الفقہ: زکوٰۃ کی اہمیت و مقاصد

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

آپ دنیا کی کسی تحریک کو دیکھ لیں، کسی مذہب کا مطالعہ کرلیں، روٹی کا مسئلہ کسی نے نہ نظر انداز کیا، نہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے غریبوں، بیواؤں، یتیموں اور معذوروں کی مدد کرنے کا حکم ہر جگہ ہر ایک نے دیا اور دے رہے ہیں مگر جس انداز سے اس مسئلہ کو اسلام نے لیا ہے اور جس حکمت سے اسے حل کیا ہے وہ اسی کا خاصہ ہے۔ عام طور پر دوسروں کی مدد، ایک اخلاقی ہدایت تک محدود رکھی گئی ہے کہ کرنا چاہئے اچھی بات ہے مگر یہ اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے جو نظامِ حیات دیا اس میں نماز جیسی اہم ترین عبادت کے بعد زکوۃ کی صورت میں اس مسئلہ کو حل کردیا۔

زکوٰۃ کے مقاصد

زکوٰۃ ادا کرنے کے چند مقاصد اور آداب ہیں جو ملحوظ خاطر رہنے چاہئیں اور اگر ان آداب کا خیال نہ رکھا جائے تو زکوٰۃ کی ادائیگی مشکوک بن جاتی ہے۔

1۔ تزکیہ نفس: زکوۃ کا حقیقی اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ زکوٰۃ دہندہ کا دل دنیا کی حرص و ہوا سے پاک ہوجائے اور تقویٰ کے کاموں کے لئے تیار رہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

وَسَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَی. الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَکّٰی.

’’اور اس (آگ) سے اس بڑے پرہیز گار شخص کو بچا لیا جائے گا۔ جو اپنا مال (الله کی راہ میں) دیتا ہے کہ (اپنے جان و مال کی) پاکیزگی حاصل کرے‘‘۔

(الیل: 17۔18)

حضور ﷺ کو مخاطب کرکے بھی فرمایا:

خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُهُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا.

’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجیے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرمادیں‘‘۔

(التوبه: 103)

ان آیات میں زکوٰۃ کا مقصد دل کی پاکی اور نفس کے تزکیہ کو کیا جارہا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا:

حب الدنیا راس کل خطئیة.

’’دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے‘‘۔

(مشکوة، کتاب الرقائق)

آپ ﷺ نے مال کو امت کے حق میں سب سے بڑا فتنہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

فتنة امتی المال.

’’(دنیا) کا مال میری امت کا فتنہ ہے‘‘۔

(ترمذی)

2۔ رضائے الہٰی: زکوٰۃ کا دوسرا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللهِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًا.

’’ہم تم کو صرف اللہ کی رضا کے لئے کھلاتے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواہاں ہیں، نہ شکریہ کے‘‘۔

(الدھر: 9)

زکوٰۃ ادا کرنے سے رب کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے لہذا کسی اور مقصد کو رضا الہٰی پر فوقیت نہیں ہونی چاہئے۔ لینے والا اپنا حق لے رہا ہے۔ دینے والا اپنا فرض ادا کررہا ہے۔ لینے والا سوائے پروردگار کے کسی کا احسان نہیں اٹھائے گا اور دینے والا سوائے رضائے مولیٰ کے کسی صلہ و ستائش کا طالب نہیں ہوگا۔

اسلام کا نظامِ معاش

اسلام ایسا نظامِ معاش قائم کرتا ہے جس سے قومی سرمایہ اوپر اوپر ہی نہ گھومتا رہے۔ ارشاد رب العزت ہے کہ

کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَةًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ.

’’تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)‘‘۔

(الحشر، 59: 7)

کیونکہ قومی سرمائے کی حیثیت تمام لوگوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے جسم کے لئے خون۔ اگر خون بعض حصوں کو پہنچے اور بعض محروم رہ جائیں تو وہ مفلوج ہوجائیں گے۔ یونہی قومی دولت اگر اوپر ہی اوپر چند طبقات میں گردش کرتی رہی تو قوم کی اکثریت عضوِ معطل ہوکر رہ جائے گی۔ جس طرح جسم کا مفلوج حصہ اچھا نہیں ہوتا اور جسم پر بوجھ بن جاتا ہے، اسی طرح جب عوام پر قومی سرمایہ خرچ نہ ہوگا تو یہ بے زبان اکثریت معاشرے کے لئے وبال جان بن جائے گی۔ لہذا معاشرے کی خیریت اسی میں ہے کہ قومی دولت کی تقسیم مساویانہ طور پر کی جائے تاکہ معاشرے کے ہر فرد کو اس کی ضروریات بہم پہنچتی رہیں اور یہ خوبصورت دنیا کسی کے لئے جنت اور کسی کے لئے جہنم زار نہ بن جائے۔

کسی مشین کے صحیح کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ہر پرزہ صحیح ہو، اس کی سیٹنگ صحیح ہو۔ اور ہر وقت اس پر نظر رکھی جائے اس کی دیکھ بھال سے غفلت نہ کی جائے۔ لیکن ناکارہ ہونے کے لئے تمام پرزوں کا ناکارہ ہونا ضروری نہیں۔ بظاہر معمولی خرابی بھی اسے فیل کرسکتی ہے۔ اسلامی نظامِ حیات کو سوچ سمجھ کر جرأت مندی کے ساتھ مکمل طور پر نافذ کردیا جائے تو دنیا موجودہ ظالمانہ شکنجوں سے آزاد ہوسکتی ہے۔

یاد رہے کہ زکوۃ کے نظام کو منظم کیا جائے۔ اربوں روپیہ جو زکوۃ کی مد میں حکومت وصول کرتی ہے اسے صرف اس محکمہ کے افسران اور زکوۃ چیئرمینوں کی عیاشیوں پر خرچ نہ کیا جائے بلکہ فوری طو رپر کفالتِ عامہ کا اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔

حکومت ہر فرد کی بنیادی ضروریات، روٹی، لباس، رہائش، علاج اور تعلیم کی ضرورت پوری کرنے کی ذمہ داری اٹھائے اور زکوۃ میں ہونے والی لوٹ کھسوٹ کو ختم کرے۔ اس فنڈ سے رفاہی ادارے قائم کرے، جن میں سرفہرست بیت المال کو منظم کرنا ہے۔ بھیک مانگنے کو حکماً بند کردیا جائے۔ اوقاف سے حاصل ہونے والی کروڑوں روپے کی آمدنی اور زکوۃ کے نام پر جمع ہونے والی اربوں روپے کی دولت سے غربت کے خاتمے کی مفید و مستقل راہیں تلاش کرے۔ کمی وسائل کی نہیں بلکہ حسنِ تدبیر، خلوص اور ایمان و احساس کی کمی ہے۔ آمدنی کے ان ذرائع کو مزید ترقی دی جاسکتی ہے۔ جس بھوک و افلاس کو اس ملک کا مقدر بنالیا گیا ہے، جس پسماندگی کو ہماری لازمی صفت بنالیا گیا ہے، وہ بھوک وہ افلاس اور پسماندگی ہر گز ہمارا مقدر نہیں بلکہ ظالمانہ، سرمایہ داری و جاگیرداری کے شیطانی سامراجی نظام نے اپنی نحوست کا سیاہ داغ ہماری پیشانی پر چسپاں کررکھا ہے۔

ہم اس ملک میں اسلامی نظام عشر و زکوۃ صحیح و مکمل طور پر نافذ کرکے سود، جوا، شراب اور بے حیائی و فحاشی و منشیات کے خاتمہ سے حقیقی اسلامی انقلاب لاسکتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں کوئی کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کرے۔ ہر شخص کو عزت و وقار کی پرسکون زندگی میسر آئے۔ محبت و اخوت کی فراوانی ہو، نفرت و کدورت، بغض و حسد کا خاتمہ ہو، ہر شخص اپنے مفاد کے بجائے دوسروں کا بھلا چاہے۔ امن ہو، سکون ہو، محبت ہو۔

زکوٰۃ کی عدم ادائیگی پر قرآنی وعید

جو صاحب ثروت اور صاحب استطاعت لوگ زکوۃ کی ادائیگی کے احکامات کو پسِ پشت رکھتے ہیں اور حکم عدولی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے خلاف سخت عذاب کی وعید سنائی ہے:

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ اْلاَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ.

’’اے ایمان والو! بے شک (اہلِ کتاب کے) اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال ناحق (طریقے سے) کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (یعنی لوگوں کے مال سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور دین حق کی تقویت و اشاعت پر خرچ کیے جانے سے روکتے ہیں)، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں‘‘۔

(التوبة، 9: 34)

اسی طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے عدمِ ادائیگی زکوۃ پر لوگوں کو روزِ محشر ان کے اموال کے ساتھ سخت حشر کرنے کی وعید بھی بیان کی:

یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ هٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ.

’’جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی پھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور ان سے کہا جائے گا) کہ یہ وہی (مال) ہے جو تم نے اپنی جانوں (کے مفاد) کے لیے جمع کیا تھا سو تم (اس مال کا) مزہ چکھو جسے تم جمع کرتے رہے تھے‘‘۔

(التوبة، 9: 35)

جو لوگ مال و دولت اکٹھا کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اَلْهٰـکُمُ التَّکَاثُرُ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ.

’’تمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیا یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے‘‘۔

(التکاثر: 1۔2)

انسان فطرتاً بڑا حریص اور مادیت پرست ہے۔ وہ مال و دولت اور جاہ و منصب سے محبت اور دنیا کی حرص و طمع اس کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ ہابیل نے قابیل کا قتل بھی خواہشِ نفس کی تسکین کے لئے کیا تھا۔ کثرتِ مال کی وجہ سے یہی لوگ اپنا حقیقی مقصد بھول جاتے ہیں اور اس مال میں سے اپنا حصہ غریبوں اور یتیموں پر خرچ نہیں کرتے تو اس کثرتِ مال کی محبت نے انہیں قبروں تک جاپہنچایا جس پر وہ نازاں و خراماں تھے۔

ادائیگی زکوۃ، مال کی پاکیزگی کاسبب

حضرت جابرص روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یارسول الله! اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی؟ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

مَنْ أَدَّی زَکَاةَ مَالِهِ فَقَدْ ذَهَبَ عَنْهُ شَرُّهُ.

’’جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی، اس مال کا شر اس سے جاتا رہا ۔‘‘

(اخرجه ابن خزیمة فی الصحیح، 4/13، الرقم: 2258)

معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہے کہ دولت کے بہاؤ کا رخ دولت مندوں سے غریبوں کی طرف ہو اور اس کا مستقل انتظام زکوٰۃ کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ زکوۃ کی برکت سے امیروں کی دولت غریبوں کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ اگر معیشت کو اسلام کے نظامِ زکوٰۃ کے ذریعے معاشرے کی کماحقہ بنیادوں پر استوار کیا جائے اور نظامِ زکوۃ کے عمل کو اوپر سے نچلی سطح تک منظم، مربوط اور مستحکم کیا جائے تو اسلام کے اس روشن اصول کے ذریعے معاشرے سے تنگدستی اور غربت کے اندھیروں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

آج کے دور میں ضرورت اس امرکی ہے کہ نظامِ زکوۃ کو منظم و مربوط طریق سے فعال کیا جائے تاکہ اس کے فوائد و ثمرات سے حقدار لوگ صحیح معنوں میں مستفیدہوسکیں۔ کسی ایک فرد کو یا بہت سارے افرادمیں مال زکوۃ کی تقسیم سے زکوۃ کی ادائیگی تو ہوجاتی ہے مگر غربت اور مفلسی کا مرض اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔ ایک سال میں چند ہزار روپے کسی کو دے کر یہ سمجھ لینا کہ اس کے لئے ضروریاتِ زندگی کا سامان ہوگیا، آج کے دور میں یہ ناممکن ہے۔ وقتی طور پر اس کی حاجت ضرور پوری ہوجاتی ہے لیکن وہ مفلسی اور غربت سے ہمیشہ کے لئے تب نجات حاصل کرے گا جب تک اسے ایک مستقل ذریعہ معاش نہ مہیا کیا جائے۔

تحریک منہاج القرآن یہی عزم مصمم لئے ہوئے حقیقی طور پر رفاہی اور فلاحی منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن تعلیم، علاج، فلاحِ عام کانعرہ لئے ہوئے آج حقیقی معنوں میں معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے سرگرم عمل ہے۔ لہذا صاحب استطاعت لوگ اپنی زکوۃ، عطیات، صدقات اور خیرات MWF کو عطیہ کریں تاکہ معاشرے کے مستحق اور حاجت مند لوگ اس سے کماحقہٗ مستفید ہوسکیں۔