کا ئنا ت کو اگر ایک سٹیج فرض کر لیا جا ئے تو انسان اس سٹیج کا ہیرو ہے جس کے گرد بقیہ سا رے کردار گھومتے ہوئے دکھا ئی دے رہے ہیں۔ بالفاظِ دیگر یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسان اس کا ئنا ت کا مقصود ہے اوربقیہ ساری کائنات کی بزم انسا ن ہی کے لیے بنا ئی اور سجائی گئی ہے۔ مندرجہ ذیل آیات اسی طرف اشا رہ کر رہی ہیں۔
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِيْعًا.
(البقرة : 29)
’’وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لیے پیدا کیا‘‘۔
وَ سَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ.
(الجاثية : 13)
’’اور اس نے مسخر کر دیا تمہا رے لیے جو آسمان اور زمین میں ہے سب کا سب۔‘‘
پھر انسا ن کی خصو صی حیثیت اور اس کے مقا م و مرتبے کی طرف اشا رہ کر تے ہو ئے فرمایا
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍO
(التين : 4)
’’بیشک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہےo‘‘
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ.
(بنی اسرآئيل : 70)
’’بے شک ہم نے اولادِ آدم کو فضیلت دی ہے۔‘‘
سوا ل یہ پیدا ہو تا ہے کہ جب سا ری کا ئنا ت کا مقصود انسان ہے اور انسان کو دیگر تما م مخلو قا ت کے مقابلے میں نما یا ں حیثیت و فضیلت دی گئی ہے۔ تو خود انسان کا مقصود کیا ہے اور اسے کس لیے تخلیق فرمایا اور دنیا میںبھیجا گیا ہے؟ اس کا جوا ب دیتے ہو ئے قرآن کہتا ہے کہ
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ.
(الذّٰرِيٰت : 56)
’’اور ہم نے جنو ں اور انسانوں کو اس لیے تخلیق کیا ہے کہ وہ ہما ری عبا دت کریں۔‘‘
ریئس المفسرین عبد اللہ ابن عبا س نے عبادت سے مرادمعرفت لیتے ہوئے فرمایا ہے۔
اَیْ لِيَعْرِ فُوْن.
’’یعنی تا کہ وہ میری معرفت حاصل کریں۔‘‘
پھر اس عبا دت و معر فت کا مقصو د بقو ل قرآنِ مجید انسان کا خدا ئی اخلاق و صفا ت کو پہچا ن کر اپنے آپ کو ان سے متصف کرلینا ہے۔
صِبْغَۃَ اﷲِج وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اﷲِ صِبْغَۃً۔ (البقرہ : 138)
’’اللہ کا رنگ (اپنانا چا ہیے)اور اللہ کے رنگ سے بہتر رنگ اور کون سا ہو سکتا ہے۔‘‘
یہاں اللہ کے رنگ کی تشریح کرتے ہو ئے حضور علیہ السلام نے فرمایا۔
تَخَلَّقُوْ ا بِاَخْلَاقِ اللّٰهِ.
’’اپنے آپ کو اللہ کے اخلاق سے متصف کر لو۔‘‘
پھر اخلاقِ الٰہیہ کا سب سے کا مل عملی نمونہ حضورعلیہ السلام کی ذات مبا رکہ کو قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا۔
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ.
(القلم : 4)
’’اور بے شک آ پ اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فا ئز ہیں۔‘‘
اور خود حضور علیہ السلام نے اخلاق حسنہ کی تکمیل کو اپنی بعثت مبا ر کہ کا مقصد قرار دیتے ہو ئے فرمایا۔
اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق.
’’بے شک میں اس لیے مبعو ث کیا گیا ہوں کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں۔‘‘
گو یا حضو ر علیہ السلام کی تشریف آوری کا مقصد ہی لوگوں کی شخصیتوں کو اچھے اخلاق سے آراستہ و پیراستہ کرنا ہے۔ قرآنِ مجید میں یہ بھی ارشا د فرمایا گیا۔
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً.
(البقرة : 30)
’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانا چا ہتا ہوں۔‘‘
یہا ں خلیفہ سے مراد نا ئب اور جانشین ہے اور اس سے مرادانسان ہے اور یہ ایک مسلّمہ با ت ہے کہ نائب یا جا نشین کی شخصیت میں اصل کے کر دار کی کچھ نہ کچھ جھلکیا ں دکھا ئی دینی لا زمی ہیں۔
مند رجہ با لا سا ری گفتگو کا لُبِ لباب یہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں ایک خاص مدت کے لیے بھیجا گیا ہے تا کہ وہ یہا ں رہ کر ایما ن اور اعمالِ صا لح کی روش کو اپنا کر اپنی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کرے اور اسے اخلاقِ حسنہ سے آراستہ و پیراستہ کرے تا کہ وہ مرنے کے بعد جنت کی انتہائی نفیس و لطیف فضا ؤ ں میں بسنے کے قابل ہو سکے۔ تمام انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد بھی یہی تھا۔ اسلام کے دا من میں جتنی بھی عبا دا ت ہیں ان سب کا مقصو د بھی یہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام عبا دت کے سا تھ سا تھ اخلاق پر زور دیتا ہے بلکہ دو نوں کو لازم و ملزوم قرا ر دیتے ہوئے ایک کی عدم مو جودگی میں دوسرے کی مو جودگی کو ناقص خیا ل کرتا ہے۔
سطو رِ بالا سے جب یہ چیز واضح ہو گئی کہ انسان دنیا میں اپنی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے لیے آیا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اللہ رب العزت جو انسان کا خا لق و مالک ہے اور حد درجہ مہربان بھی ہے اس نے یقینا انسان کو اس مقصد کے لیے تمام ضروری لوازمات دے کر بھیجا ہے اس سلسلے میں سب سے پہلی با ت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دن سے ہی انسان کی فطرت میں اقرارِ اُلوہیت کی صورت میں تمام حسنا ت کے حصول کے بیج رکھ دئیے ہیں۔
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُواْ بَلَى
(الاعراف : 172)
’’اور (یاد کیجئے!) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے: کیوں نہیں! (تو ہی ہمارا رب ہے،)‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کی باقا عدہ جسمانی تخلیق سے بھی پہلے اس کی روح اللہ رب العزت کی ربوبیت اور اس کے خا لق و مالک ہو نے کا اعتراف کر چکی ہے۔ دو سری طرف حضو ر علیہ السلام نے فرمایا :
کل مو لو دٍيو لد علی الفطرة
(الجامع الصحيح البخاری، رقم الحديث : 1296)
’’ہر بچہ فطرت (سلیمہ)پر پیدا ہو تا ہے۔‘‘
اس کے سا تھ ہی اللہ رب العزت نے یہ فرمایا کہ عقل کی صورت میں اسے ایک قیمتی جو ہر سے نوا زا جو حقائق کا تجزیہ کر کے نتا ئج کو اخذ کر سکتی ہے اور کھو ٹے کو کھرے سے جدا کر سکتی ہے۔ پھر عقل کی رہنما ئی کے لیے وحی کی رو شنی مہیا فرما دی تاکہ عقل کے لیے بھٹکنے کے امکانات ختم ہو جائیں۔ چناچہ ہر زمانے میں انبیاء و رسل دنیا میں تشریف لاتے رہے اور لو گو ں کو خدائی تعلیما ت سے آشنا کرتے ہو ئے انہیں اللہ رب العزت کی مرضی سے آگاہ فرماتے رہے۔ چناچہ قرآن مجید کے متعلق فرمایا گیا کہ
إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًاO
(المزمل : 19)
’’بے شک یہ (قرآن) نصیحت ہے، پس جو شخص چاہے اپنے رب تک پہنچنے کا راستہ اِختیار کر لےo‘‘
سوال یہ ہے کہ جب سب کچھ وا ضح ہے تو پھر انسان بار بار کیوں بہک جاتا ہے اور لوگوں کی اکثریت تعمیر کو چھوڑ کر تخریب کی طرف کیوں چل پڑتی ہے؟ اس کے جو اب میں بہت سی با تیں کہی جا سکتی ہیں۔ لیکن بڑی وجوہات دو ہیں۔ جو درج ذیل ہیں۔
1۔ علم کی کمی 2۔ ضبط نفس کا فقدا ن
بہت مر تبہ لوگوں کی گمراہیوں کی وجہ علمِ صحیح کا نہ ہونا ہے یعنی انہیں علم نہیں ہوتا کہ فلاں معاملے میں کون سی روش درست ہے اور کون سی غلط؟ کیاجائز ہے اور کیا ناجائز؟ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے ؟علم کے اس فقدان کی وجہ سے لوگ بیشتر معاملات میں نفس اور شیطان کی پیروی کر تے ہو ئے غلط راستے پر چل پڑتے ہیں اور اپنی شخصیت کو مسخ کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اسلام نے حصو لِ علم پر بہت زور دیا ہے اور قرآن مجید میں جا بجا علم کی اہمیت کو بیان کرتے ہو ئے ارشاد فرمایا :
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
(الزمر : 9)
’’آپ کہ دیجئے کہ کیا جا ننے والے اور نہ جاننے والے برابرہو سکتے ہیں۔‘‘
وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا.
(طٰهٰ : 114)
’’آپ (اپنے رب سے دعا کرتے ہو ئے) کہہ دیجئے کہ اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ
(المجادله : 11)
’’اللہ تعا لیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا درجا ت بلند فرمائے گا۔‘‘
حضو ر علیہ السلام نے حصو لِ علم کی اہمیت پر زور دیتے ہو ئے فرمایا :
طلب العلم فريضة علیٰ کل مسلم و مسلمة.
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔‘‘
اطلبوا العلم من المهد الی اللحد.
’’گود سے گور تک علم حاصل کرو۔‘‘
اطلبوا العلم ولو کان با لصين.
’’علم حاصل کرو خواہ اس کے لیے چین جانا پڑے۔‘‘
انسا ن کے تعمیر کو چھوڑ کر تخریب کے راستوں کی طرف چل پڑنے کی دو سری بڑی وجہ ضبطِ نفس کا فقدان ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ انسان کے من کی دنیا میں ہر وقت طرح طرح کی تمنائیں، آرزوئیں، خواہشات، رغبتیں، جذبات اور میلانات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ جن میں سے کچھ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ برے۔ انسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ عقل اور وحی کی روشنی میں ان تقاضوں کا جا ئزہ لے اور جو صحیح ہوں ان کی تکمیل کے لیے کوشش کرے لیکن جو غلط ہوں ان سے اپنے آپ کو روک لے۔ لیکن مسئلہ یہاں یہ پیدا ہو تا ہے کہ اپنے آپ کو غلط تقاضوں کی تکمیل سے رو کنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا اپنی طبیعت پر مکمل قبضہ ہو۔ یعنی اس کی طبیعت عقل کے تا بع ہو تاکہ عقل وحی سے ملنے والی رہنمائی کی رو شنی میںاسے صحیح را ستے پر چلا سکے۔ لیکن اگر اس کی طبیعت میں ضبط نہ ہو تو پھرخوا ہشات اور جذبات کی آندھیاں انسان کو بے بس تنکے کی ما نند اُڑا ئے پھرتی ہیں اور وہ اپنے اندرونی تقاضو ں کے ہاتھو ں مجبور ہو کر نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے نہ کرنے والے کاموں کو کرنے اور بہت سے کر نے والے کا موں کو نہ کر سکنے کے معاملے میں اپنے آپ کو بے بس اور مجبور پاتا ہے۔ ضبطِ نفس کی مثال گھوڑے کی لگام کی سی ہے۔ جو گھوڑا سدھایا ہوا ہو اور اس کی لگام سوار کے ہا تھ میں ہو تو وہ سوار کی مرضی کے مطابق اُسے منزل مقصود پر پہنچا دیتا ہے۔ مگر ضبطِ نفس سے محروم آدمی کی مثال اس سوار کی سی ہے جو کسی سرکش گھوڑے پر سوار ہو اوراس پر لگام بھی نہ ہو تو ظاہر ہے کہ وہاں نہ سوار کی خیر ہے اور نہ سواری کی۔
بہ نظرِغائر دیکھا جائے توآ ج کے انسان کا اصل مسئلہ علم کی کمی نہیں ہے بلکہ ضبطِ نفس کی کمی ہے۔ جدید دور کی سہولتوں نے آج مختلف شکلوں میں علم کے اتنے انبار لگا دئیے ہیں کہ علم کسی کی دسترس سے باہر نہیں رہا۔ لیکن جوں جوں علم بڑھتا جا رہا ہے عمل گھٹتا جا رہا ہے اورعلم و عمل کے درمیا ن عدمِ توازن نے ہی انسا نی زندگی کو کانٹوں کی سیج بنا دیا ہے۔ بے شمار پریشانیاں، محرومیاں اور بدحالیاں انسانی زندگی میں محض علم اور عمل کے درمیانی فاصلوں کے بڑھ جانے کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں۔ زندگی آوارہ اور پراگندہ ہے اور بیشتر زندگیاں بے سکو نی کی صلیب پر لٹکی ہوئی ہیں ۔ لہٰذا آج کے انسان کے سا تھ سب سے بڑ ی نیکی یہی ہو سکتی ہے کہ اُسے کوئی طریقہ اور لائحہ عمل بتا دیا جائے جس پر چل کر زندگی کی طنابیں اس کے ہاتھ میں آ جائیں اور وہ نفس کے سرکش گھوڑے پر بے بس اور مجبور سوار کی بجائے اُسے اپنی مرضی کے مطابق چلا سکے۔ یا بالفاظ دیگر وہ زندگی کی گا ڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کی بجا ئے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر خود اپنی منزل اور راستو ں کا تعیّن کر سکے۔
تصوف کی ساری تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں صوفیائے کرام کے ہاں یہی بات مرکزی حیثیت کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ اُن کا سارا زور ہی اسی نکتے پر رہا ہے کہ انسان کو کسی طرح سے اندرونی طور پر اتنا مضبوط بنا دیا جائے کہ وہ اپنے اندرونی جذبات اور خواہشات کے منہ زور ریلے میں بے بس تنکوں کی ما نند بہنے کی بجائے چٹانوں کی طرح مضبوط اور ثابت قدم رہے اور اپنے اندر پیدا ہونے والی تمام خواہشات، تمناؤں، رغبتوں، چاہتوں، اور ارمانوں کو عقل کے تابع کر کے زندگی کو شریعت کی راہنمائی سے ملنے والی روشنی میں اُستوار کرے تاکہ وہ دنیا و آخرت کی فلاح اور سعادت کا مستحق بن سکے۔ چناچہ صوفیائے کرام کے تمام مجاہدات اور ریاضتیں اسی ایک نقطۂ کے گرد گھومتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
صوفیائے کرام رحمۃ اللہ علیہ نے اس حوالے سے جو جو ضابطے تشکیل دئیے اور جتنی کڑی شرا ئط اور سخت ریاضات و مجاہدات ترتیب دئیے وہ اپنی جگہ بجا ہیں لیکن آج کے دور میں بسنے والے انسان کے لیے اُن پر عمل پیرا ہونا تقریباً ناممکن یا کم از کم محال ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو اب صحت کا معیار وہ نہیں رہ گیا جو سخت مجاہدات کا متحمل ہو سکے اور دوسرا ہمتیں پست ہو چکی ہیں اور آسانی اور سہل پسندی کی طرف مائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام غزا لی رحمۃ اللہ علیہ کی احیاء العلوم الدین، حضرت علی ھجویری رحمۃ اللہ علیہ کی کشف المحجوب، حضر ت شیخ شہا ب الدین سہروردی کی عوارف المعارف اور دیگر صوفیاء کی کتابیں آج بڑے بڑے علماء کی لائبریریوں کی زینت بنی تو دکھا ئی دیتی ہیں لیکن عملی زندگی میں اُن کا عمل دخل (الا ماشاء اللہ) بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا آج کے ایک عام انسان کو تو ضبطِ نفس کا کو ئی نسبتاً آسان فارمولہ دینا ہوگا جو اس کے لیے قابلِ عمل بھی ہو سکے۔ اگلے صفحات اسی مقصد کے لیے مختص کیے جا رہے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ اُصول ہمیشہ دائمی ہو تے ہیں۔ ہاں ان کی شکلیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ بالفاظ دیگر شراب تو وہی پرانی ہے مگر برتن نئے ہیں۔
ضبطِ نفس کے مراحل
ہمارے خیال میں اکیسویں صدی کے انسان کے لیے ایسا لائحہ عمل جو ضبطِ نفس کی کیفیت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی آوارگیوں کو کم کر کے اُسے مخصوص ڈگر پر ڈال کر عروج کی جا نب رواں دواں کر دے مندرجہ ذیل چا ر چیزوں پر مشتمل ہے۔
(1) ضبطِ طعا م (2) ضبطِ کلام
(3) اقا متِ صلوٰ ۃ (4) نظا م الاوقات
1۔ ضبطِ طعام
قرآن مجید کے اندر حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے کہ انہوں نے کہا :
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ
(البقرة : 129)
’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے‘‘
یہا ں تزکیہ نفس کا لفظ آخر میں آ یا لیکن دوسری طرف قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے جب فرائض نبوت کو بیا ن کیا تو اُن میں تلاوت قرآن کے بعد، تزکیہ کو پہلے رکھا اور بقیہ چیز وں کو بعد میں۔
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ
(الجمعة : 2)
’’وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔‘‘
اس ترتیب میں حکمت یہ ہے کہ بقیہ تعلیمات اُسی وقت نفع بخش ہوتی ہیں جب نفس کا تزکیہ ہو چکا ہو اور وہ اخلاقی رذائل سے نجات پا چکا ہو۔
انسان کی ساری گمراہیوں، بدعملیوں اورسیاہ کاریوں کا بنیادی سبب نفس کی خواہشات و میلانات کی اندھا دھند پیروی ہے، جو انسان کو راہِ حق سے دور کر دیتی ہے اور جس کے نتیجے میں انسان خدا کا بندہ بننے کی بجائے نفس کا بندہ بن جاتا ہے۔ اسی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا کہ
فَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ
(الجاثيه : 23)
’’کیا تو نے ایسے شخص کو دیکھا جس نے اپنے نفس کی خواہشا ت کو اپنا خدا بنا لیاہے۔‘‘
چناچہ قرآن مجید نے خواہشاتِ نفس کی پیروی سے سختی سے منع فرمایا ہے :
فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْهَوَى
(النساء : 135)
’’پس نفس کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔‘‘
نیز قرآن مجید نے انسان کی سعادت کا دار و مدار نفس کے تزکیہ پر اور اس کی شقاوت کا دار و مدار نفس کے عدمِ تزکیہ پر رکھا ہے۔
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَاO وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَاO
(الشمس : 9، 10)
’’بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)o اور بیشک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)o‘‘
دوسری طرف یہ بھی ایک مسّلمہ حقیقت ہے کہ نفس کی تمام خواہشات و شہوات کی بنیاد انسان کا معدہ ہے۔ جتنا زیادہ انسان معدہ کو رنگ برنگے کھانوں سے بھرتا چلا جائے گا اور وقتاً فوقتاً کھاتا رہے گا اُتنا ہی زیادہ دیگر خواہشات و شہوات بھی سر اُٹھائیں گی اور انسان اپنے آپ کو اُن کے سامنے بے بس محسوس کرے گا۔ اُس کا اپنی ذات پر ضبط ختم ہوتا چلا جائے گا، علم اور عمل کے فاصلے بڑھتے چلے جائیں گے اور وہ اخلاقی رذائل اور کردار کی پستی کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کھانے پینے پر ضبط حاصل کرنا جملہ کامرانیوں کا سرچشمہ اور انسانی سیرت و کردار کی تشکیل کا نکتہ آغاز ہے اور کھانے پینے میں اسراف اور بے اعتدالیاں تمام برائیوں کی جڑ اور سیرت و کردار کے بگاڑ کا نکتہ آغاز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام اولیاء و صوفیائے کرام تزکیہ نفس کے لیے مجاہدہ نفس کے عناصرِ اربعہ میں سب سے پہلا نکتہ قلتِّ طعام کا ہی شامل کر تے رہے ہیں۔ ابو انیس صوفی برکت علی رحمۃ اللہ علیہ مقالاتِ حکمت میں فرما تے ہیں۔
’’با ز کی بلندی اور کوے کی پستی قد و قامت کی بدولت نہیں بلکہ رزق کی بدو لت ہے۔‘‘
(مکشوفاتِ منازلِ احسان المعروف مقالاتِ حکمت، ابُو انیس برکت علی)
علا مہ اقبا ل رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں۔
اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
نیز فرماتے ہیں
دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھ میں ہے دل یا شکم
کھانے پینے میں حرام اور مشتبہ غذا سے پرہیز تو ضروری ہے ہی کہ یہ جہنم کے انگارے پیٹ میں ڈا لنے کے مترادف ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا.
(النساء : 10)
’’بیشک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہی۔‘‘
اور حضور علیہ السلام کا فرمان ہے۔
کل لحم نبت من السحت فالنار اولیٰ بها.
(مسند احمد بن حنبل، رقم الحديث : 13919)
’’ہر وہ گوشت جو حرام سے پروان چڑھے وہ آگ کا زیادہ مستحق ہے‘‘
لیکن اس کے ساتھ ساتھ حلال غذا کا بھی ضرورت سے زیادہ کھا نا سخت نقصان دہ ہے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام نے فرمایا :
ما ملاء ادمی وعاءً شرا من بطن، بحسب ابن ادم اکلات يقيمن صلبه فان کان لا محالة فثلث لطعامه وثلث لشرابه وثلث لنفسه.
(سنن ترمذی، رقم الحديث : 2302)
’’آدمی نے اپنے پیٹ سے بُرا کوئی برتن نہیں بھرا۔ آدمی کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اُس کی کمر کو سیدھا رکھیں۔ تاہم اگر زیا دہ ہی کھانا ہو تو ایک تہائی پیٹ کھانے سے، ایک تہا ئی پا نی سے بھرا جا ئے اور ایک سانس لینے کے لیے چھو ڑ دیا جائے۔‘‘
حضور علیہ السلام کا یہ بھی فرمان ہے۔
لا تميتوا القلب بکثرة الطعا م و الشراب فان القلب يموت کالزرع اذا کثر عليه الماء.
’’کثرت خورد و نوش سے اپنے قلب کو مردہ مت کریں کیونکہ دل بھی مردہ ہو جاتا ہے جس طرح کھیتی زائد از ضرورت پانی سے ہلاک و برباد ہو جاتی ہے۔‘‘
انسانی افعال و اقوال کی خوبی یا خرابی کا مدار غذا پر ہے۔ حرام غذا کی صورت میں حرام کاموں کی شکل میں نکلے گا۔ کثرتِ طعام کی صورت میں فضولیات سرزد ہوں گی۔ گو یا غذا بیج کی مانند ہے اور انسان کے تمام اقوال و افعال اس کا پودا ہیں۔ بقولِ صوفی برکت علی صاحب
’’بندے کے اعمال و افعال کھانے ہی کی پیداوار ہو تے ہیں۔ جس معیار کا کھانا اُسی معیار کے اعمال و افعال۔‘‘
صوفیائے کرام اس حوالے سے قِلّتِ طعام پر زور دیتے چلے آئے ہیں۔ لیکن اکیسو یں صدی کے اس ماحول میں جبکہ خوراک کے اندر سے غذائیت بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے۔ صحتیں کمزور ہو چکی ہیں اور ہمتیں پست ہو چکی ہیں۔ تمام انسانوں کو قِلّتِ طعام کا مشورہ دینا تو مشکل ہے البتہ اُسے یہ ضرور کہا جائے گا کہ اگر کردار و شخصیت کی تعمیر کرنی ہے تو پھر کھا نے پینے کو کسی نظم و ضبط کا پابند بنانا اور اُسے حد اعتدال میں لانا ضروری ہوگا۔ دوسری طرف یہ خواہش اتنی زیادہ انسان پر مسلط ہے کہ بہت مرتبہ وہ اپنے آپ کو اس خواہش کے سامنے بے بس محسوس کرتا ہے۔ اور وقت بے وقت کھا کر نیز ضرورت سے زیادہ کھا کر اپنی جسمانی، ذہنی اور روحانی صحت کو تباہ کرتا رہتا ہے اور نتیجتاً اس کی سیرت، کردار اور اخلاق و اطوار پر بھی منفی اثرات پڑ تے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کھانے پینے پر ضبط کیسے حاصل کیا جائے۔ اس حوالے سے تین ضابطے ہیں ان کی تفصیل آئندہ شمارے میں ملاحظہ فرمائیں۔ (جاری ہے)