روزہ ایک بدنی عبادت ہے اور تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
لِکُلِّ شَيْئٍ زَکَاةٌ وَ زَکَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ.
(ابن ماجه، کتاب الصيام، باب فی الصوم زکاة الجسد، 2: 361، رقم: 1745)
’’ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوۃ روزہ ہے۔‘‘
روزہ ایک مخفی اور خاموش عبادت ہے جو نمود و نمائش سے پاک ہے۔ روزہ دار کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
مَنْ صَامَ يَوْمًا فِی سَبِيْلِ اﷲِ بَعَّدَ اﷲُ وَجْههُ عَنِ النَّارِ سَبْعِيْنَ خَرِيْفً.
(بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب فضل الصوم فی سبيل اﷲ، 3: 1044، رقم: 2685)
’’جس نے اﷲ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا تو اﷲ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال (کی مسافت سے) دور کر دیتا ہے۔‘‘
روزہ کی فرضیت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يأَيُّهاَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.
(البقرة، 2: 183)
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘
مذکورآیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ روزہ پہلی امتوں پر بھی فرض تھا۔ انسائیکلو پیڈیا آف جیوز میں لکھا ہوا ہے:
یہودی اور عیسائی روزہ بطور کفارہ گناہ یا توبہ کی خاطر یا پھر ان سے بھی تنگ تر مقاصد کے لئے رکھتے تھے اور ان کا روزہ محض رسمی نوعیت کا ہوتا تھا، یا پھر قدیم تر ایام میں روزہ ماتم کے نشان کے طور پر رکھا جاتا تھا۔ یعنی ان لوگوں نے روزے کی اصل مقصدیت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اسے اپنے مخصوص مفادات کے ساتھ وابستہ کر لیا تھا مگر اسلام نے انسانیت کو روزے کے بامقصد اور تربیتی نظام سے آشنا کیا۔
یہ اسلام ہی ہے جس نے مسلمانوں کو روزے پر وسیع دائرہ ہائے کار اور بلند اغراض و مقاصد عطا کئے۔ زندگی کی وہ تمام تمنائیں اور خواہشات جو عام طور پر جائز ہیں روزہ میں ان پر بھی کچھ عرصہ کے لئے پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ہر اطاعت گزار اُمتی ان پابندیوں کو دلی رغبت و مسرت کے ساتھ اپنے اوپر عائد کرلیتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ جسم و روح دونوں کے لئے مفید ہے۔
علاوہ ازیں مختلف مذاہب میں روزہ رکھنے کے مکلف بھی مختلف طبقات ہیں۔ مثلاً پارسیوں کے ہاں صرف مذہبی پیشوا، ہندوؤں میں برہمن اور یونانیوں کے ہاں صرف عورتیں روزے رکھنے کی مکلف ہیں، جبکہ ان کے اوقاتِ روزہ میں بھی اختلاف اور افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ لیکن اسلام کے پلیٹ فارم پر دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے عاقل، بالغ اور مسلمان مرد و عورت کے لئے ایک ہی وقت میں ماہ رمضان کے روزے فرض کیے گئے ہیں۔
روزہ ایک جامع اور ہمہ جہتی عبادت ہے۔ روزہ سے ہمیں اطاعت الٰہی، تزکیۂ نفس، اخوت اور ہمدردی کا سبق ملتا ہے مثلًا روزہ دار اﷲ تعالیٰ کے حکم سے حالتِ روزہ میں ایک خاص وقت پر کھانے پینے اور جائز خواہشات سے رک جاتا ہے۔ اپنی ایسی بنیادی ضروریات کو اطاعت الٰہی کی خاطر اپنے اوپر حرام کر لیتا ہے جن کو پورا کرنا دوسرے اوقات میں نہ صرف جائز بلکہ فرض ہوتا ہے۔ روزہ ہمارے اندر یہ بات راسخ کر دیتا ہے کہ اصل چیز اطاعتِ الٰہی ہے اور یہ کہ صرف حکم الٰہی ہی کسی چیز کے درست اور غلط ہونے کے لئے آخری سند ہے اور حق بندگی کا یہ سبق ہمیں روزہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح غریبوں کی تکلیفوں، ان کے فقر و فاقہ اور تنگ دستی کا احساس بھی حالتِ روزہ میں ہوتا ہے۔ جب روزہ دار خود سارا دن بھوکا پیاسا رہتا ہے تو اس کے اندر ایسے لوگوں کے بارے میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو مستقل فقر و فاقہ سے دو چار رہتے ہیں چنانچہ روزہ دار اپنی بساط کے مطابق ان کے دکھوں کا مداوا اور ان کی تکلیفوں کو دور کرنے میں تعاون کرتا ہے۔ اس لئے مومنوں کا وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ سب مسلمان نفس واحد کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ میں درت ہوتا ہے تو اس کا سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔
روزے کے باطنی و روحانی فوائد
روزے کے باطنی اور روحانی فوائد درج ذیل ہیں :
1. روزہ ضعیف روح اور بیمار قلب کے لئے ایک ایسی مجرب دوا ہے جس کے استعمال سے خصوصاً روح میں تقویت و شادابی اور تر و تازگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس طرح بندے کی طبیعت نیکیوں کی طرف مائل ہونے لگتی اور برائیوں کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔
2. روزہ صائم کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ حدود اﷲ اور احکامِ الٰہی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال کر ایک کامیاب دینی زندگی گزار سکے۔
3. روزہ دین کے ہر معاملے میں صائم کے اندر صبر و ثبات کی خوبیاں پیدا کرتا ہے جو اسے دین پر قائم رکھتی ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے حکم سے انحراف نہیں کرنے دیتیں۔
4. روزہ کی وجہ سے تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن جیسے پاکیزہ اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔
5. روزہ دار کو آخرت میں اس نعمت غیر مترقبہ سے نوازا جائے گا۔ جس کے حصول کے لئے شہید بار بار اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کی آرزو کرے گا۔ روزہ گناہوں اور آگ سے حفاظت کا سبب بنتا ہے۔
6. روح اور باطن کو ہر قسم کی آلائشوں سے مزکّٰی اور مصفّی کرنے کے لئے روزے سے بہتر اور کوئی عمل نہیں۔
7. اللہ تعالیٰ ہر مومن کی ایک نیکی کا اجر 10 گنا سے بڑھا کر 700 گنا تک عطا فرماتا ہے۔ روزے کی جزا خود باری تعالیٰ دیتے ہیں۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَی سَبْعِمِائَة ضِعْفٍ مَاشَاء اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ: إِلاَّ الصّوْمَ فَإِنَّهُ لِی وَ أَنَا أَجْزِی بِهِ.
(ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل الصيام، 2: 305، رقم :1638)
’’بنی آدم کو ہر نیکی کا اجر دس گنا سے سات سو گنا تک عطا کیا جاتا ہے، جتنا ﷲ چاہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے : سوائے روزہ کے، کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘
روزہ کی حفاظت کيسے ممکن ہے؟
اگر روزہ کو پورے احکام و آداب کي مکمل رعيت کے ساتھ پورا کيا جائے تو بلاشبہ گناہوں سے محفوظ رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر کسي نے روزہ کے لوازم کا خيال نہ کيا اور گناہوں ميں مشغول رہتے ہوئے روزہ کي نيت کی کھانے پینے، خواہش نفسانی سے باز رہا ليکن حرام کمانے اور غیبت کرنے سے باز نہ يا تو اس سے فرض ادا ہوجائے گا، مگر روزہ کے برکات و ثمرات سے محرومی رہے گی۔
شرع کی رو سے روزہ کی حالت میں غیبت، جھوٹ، فحش کلامی کسی طور بھی جائز نہیں، کیونکہ اس کی وجہ سے روزہ میں کراہت آتی ہے۔ روزہ فرض کرنے کا مقصد صرف روزہ دار کا بھوکا، پیاسا رہنا کافی نہیں ہے بلکہ دنیاوی لذتوں کی خواہشات اور برے اعمال مثلا جھوٹ بولنا، فحش کلامی کرنا اور غیبت سے بچنا بھی ضروری ہے۔ حضرت ابو عبيدہ بن جراحرضی اللہ عنہ سے مروي ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يَخْرِقْةِ.
(نسائی، السنن، 1: 167، رقم : 2233)
’’روزہ ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
مَنْ لَّمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِه، فَلَيْسَِﷲِ حَاجَةٌ فِی اَنْ يَدَعَ طَعَامَه. وَ شَرَابَه.
(بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب من لم يدع قول الزور و العمل به فی الصوم، 2: 673، الرقم: 1804)
’’جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹی بات اور غلط کام نہ چھوڑے تو اللہ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ (گناہوں کو چھوڑے بغیر) محض کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو یہ حکم دیا کہ وہ ایک دن روزہ رکھیں اور جب تک میں اجازت نہ دوں اس وقت تک کوئی روزہ افطار نہ کرے۔ لوگوں نے روزہ رکھا۔ جب شام ہوئی تو ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کی : میں سارے دن روزے سے رہا ہوں، آپ مجھے افطار کی اجازت دیں، آپ نے اس کو افطار کی اجازت مرحمت فرمائی۔ پھر ایک شخص حاضر ہوا۔ اور اس نے عرض کیا آپ کے گھر کی دو کنیزیں صبح سے روزے سے ہیں، آپ انہیں بھی افطار کی اجازت دیں۔ آپ ﷺ نے اس شخص سے اعراض کی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ان کا روزہ نہیں ہے، ان لوگوں کا روزہ کیسے ہوسکتا ہے؟ جو سارا دن لوگوں کا گوشت کھاتے رہے ہوں، جاؤ انہیں جاکر کہو اگر وہ روزہ دار ہیں تو قے کریں، انہوں نے قے کی تو ہر ایک سے جما ہوا خون نکلا۔ اس شخص نے جا کر حضور نبی اکرم ﷺ کو خبر دی، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر وہ مرجاتیں اور وہ جما ہوا خون ان میں باقی رہ جاتا تو دونوں کو دوزخ کی آگ کھاتی۔
(طيالسی، المسند، 1: 282، رقم : 2107)
پس مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کھانا پینا اور جنسی تعلقات چھوڑنے ہی سے روزہ کامل نہیں ہوتا بلکہ روزہ کی حالت میں فواحش، منکرات اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنا بھی ضروری ہے۔ روزہ کی حالت میں جھوٹ بولنا، غیبت کرنا اور فحش کلامی کرنا ممنوع ہے۔ ان امورِ رذیلہ سے اس لے ممانعت کی گئی کہ ان سے روزہ رکھنے کا مقصد ختم ہو جاتا ہے اور روزہ دار، روزہ کے برکات و ثمرات سے محروم رہتا ہے۔
ان احادیثِ مبارکہ سے درج ذیل نکات واضح ہوتے ہیں:
1. روزہ دار روزہ رکھ کر جھوٹ، غیبت، چغلی اور بدکلامی سے پرہیز کرے۔
2. آنکھ کو مذموم و مکروہ اور ہر اس چیز سے بچائے جو یادِ الٰہی سے غافل کرتی ہو۔
3. کان کو ہر ناجائز آواز سننے سے بچائے۔ اگر کسی مجلس میں غیبت ہوتی ہو تو انہیں منع کرے ورنہ وہاں سے اُٹھ جائے حدیث میں ہے کہ غیبت کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں شریک ہیں۔
4. بوقت افطار اتنا نہ کھائے کہ پیٹ تن جائے۔
5. افطار کے بعد دل خوف اور امید کے درمیان رہے کیا معلوم کہ اسکا روزہ قبول ہوا یا نہیں لیکن اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔
پس اعضاء کو گناہوں سے بچانا ہی درحقیقت روزہ کی حفاظت ہے۔
رمضان المبارک میں ملنے والے تحائف
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے:
1. أَمَّا وَاحِدَةٌ فَإِنَّهُ إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ نَظَرَ اﷲُ تَعالی عزوجل إِلَيْهِمْ وَمَنْ نَظَرَ اﷲُ إِلَيْهِ لَمْ يُعَذِّبْهُ أَبَدًا.
’’پہلا یہ کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ ان کی طرف نظر التفات فرماتا ہے اور جس پر اﷲ کی نظر پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔‘‘
2. وَأَمَّا الثَّانِيَةُ فَإِنَّ خُلُوْفَ أَفْوَاهِهِمْ حِيْنَ يُمْسُوْنَ أَطْيَبُ عِنْدَ اﷲِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْکِ.
’’دوسرا یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو اﷲ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔‘‘
3. وَأَمَّا الثَّالِثَهُ فَإِنَّ الْمَلاَئِکَةَ تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ فِي کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ.
’’تیسرا یہ کہ فرشتے ہر دن اور رات ان کے لئے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔‘‘
4. وَأَمَّا الرَّابِعَةُ فَإِنَّ اﷲَ عزوجل يَأْمُرُ جَنَّتَهُ فَيَقُوْلُ لَهَا : اسْتَعِدِّي وَتَزَيَنِي لِعِبَادِي أَوْشَکُوْا أَنْ يَسْتَرِيْحُوْا مِنْ تَعَبِ الدُّنْيَا إِلَی دَارِي وَکَرَامَتِي.
’’چوتھا یہ کہ اﷲ عزوجل اپنی جنت کو حکم دیتے ہوئے کہتا ہے : میرے بندوں کے لئے تیاری کر لے اور مزین ہو جا، قریب ہے کہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔‘‘
5. وَأَمَّا الْخَامِسَةُ فَإِنَّهُ إِذَا کَانَ آخِرُ لَيْلَةٍ غُفِرَ لَهُمْ جَمِيْعًا.
’’پانچواں یہ کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔‘‘
فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ : لَا، أَلَمْ تَرَ إِلَی الْعُمَّالِ يَعْمَلُوْنَ فَإِذَا فَرَغُوْا مِنْ أَعْمَالِهِمْ وُفُّوْا أُجُوْرَهُمْ؟
(بيهقي، شعب الإيمان، 3: 303، رقم : 3603)
( منذري، الترغيب والترهيب، 2: 56، رقم : 1477)
’’ایک صحابی نے عرض کیا: کیا یہ شبِ قدر کو ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تب انہیں مزدوری دی جاتی ہے؟‘‘
رمضان المبارک میں قیام اللیل کی فضیلت
رمضان المبارک میں قیام اللیل کو بہت اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا معمول مبارک تھا کہ آپ ﷺ رمضان المبارک کی راتوں میں تواتر و کثرت کے ساتھ نماز، تسبیح و تہلیل اور قرات قرآن میں مشغول رہتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أنْ يَأْمُرَهُمْ بِعَزِيْمَةٍ، و يَقُوْلُ : مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّ احْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
(ترمذی، الجامع الصحيح، أبواب الصوم، باب الترغيب فی قيام رمضان وما جاء فيه من الفضل، 2: 161، رقم: 808)
’’حضور نبی اکرم ﷺ صحابہ کو فرضیت کے بغیر قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے تھے۔ آپ ﷺ فرماتے : جس شخص نے ایمان اور احتساب (محاسبۂ نفس کرنے) کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کیا اس کے پچھلے سارے (صغیرہ) گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ رمضان میں نمازِ تراویح بھی قیام اللیل کی ایک اہم کڑی ہے جسے قیام رمضان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نمازِ تراویح کے سبب جتنا قیام اس مہینے میں کیا جاتا ہے وہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں نہیں ہوتا۔ اس سے منشاء ایزدی یہ ہے کہ بندہ رمضان المبارک کی راتوں کو زیادہ سے زیادہ اس کے حضور عبادت اور ذکر و فکر میں گزارے اور اس کی رضا کا سامان مہیا کرے۔ اس لئے کہ رمضان کی با برکت راتیں شب بیداری کا تقاضا کرتی ہیں کیونکہ روایات میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کی راتوں کو آسمان دنیا پر نزولِ اجلال فرما کر اپنے بندوں کو تین مرتبہ ندا دیتا ہے۔
هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأُعْطِيَهُ سُؤْلَهُ، هَلْ مِنْ تَائِبٍ فَأَتُوْبَ عَلَيْهِ؟ هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاغْفِرَ لَهُ.
(بيهقی، شعب الإيمان، 3: 335، رقم: 3695)
’’کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اس کی حاجت پوری کروں، کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں، کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں۔‘‘
رحمت پروردگار رمضان المبارک کی راتوں میں سب کو اپنے دامنِ عفو و کرم میں آنے کی دعوت دیتی ہے۔ شومئ قسمت کہ انسان رحمت طلبی اور مغفرت جوئی کی بجائے رات کی ان گراں بہا ساعتوں کو خواب غفلت کی نذر کردیتا ہے جبکہ رب کی رحمت اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر پکارتی ہے۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں
یوں بد نصیب انسان غفلت کی نیند تانے یہ ساعتیں گزار دیتا ہے۔ اور رحمتِ ایزدی سے اپنا حصہ وصول نہیں کرتا۔