تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام
قومی امن کانفرنس
مشترکہ اعلامیہ اور قومی امن کونسل کی تشکیل
اغیار کی سازشوں اور اپنوں کی ناعاقبت اندیشیوں کے سبب ملک پاکستان اس وقت جن نامساعد حالات کا شکار ہے اس پر ہر محب وطن کی آنکھ اشکبار ہے۔ ابھی ایک واقعہ کی لاشوں کو دفنانے کے بعد ان کی قبروں کی مٹی خشک نہیں ہوئی ہوتی اور ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے ماتمی الفاظ کی بازگشت ابھی سنائی دے رہی ہوتی ہے کہ دوسرا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں حکمران طبقہ صوبائی سیاست کرنے اور مرنے والوں کے لواحقین کے لئے امدادی اعلان کرنے کے علاوہ کچھ نہ کرنے سے قاصر ہے۔ حکمت، بصیرت، دور اندیشی، خود داری اس طبقہ سے کب کی رخصت ہو چکی ہے، عوام الناس کے نمائندہ ادارے اور منتخب لوگ اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے قومی مفاد کو بالائے طاق رکھے ہوئے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں کی طرح عقل کل ہونے کے زعم میں مبتلا یہ مقتدر لوگ بین الاقوامی سطح پر اپنے کیس کو صحیح طور پر پیش کرنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہیں۔ اندرونی و بیرونی محاذوں پر بیک وقت حملوں سے یہ کبھی ایک کے دباؤ میں آکر ان کی شرائط کو تسلیم کرتے اور قومی مفاد کا سودا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کبھی دوسرے کے دباؤ میں آکر ملکی تحفظ کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان حالات میں ضرورت ایک ایسی قیادت کی ہے جو اپنی فطرت کے اندر حکمت، بصیرت، خود داری اور دور اندیشی سموئے ہوئے ہو۔
موجودہ حالات کی سنگینی اور نزاکت کے پیش نظر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے احکامات و ہدایات کی روشنی میں قومی سطح پر ایک کانفرنس کا انعقاد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کانفرنس کا مقصد تمام دینی و سیاسی جماعتوں کو کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا تھا تاکہ حکومت کی راہنمائی کے لئے کوئی ایسا متفقہ لائحہ عمل پیش کیا جاسکے جس کے ذریعے ان دگر گوں حالات سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن ہو اور ملک پاکستان کے قیام کا مقصد حاصل ہوسکے۔ نیز ایک فلاحی ریاست کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو سکے۔
پس قوم و ملت پر لگے ہوئے اس زخم پر مرہم رکھنے اور دہشت گردی و انتہا پسندی کے اس ناسور سے قوم کو نجات دینے کے لئے تحریک منہاج القرآن نے اپنی روایات کے مطابق اس حوالے سے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ قومی مسئلہ ہو یا بین الاقوامی مسئلہ، دنیا کے جس بھی کونے میں حقوق انسانی کو پامال کیا جائے گا، تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک اپنی روایات اور اپنے طریق کے مطابق اس پر آوا ز حق بلند کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی میں امن عالم کے قیام کے لئے ہر ممکن کردار ادا کرتی رہیں گی۔
اس حوالے سے موجودہ حالات و واقعات کے تناظر میں قومی سطح پر ایک متفقہ لائحہ عمل دینے کے لئے گذشتہ ماہ تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے زیراہتمام قومی امن کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستان کی سیاسی، مذہبی جماعتوں، فلاحی تنظیموں، وکلاء، علماء، اساتذہ، طلبہ، صحافی، تاجر اور مختلف طبقہ ہائے زندگی کی نمائندہ تنظیموں کے 150 نمائندگان شریک ہوئے۔ کانفرنس کے سیکرٹری کے فرائض تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی اور نائب ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہد فیاض نے سرانجام دیے۔
مہمانانِ گرامی
کانفرنس میں محترم غلام مصطفیٰ کھر (سابق گورنر پنجاب)، محترم غلام احمد بلور (وفاقی وزیر ریلوے)، محترم لیاقت بلوچ (مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی)، محترم احسان وائیں (سیکرٹری جنرل ANP)، محترم پیر ناظم شاہ (مرکزی راہنما PPP)، محترم مسکین فیض الرحمٰن درانی (صدر PAT)، محترم انوار اختر ایڈووکیٹ (سیکرٹری جنرل پاکستان عوامی تحریک)، محترم اعجاز احمد چودھری (نائب صدر تحریک انصاف)، محترم ابتسام الٰہی ظہیر (صدر جمعیت اہلحدیث)، محترم حمید الدین المشرقی (قائد خاکسار تحریک)، محترم سردار رؤف کشمیر (چیئرمین جموں و کشمیر لیبریشن فرنٹ)، محترم حافظ عاکف سعید (امیر تنظیم اسلامی)، محترم ڈاکٹر مجید ایبل، محترم ملک حاکمین (رہنما PPP)، محترم فردوس بٹ (سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار)، محترم سہیل محمود بٹ (چیئرمین انجمن تاجران مال روڈ)، محترم پروفیسر محمد اکرم چشتی، محترم پروفیسر محمد اعوان (صدر انجمن اساتذہ)، محترم خالد پرویز (صدر انجمن تاجران اردو بازار)، محترم راشد گردیزی (ATI)، محترم سید راحیل شاہ (مرکزی صدر PSF)، محترم شبیر سیال (راہنما تحریک انصاف)، محترم ڈاکٹر منوہر چاند (کرشنا مندر)، محترم پادری چمن، سید دانش (مرکزی سیکرٹری جنرل ISO)، محترم سید طفیل (صدر جموں و کشمیر لیبریشن فرنٹ)، محترم سردار کلیان سنگھ کلیان و سردار رنجیت سنگھ (گردوارہ ڈیرہ)، محترم سید نوبہار شاہ (چیئرمین شیعہ پولیٹیکل پارٹی)، محترمہ سمیعہ راحیل قاضی (سابق MNA)، محترم ایڈمرل (ر) جاوید اقبال (مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری جنرل تحریک انصاف)، محترم بریگیڈیئر اقبال احمد خان، محترم شاداب رضا قادری (راہنما سنی تحریک)، محترم ادیب جاودانی (چیئرمین آل پاکستان پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن)، محترم بابر بٹ (صدر قومی تاجر اتحاد پنجاب)، محترم خالد ملک (نائب صدر امن کمیٹی)، محترم محمد بابر (سیکرٹری جنرل متحدہ طلبہ محاذ)، محترم خواجہ جنید (سابق اولمپین)، محترم طیب ثاقب (پاکستان فارنرز ایسوسی ایشن)، محترم آغا مرتضیٰ پویا، محترم علی غضنفر کراروی، محترم ذوالفقار علی (PSO)، محترم فاروق آزاد خان (صدر پیپلز مسلم لیگ لاہور)، محترمہ ماریہ کوکب (عورت فاؤنڈیشن)، محترمہ ریحانہ کوثر، محترمہ صائمہ فیاض، محترمہ طاہرہ بتول، محترمہ عظمیٰ بخاری، محترمہ فائزہ ملک، محترمہ ہما عزیز، محترمہ مس عظمیٰ سعید ایڈووکیٹ اور دیگر احباب نے خصوصی شرکت کی۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معزز مہمانان گرامی نے تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام اس کانفرنس کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اسے مثبت سمت ایک درست قدم قرار دیا۔ جملہ مقررین نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ خودکش حملے کرنے والے کسی طور اسلام سے مخلص نہیں ہیں اور نہ ہی ان عناصر کا تعلق اسلام سے ہے۔ اسلام تو ایک انسان کی جان کی تحفظ کی ضمانت بھی عطا کرتا ہے جبکہ اپنے عمل سے درجنوں افراد کو موت کی وادی میں دھکیل دینے والا کس طرح مسلمان ہوسکتا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ایک سازش کے ذریعے اسلام سے جوڑا جارہا ہے اور اسلام میں موجود مختلف مسالک و مکاتب فکر کی آڑ لیتے ہوئے عالمی طاقتیں ملک پاکستان کے حالات کو بگاڑنے اور یہاں ہر شعبہ میں عدم استحکام پیدا کرنے کی شعوری کوششوں میں مصروف ہیں۔
بعد ازاں اس قومی امن کانفرنس سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ٹیلی فونک خطاب کیا جس کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ٹیلی فونک خطاب
تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام ہونے والی ’’قومی امن کانفرنس‘‘ سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلام دین محبت و امن ہے۔ اسے یہاں دلائل سے ثابت کرنے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں کہ ہمارے دینی مصادر اور ہماری چودہ سو سالہ تاریخ خود اس حقیقت پر سب سے بڑی شہادت ہے۔ قرآن نے ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک جان کی حفاظت کو پوری انسانیت کو زندہ رکھنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ہمارے پیغمبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ اس کے ہاتھ اور اس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ گویا ناحق جان تلف کرنا تو کجا بلا وجہ بد کلامی کا مرتکب ہونے والا بھی حقیقی مسلمان نہیں کہلا سکتا۔ آج پوری دنیا میں امن کی باتیں ہو رہی ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ دہشت گرد نہ صرف امن کے دشمن ہیں بلکہ پوری انسانیت کے دشمن ہیں۔ ان کے خلاف امن پسند قوتوں کو جدوجہد کرنا چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ اس دہشت گردی کو ہوا کس نے دی۔۔۔؟ یہ محاذ کس نے کھولا۔۔۔؟ آج سے دس سال قبل تک تو یہ صورتحال ہمارے ہاں نہیں تھی۔۔۔ پھر یہ دہشت گردوں کے لشکر اچانک کہاں سے نمودار ہونے لگے۔۔۔؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما عالمی قوتوں نے خود ہی یہ بت گھڑ لیا ہے اور اب قیام امن کے نام پر پوری دنیا کو تہذیبی تصادم میں جھونکا جا رہا ہے۔ اس لئے امن قائم کرنے کے لئے دہشت گردی کی مذمت ہی کافی نہیں بلکہ سب سے پہلے امن کے حقیقی دشمنوں کی شناخت بھی لازمی ہے۔
اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات فاٹا، وزیرستان اور سوات پر امن، سادہ اور دیندار مسلمانوں کے علاقے ہیں۔ معاشی حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں بنیادی ضرورت کی چیزیں بھی میسر نہیں، اکثریت تنگ دست اور محنت کش لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ اچانک دو تین سالوں میں یہاں کیا انقلاب آگیا ہے کہ ان لوگوں کے اندر ملک دشمنی کے جراثیم پیدا ہوگئے اور وہ سب لوگ پاکستانی فوج اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف صف آراء ہو چکے ہیں اور انہیں اندھا دھند قتل کر رہے ہیں۔ ان کے پاس اس بے سروسامانی کے ماحول میں اس قدر جدید جنگی سہولتیں، مہلک ہتھیار اور عسکری مہارت کہاں سے آگئی؟ کون ان دہشت گردوں کو ٹریننگ، اسلحہ اور وافر سرمایہ فراہم کر رہا ہے ؟ اب جبکہ یہ بات بے شمار حقائق کی بنا پر کھل کر کہی جارہی ہے کہ اس دہشت گردی کو بیرونی طاقتیں سپورٹ کر رہی ہیں اگر واقعتًا ایسا ہی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سابقہ اور موجودہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں کیا کرتی رہی ہیں؟ انہوں نے اس ناسور کو کیوں بڑھنے کا موقع دیا؟
ڈرون حملوں کے ذریعے زیادہ تر بے گناہ لوگوں کو مارا جارہا ہے۔ یہ حملے ایک آزاد اور خود مختار ملک کی بقا اور سلامتی پر حملے ہیں۔ حکومت نے اس سنگین سرحدی خلاف ورزی کی اجازت کیوں دی اور کس فورم پر دی؟ ہماری سیکورٹی فورسز بھی ان علاقوں میں آپریشن میں مصروف ہیں، ان دو طرفہ حملوں سے مقامی آبادی کے بے بس لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں اور بقیہ زندہ بچ جانے والے در بہ در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ آخر یہ کونسا امن قائم ہو رہا ہے ؟ یہاں ایک بڑا سوالیہ نشان یہ بھی ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ پاکستان کے بے شمار شہریوں کو محض شک کی بناء پر اٹھا لیا جاتا ہے مگر افغانستان سمیت ان سرحدی علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ان لوگوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے جو کھلے عام عسکری کارروائیاں کرتے ہیں۔ ان کے نیم خواندہ کمانڈر میڈیا کو بریفنگ بھی دیتے ہیں، دشمن کے اہداف کو نشانہ بنانے کے منصوبوں کا انکشاف بھی کرتے ہیں اور سیٹلائٹ کے اس دور میں وہ پکڑے بھی نہیں جاتے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جو معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے شخص کو بھی کھٹکتے ہیں۔ ان سب سوالوں سے بڑھ کر تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جتنی طویل ہو رہی ہے دہشت گردی ختم ہونے کی بجائے تیزی سے پھیل رہی ہے۔ پہلے یہ جنگ افغانستان سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں آئی وہاں خانہ جنگی کے بعد اب اس کا رخ کوئٹہ، اسلام آباد، لاہور، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور اور آرمی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہماری مساجد، امام بارگاہیں، مقدس مقامات، اولیاء کرام کے مزارات، تعلیمی ادارے اور ہسپتال بھی محفوظ نہیں رہے۔
یقیناً یہ وقت ہمارے لئے بڑا نازک اور افسوسناک ہے مگر محض افسوس کرنے یا ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے سے ہم اس حملے سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ ہماری سلامتی پر یہ حملے بیرونی طاقتوں کی طرف سے ہوں یا اندرونی شرپسندوں کی طرف سے، ہمیں اس وقت سنجیدہ قومی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں اس وقت بنیادی ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے۔ اس نے ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ نے متفقہ قرار داد بھی منظور کر رکھی ہے، ہماری سیاسی، مذہبی اور فوجی قیادت کو بہت چوکنا رہنے اور فیصلہ کن عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ہمیں از سر نو خارجہ پالیسی واضح کرنی چاہئے جس میں دوست اور دشمن کی واضح نشاندہی ہونی چاہئے۔
ہمیں بھارت، افغانستان اور خصوصاً امریکہ کے ساتھ قومی نفع و نقصان کی روشنی میں تعلقات پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔
ہماری بقاء اور سلامتی کا تحفظ باہر سے آ کر کوئی بھی نہیں کرے گا حتی کہ کوئی اسلامی ملک بھی کام نہیں آئے گا اس لئے اپنی فکر خود ہی کرنی پڑے گی اور قومی یکجہتی کو فروغ دینا ہوگا۔
ہمیں سفارتی ذرائع کو بھرپور استعمال میں لاتے ہوئے قیام امن کی کاوشیں تیز کرنا ہوں گی۔
علماء پر سب سے زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر دین کی حقیقی تعلیمات کو صحیح طور پر اجاگر کریں تاکہ عوام الناس دین و ملت کے عالمی دشمنوں کے آلہ کار بن کر نہ تو اسلام کو بدنام کریں اور نہ ہی پاکستان کی تباہی میں حصہ دار بنیں۔
قومی امن کانفرنس کا اعلامیہ
منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک نے اپنی روایات کے عین مطابق اس کانفرنس کے آخر پر ایک متفقہ اعلامیہ بھی پیش کیا جس سے رہنمائی لیتے ہوئے حکومت اور مقتدر حلقوں کو بلاشبہ حالات و واقعات کو قابوکرنے اور ان کی اصلاح کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
1۔ خود کش حملوں سمیت ملک پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں کی بھرپور مذمت کی جاتی ہے اور ایسے غیر انسانی اور سفاکانہ اقدامات میں ملوث جملہ عناصر کو اسلام اور پاکستان دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ دہشتگردی میں ملوث ملک دشمن عناصر سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے یہ عہد کیا جاتا ہے کہ ہر سطح پر بھرپور اور ہر ممکن طریقے سے دہشتگردی کی جملہ کارروائیوں کی مذمت کی جاتی رہے گی اور اس کے کلیتاً خاتمے کی ہر ممکن جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔
2۔ پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے مسلسل ڈرون حملوں کی شدید ترین مذمت کی جاتی ہے اور یہ حملے پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت پر براہ راست حملہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی اور ریاستی دہشتگردی کی بدترین مثال ہیں۔
3۔ پاکستان کے داخلی معاملات میں بڑھتی ہوئی کھلی مداخلت، پاکستان اور اس کے اداروں بالخصوص افواج پاکستان اور ISI کے خلاف دیے جانے والے بیانات اور پاکستان کو دہشتگردی کے ساتھ نتھی کرنے کی عالمی سازشوں کی بھرپور مذمت کی جاتی ہے۔
4۔ عالمی طاقتوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری اور آزادی کی صریح خلاف ورزی ہیں اور اس جیسے دیگر منفی اقدامات دہشتگردی کے فروغ اور دہشتگردوں سے ہمدردی کا باعث بن رہے ہیں۔ اس تناظر میں مطالبہ کیا جاتا ہے کہ عالمی طاقتیں اور ادارے اگر دہشتگردی کے خاتمے میں مخلص ہیں تو اس سلسلے کو فوری طور پر بند کیا جائے۔
5۔ پاکستانی امن پسند قوم ہیں اور پوری دنیا میں امن کے خواہاں ہیں اور انہوں نے ہمیشہ دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کی شدید مذمت کی۔ پاکستانی کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف جارحیت یا اس کو نقصان پہنچانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے اس لیے پاکستانی قوم کو دہشتگردی کے ساتھ نتھی کرنا انتہائی افسوسناک عمل ہے۔ پاکستانی قوم خود کسی بھی ملک اور قوم سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہو رہی ہے اور 1980ء سے اب تک دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مسلسل قربانیاں دے رہی ہے اس کی دنیا میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی اس لیے اس کے خلاف مذموم پراپیگنڈہ کی مذمت کی جاتی ہے۔
6۔ حکومت پاکستان اب تک دہشت گردی سے نمٹنے اور اس کا قلع قمع کرنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ لہٰذا مطالبہ کیاجاتا ہے کہ حکومت قومی امن کانفرنس میں تجویز کیے جانے والے درج ذیل اقدامات پر فوری عملدرآمد کرے تاکہ اس مسئلے کے فوری اور ٹھوس حل کی طرف پیش رفت ممکن ہو سکے۔
1۔ جملہ سفارتی ذرائع، دوست ممالک اور دیگر عالمی اداروں اور تنظیموں کے ذریعے ڈرون حملوں کے سلسلے کو فوری طور پر بند کروایا جائے۔
2۔ حکومت پاکستان، افغانستان میں عالمی طاقتوں کی War against terrorism میں معاونت کو ڈرون حملوں اور مداخلت کے خاتمے کے ساتھ مشروط کرے۔
3۔ موجودہ معذرت خواہانہ اور بے بسی پر مبنی خارجہ پالیسی کو فوری طور پر تبدیل کرکے آزادانہ اور برابری کی سطح پر باوقار خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے۔
4۔ بیرون ملک پاکستانی سفارخانوں کو متحرک کرکے وہاں اہل، قابل اور صحیح معنوں میں محب وطن افراد کی تعیناتی کی جائے اور پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف ہونے والے منفی اور مذموم پراپیگنڈے کا بھرپور جواب دیا جائے۔
5۔ پاکستان میں ہونے والی بدترین دہشتگردی کے پیچھے بیرونی عناصر بالخصوص ہمسایہ ملک کی مداخلت کو جرات مندانہ اور حکمت سے بے نقاب کر کے اس کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر ٹھوس لائحہ عمل بنا کر فوری اقدامات کیے جائیں۔
6۔ دہشتگردوں کی آزادانہ نقل و حمل اور ان کو ملنے والی رسد کے جملہ ذرائع کو ریاستی مشینری کے بروقت اور مؤثر استعمال سے بند کیا جائے۔
7۔ دہشتگردوں کے ممکنہ ٹارگٹس بالخصوص ریاستی اداروں، مذہبی مقامات و اجتماعات اور عوامی مقامات کی حفاظت کے لیے فول پروف اقدامات کیے جائیں اور عامۃ الناس کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
8۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صرف فوجی آپریشن پر انحصار کرنے کے بجائے دیگر ذرائع اور سیاسی اقدامات کے راستے کو اپنایا جائے۔
9۔ پاکستان کے پسماندہ علاقہ جات بالخصوص قبائلی علاقوں سے غربت، جہالت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔
10۔ ملک میں سیاسی استحکام، آزاد عدلیہ، اداروں کی مضبوطی، آئین اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام، مہنگائی کے خاتمے اور عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی اور ظلم و استحصال کی ہر شکل کے خاتمے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں تاکہ دہشتگردی کا باعث بننے والے جملہ عوامل کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
11۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں مسلسل ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں جن سے وفاق پاکستان کو خطرات لاحق ہیں۔ حکومت اس حوالے سے جملہ سازشوں کو بے نقاب کرے اور ان کے خاتمے کے لیے فوری لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
12۔ درج بالا نکات کی روشنی میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک قومی پالیسی تیار کی جائے اور پوری قوم کو اعتماد میں لے کر اس کے نفاذ کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
13۔ دہشتگردی اور اس کے جملہ رجحانات کے خاتمے کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ پوری قوم بالخصوص قوم کے مؤثر طبقات جن میں وکلاء، علماء، سیاستدان، صحافی، دانشور، اساتذہ، تاجر حضرات اور تنظیمیں شامل ہیں، اپنا اپنا مؤثر اور بھرپور کردار ادا کریں۔
14۔ میڈیا دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ذمہ دارانہ کردار ادا کرے اور ایسے پروگرامز اور خبروں کی نشرواشاعت سے گریز کیا جائے جس سے دہشت گردی کی کسی صورت اور شکل کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔ میڈیا ملکی مفاد، سالمیت اور نیک نامی کو ہمیشہ مقدم رکھے۔
15۔ دہشتگردی سے متاثر ہونے والے خاندانوں اور افراد کی مدد اور بحالی کے لیے حکومت اور جملہ رفاہی اور فلاحی تنظیمیں اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
16۔ دہشتگردی کے خاتمے اور پاکستان کو اندرونی و بیرونی دہشتگردی سے محفوظ کرنے کو اوّلین ترجیح قرار دیا جائے اور اس کے لیے جملہ ضروری اقدامات کیے جائیں اور معاشرے کا ہر طبقہ اس میں بھر پور کردار ادا کرے۔
قومی امن کونسل کی تشکیل
قومی امن کانفرنس کے دوران دہشتگردی کے اسباب کی تشخیص، اس کے فروغ کی وجوہات، اس کی پشت پناہی کرنے والے اندرونی و بیرونی عناصر کے تعین، اس کے خاتمے کے لیے قومی لائحہ عمل کے تعین اور اس پر عملدرآمد کے طریقہ کار کو وضع کرنے کے لیے ’’قومی امن کونسل‘‘ تشکیل دی گئی اس کونسل کے چیئرمین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو بنایا گیا۔
جبکہ دیگر اراکین میں محترم جہانگیر بدر (سیکرٹری جنرل PPP)، محترم ظفر اقبال جھگڑا (سیکرٹری جنرل PML۔ N))، محترم مشاہد حسین سید (سیکرٹری جنرل PML۔ Q)، محترم احسان وائیں (سیکرٹری جنرل ANP)، محترم ڈاکٹر فاروق ستار (کنوینیئر MQM)، محترم مولانا امجد (مرکزی سیکرٹری اطلاعات جمعیت علماء اسلام)، محترم غلام مصطفیٰ کھر (سابق گورنر پنجاب)، محترم لیاقت بلوچ (مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی)، محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی (سیکرٹری جنرل تحریک منہاج القرآن)، محترم انوار اختر ایڈووکیٹ (سیکرٹری جنرل پاکستان عوامی تحریک)، محترم اعجاز احمد چودھری (مرکزی نائب صدر پاکستان تحریک انصاف)، محترم ڈاکٹر سرفراز نعیمی، محترم ابتسام الٰہی ظہیر (صدر جمعیت اہلحدیث)، محترم حافظ عاکف سعید (امیر تنظیم اسلامی)، محترم غلام احمد بلور (وفاقی وزیر ریلوے )، محترم علی احمد کرد ( نمائندہ بار / صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن)، محترم پیر سید نوبہار شاہ (سربراہ شیعہ پولیٹیکل پارٹی)، محترم ڈاکٹر مجید ایبل (نمائندہ اقلیتی برادری)، محترمہ مس فردوس بٹ (سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن)، محترم چودھری خادم حسین قیصر (سابق وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل)، محترم قاری زوار بہادر (سیکرٹری جنرل جمعیت علماء پاکستان)، محترم سہیل محمود بٹ (چیئرمین انجمن تاجران مال روڈ)، محترم نذیر احمد چوہان (نمائندہ تاجران)، محترم ڈاکٹر رفیق احمد (نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن)، محترم سید راشد گردیزی (نمائندہ طلبہ / صدر متحدہ طلبہ محاذ)، محترمہ ہما عزیز (نمائندہ خواتین / صدر پاکستان ویمن ورکرز فیڈریشن)، محترم پروفیسر محمد اعوان (نمائندہ انجمن اساتذہ)، محترم پروفیسر محمد اکرم چشتی (نمائندہ اساتذہ / مرکزی ڈپٹی سیکرٹری انجمن اساتذہ پاکستان)، محترم ملک حاکمین (سینیٹر / PPP)، محترم سردار کلیان سنگھ کلیان (نمائندہ سکھ اقلیتی برادری / جنرل سیکرٹری گرونانک جی مشن پاکستان)، محترم ڈاکٹر منوہر چاند (نمائندہ ہندو اقلیتی برادری)، محترم ڈاکٹر اویس فاروقی (نمائندہ NGO / صدر فوکس پاکستان)، محترم ذوالفقار علی (PSO)، محترم سردار رؤف (چیئرمین جموں و کشمیر )، محترم کرنل قیصر (ایکس سروس مین)، محترم سید راحیل شاہ (PSF)، محترم خالد پرویز (صدر پیپلز مسلم لیگ لاہور)، محترم سید دانش (ISO)، محترم شبیر سیال (نمائندہ تحریک انصاف)، محترم پادری چمن (لاہور چرچ)، سینئر صحافی محترم افتخار احمد، محترم نعیم مصطفیٰ گل چمن شاہ، محترم امجد اقبال اور محترم ناصر نقوی شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ تمام قومی و صوبائی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہ ممبر ہو سکتے ہیں۔ یہ کونسل پندرہ دن میں تمام سیاسی جماعتوں اور طبقات کی طرف سے موصول ہونے والی تجاویز و آراء کی روشنی میں ایک ماہ کے اندر ایک قومی لائحہ عمل کا تعین کرے گی۔