دین اسلام کو ہمہ گیریت، ابدیت اور آفاقی نوعیت حاصل ہے۔ دین اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اس کی تعلیمات کے فروغ میں علم و حکمت کا اہم کردار ہے۔ لوگوں کی ذہنی سطح، حالات کے تقاضوں اور ماحول کی سازگاری کو مدنظر رکھ کر ہی صحیح معنوں میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کی طرف عوام الناس کو مائل کیا جا سکتا ہے۔ آج کے پرفتن دور میں علم کے ساتھ ساتھ حکمت کی بھی اشد ضرورت ہے۔ صرف دعوت دین ہی سے اصل نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ زیر نظر خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اوائل دور 1987ء کا ہے جس میں آپ نے دعوت دین کی حکمتِ عملی پر فکری گفتگو فرمائی جو نذرِ قارئین ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ.
(النحل : 125)
’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے‘‘۔
عصر حاضر میں اسلام کی تبلیغ کس انداز سے ہونی چاہئے اور وہ کیا ضروری خدوخال ہیں جو تبلیغ سے پورے ہو جائیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن سے آگاہی کے بغیر محض دعوت دین ہی سے مطلوبہ نتائج کا حصول ناممکن ہے۔ اس ضمن میں ہمیں دعوت کے عمل کے ساتھ ساتھ حکمت کے دامن کو بھی تھامنا ہوگا۔ دعوت دین اور تبلیغ دین کا پیشۂ حکمت دراصل ہماری زندگی کا مرکز و محور ہے۔
علم اور حکمت میں فرق
اس موقع پر علم اور حکمت میں فرق کو بھی جاننا ہوگا کہ علم فقط کسی امرِ واقع کو جاننے کا نام ہے۔ کسی صورت حال، کسی واقعہ، کسی شے کی موجودگی کو جاننا علم ہے۔ خواہ وہ چیز جسمانی نوعیت کی ہو یا روحانی نوعیت کی یا اس کا تعلق ذہنی نوعیت سے ہو یا ماوراء الطبیعات (غیر مادی) سے، اس کا محض جاننا علم کہلاتا ہے، اس کی ماہیت سے واقف ہونا علم کہلاتا ہے۔ علم کی تعریف یہ ہے کہ ادراک الشئی بحقیقتہ کسی چیز کو اس کی حقیقت کے اعتبار سے جاننا علم کہلاتا ہے۔ جب ہم شریعت میں علم کی بات کرتے ہیں تو علم شریعت میں علم کا مفہوم مقید ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکام اور شریعت کے مسائل کو جاننا علم ہے، یعنی شریعت نے نسل بنی آدم، انسانیت کے لئے جو حقوق و فرائض، واجبات، آزادی اور پابندی کی حدود متعین کی ہیں جن سے انسانی زندگی صحت اور رافتگی کے ساتھ رواں دواں ہو جاتی ہے، ان احکام اور حقوق و فرائض کو جاننا شریعت کا علم ہے، ان کے اصولوں اور ان کے فروع کو جاننا شریعت کے باب میں علم ہے۔
مگر اس حکم کے پس منظر میں موجود علت کو جاننا حکمت ہے۔ یہ معلوم کرنا کہ وہ حکم کن مصلحتوں پر مبنی ہے، اس کو تلاش کرنا حکمت ہے۔ اس حکم کے مختلف افادیتی پہلو کیا ہیں؟ اس کے اندر کیا کیا اثرات نتائج، ثمرات اور فوائد مضمر ہیں۔ اس حکم کی اصل افادیت، اصل غرض و غایت اور اصل مقصود کو جاننے کا نام حکمت ہے۔ علم فقط اس حکم کا اصل ہے۔ اگر محض اسلام کی تعلیمات کو دوسرے تک پہنچا دینا اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے کافی ہو اگر فقط اس Communication کے Process سے ہی دعوت اور تبلیغ کا مقصد حل ہو جائے تو حکمت کا کوئی مفہوم باقی نہیں رہتا۔ اس لئے اسلام نے کتاب کے علم (قرآن مجید) اور کتاب کی حکمت ان دو چیزوں میں فرق کیا ہے۔ ایک شخص کی ضرورت محض حکم کو جاننا ہے مگر دوسرے کی ضرورت اس کے حکم کے ساتھ ساتھ اس کی حکمت کو اور اس کی فلاسفی کو بھی جاننا ہے۔ تاکہ اس پر عمل کرتے ہوئے اس کے قلب کو اطمینان ہو اور وہ اس حکم کے اصل مقصد، غرض و غایت اور اس کی اصل ہئیت کو پا سکے۔ قرآن مجید نے ان دونوں (علم اور حکمت) میں فرق کیا ہے۔ یہ فرق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرائض نبوت کے حوالے سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرائض نبوت
قرآن پاک میں بحیثیت پیغمبر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چار فرائض نبوت کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا :
يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ
(البقرة : 151)
’’جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے‘‘۔
1۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرائضِ پیغمبرانہ میں سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ وہ لوگوں پر اللہ
تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں۔
2۔
ويزکيهم
اور پھر ان لوگوں کے قلب و باطن اور ان کے روحوں کو پاک صاف کرتے ہیں۔
3۔
ويعلمهم الکتب
پھر انہیں اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام یعنی قرآن کا علم عطا
کرتے ہیں۔
4۔
والحکمة
حکمت و دانائی بھی انہیں عطا کرتے ہیں۔
درج بالا آیت کریمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرائض نبوت کا تذکرہ کرتے ہوئے تعلیمِ کتاب اور تعلیمِ حکمت دونوں کو علیحدہ علیحدہ ذکر کیا گیا ہے۔ گویا علم اور حکمت دونوں الگ الگ اہمیت کی حامل چیزیں ہیں۔
قرآن پاک کی دیگر آیات سے بھی علم اور حکمت دونوں کی علیحدہ علیحدہ اہمیت و فضیلت واضح ہوتی ہے۔ ارشاد فرمایا :
قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ.
(الزمر : 9)
’’فرما دیجئے : کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے یہاں علم کی انفرادیت، اہمیت اور فضیلت واضح طور پر بیان کی ہے کہ علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر نہیں ہوتے۔ اسی طرح جب حکمت کا بیان کیا تو اسے علم سے مختلف و منفرد پیرائے میں ظاہر فرمایا۔ ارشاد فرمایا :
وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَيْرًا کَثِيْرًا.
(البقرة 269)
’’اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہو گئی‘‘۔
بے شک علم ایک شخص کو دوسرے شخص سے ممتاز کرتا ہے۔ مگر علم اور حکمت کا فرق یہ ہے کہ حکمت دراصل علم کی غایت اور مقصود کو جاننا ہے، جس کو حکمت عطا کر دی جائے اس کو خیر کثیر عطا ہوجاتا ہے یعنی جس شخص کو علم نصیب ہو تو وہ دوسرے سے افضل ہو جاتا ہے مگر جس کو حکمت نصیب ہو جائے اس کو ساری کی ساری بھلائیاں عطا ہو جاتی ہیں۔ گویا حکمت علمِ بالغ کا نام ہے، علم جب ہر اعتبار سے بالغ ہو جاتا ہے اور حقیقت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر لیتا ہے، انہیں پوری طرح جان لیتا ہے اور اس حقیقت کا پسِ منظر اور وجوہات تک کو جان لیتا ہے۔ علم ہر اعتبار سے جب Mature ہو جاتا ہے تو اس کو حکمت کا نام دیا جاتا ہے۔
فقط علم ہی کافی نہیں
یہ بات قابل توجہ ہے کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے فقط علم ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لئے حکمت کی بھی ضرورت ہے۔ جب تک اسلام کی تبلیغ اور دعوت حکمت پر مبنی رہی تو اس وقت تک اس دعوت و تبلیغ کے صحیح نتائج پیدا ہوتے رہے۔۔۔ اور اس کے مقاصد حاصل ہوتے رہے۔۔۔ علم و حکمت دونوں کو ساتھ رکھنے کی وجہ سے سوسائٹی میں تبدیلی اور انقلاب آتا رہا۔۔۔ لوگوں کے احوال بدلتے رہے۔۔۔ اور اسلام کی تعلیمات کے مقاصد کماحقہ حاصل ہوتے رہے۔۔۔ مگر جب سے حکمت، اہل علم کے پیش نظر نہ رہی اور دعوت و تبلیغ کا مرکز و محور حکمت کی بجائے فقط علم بن گیا تو اس وقت سے تبلیغ اپنی افادیت کھو بیٹھی۔۔۔ تبلیغ کی مقصدیت فوت ہوگئی۔۔۔ تبلیغ کی مؤثریت ختم ہوگئی۔۔۔ اور تبلیغ ایک Act (عمل) بن کر رہ گئی۔۔۔ اور علم کو ایک سے دوسرے تک پہنچانے کو وعظ و تبلیغ کا نام دیا گیا۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ فقط علم حاصل ہو جانے سے احوال نہیں بدلتے، ہمیں بعض روز مرہ کے ایسے اعمال سے بخوبی آشنائی ہے کہ ان کا ارتکاب گناہ ہے مگر اس علم کے باوجود ہم انہیں سرانجام دیتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ جھوٹ بولنا غلط ہے اور گناہ ہے مگر اس کا علم ہونے سے بھی ہمارا عمل نہیں بدلتا۔ اس طرح ہم جانتے ہیں کہ دھوکہ، فریب، جھوٹ، ملاوٹ حرام ہیں مگر اس علم کے ہونے سے بھی عمل نہیں بدلتے۔ اسی طرح جتنے محرمات، منکرات، ناجائز امور اور ممنوعات جن سے شریعت نے ہمیں منع کیا ہے، ان میں سے بیشتر کے ممنوع ہونے کا ہمیں علم ہے خواہ یہ علم ہمیں بذات خود حاصل ہوا ہو یا کسی کے کہنے سے حاصل ہو۔ اس علم کے باوجود یہ اعمال ہم سے سرزد ہوتے رہتے ہیں اور فقط ان کے گناہ ہونے کا علم ہمارے اعمال و احوال کو نہیں بدلتا۔
تعلیم اور تبلیغ میں فرق
فقط علم حاصل ہونے سے نہ ہمارا عمل بدلتا ہے اور نہ ہمارا حال بدلتا ہے۔ پس عمل کو ہر حال میں بدلنا ہی دراصل ہماری دعوت اور تبلیغ کا مقصد ہے۔ محض علم کو حاصل کرنا تعلیم ہے۔ تعلیم کا مادہ علم سے ہے اور تبلیغ، ابلاغ سے ماخوذ ہے۔ تعلیم یہ ہے کہ ایک چیز کا علم آپ نے آگے بیان کر دیا، اس سے تعلیم کا عمل مکمل ہوگیا مگر تبلیغ کا عمل مکمل نہیں ہوتا۔ تبلیغ کے لئے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اقوام کو توحید و رسالت کا پیغام پہنچانے کے بعد ارشاد فرماتے :
وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُO
(يٰسن : 17)
’’اور واضح طور پر پیغام پہنچا دینے کے سوا ہم پر کچھ لازم نہیں ہےo‘‘۔
گویا رب کائنات نے اس ابلاغ کے لئے ابلاغِ مبین کو شرط قرار دیا ہے۔ علم کو دوسرے تک پہنچا دینے سے تو تعلیم کا عمل مکمل ہوگیا مگر تبلیغ کا عمل مکمل نہیں ہوتا، تبلیغ کا عمل تب مکمل ہوگا جب ہم علم کو حکمت کے ساتھ اس طرح آگے پہنچائیں کہ بات مخاطب کے قلب و باطن تک اترجائے، اس کے ذہن کی اتھاہ گہرائیوں میں جا بسے اور اس کے قلب کی گہرائیوں تک سرایت کر جائے۔ اس کو ابلاغ کہا جائے گا اور یہی تبلیغ ہے۔
دعوت کا دائرہ کار
پس دعوت دین کا پہلا اصول حکمت ہے اور اس کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :
اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ.
(النحل : 125)
’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے‘‘۔
آیت کریمہ میں دعوت کے دائرہ کار کو کسی ایک گروہ تک محدود و مقید نہیں کیا گیا جبکہ ہم نے دعوت کو تنگ حصاروں کے اندر مقید کر دیا۔ درج بالا آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ دعوت دو، کس کو دعوت دو اس کا ذکر نہیں کیا۔ پس اس حکم کو مقید نہ کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ دعوت دین اور دین کی تبلیغ پوری عالم انسانیت کے لئے ہے، کسی ایک مخصوص طبقے کے لئے نہیں ہے جبکہ ہم نے دعوتِ دین اور تبلیغ دین کے تصور کو اس پہلے قدم پر ہی غلط کر دیا۔ ہماری دعوت اورہماری تبلیغِ دین مختلف گروہی طبقات میں منقسم ہو کر رہ گئی۔ ہماری دعوت مسلکی، فرقہ وارانہ، طبقاتی اور گروہی حصاروں کے اندر تنگ ہو کر رہ گئی۔
اس دعوت و تبلیغ دین میں دوسری تنگی اس نوعیت کی پیدا ہوگئی ہے کہ ہم نے دعوت و تبلیغ کے دوران اُن موضوعات کو منتخب کر لیا جو ہمارے نظریے، فکر اور ہماری طبیعت کے موافق ہیں۔ جبکہ بے شمار طبقات ایسے ہیں جو زندگی کے دوسرے معاملات کے حوالے سے دین کی رہنمائی کے طالب ہیں۔۔۔ جن کے ذہنوں میں ہیجان ہے۔۔۔ جن کے دلوں میں جاننے کی تڑپ ہے۔۔۔ اور جو مختلف اطوار سے دین کو سمجھنا، پرکھنا اور جاننا چاہتے ہیں مگر ہمارے دعوتی و تبلیغی موضوعات کا انتخاب اُن کی ضرورت کو پورا نہیں کرتا، جس بناء پر تبلیغ کا عمل کماحقہ اپنے اثرات ظاہر کرنے سے محروم رہتا ہے۔
دعوت و تبلیغ کے سلسلہ میں ہم اس رویہ کا بھی شکار ہیں کہ ہم دعوت و تبلیغ کو اپنے خاص ذوق کے حامل افراد تک ہی محدود رکھتے ہیں اور ہم نے اپنے نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والے طبقوں کو بھی اپنے دائرہ تبلیغ سے فارغ کر دیا، نہ ہم ان کو اپنے قریب آنے دیتے ہیں اور نہ ہم ان کے خود قریب جاتے ہیں، اتنی دیواریں اور فصیلیں ہم نے حائل کر لیں کہ مسلمان طبقہ کا آپس میں تعلق ہی نہیں رہا، ہم نے کبھی ذہنی سطح کے اعتبار سے۔۔۔ کبھی عقائد کے اعتبار سے۔۔۔ اور کبھی فقہ کے اعتبار سے اتنے گروپ بنا دیئے کہ ایک کا دوسرے کے ساتھ کوئی رابطہ ہی نہیں رہا اور نتیجتاً اسلام کی تبلیغ اور دعوت کا کام بنیادی طور پر متاثر ہوگیا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت دین کے کام کو جب شروع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر کسی استثناء کے عالم انسانیت کو اپنی دعوت کا مخاطب بنایا اور ہر طبقہ انسان اور مختلف ذہنی سطح رکھنے والوں کے سامنے دین پیش کیا، خواہ کوئی شخص ادنیٰ ذہنی سطح رکھتا ہو یا اوسط ذہنی سطح رکھتا ہو یا اونچی ذہنی سطح رکھتا ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ اسلام کے لئے حکمت کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی ذہنی سطح کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے دین اسلام کی تبلیغ کی جس سے دین اسلام اُن کے قلب و باطن میں سرایت کرتا چلا گیا۔ پس جو لوگ صرف نصیحت سے ہی بات سمجھنے کے قائل تھے ان کا کام بھی ہو جاتا اور جو لوگ تفصیل سے بات کو سمجھنا چاہتے، تنقید و موازنہ اور تجزیہ کے بعد بات سمجھنا چاہتے تو ان کا بھی کام ہو جاتا۔ گویا معلوم ہوا کہ حکمت اور مصلحت کو مدنظر رکھ کر بات کرنے سے بات مخاطب کے دل و دماغ میں اترتی ہے۔
دعوتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مخاطبین کی نفسیات
مختلف قسم کے لوگوں کے مختلف تقاضے ہیں اور دعوتِ دین کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ جو بھی آپ کا مخاطب ہے اس کی نفسیات، اس کی ذہنی سطح، اس کی طبیعت، اس کے رجحان اور اس کے ذوق کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس کی خرابی کی نہج کو سامنے رکھنا ہوگا کہ اس کی خرابی کیا ہے۔۔۔ اس کے تقاضے کیا ہیں۔۔۔ اور اس کے سامنے دعوت کا کون سا گوشہ بیان کیا جائے کہ اسے دین کی تعلیم صحیح معنوں میں حاصل ہو۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے یہ بات عیاں ہے کہ آپ کی دعوت، مخاطبین کی ذہنی سطح، رجحانات اور تقاضوں کے مطابق ہوتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص سوال کرتا ہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب اور مقبول عمل کیا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا سوال سن کر جواب دیا ’’نماز اپنے وقت پر ادا کرنا‘‘، اللہ کی بارگاہ میں محبوب ترین عمل ہے۔۔۔
(بخاری، الصحيح، کتاب مواقيت و الصلوة، باب فضل الصلوة لوقتها، 1 / 197، الرقم : 504)
دوسرے شخص نے بھی یہی سوال کیا کہ اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے؟ اس پر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا سب سے زیادہ افضل عمل ہے۔۔۔
(مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، 1 / 90، رقم : 85)
یہی سوال ایک اور موقع پر کسی شخص نے کیا اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا کہ ماں کی خدمت کرنا اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مقبول عمل ہے۔۔۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کیا جانے والا سوال تو ایک ہے مگر جواب مختلف قسم کے ہیں۔ اس عمل کا نام ہی حکمت ہے۔ اگر جواب دینے والا فقط صاحب علم ہو تو اس کا جواب علمی و تحقیقی نوعیت کا ہوگا۔ مگر یہاں سوال صاحبِ علم ہی سے نہیں کیا جا رہا بلکہ صاحب حکمت کی بارگاہ میں دست سوال دراز ہے۔ علم والا زیادہ سوال کرتا ہے اور حکمت والا مخاطب کی ذہنی سطح تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے سوال کی نوعیت اور سائل کی نفسیات کو بھانپ لیا اور پیغمبرانہ فراست سے جان لیا کہ سوال کرنے والے کے اندر کمزوری یہ ہے کہ یہ نماز اپنے وقت پر ادانہیں کرتا پس اس کو باور کرایا کہ اللہ کی بارگاہ میں سب سے محبوب عمل نماز وقت پر ادا کرنا ہے۔ پس سوال کرنے والے کو وہی جواب دیا جو اس کے تقاضوں کو پورے کرتا ہو۔۔۔ یہی سوال جب دوسرے نے پوچھا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے احوال اور اس کی نفسیات کا جائزہ لیا اور محسوس کیا کہ اسے زندگی سے بڑی محبت ہے، بزدل ہے، جان قربان کرنے اور میدان کار زار میں لڑنے سے گریز کرتا ہے، گھبراتا ہے، سو اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، جان دینا افضل و محبوب عمل ہے۔۔۔ تیسرے کی نفسیات کا جائزہ لیا اور جان لیا کہ وہ ماں کی خدمت نہیں کرتا سو اسے فرمایا ماں کی خدمت و ادب کرنا افضل و محبوب عمل ہے۔
ان میں سے ہر عمل بلا شک و شبہ اللہ کے ہاں محبوب ترین عمل ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائلین کے سوالات کو اس زاویہ سے لیا کہ سوال کرنے والوں کی نفسیات کیا ہے؟ دین کے حوالے سے اس کی ضروریات اور تقاضے کیا ہیں۔ پس اسی کے مطابق انہیں جوابات دیئے۔
اسی طرح ذہنی سطح کے مطابق وقت کو پہچان کر طاقت صرف کرنا ہوگا، بے وقت بات کرنا بڑی بڑی قیمتی بات کی وقعت کو ضائع کردیتا ہے اور جب وقت Mature ہو چکا ہو وہی بات معمولی سے طریقے سے بیان کر دینا نتائج اور انقلاب پیدا کر دیتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے ہمیں اس پہلو کے حوالے سے بھی رہنمائی ملتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
عن انس کان غلام يهودی يخدم النبی صلی الله عليه وآله وسلم فمرض فاتاه النبی صلی الله عليه وآله وسلم يعوده فقعد عند راسه فقال له اسلم فنظر الی ابيه وهو عند فقال اطع ابا القاسم فاسلم فخرج النبی صلی الله عليه وآله وسلم وهو يقول الحمد الله الذی انقذه من النار.
(صحيح بخاری ج 1 ص 181)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی کا لڑکا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ بیمار ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے بیٹھ کر فرمایا اسلام قبول کرلو۔ اس نے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا باپ نے کہا ابوالقاسم کا کہنا مان لو۔ سو وہ لڑکا مسلمان ہوگیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کہتے ہوئے نکلے : اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اس کو دوزخ سے نجات دی‘‘۔
باوجود اس کے کہ وہ یہودی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت، رحمت اور محبت کا یہ عالم ہے کہ اس کو اپنے پاس آنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ محبت اور خدمت کا موقع دیتے رہے، جب یہ بچہ بیمار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بچہ کی عیادت اور شفقت فرمانے کے بعد اس کی صحت یابی کی دعا فرمائی پھر اسے اسلام قبول کرنے کو فرمایا حتی کہ بچے کا والد جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کھلم کھلا دشمن تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیتا، سازش کرتا اور کھلم کھلا مخالفت کرتا تھا تو اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمل سے اس دشمن کا دل بھی گھائل ہوگیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بچے سے اسلام قبول کرنے کے لئے فرمایا تو اس کے والد نے بھی اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کا کہا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور شفقت نے گوارہ نہ کیا کہ چاہے یہودی ہی سہی مگر میرا خدمت گار ہوکر جہنم جائے یہ ہو نہیں سکتا۔ جب شفقت و محبت کی وجہ سے اس کا دل گھائل ہو کر موم کی طرح نرم ہوگیا تو اسے کلمہ پڑھایا اور دوزخ سے آزاد کرا دیا۔
ہم جو دین کی تبلیغ کا دعویٰ کرتے ہیں ہماری حالت یہ ہے کہ اگر دوسرے مسلک و مکتب فکر کے لوگ ہماری مسجد میں آ جائیں تو ہم انہیں مسجد سے بھگا دیتے ہیں۔ اللہ کے گھر میں کلمہ گو (مسلمانوں) کو گوارہ نہ کرنا اللہ کے دین پر بہت بڑا ظلم ہے۔ عقیدے میں معمولی سا اختلاف ہے، فروعی اور فقہی مسائل میں مسلکی اعتبار سے اختلاف ہے، مگر اس کی بنیاد پر ہم اس کو دائرہ اسلام سے خارج کئے بغیر سانس نہیں لیتے اور مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں، اس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں، اس طرز عمل کے باوجود ہم دین کا نام لیتے اور اسلام کی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں۔ یہ کردار سراسر دین اسلام کے خلاف ہے بلکہ دین کے خلاف عملی بغاوت ہے اگر ہم دین کی راہ پر ہیں تو ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو اپنانا ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کو اختیار کرنا ہوگا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوۂ یہ ہے کہ مجلس میں یہودی کا بیٹا آتا ہے تو اس کی بھی دلجوئی کی اس کو یہ نہیں فرمایا کہ فوراً مسلمان ہو جا یا مجلس سے چلا جا، اس کو آنے دیتے ہیں۔
تبلیغ دین کی حکمت کا دوسرا گوشہ یہ ہے کہ Proper Time یعنی مناسب وقت اشد ضروری ہے جو شخص اپنے کام میں مصروف ہو اس کی توجہ، ذہن اور طبیعت اپنے کام پر مرکوز ہو تو اس وقت اس کو دین اسلام کی تبلیغ کرنا فائدہ مند نہ ہوگا۔ پس مخاطب کی فراغت، توجہ، ذہن اور طبیعت کے رجحان کو بالخصوص مدنظر رکھ کر اسلام کی تبلیغ کرنا موثر ثابت ہوگی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکمت کے ان تمام امور کو مدنظر رکھ کر دین اسلام کی تبلیغ کرتے۔
مخالف کے ساتھ بھی حسن خلق اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا، شفقت و محبت سے پیش آنا، کردار کی تپش کے ساتھ اس کے دل کو نرم کرنا اور پھر اس کے بعد اسلام کی دعوت اس کے سامنے رکھنا یہ حکمت تبلیغ اسلام کا دوسرا پہلو ہے۔
اندازِ دعوتِ دین
دعوتِ دین کے تیسرے پہلو کا تعلق اس امر سے ہے کہ دعوت کس انداز سے دی جائے، اگر ایک ماڈرن شخص پینٹ ٹائی پہن کر مسجد میں آجائے اور اس کو برا بھلا کہا جائے کہ مسجد میں ایسا لباس پہن کر آنا ناجائز ہے تو اس انداز سے اس پر تنقید کرنے سے وہ شخص مسجد سے ہمیشہ کے لئے دور رہے گا حالانکہ یہ ٹائی اور پینٹ شرعاً ناجائز نہیں۔ شریعت کا باقاعدہ ایک ضابطہ ہے وہ لباس جو بدن کو ننگا نہیں کرتا وہ اسلامی لباس ہے، مباح ہے، بشرطیکہ اتنا تنگ نہ ہو کہ جس سے جسم ننگا ظاہر ہو اور خلاف عظمت بات نہ ہو۔ پس اگر کوئی شخص ایسے لباس میں بھی مسجد میں آجائے جس سے بے پردگی ہورہی ہو تو بجائے جھڑکنے کے اس کو اپنے پاس بٹھائیں اور شفقت فرمائیں، اس کی تذلیل نہ کی جائے بلکہ شفقت و محبت کے ساتھ اس کے ذہن کی سوچوں اور طبیعتوں کے میلان کو تبدیل کیا جائے تو اس سے بہتر اور دور رس نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ آپ تو پہلے ہی اس کو متنفر کر کے مسجد سے بھگا رہے ہیں وہ دین کے قریب کس طرح ہوگا۔ ایسے موقع پر دعوتِ دین کی حکمت کا پہلو اور تقاضا کیا ہونا چاہئے۔ آیئے اسے حدیث مبارکہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
ایک اعرابی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آیا، نماز پڑھی، پیشاب کی سخت حاجت کی بناء پر اس نے مسجد کے صحن میں پیشاب کردیا، اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دوڑے کہ اس کو سمجھائیں کہ خدا کے بندے تم نے مسجد کو پلید کر دیا اور اس کا تقدس پامال کر دیا اور بے ادبی کی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روک لیا کہ تمہیں تنگی کی بجائے آسانی پیدا کرنے کے لئے بھیجا گیا اگر اس سے نادانی ہوگئی تو اس کو شرمسار کرنے کی بجائے اس کے سامنے اس پر پانی بہا کر صاف کردیں تب اس کو سمجھ آجائے گی کہ میرا یہ قصور ہے، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ پس پانی بہا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو صاف کرایا اور اس کو شرمسار نہیں کیا بلکہ اس کو احساس دلایا کہ عملاً یہ چیز نامناسب تھی۔
(بخاری، الصحيح، 1 : 89)
اسی طرح ایک قریشی نوجوان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آیا، عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات سننے اور حکم ماننے کو تیار ہوں مگر ایک بات کی اجازت دے دیں میں اس کام کو نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جوان سے پوچھا تم کس چیز کی اجازت چاہتے ہو؟ اس نے جواب دیا : (معاذ اللہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بدکاری نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ اگر اس جگہ کوئی خشک مبلغ ہوتا یا اکیسویں صدی کا کوئی نام نہاد عالم ہوتا جو دین کی تبلیغ کے اصولوں سے عاری ہو تو اس پر وہ ناراض ہو جاتا، غم و غصہ کرتا کہ تمہیں شرم نہیں آتی اور اس کو بھگا دیتا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو شرمسار نہیں کیا اور اس سے سختی نہیں کی، اس کو ناراض نہیں کیا بلکہ اس کی بات بڑے حوصلے اور اطمینان سے سن کر فرمایا : آپ میرے قریب آئیں، اس کو اتنا قریب کیا کہ حدیث میں آتا ہے کہ اس کے گھٹنے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھٹنے آپس میں مل گئے یعنی قربت و شفقت اور محبت کا پہلو اس کے ساتھ استوار کیا۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا تو یہ ارادہ کس کے ساتھ کرتا ہے کیا تیرا ماں کے ساتھ ایسا ارادہ ہے؟۔۔۔ اس نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا کوئی ایسا برا ارادہ اپنی ماں کے ساتھ کر سکتا ہے۔۔۔ فرمایا تم نے سچ کہا، کیا تمہارا بہن کے ساتھ ایسا ارادہ ہے؟۔۔۔ اس نے عرض کیا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کوئی ایسا ارادہ بہن کے ساتھ کر سکتا ہے۔۔۔ فرمایا : تم نے سچ کہا، پھر فرمایا : کیا ایسا ارادہ بیٹی کے ساتھ ہے؟۔۔۔ اس نے عرض کی کیا ایسا بد ارادہ اپنی بیٹی کے ساتھ کوئی کر سکتا ہے؟۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے سچ کہا۔۔۔ الغرض حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جتنے بھی رشتے تھے سارے اس کو گنوا دیئے اور حکیمانہ انداز سے اس کو یہ بات سمجھادی کہ تو جس سے بھی ایسا ارادہ کرے گا وہ تیرے مسلمان کی بہن، بیٹی اور ماں ہوگی پس تیرے بھائی کی ماں و بیٹی اور تیری ماں و بیٹی میں کیا فرق ہے۔ جب بالواسطہ حکیمانہ انداز سے اس کو یہی بات ذہن نشین فرما دی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بتاتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات سمجھانے کے بعد اس کو مزید اپنے قریب کر لیا۔ اور اپنا دست شفقت اسکے سر پر رکھا پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ باری تعالیٰ اس نوجوان کے سابقہ سارے گناہ بخش دے، اس کے دل سے سارے برے ارادے ختم فرما دے۔ پھر تیسری دعا کی کہ باری تعالیٰ اس کے اعضاء کی قوت سلب کر دے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے ہیں پھر مرتے دم تک اس کی نگاہ میں فتور نہیں آیا۔ (مسند احمد بن حنبل، 5 : 256)
یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا اثر تھا، یہ حکمت و دعوت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھی کہ جس نے اس نوجوان کے دل کی کایا پلٹ دی۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان تمام چیزوں کو نظر انداز کرتے یا سختی سے اس کے ساتھ بات کی جاتی تو دعوت کے اثرات کے نتائج اس کے بر عکس ہوتے۔ یہ تین عمومی پہلو ہیں جنہیں دعوت و تبلیغ کے عمل میں اپنانا ضروری ہے۔ ان تمام حکمتوں کو پیش نظر رکھ کر دعوت و تبلیغ کرنا ہی دعوت کو موثر بناتا ہے اور اس کے نتائج سے اصلاح احوال کا عمل روز افزوں بڑھتا چلا جاتا ہے۔