ماہِ رمضان المبارک - تعمیرِ شخصیت کا سنہری موقع

ڈاکٹر شفاقت علی شیخ

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سب سے پہلے اپنی جس صفت کا تعارف کرایا ہے وہ ہے "صفتِ ربوبیت"۔ رب کا معنی ہے ایسی ہستی جو کسی وجود کو اس کی ادنیٰ حالت سے پروان چڑھاتے ہوئے نقطۂ کمال تک پہنچا دے۔ چنانچہ اس کی صفت ربوبیت پوری دنیا میں ہر جگہ کار فرما ہے۔ ہر وجود کی تکمیل وبقا اور تعمیر و ترقی کے لیے جن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے، مختلف اسباب و ذرائع سے وہ اسے میسر آتے رہتے ہیں۔ یہی معاملہ وسیع پیمانے پر حضرت انسان کے ساتھ ہے جسے اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔ ہر شخص کی زندگی میں آگے بڑھنے، خود کو بہتر بنانے اور عروج و کمال کو پانے کے لیے اتنے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں جن کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ مگر ان تمام مواقع میں سے سب سے بڑا موقع شاید وہ موقع ہے جسے ماہ رمضان المبارک کہا جاتا ہے۔

ماہ رمضان المبارک اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والا وہ عظیم الشان موقع ہے جو ہر سال آتا ہے اور یہ اتنی بڑی نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ اس کی قدر و قیمت کا اندازہ حضور ﷺ کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے:

لَوْ یَعْلَمُ الْعِبَادُ مَا رَمَضَانُ لَتَمَنَّتْ أُمَّتِي أَنْ یَکُوْنَ السَّنَةَ کُلَّهَا.

(شعب الإیمان، 3: 313، الرقم:3634)

’’اگر لوگوں کو رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کا پتہ ہوتا تو وہ خواہش کرتے کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔ ‘‘

دوسری جگہ فرمایا:

من افطر يوما من رمضان من غير رخصة لم يجزه صيام الدهر.

(سنن ابن ماجہ، کتاب الصیام، بَابُ : مَا جَاءَ فِي كَفَّارَةِ مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ)

’’جو شخص رمضان کا ایک روزہ بغیر کسی رخصت کے چھوڑ دے تو اسے پورے سال کے روزے بھی کافی نہ ہوں گے۔ ‘‘

حضور ﷺ نے اس ماہِ مبارک کے پہلے عشرہ کو رحمت، دوسرے کو مغفرت اور تیسرے عشرہ کو جہنم سے نجات کا عشرہ قرار دیا ہے۔ تیسرے عشرہ میں وہ رات بھی ہےجسے شبِ قدر کہا جاتا ہے جو اکیلی رات ہی انسان کی زندگی بھر کی راتوں پر حاوی ہے۔ گویا اس ماہِ مبارک کا ہر دن اور ہر لمحہ ہی اپنے دامن میں بے شمار رحمتوں، برکتوں اور دنیا و آخرت کی سعادتوں کو لیے ہوئے ہے۔ اس کو ایک مادی مثال کے ذریعے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ سال کے دیگر مہینوں کو اگر دودھ سے تشبیہ دی جائے تو رمضان المبارک اس دودھ سے نکلنے والی کریم ہے۔ پھر اس ماہ مبارک کا آخری عشرہ گویا اس کریم سے نکلنے والا مکھن ہے اور شب قدر اس مکھن سے نکلنے والا گھی ہے۔ اس سے آگے خالصیت اور کمال کا کوئی درجہ باقی نہیں رہتا۔

ماہ رمضان المبارک تعمیرِ شخصیت کا بہترین موقع ہے۔ اس کے دامن میں دو عبادات بطور خاص ایسی ہیں جو انسانی تعمیر و ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کر کے اسے عروج و کمال سے ہم کنار کرنے میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں سے ایک روزہ اور دوسری کا نام اعتکاف ہے۔ سطور ذیل میں ان کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا جا رہا ہے۔

روزہ کی اہمیت و افادیت

قرآن مجید نے روزہ کی فرضیت کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۝

(البقرہ، 2: 183)

’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ ‘‘

اس آیت میں روزہ رکھنے کی جو حکمت بتائی ہے، وہ تقویٰ کا حصول ہے۔ امام غزالیؒ منہاج العابدین میں فرماتے ہیں کہ اگر اللہ کے خزانہ میں تقوی سے بڑی کوئی نعمت ہوتی تو اللہ تعالی قرآن مجید میں یوں ارشاد نہ فرماتے:

وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ اِیَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ

(النساء، 4: 131)

’’اور بیشک ہم نے ان لوگوں کو (بھی) جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی حکم دیا ہے اور تمہیں (بھی) کہ اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔ ‘‘

امام صاحبؒ کے قول کے مطابق اللہ تعالی کا ہر دور کے انسانوں کو تقویٰ کی وصیت کرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ اللہ کی وہ نعمت ہے جس کو اپنانا ہر شخص کے لیے ضروری ہے اور جس سے تمام سعاتوں کے دروازے کھلتے ہیں۔ اس کی تصدیق خود قرآن مجید کے اُن مقامات سے بھی ہوتی ہے، جہاں تقویٰ کی اہمیت اور تاکید جا بجا بیان کی گئی ہے اور اس پر ملنے والے دُنیوی و اُخروی انعامات کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے ان تمام مقامات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی محبت، ولا یت اور دُنیا سے لے کر آخرت تک کی تمام سعادتوں اور بھلائیوں کا حصول تقویٰ سے ہی وابستہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقویٰ، قلبِ سلیم، نفسِ مطمئنہ، رضائے الہی اور سعادتِ ابدی جیسی جو اصطلاحات قرآن مجید میں استعمال کی گئی ہیں یہ ایک ہی حقیقت کے مختلف نام ہیں۔

روزہ سے تقویٰ کا حصول کیونکر ممکن ہے؟

روزہ اور تقوی کے باہمی تعلق کے حوالے سے یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا بھی مناسب ہے کہ روزہ سے تقویٰ کیسے پیدا ہوتا ہے؟ انسانی شخصیت میں ایک حصہ کا نام نفس ہے جس کا کام خواہشات اور تقاضے پیدا کرنا ہے۔ خواہشات اچھی بھی ہو سکتی ہیں اور بُری بھی۔ نفس اپنے ابتدائی درجہ میں بڑا ضدی، اڑیل اور سرکش ہوتا ہے، اس مرحلہ پر اسے نفس امارہ کہا جاتا ہے۔ اس سطح پر اسے اصرار ہوتا ہے کہ اس کی خواہشات کو پورا کیا جائے قطع نظر اس کے کہ وہ اچھی ہیں یا بُری لیکن جب اس پر محنت کر کے اسے مہذب بنا لیا جائے تو یہ انتہائی درجے میں جا کر نفسِ مطمئنہ بن جاتا ہے۔ اس درجہ میں خالقِ کائنات اس سے پیار بھرے انداز میں خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے:

یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُۗۖ۝ ارْجِعِیْۤ اِلٰی رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ۝ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ۝ وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۠۝

(الفجر، 89: 27 تا 30)

’’اے اطمینان پا جانے والے نفس۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آکہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔ پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا۔ ‘‘

تقوی کا سارا سفر اس نفس کو امارہ سے مطمئنہ تک لے جانے کا ہے۔ اُصول یہ ہے کہ جتنا زیادہ ہم نفس کی خواہشات کو پورا کرتے چلے جاتے ہیں، اتنا ہی یہ طاقتور اور سرکش ہوتا چلا جاتا ہے اور ہم اس کے مقابلے میں کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جتنا زیادہ اس کے غلط تقاضوں کو دبایا جائے، اتنا ہی یہ سرکشی سے تائب ہو کر مہذب بنتا چلا جاتا ہے۔ یوں تو اس کی خواہشات کی کوئی حد نہیں ہے مگر قوی ترین خواہشات کھانے، پینے اور جنسی تعلقات کی ہوتی ہیں۔ گویا یہ نفس کے وہ خاص تقاضے ہیں جنہیں کنٹرول کر لیا جائے تو اسے مہذب بنانا آسان ہو جاتا ہے۔

اگر ہم اپنے طور پر یہ ارادہ کریں کہ ہم نے ان تقاضوں کو دبانا ہے تو ہمارے لیے زیادہ دیر تک کاربند رہنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ مگر روزے کی صورت میں اللہ تعالی نے ہمارے ہاتھ میں اتنا بڑا ہتھیار دے دیا ہے کہ بڑی آسانی سے اس کی خواہشات کو لگام دی جا سکتی ہے۔ حضور ﷺ نے رمضان المبارک کو صبر کا مہینہ (شہرالصبر) اور روزہ کو آدھا صبر (نصف الصبر) قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی سے ارادے والا آدمی بھی جب روزہ رکھ لیتا ہے تو اس کے لیے کئی گھنٹے تک ان خواہشات پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔ پھر یہ مشق کوئی ایک دو دن نہیں بلکہ پورے ایک ماہ تک تواتر اور تسلسل کے ساتھ کرائی جاتی ہے۔ اگر اس کی روح کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کو مکمل کر لیا جائے تو تقوی کا حاصل ہونا یقینی ہو جاتا ہے۔

قرآن مجید نے روزہ کی فرضیت اور مقصدیت کا بیان کرنے کے بعد ایک بہت بامعنی بات کرتے ہوئے کہا:

اَيَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ. ’’یہ گنتی کے چند دن ہیں۔ ‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ہی انتیس یاتیس دنوں میں تقویٰ کا مقصد حاصل ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ بیشتر لوگ ہر سال باقاعدگی کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے باوجود تقویٰ کا مطلوبہ درجہ حاصل کیوں نہیں کر پاتے؟ اس کی بطور خاص دو وجوہات ہیں:

ا۔ آج ہماری عبادات بالعموم مقصدیت سے عاری ہیں۔ لوگوں کی اکثریت نماز، روزہ اور دیگر عبادات کو ایک رسم اور معمول کے تحت ادا کرتی ہے۔ ان کے ذہن میں عبادات سے حاصل ہونے والے نتائج وثمرات نہیں ہوتے۔ زیادہ سے زیادہ ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ ثواب مل جائے گا۔ گویا یہ عبادات سے زیادہ عادات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کو شعوری عبادات مطلوب ہیں۔ اسے انسان سے وہ بندگی مقصود و مطلوب ہے جس میں انسان کا ذوق و شوق اور جذبہ و جنون شامل ہو۔ بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ؎

شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب

چنانچہ مقصدیت کے شعور سے خالی عبادات سے وہ نتائج حاصل نہیں ہو پاتے جو کہ ہونے چاہییں۔ یہی کچھ روزہ کے معاملہ میں ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے روزہ کا مقصد تقویٰ کا حصول بتایا مگر لوگوں کی اکثریت کے ذہنوں میں یہ مقصد نہیں ہوتا بلکہ صرف ثواب کا حصول ہی ہوتا ہے۔

2. دوسری غلطی یہ کی جاتی ہے کہ روزہ کی حالت میں کھانے پینے سے تو پرہیز کر لیا جاتا ہے لیکن دیگر محرمات و منہیات سے اجتناب نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ روزہ کی حالت میں بھی جھوٹ، غیبت اور چغلی وغیرہ جیسے کبیرہ گناہوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ روزہ کے ذریعے ملنے والے نتائج و ثمرات ساتھ ہی ساتھ ضائع ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے حضور علیہ السلام کی یہ حدیث مبارکہ بہت بڑی وعید ہے:

من لم يدع قول الزور والعمل به، فليس لله حاجة في ان يدع طعامه وشرابه.

(بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب من لم يدع قول الزور و العمل به فی الصوم، 2: 673، الرقم: 1804)

’’جس شخص نے روزہ کی حالت میں جھوٹ بولنا اور جھوٹی بات پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ تعالی کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ ‘‘

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کھانا پینا تو عام حالات میں حلال تھا محض روزے کی حالت میں کسی حکمت اور مصلحت کے تحت منع فرما دیا گیا مگر جھوٹ اور دیگر گناہ تو مستقل طور پر حرام ہیں۔ ان کی اجازت کس طرح ہو سکتی ہے؟

اب جو شخص اللہ کا حکم سمجھ کر کھانے پینے سے وقتی طور پر پرہیز کرے مگر اس سے بڑے اور مستقل نوعیت کے احکام کو نظر انداز کرے تو اس کے روزے کی اللہ تعالی کی بارگاہ میں کیا وقعت ہو سکتی ہے؟ اور اس سے کیا نتائج مرتب ہو سکتے ہیں؟

مذکورہ بالا دونوں غلطیوں کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم روزہ رکھ لیتے ہیں مگر روزہ کے احساس کو اپنے اُوپر طاری نہیں کرتے۔ احساس کو طاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنا روزہ دارہونا ہر وقت یاد ہو اور اُس کے منافی سر گرمیوں سے خود کو بچا یا جائے۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

الصيام جُنة، وإذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفُث ولا يصخَب، فإن سابّه أحد أو قاتله، فليقل: إني امرؤ صائم.

’’روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ نہ بے ہودگی کرے اور نہ ہی لڑائی جھگڑا کرے۔ پس اگر کوئی شخص اُسے گالی دے یا اُس سے جھگڑا کرے تو اُسے کہنا چاہیے: میں روزہ سے ہوں۔ ‘‘

(صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل الصیام)

روزہ کی حالت میں ہر قسم کی بیہودہ حرکات و سکنات اور گالی گلوچ سے اجتناب کرنا حتی کہ دوسرے کی طرف سے گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے کے جواب میں بھی خود پر قابو رکھنا، یہ کام وہی کر سکتا ہے جس نے رمضان المبارک کی حُرمت و تقدس اور روزہ کے احساس کو شعوری طور پر خود پر طاری کر رکھا ہو۔ سادہ لفظوں میں یو ں سمجھ لیں کہ رمضان المبارک ایک سمندر ہے اور تقویٰ کا موتی اس سمندر کی تہہ میں پڑا ہوا ہے۔ اس موتی کو حاصل کرنے کے لیے سمندر کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے۔ ہم عام طور پر اس سمندر کی سطح پر ہی تیرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ماہ کے روزے رکھنے کے باوجود ہماری شخصیت بالعموم تقویٰ کے زیور سے آراستہ و پیراستہ نہیں ہو پاتی۔

بہر حال یہ حقیقت ہے کہ اگر رمضان المبارک کے ایک مہینہ کے روزے آداب و شرائط کی پابندی کے ساتھ رکھ لیے جائیں اور اس ماہِ مبارک کو قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں گزار لیا جائے تو قرآن مجید کے وعدہ کے مطابق انسان فی الواقع متقی بن سکتا ہے اور اس کی آئندہ زندگی تبدیل ہو سکتی ہے۔

اعتکاف کی اہمیت و افادیت

ماہ رمضان المبارک کی دوسری اہم عبادت اعتکاف ہے جو تعمیرِ شخصیت کے سفر میں بہت زیادہ معاون و مددگار ہے۔ اُمت کی آسانی کے لیے اسے ہر شخص پر فرض تو نہیں کیا گیا مگر یہ حضور ﷺ کی انتہائی پسندیدہ سنت ہے اور اتنی محبوب ہے کہ روزوں کی فرضیت کے بعد آپ ﷺ نے ہر سال اعتکاف کیا۔ صرف ایک سال سفر میں ہونے کی بنا پر نہ کر سکے تو اگلے سال اس کی تلافی کے لیے دس کے بجائے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے سنت مؤکدہ علی الکفایہ کا درجہ دیا گیا ہے کہ ہر بستی میں سے کم از کم ایک شخص کا اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔

اعتکاف کیا ہے؟ اس حقیقت کا پسِ منظر یہ ہے کہ صدیوں سے اولیاء و عرفاء کے ہاں تزکیۂ نفس وتصفیۂ قلب کے شائقین اور راہِ سلوک کے مسافروں کے حوالے سے چار قسم کے مجاہدہ و ریاضت رائج رہے ہیں:

1. قلتِ طعام(کم کھانا)

2. قلتِ کلام (کم بولنا)
3. قلتِ منام (کم سونا)
4. قلتِ اختلاط مع الانام (لوگوں سے کم ملنا)
یہ چاروں چیزیں نفس کی سرکشی کو ختم کرنے، اُسے حدود و قیود کا پابند بنانے اور تہذیب کے دائرہ میں لانے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ان چاروں کی کثرت نفس کی مرغوب غذائیں ہیں۔ یہ جتنا زیادہ اسے ملتی ہیں، اتنا ہی موٹا ہوتا جاتا ہے اور اس کی سرکشی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ان کی قلت سے اس پر قابو پانا اور اس سرکش گھوڑے کو تقویٰ کی لگا دینا آسان ہو جاتا ہے۔ بنظرِ غائر دیکھا جائے تو ان چار میں بھی اصل دو ہی ہیں۔ قلتِ طعام(کم کھانا) سے قلتِ منام(کم سونے) کا مقصد خود بہ خود حاصل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح قلتِ اختلاط مع الانام (لوگوں سے کم ملنا) سے قلتِ کلام (کم بولنے) کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جتنا انسان کم ملے گا، اتنا ہی بولنے کی نوبت بھی کم آئے گی۔ ماہِ رمضان المبارک میں روزہ قلتِ طعام کی طرف لے جاتا ہے جبکہ اعتکاف انسان کو مخلوق سے کاٹ کر گوشہ تنہائی میں خالق کے قرب کی طرف لے جاتا ہے۔

(1) خلوت نشینی کی اہمیت

انسان کی باطنی صلاحیتوں کی نشو ونما کے لیے خلوت نشینی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کی اولین شرط ذہنی یکسوئی ہے اور یکسوئی کے حصول میں خلوت نشینی بہت ضروری ہے۔

لوگوں کے ہجوم میں رہتے ہوئے بالعموم یکسوئی کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ بڑے بڑے آئیڈیاز اور عظیم الشان کارناموں کے منصوبہ جات تنہائی کی پیداوار ہی ہوتے ہیں۔ وقت کے دھارے کو بدل دینے والے اور انقلابات کی بنیاد رکھنے والے لوگ بالعموم وہی ہوتے ہیں جن میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے من کی دُنیا میں جھانکنے اور کائنات کے حقائق پر غور کرنے کا حوصلہ اور جذبہ موجود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلوت نشینی ہر دور کے مشاہیر اور عقل مند لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ رہی ہے۔ نیوٹن، ایڈیسن اور دیگر بہت سارے لوگ جن کے کارناموں کو دیکھ کر ہم حیران ہوتے ہیں، ان کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ بعض اوقات کئی کئی دنوں تک تنہائی میں بیٹھ کر غور و فکر کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ شخصیت کی تعمیر و ترقی اور ذہنی و روحانی صلاحیتوں کی جلا کے لیے کسی نہ کسی درجہ میں خلوت نشینی کا ہونا بھی ضروری ہے۔

قرآن مجید سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے جب کسی کو اپنے خاص فضل و کرم اور انعام و اکرام سے نوازنا ہوتا ہے تو اسے خلوت کی توفیق عطا فرما دیتے ہیں۔ مثلا حضرت موسی ﷺ کو تورات عطا فرمانی تھی تو پہلےچالیس دن کوہِ طور پر بلا کر لوگوں سے الگ تھلگ رہ کر اپنی عبادت کا حکم دیا۔۔۔ حضرت زکریا علیہ السلام کو بیٹے کی نعمت سے نوازنا تھا تو تین دن تک ان کی زبان کو خاموش کرا دیا۔۔۔ حضور ﷺ پرنزول وحی کا باقاعدہ آغاز فرمانا تھا تو غارِ حرا کی خلوتوں کو آپ ﷺ کی نگاہوں میں محبوب بنا دیا۔ اسی طرح ہر دور کے اولیاء و صلحاء کے ہاں بھی خلوت نشینی کا ذوق رہا ہے۔

اعتکاف: روح کی ترقی اور وصال الی اللہ کا نادر موقع

انسان؛ جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔ جسم مادی دنیا کا بنا ہوا ہے۔ لہذا اس کی بقا اور نشوونما کا دارومدار بھی مادی چیزوں پر ہی ہے۔ اس کے برعکس روح عالمِ امر سے آئی ہے، اسے ان مادی سامانوں سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔ اس کی مرغوب غذائیں اللہ کی محبت، معرفت اور اس کا قرب و وصال ہے۔ روح اس عالمِ پردیس میں رہتے ہوئے جب محبوبِ حقیقی سے وصال چاہتی ہے تو جسم کے تقاضے اس کی پرواز کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں۔ ہر دور کی سعید روحوں کو یہ مسئلہ درپیش رہا ہے۔ چنانچہ اُمم سابقہ کے نیک اور سعید لوگوں نے جب دیکھا کہ اللہ تعالی کے قرب و وصال کی راہ میں مادی دُنیا کے تقاضے اور دیگر علائقِ دنیوی حائل ہوتے ہیں تو انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ گھر بار، کاروبار اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑوں کی تنہائیوں میں چلے جائیں اور وہاں رہ کر قربِ الہٰی کی منزلوں کو طے کریں۔ یہاں سے وہ طرزِ زندگی وجود میں آیا جسے قرآن مجید نے رہبانیت کا نام دیا۔ قرآن مجید کے بقول اللہ تعالی نے اس کا حکم انہیں نہیں دیا تھا تاہم چونکہ نیت درست تھی لہذا اسے قبول کر لیا گیا۔ مگر دوسری طرف یہ طرزِ زندگی انسان کی فطرت کے خلاف تھا۔ اللہ تعالی نے انسان کو ایک بھرپور سماجی زندگی گزارنے کے لیے دُنیا میں بھیجا ہے تا کہ وہ یہاں رہ کر اس کی خلافت و نیابت کی ذمہ داری ادا کر سکے اور دُنیا کی سٹیج پر اپنے مخصوص کردار کو ادا کر سکے۔ چنانچہ بہت کم لوگ اس کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ زیادہ تر لوگ فسق و فجور کی طرف چلے گئے۔ یہاں سے جن کہانیوں نے جنم لیا وہ تاریخ کا ایک المناک باب ہیں۔

اسلام دینِ فطرت ہے۔ اس کا کوئی تقاضا اور مطالبہ ایسا نہیں ہے جو عقل اور فطرت کے مسلّمہ اُصولوں کے خلاف ہو چنانچہ حضور ﷺ نے فرمایا:

لا رهبانية في الإسلام.

’’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ ‘‘

حضور ﷺ کے اس فرمان نے اسلام میں رہبانیت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود تھا کہ انسان کی باطنی صلاحیتوں کی نمو کے لیے خلوت نشینی کا جو لازمی کردار ہے اس سے استفادہ کیسے کیا جائے؟ اس مقصد کے لیے سالانہ بنیادوں پر دس دن کا اعتکاف مسنون قرار دیا گیا۔ سب سے پہلے تو اعتکاف کے لیے جو جگہ منتخب کی گئی وہ مسجد ہےجہاں پانچ وقت کی نماز باجماعت ہوتی ہو، لوگوں کا آنا جانا ہو۔ چنانچہ ایک طرف تو مسجد کا مقدس ماحول جہاں ہر وقت اللہ کے ذکر کے انوارات موجود ہوتے ہیں اور دوسری طرف ہر نماز کے موقع پر دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر نماز ادا کرنا، یہ دونوں چیزیں انسان کو مجرد تنہائی کے ان فتنوں سے بچا لیتی ہیں جو کسی غار یا جنگل وغیرہ میں اکیلے بیٹھنے کی صورت میں لاحق ہو سکتے ہیں۔ گویا یہ اعتکاف خلوت میں جلوت اور جلوت میں خلوت کا ایک حسین مرقّع ہے جس میں انسان خلوت کے ثمرات بھی لے رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف لوگوں کے ساتھ بھی کسی نہ کسی درجے میں رابطے میں رہتا ہے۔

علاوہ ازیں اس مقصد کے لیے ماہ رمضان المبارک کو منتخب کیا گیا جس کے ہر ہر دن کا ایک ایک لمحہ اپنے اندر بے شمار فیوض و برکات کو لیے ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ماہِ رمضان المبارک کا بھی آخری عشرہ جس میں خود رمضان المبارک کی برکات بھی نقطہ عروج پر ہوتی ہیں اور جس کے دامن میں شب قدر بھی ہے جو ایک اکیلی رات ہی ہزار مہینوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ یہ سب چیزیں مل کر چند دنوں کے اعتکاف کو وہ رفعتیں عطا کر دیتی ہیں کہ اس مختصر عرصہ کو طریقے اور سلیقے سے گزار لینے کی صورت میں انسان صدیوں کی مسافتیں طے کر سکتا ہے اور ان کمالات کو پا سکتا ہے جن کو پچھلی اُمتیں سالہا سال کی ریاضتوں کے باوجود نہ پا سکیں۔ گویا یہ اعتکاف شخصیت کی تعمیر و ترقی، سیرت و کردار کی اصلاح اور اللہ رب العزت کے قرب و رضا کو پانے کا ایک ایسا زریں موقع ہے جس پر’’ کم خرچ بالا نشیں‘‘ والا محاورہ صادق آتا ہے۔

منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام سالانہ اجتماعی اعتکاف

تحریک منہاج القرآن کے بانی اور قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو اللہ تعالی نے جو ذہن دیا ہے وہ جدت و ندرت کا شاہکار ہے۔ ایک ایسا ذہن جو ہر کام کو بہترین اور منفرد انداز میں کرنا چاہتا ہے تاکہ اس سے بھرپور نتائج کو کشید کیا جا سکے ان کی یہی جُودتِ طبع اعتکاف کے معاملہ میں بھی بروئے کار آئی۔ چنانچہ اعتکاف کے ثمرات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے نیز اعتکاف کے اثرات و برکات میں کئی پہلوؤں سے اضافہ کرنے کے حوالے سے مرکز منہاج القرآن پر سالانہ اجتماعی مسنون اعتکاف کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ جو گزشتہ 31برس سے بڑی خوبصورتی کے ساتھ چل رہا ہے اور جس کے نتائج کھلی آنکھوں سے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ اعتکاف انفرادی عبادات اور ذکر و فکر کے ساتھ ساتھ اجتماعیت کی برکات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ اس اعتکاف میں دنیا بھر سے ہزار ہا بندگانِ خدا تشریف لاتے ہیں جن میں بڑے بڑے علماء، فقہاء اور صالحین بھی شامل ہوتے ہیں۔ ایک طرف تو انفرادی عبادات کے مقابلہ میں اجتماعی عبادات کا درجہ کہیں زیادہ ہوتا ہے جس کی ایک مثال نماز باجماعت ہے۔ نیز حضور ﷺ نے فرمایا:

يد الله على الجماعة.

(سنن نسائی، کتاب تحریم الدم)

’’جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ‘‘

دوسری طرف نیک اور صالح بندوں کی صحبت اس اعتکاف کی عظمت کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ علاوہ عظیم یہ اعتکاف مختلف قسم کی عبادات کا ایک ایسا خوبصورت گلدستہ ہوتا ہے جس میں ہر پھول کی جداگانہ خوشبو اور منفرد رنگ ہوتا ہے۔ کہیں ذکرِ الہٰی کے حلقے ہوتے ہیں تو کہیں درسِ قرآن کا انعقاد ہو رہا ہوتا ہے۔۔۔ ایک طرف فقہی نشستیں منعقد ہوتی ہیں جن میں روز مرہ زندگی کے شرعی مسائل کی گتھیاں سلجھائی جاتی ہیں تو دوسری طرف سیرت و کردار کی اصلاح اور اُس میں علم و حکمت کا نور بھرنے کے لیے لیکچرز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔۔۔ کہیں نعت خوانی کی محافل کے ذریعہ معتکفین کے سینوں میں عشق رسول ﷺ کی شمع فروزاں کی جاتی ہے تو کہیں دروسِ تصوف کے ذریعہ اصلاح احوال کا فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی صحبت اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے علمی، فکری اور روحانی موضوعات پر خطبات و دروس حاضرین و سامعین کی ذہنی و باطنی جلا کا سامان فراہم کرتے ہیں اور ان کے تزکیۂ نفوس و قلوب کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں مل کر ایک ایسا روحانی ماحول اور کیف و سرور کا سماں تخلیق کر دیتی ہیں جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا بلکہ صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ الغرض منہاج القرآن کا سالانہ مسنون اجتماعی اعتکاف شرکاء کو علم و عمل کی اصلاح اور سیرت و کردار کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے اتنا کچھ دے دیتا ہے جس کا عام حالات میں تصور بھی محال ہے۔

عصر حاضر میں تعلیماتِ اسلام سے روگردانی اور اخلاقی اقدار کا زوال و انحطاط پستی کی جن انتہاؤں کو چھو رہا ہے، ان کی طرف دیکھا جائے اور اجتماعی اعتکاف کی وسیع تر مصلحتوں نیز اس سے حاصل ہونے والے فوائد و ثمرات کو دیکھا جائے تو آج کے دور میں انفرادی کی نسبت اجتماعی اعتکاف زیادہ افادیت کا حامل ہے۔ اس اجتماعی اعتکاف کی اہمیت اس وقت اپنے کمال پر نظر آتی ہے جب اس اجتماعی اعتکاف کا اہتمام ایک عظیم علمی، فکری اور روحانی شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی میں ہورہا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان المبارک اور اعتکاف کی برکات سے مستنیر اور مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ