حمد باری تعالیٰ جل جلالہ
دوسرا کون ہے، جہاں تو ہے
کون جانے تجھے، کہاں تو ہے
لاکھ پردوں میں، تو ہے بے پردہ
سو نشانوں میں بے نشان تو ہے
تو ہے خلوت میں، تو ہے جلوت میں
کہیں پنہاں، کہیں عیاں تو ہے
نہیں تیرے سوا یہاں کوئی
میزباں تو ہے، مہماں تو ہے
نہ مکاں میں نہ لامکاں میں کچھ
جلوہ فرما یہاں وہاں تو ہے
رنگ تیرا چمن میں، بو تیری
خوب دیکھا تو، باغباں تو ہے
محرم راز تو بہت ہیں امیر
جس کو کہتے ہیں رازداں، تو ہے
(امیر مینائی)
مرا نام ہے ندامت
دنیا کی آرزو ہے نہ نمود کی طلب ہے
مرا نام ہے ندامت شرمندگی نسب ہے
مجھے خواہشوں نے گھیرا مجھے لذتوں نے مارا
میرا طربیہ عجب ہے میرا المیہ عجب ہے
مرا خوف گنہگاری، مرا چَین آہ و زاری
مری جستجو مدینہ، مری آرزو ادب ہے
مرا غم تری رضا ہے یہی غم مری خوشی ہے
اسی غم سے دن ہے روشن تابندہ مری شب ہے
جاں سے گزر کے ہو گی تری دید تک رسائی
یوں بے قرار جینا بھی قرار کا سبب ہے
کچھ اہل دید ہیں جو دیدار کر رہے ہیں
ہم انتظار میں ہیں، دیدار کی طلب ہے
ہوں حشر کا مسافر اور زادِ رہ نہیں ہے
نگہ کرم ہو آقا یہ غلام جاں بلب ہے
درِ مصطفیٰ پہ جا کر میں نے عزیز دیکھا
محو ثنا دوعالم، محو درود رب ہے
(سکواڈرن لیڈر (ر) عبدالعزیز )