار کے اس ماحول میں عشق و محبت رسول ﷺ کی جوت جگاتے ہوئے فرقہ واریت اور مذہبی گروہ بندیوں میں جکڑی ہوئی امت کو انتشار سے نکال کر باہمی اتحاد کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا اور مذہبی و سماجی رویوں میں اعتدال اور سوچ میں توازن پیدا کرنے پر زور دیا۔ جس کا اثر یہ ہوا مذہبی محافل اتحادِ اسلامی کا عملی منظر پیش کرنے لگیں۔

بعد ازاں جب ملک کے اندر مذہب کے نام دہشت گردی کا بازار گرم کیا جانے لگا تو آپ نے پوری ایمانی قوت اور قومی جذبہ سے سرشار ہوکر میدان میں قدم رکھا اور دہشت گردی اور اس شیطانی عمل میں کردار ادا کرنے والے خوارج کو اپنے علمی، فکری اور عملی اقدامات سے بے نقاب کیا اور حقیقی اسلامی تعلیمات کا رُخِ روشن دنیا کے سامنے رکھا۔

فروغِ امن، دہشت گردی کے انسداد اور فتنہ خوارج کے خلاف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بالعموم جملہ کاوشوں اور بالخصوص دہشت گردی کے خلاف فتویٰ کی پذیرائی کا ایک آفاقی رنگ یہ بھی ملاحظہ ہو کہ اس وقت دنیا کے اندر پائے جانے والے تینوں الہامی مذاہب؛ یہودیت، مسیحیت اور اسلام سے وابستہ مفکرین و دانشوروں کے علاوہ غیر الہامی مذاہب جیسے ہندو مت، سکھ مت، بدھ مت وغیرہ کے پیروکار دانشوروں اور مفکرین سب نے نہ صرف اس بیانیہ کی حقانیت و صداقت کو تسلیم کیا بلکہ معروضی حالات اور عصری تقاضوں کے پیشِ نظر اس کو دنیائے انسانی کی ضرورت بھی قرار دیا ہے۔

یوں چشمِ فلک صدیوں بعد اس منظر کا نظارہ کررہی ہے کہ ہر تہذیب، ہر مذہب کے پیروکار، ہر قوم، ہر نسل اور مختلف زبانیں بولنے والے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور تحریک منہاج القرآن کے ہم آواز ہوکر عظمتِ مصطفوی اور دینِ محمدی کی عظمتوں کا نعرہ بلند کررہے ہیں۔

تیری دانش نے کیا چشمِ جہاں کو خیرہ
تیرے افکار نے اسلام کو جدت دی ہے
تیرے سر پر ہے جو نعلینِ نبی کا سایہ
اب میں سمجھا کہ تجھے کس نے یہ جرأت دی ہے