آخری عشرۂ رمضان المبارک کی فضیلت

ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی الازہری

اللہ تبارک وتعالی کی رحمت، بخشش اور لطف وکرم کے دروازے اگرچہ ہر وقت ہر خاص و عام اور نیک و بد کے لیے کھلے رہتے ہیں مگر اس کریم رب نے اپنے حبیب ﷺ کی امت کو اپنی رحمت کے لامحدودخزانوں سے نوازنے کے لئے جیسے اسلامی کیلینڈر کے بعض مہینوں، دنوں اور راتوں کو خاص فضیلتوں سے نوازا ہے اسی طرح دن رات میں بعض لمحات کو باقی دیگر اوقات پر خصوصی فضیلت عطا فرمائی ہے۔ جب ہم ماہ رمضان المبارک کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کے ہر ہر لمحے میں رحمتوں کی برسات ایک منفرد شان کے ساتھ پیاسوں کو ڈھونڈتی اور سیراب کرتی نظر آتی ہے۔ چونکہ یہ مہینہ برکتوں کا ایک بحرِ بیکراں ہے، انعامات و سعادت کا کبھی خشک نہ ہونے والا سرچشمہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عطائے ربانی کا مظہر ہے، اس لئے اس کی عظمتوں سے کماحقہ آگاہ ہو کر اس کی برکات سے بڑھ چڑھ کر مستفید ہونے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کے استقبال کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ ناواقف و غافل اس کی برکات سے محروم نہ رہے اور رمضان کے احترام کے صدقے اس کا بیڑا پار ہوجائے۔

رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے دن رات مسلمانوں کے لئے خصوصی جہد و جہد، اعمال صالحہ اور توجہ و انہماک کے دن ہیں۔ بیس روز گزر جانے کے بعد ماہ رمضان المبارک پابہ رکاب مہمان کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے، تب ہر گزرتا ہوا لمحہ اس کی روانگی اور فرقت کی اطلاع دے کر اداسیاں بکھیرنا شروع کردیتا ہے۔

پیشِ نظر مضمون میں رمضان المبار ک کے آخری عشرے کے حوالے سے درج ذیل امور پر انتہائی اختصار سے روشنی ڈالی جائے گی۔

دوزخ سے آزادی کا عشرہ

احادیث و آثار میں رمضان شریف کے بہت فضائل اور برکات مذکور ہیں۔ احادیث کے مطابق رمضان کے تین عشرے تین مختلف خصوصیات کے حامل ہیں اور ہر ایک عشرے پر اللہ تعال کی رحمت کا خصوصی رنگ غالب ہے جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

رَمَضَانَ أوَّلُه رحمةٌ، و أوسطُهُ مغفرةٌ، وآخرُهُ عِتقٌ منَ النَّارِ.

’’رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ سے آزادی کاہے۔‘‘

(صحیح ابن خزیمه، حدیث نمبر: 1780)

آخری عشرہ میں کثرتِ عبادت کا نبوی معمول

نبی مکرم ﷺ کے شب و روز یوں تو سارا سال اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر اور اس کی عبادت میں گزرتے تھے۔ راتوں میں جب ساری دنیا غفلت کی نیند سو رہی ہوتی تھی تب رسول اکرم ﷺ اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوتے، تہجد کے نوافل میں سورۂ بقرہ، آل عمران اور سورۂ نساء کی ٹھہر ٹھہر کر اس محویت کے ساتھ تلاوت فرماتے کہ قدمین شریفین میں ورم ہوجاتا، کبھی خون رسنے لگتا مگر اس تکلیف کی طرف آپ ﷺ کی توجہ مبذول ہی نہ ہوتی تھی۔ یہ تو عام راتوں کا حال ہے جبکہ رمضان المبارک کے پہلے، دوسرے اور تیسرے عشرے میں نبی کریم ﷺ کے ذوقِ عبادت و ریاضت میں محبوبیت کے مقام پر فائز ہوتے ہوئے بھی کئی گنا اضافہ ہوجاتا تھا۔ آخری عشرہ میں نبی اکرم ﷺ کی عبادت و ریاضت کے متعلق صحیح مسلم کی روایت ہے:

کَانَ یَجْتَهِدُ فِی الْعَشَرِ الْاَخِیْرِ مَالَا یَجْتَهِدُ فَی غَیْرِه.

’’رسول اکرم ﷺ (رمضان کے) آخری عشرہ میں اتنی کوشش کیا کرتے تھے جتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔‘‘

(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1175)

رسول اکرم ﷺ رمضان المبارک کی آخری عشرے میں پہلے دونوں عشروں سے بھی زیادہ پرشوق، تازہ دم اور سرگرم عمل ہو جایا کرتے تھے۔ اس عشرے میں خوب ذوق و شوق سے عبادت و ریاضت، شب بیداری اور ذکرو فکر فرماتے اور آپ ﷺ کی عبادت کے اعمال و اشغال میں نمایاں اضافہ ہوجاتا تھا۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے اس کیفیت کو یوں بیان فرمایا ہے:

کَانَ اِذَا دَخَلَ الْعَشَرُ الْاَخِیْرُ شَدَّ مِنْزَرَه وَاَحْیَا لَیْلَه وَاَیْقَظَ اَهْلَه.

’’جب (رمضان کا) آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ ﷺ (عبادت و ریاضت میں) کمر بستہ ہو جاتے تھے، ساری رات خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔‘‘

اعتکاف

نبی کریم ﷺ کا مبارک معمول تھا کہ آپ اہتمام سے آخری عشرہ کااعتکاف کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ عنہا بیان فرماتی ہیں :

کانَ یَعْتَکِفُ العَشْرَ الأوَاخِرَ مِن رَمَضَانَ، حتَّی تَوَفَّاهُ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ اعْتَکَفَ أَزْوَاجُهُ مِن بَعْدِهِ. (متفق علیه)

حضور نبی اکرم ﷺ تادم وصال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا کرتے پھر ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا۔

بندہ مومن اعتکاف کے دنوں میں ساری دنیا سے رخ موڑ کر اللہ کے گھر میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوکر بیٹھ جاتا ہے، اس کے شب و روز ذکرو فکر، نوافل اور تلاوتِ قرآن میں گذرتے ہیں، اس موقع پر اس کا سونا بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے۔

شب قدر

شب قدر ا یک عظیم و بے مثال رات ہے جو فقط امت محمدیہ کو عطا کی گئی ہے۔ لیلۃ القدر کا معنی ہے قدر و منزلت والی رات۔ اس کا ایک اور معنی یہ ہے کہ جوبھی اس رات میں بیدار ہوکر عبادت کرے گا، اپنے رب کی بارگاہ میں قدروشان والا ہوجائے گا۔ قدر کا معنی تنگی بھی کیا گیا ہے، یعنی اس کی تعیین کاعلم مخفی رکھا گیا ہے۔ اس رات کی قدر ومنزلت کو اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں یوں بیان فرمایا ہے:

إنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ کُلِّ أَمْرٍ سَلَامٌ هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ.

’’بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔

شب قدر میں قیام (عبادت وریاضت) کی فضیلت میں نبی کریم ﷺ سے کئی احادیث مبارکہ مروی ہیں جیسا کہ ارشاد ہے:

مَن قَامَ لَیلۃَ القَدرِ إیمانًا واحتِسابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذنبِهِ. (متفق علیه)

جس نے بھی لیلۃ القدر میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے قیام کیا، اس کے (لیلۃ القدر کے قیام سے) پہلے جتنے گناہ تھے سب معاف کردیے جاتے ہیں۔

مذکورہ بالاحدیث میں ایک مسلمان کے لیے اس رات کی عبادت کرنے میں ترغیب ہے کہ وہ اللہ تعالی کی رضا کے لیے اس کی عبادت کرے۔ اسی لیے نبی ﷺ بھی خصوصی طور پر اس رات کوبہت زیادہ تلاش کیا کرتے تھے اور خیروبھلائی میں سبقت لے جانے کی عملی ترغیب دیا کرتے تھے۔اس رات کو تلاش کرنے کے بارے میں ارشاد نبوی ہے:

تَحرُّوا لیلۃَ القَدْر فی العَشْر الأواخِر من رمضانَ. (بخاری، حدیث نمبر: 2020)

’’رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر تلاش کرو۔‘‘

اسی طرح نبی کریم ﷺ نے شب قدر کی تلاش میں آسانی عطا کرتے ہوئے فرمایا:

تَحرُّوا لَیلۃَ القَدْرِ فی الوَتْر من العَشرِ الأواخِرِ من رمضانَ.

’’آخری عشرہ کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر تلاش کرو ۔‘‘

(بخاری، حدیث نمبر: 2017)

یہاں اس بات کا ذکر کرنا خالی از حکمت نہیں ہوگا کہ اس رات کو اس قدر فضیلت کیوں بخشی گئی؟ اور مؤمنین کو یہ رات کیوں عطا کی گئی؟نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارک میں اس کا جواب یہ ہے:

إنَّ رسولَ اللّٰهِ أُرِیَ أعمارَ الناسِ قبلَه أو ما شاءاللّٰهُ من ذلک فکأنه تقاصر أعمارَ أُمَّتِه ألَّا یَبلُغوا من العملِ مثلَ الذی بلغ غیرُهم فی طولِ العمُرِ، فأعطاه اللّٰهُ لیلةَ القدرِ خیرًا من ألفِ شهرٍ.

’’رسول کریم ﷺ کو سابقہ امتوں کی عمروں پر آگاہ کیا گیا تو آپ ﷺ نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمروں کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو لیلۃ القدر عطا فرما دی جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔‘‘

(موطا امام مالک، 1: 319)

لیلۃ القدر کی خصوصی دعا

آخری عشرہ میں دوزخ سے رہائی اور قربِ باری تعالی حاصل کرنے کے لیے تاجدار کائنات ﷺ نے امت کو خصوصی دعا کی تعلیم دی، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:

قلتُ یا رسولَ اللّهِ أرأیتَ إن عَلِمْتُ أیُّ لَیلةٍ لَیلةُ القَدرِ ما أقولُ فیها؟ قالَ: قولی: اللَّهمَّ إنَّکَ عفوٌّ کَریمُ تُحبُّ العفوَ فاعْفُ عنِّی.

’’میں نے رسول اکرم ﷺ سے عرض کیا: یارسول اللہ! میں لیلۃ القدر کی رات کو جان لوں تو کیا دعا کروں؟ تونبی ﷺ نے فرمایا: آپ یہ کہنا: (اللہم إنک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی ) اے اللہ تومعاف کرنے والا، کرم فرمانے والا ہے اورمعافی کوپسند کرتا ہے مجھے بھی معاف فرمادے۔‘‘

(الترمذی، حدیث نمبر: 3513)

صدقہ فطر

اس آخری عشرے کی ایک خصوصی عبادت صدقہ فطر بھی ہے، جو ہر صاحبِ حیثیت مسلمان پر تقریباً دو سیر گندم یا اس کی قیمت کے حساب سے واجب ہے۔ اس کی ادائیگی نماز عید سے پہلے ہونی چاہئے تاکہ غربا و نادار افراد اپنی ضروریات خرید کر سب مسلمانوں کے ساتھ خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔

انَّ رسولَ اللّٰهِ صلَّی اللّٰهُ علیهِ وسلَّمَ فرضَ زَکاةَ الفِطرِ من رمضانَ صاعًا من تمرٍ أو صاعًا من شعیرٍ علی کلِّ حرٍّ أو عبدٍ ذَکرٍ أو أنثی منَ المسلمینَ.

’’بے شک رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک میں مسلمانوں میں سے ہر آزاد و غلام، مرد و عورت پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو صدقہ فطر ادا کرنا لازم قرار دیا۔‘‘

(جامع الترمذی)

اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں شعوری طور پر رمضان المبارک کی رحمت بھری ساعتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کریم ہمیں اپنی رحمت، مغفرت اور دوزخ سے آزادی کے پروانے عطا فرمائے۔ اللہ کرے کہ ہم رمضان المبارک گزرنے کے بعد رمضان میں سیکھا ہوا تقویٰ سارا سال یاد رکھیں۔ ہماری زندگیوں میں تبدیلیاں آجائیں۔ ہمارے کردار، اخلاق اور معاملات سنور جائیں۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ