ارشاد باری تعالیٰ ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَان.
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں۔‘‘
(البقرة، 2: 185)
اللہ رب العزت نے صرف اور صرف ماهِ رمضان المبارک کو یہ قدر و منزلت عطا کی ہے کہ اس کے دامن کو نزولِ قرآن مجید سے آراستہ کردیا ہے اور پھر رمضان المبارک کے پورے مہینے کی راتوں اور دنوں میں سے مزید تخصیص کرتے ہوئے لیلۃ القدر کے بابرکت لمحات میں قرآن مجید کو نازل کیا۔
لیلۃ القدر مسلمانوں کے لیے ایک عظیم خیر و برکت کی رات ہے جس کے دامن میں اللہ رب العزت نے قرآن مجید کو سارے انسانوں کے لیے ھدیً للناس کے شرف کے ساتھ اتارا ہے اور تمام اہل ایمان کے لیے اسے ھدیً للمتقین کے اعزاز کے ساتھ نازل کیا ہے۔ اس رات کا تعین بھی خود زبان رسالتمآب ﷺ نے کردیا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تحروا لیلة القدر فی الوتر من العشر الاواخر.
’’لیلۃ القدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب الصیام، 1: 27)
’’تحروا‘‘ کا حکم ان خوش نصیبوں کے لیے ہے جو اس رات کی تلاش کا ارادہ کرتے ہیں۔ جن کی تمنا ہے کہ کاش ہم اپنی زندگیوں میں نزولِ قرآن مجید کی رات کو پالیں اور اس مبارک رات کے دامن میں اللہ کے حضور ذکر و مناجات، عبادت و ریاضات اور اللہ کے حضور عاجزی اور بندگی کا اظہار کریں۔
اس رات کو نزول قرآن مجید کے باعث باری تعالیٰ نے ’’خیر من الف شہر‘‘، ہزار مہینوں سے افضل رات قرار دیا ہے۔ ہزار راتوں کی عبادت کا ثواب اس قدر نہیں ہے جتنا ثواب و اجر اس ایک اکیلی رات کی عبادت و ریاضت کا ہے۔ اس لیے فرمایا اس رات کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے تلاش کرو۔
لیلۃ القدر رحمت و سلامتی کی رات ہے
یہ رات نزولِ قرآن مجید کے باعث اللہ کی رحمتوں کے نازل ہونے کی رات ہے اور اس کی ایک علامتِ رحمت یہ ہے کہ اس رات کی ہر ساعت میں ملائکہ کا نزول زمین کی طرف جاری و ساری رہتا ہے۔ کل ملائکہ اور روح الامین جبرئیلe فرشتوں کے جھرمٹ میں اہلِ زمین کو اللہ کی رحمت کی نوید سناتے ہیں اور طالبانِ رحمت کو رحمتِ الہٰیہ تک واصل کرتے ہیں۔ ان فرشتوں کا نزول اس رات میں اللہ کی رحمت کے تغلب اور تفوق کی علامت ہے۔ یہ رات اللہ کی رحمت کے غلبے کی رات ہے۔ اس رات کو ہر طالبِ خیر کو خیر عطا کردی جاتی ہے، ہر طالبِ رحمت کو رحمتِ الہٰیہ اپنے دامن میں لے لیتی ہے اور ہر طالبِ صدق کو اس کی منزل مراد مل جاتی ہے۔
نزول قرآن مجید کی اس رات کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس رات میں اللہ رب العزت کی بارگاہ سے ہر نوع کی سلامتی بٹتی ہے اور یہ رات انسان کو ظاہری اور باطنی برائیوں سے بچانے، عیبوں سے محفوظ رکھنے، مصائب و آلام، رنج و غم سے نجات دینے کی رات بن جاتی ہے۔ نزولِ قرآنِ مجید کے باعث یہ رات شیطان کے وساوس اور حملوں سے بچائو کا سبب بھی ہے۔ الغرض یہ رات ہر نوع کی سلامتی کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ رات ’’خیر من الف شہر‘‘ کا اعزاز رکھتی ہے۔
قرآن مجید میں متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں قرآن مجید خود اپنا تعارف کرواتا ہے اور اپنی قدرو منزلت اور شان و مقام سے انسانوں کو آگاہ کرتا ہے۔ ذیل میں تعارفِ بزبانِ قرآن کے ضمن میں چند آیات درج کی جارہی ہیں:
1۔ عظیم الشان کتاب
قرآن مجید کا تعارف سب سے پہلے قرآن مجید میں یہ فرماکر کروایا گیا:
الٓمّٓ. ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَج فِیْهِ ج هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ.
’’الم (یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔‘‘
(البقرة، 2: 1-2)
قرآن مجید اپنا تعارف ذلک الکتاب، کے الفاظ کے ساتھ کرارہا ہے۔ عربی قاعدہ یہ ہے کہ کوئی چیز سامنے ہو، قریب ہو تو اس کے لیے ھذا (یہ) اسم اشارہ استعمال کرتے ہیں۔ قاعدہ کی رو سے یہاں پر بھی ھذا الکتاب ہونا چاہیے تھا مگر یہاں قاعدے سے ہٹ کر اسمِ اشارہ قریب کی بجائے اسمِ اشارہ بعید ذلک (وہ) استعمال فرمایا کہ ’’وہ کتاب‘‘۔ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ قرآن مجید اس اسلوب کے ذریعے اپنی عظمت و رفعت اور بلندی و بزرگی کو بیان کررہا ہے کہ یہ کتاب اگرچہ تمہارے قریب ہے اور تم اسے اپنے ہاتھوں میں تھام کر تلاوت کررہے ہو مگر اسے کوئی معمولی کتاب نہ سمجھنا بلکہ ’’ذلک الکتاب‘‘ یہ وہ عظیم الشان کتاب ہے جو آسمانوں سے اتاری گئی ہے، یہ لوح محفوظ سے تعلق رکھنے والی ہے، یہ اللہ کا کلام ہے، اس کتاب کا نزول اللہ کے حکم سے جبرئیل امین کے ذریعے ہوا ہے۔ یہ قلبِ رسول ﷺ پر نازل ہوئی ہے اور اس میں قیامت تک آنے والے مسائل کا حل بیان فرمادیا گیا ہے۔ اس کتاب کی اسی عظمت و شان کے پیشِ نظر ہی اسے اسمِ اشارہ بعید ’’ذلک‘‘ کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔
2۔ ھدًی للمتقین
قرآن مجید اپنا دوسرا تعارف یہ کرواتاہے کہ ھدًی للمتقین ’’قرآن پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔‘‘
قرآن مجید کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ سارے انسان اس عظیم الشان کتاب سے ہدایت پائیں مگر بطورِ خاص اس کی ہدایت سے وہ لوگ مستفید ہوں گے جو زیورِ تقویٰ سے آراستہ ہوں، فرمانبرداری اور شکر گزاری کے سفر پر گامزن ہوں، جو اپنے مولا کی طرف رغبت کی تمنا و خواہش رکھتے ہوں اور جو لباسِ تقویٰ سے آراستہ ہوں، ایسے ہی لوگ قرآنی ہدایت کے نصاب پر پورا اترتے ہیں۔
گویا قرآنی ہدایت سے مستفید ہونے کی پہلی صورت یہ ہے کہ خود کو متقی، پرہیزگار بنایا جائے۔ تقویٰ اور پرہیزگاری کی سعادت، رب کی عبادت و ریاضت اور اس کے احکام کی تعمیل اور اپنے وجود پر ان کی تنفیذ سے میسر آتی ہے۔
3۔ کتاب مبین
قرآن مجید نے اپنا تعارف کتاب مبین کے طور پر بھی کروایا۔ ارشاد فرمایا:
قَدْ جَآئَکُمْ مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ.
’’بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد ﷺ ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (قرآن)۔‘‘
(المائدة، 5: 15)
یعنی یہ قرآن مجید کوئی معمولی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ رب کی طرف سے کتاب مبین ہے۔ یہ قرآن مجید انسانوں کے اقوال، اعمال، احوال و اخلاق اور قلوب و اذہان کو روشن کرنے والا ہے۔ قرآن مجید پر عمل میں انسانوں کی نجات ہے اور قرآن مجید پر عمل سے دوری انسانوں کی ہلاکت و تباہی ہے۔
قرآنی ہدایت قرآن میں غورو فکر کے ذریعے ممکن ہے
سوال یہ ہے اس کتابِ لاریب اور اس کتابِ مبین سے فائدہ کیسے اٹھایا جائے؟ قرآن مجید اپنے اندر موجود الوہی ہدایت سے مستفید اور مستنیر ہونے کا طریقہ بھی خود ہی بیان کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ.
’’نیز یہ کہ میں قرآن پڑھ کر سناتا رہوں ۔‘‘
(النمل، 27: 92)
سورہ فاطر میں ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللهِ.
’’بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں۔‘‘
(فاطر، 35: 19)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہدایتِ الہٰیہ کے حصول کا پہلا ضابطہ اور قاعدہ یہ ہے کہ اس قرآن مجید کی بار بار تلاوت کی جائے، آیات میں تفکر و تدبر کا عمل اختیار کیا جائے، اس قرآنی ہدایت کے ساتھ اپنا تعلق و شغف قائم کیا جائے، تمسک بالقرآن کا یہ عمل جتنا مضبوط اور مستحکم ہوگا، اسی قدر قرآن مجید کے دامن سے قرآنی ہدایات کے چشمے پھوٹنے لگیں گے۔
قرآن مجید کی وہ تلاوت جس کا مقصود اللہ کی رضا و خوشنودی ہوتی ہے اور جس کا مدعا خود کو ہدایتِ الہٰیہ سے آراستہ کرنا ہوتا ہے اور وہ تلاوت جو سراسر اخلاص فی الدین پر مشتمل ہوتی ہے اس کا لازمی نتیجہ ہدایت ہی نکلتا ہے۔ جس کی طرف قرآن مجید یوں اشارہ کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
فَمَنِ اهْتَدٰی فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ.
’’جس شخص نے (تلاوت قرآن مجید کے ذریعے) ہدایت قبول کی تو اس نے اپنے ہی فائدے کے لیے براہ راست ہدایت قبول کی۔‘‘
(النمل، 27: 92)
قرآن مجید کی تلاوت اور حقِ تلاوت
قرآن مجید کو کثرت سے پڑھا جائے۔ تلاوتِ قرآن مجید کرتے وقت فقط الفاظ، حروف، کلمات اور اعراب ہی کا خیال نہ رکھا جائے بلکہ ان حروف، الفاظ، کلمات اور جملوں کے معانی و مطالب اور ان میں موجود معارف و اسرار تک بھی رسائی حاصل کی جائے۔ ہماری تلاوت قرآنی الفاظ و کلمات تک محدود ہے۔ بلاشبہ ان قرآنی الفاظ میں سے ہر لفظ کی تلاوت دس نیکیاں عطا کرتی ہے مگر ہمیں اپنی تلاوت میں معانی و مفاہیم میں غوروفکر کو بھی شامل کرنا ہے۔ جس کی طرف قرآن مجید ہمیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر متوجہ کرتا ہے۔
قرآن مجید کے فقط پڑھنے میں اجرو ثواب ہے مگر قرآن مجید کے سمجھنے اور اس میں غوروفکر کرنے میں نجات ہے۔ ہماری زندگی کی کامیابی و کامرانی قرآن مجید کو سمجھنے اور قرآن مجید کی تعلیمات کو اپنانے میں ہے۔ ارشاد فرمایا:
اَفَـلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا.
’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے)ہیں۔‘‘
(محمد، 47: 24)
قرآن مجید کی کامل تلاوت وہ ہے جس میں الفاظ و کلمات کے ساتھ ساتھ معانی و مطالب میں بھی غوروفکر کیا جائے۔ ہم قرآن مجید کی ناقص اور نامکمل تلاوت کرتے ہیں، ہم قرآن مجید کو بطور ثواب پڑھتے ہیں اور حصولِ ہدایت کے لیے قرآن مجید کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ قرآن مجید ہماری زبانوں میں سنائی دیتا ہے مگر قرآن مجید ہمارے عمل میں مفقود ہے۔ جبکہ قرآن مجید کہتا ہے کہ مجھے اس طر ح پڑھو کہ حقِ تلاوت ادا ہوجائے۔ قرآن مجید اپنے اس حق تلاوت کی طرف ہمیں یوں متوجہ کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَه حَقَّ تِلاَوَتِهٖ اُولٰٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ.
’’ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسے پڑھنے کا حق ہے۔‘‘
(البقره، 2: 121)
قرآن مجید آج ہمیں یہ دعوتِ فکر دے رہا ہے کہ ہم اس کی تلاوت اس طرح کریں کہ حقِ تلاوت ادا ہوجائے اور یہ حقِ تلاوت قرآن مجید کے پڑھنے اور سمجھنے سے عبارت ہے۔
قرآن حکیم کی تلاوتِ کامل ہی ہمیں اللہ کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری کی طرف لے جاتی ہے۔ جو قرآن مجید سے اخلاص کا تعلق رکھتا ہے، قرآن مجید اسے رب کی فرمانبرداری کی منزل کی جانب لے جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَّاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ. وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ.
’’اور مجھے یہ حکم بھی دیا گیاہے کہ میں اللہ کے فرمانبرداروںمیں رہوں نیز یہ بھی کہ قرآن مجید کی تلاوت کرتا رہوں۔‘‘
(النمل، 27: 91-92)
قرآن مجید کا پیغام عالمِ انسانیت و عالمِ اسلام کے نام یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ کی فرمانبرداری کو اختیار کیا جائے اور اللہ کے عطا کردہ احکام کو اپنی زندگی میں نافذ کیا جائے۔ صحفِ سماوی کے حوالے سے سب کی تصدیق کرنے والا آخری اور سچا کلام قرآن مجید ہے اس کی تعلیم کو اپنانے میں عالمِ انسانیت کی نجات اور مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی ہے۔
خلاصۂ کلام
رمضان المبارک کا یہ مقدس مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ باری تعالیٰ نے اس مہینے میں قرآن مجید کو نازل کیا اور قرآن مجید رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات لیلۃ القدر کو نازل ہوا جو رات خیر من الف شہر کا اعزاز رکھنے والی ہے۔ اس قرآن مجید کو باری تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے شفا اور رحمت بنایا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَنُـنَـزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ.
’’اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرمارہے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔‘‘
(الاسراء، 17: 82)
قرآن مجید ہمارے ظاہری اور باطنی امراض کے لیے سراسر شفا ہی شفا ہے اور ہمارے لیے اللہ کی رحمت کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہمیں آج سے ہی قرآن مجید کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو ہمارے تمام امراض کے لیے شفا ہے اور جسے اللہ نے ہمارے لیے رحمت ہی رحمت بنایا ہے۔ رجوع الی القرآن کی صورت یہ ہے کہ ہم اس کے الفاظ و کلمات کی تلاوت بھی کریں اور اس کے معانی و مطالب میں بھی غورو فکر کریں۔ یوں حقِ تلاوت ادا ہوگا اور اسی حقِ تلاوت سے ہمیں وہ ہدایت میسر آسکتی ہے جو قرآن مجید کے نزول کا بنیادی مقصد اور امتیاز ہے۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ.
’’بے شک یہ قرآن اس (منزل) کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سب سے درست ہے ۔‘‘
رمضان المبارک میں ہمیں قرآن مجید اور صاحبِ قرآن کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ، اللہ کی بارگاہ سے ہمارے لیے سب سے بڑا تحفہ قرآن مجید ہی لائے ہیں، آج ہمیں اپنی زندگی میں قرآن مجید کو داخل کرنا ہے۔ قرآنی احکام کو اپنے وجود پر نافذ کرنا ہے۔ ایسی صورت میں کل روزِ قیامت اللہ کے حضور اور رسول ﷺ کے سامنے ہم سرخرو ہوسکیں گے۔ ہم قرآن مجید سے لاتعلقی کی وجہ سے ایسی قوم نہ بنیں کہ کل قیامت کے دن ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں شرمندہ ہورہے ہوں اور اللہ کے رسول ہم سے شکوہ کناں ہوں۔ قرآن مجید بیان کرتا ہے:
وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا.
’’اور رسولِ (اکرم ﷺ ) عرض کریں گے: اے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا۔‘‘
(الفرقان، 25: 30)
آیئے آج اس قرآن مجید سے اپنا تعلق مضبوط کریں اور اس قرآن مجید کی ہدایت کو اپنی زندگیوں میں داخل کریں، اسی میں ہماری کامیابی اور نجات ہے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر