اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.
’’بے شک الله کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔‘‘
(الرعد، 31: 11)
کسی بھی قوم کی ترقی و عروج کے لیے تعلیم اور تعلیمی نظام کی اہمیت وافادیت اظہر من الشمس ہے اور نظامِ تعلیم کی کامیابی اور موثریت کا انحصار اس کے مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے وضع کردہ نصابِ تعلیم پر ہوتا ہے کہ اس نصاب میں کتنی وسعت ہے۔ عصرِ حاضر میں کامیاب نصاب وہ ہے جو ایک طرف ماضی سے بھی اپنا رشتہ مستحکم رکھے ہوئے ہو اور دوسری طرف حال پر اس قدر حاوی ہو کہ مستقبل پر اس کی صرف نظر ہی نہ ہو بلکہ آنے والا زمانہ بھی پوری طرح اس نصاب کے فاضل کے علم وفکر اور شعور وبصیرت کی گرفت میں ہو۔
وہی نصابِ تعلیم کشتی ملت کو بھنور سے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو اپنے دامن میں مذکورہ بالا خصائص کی دولت گراں مایہ رکھتا ہو۔ اگر مقررہ نصاب اس خوبی سے محروم ہے تو پھر وہ اثر پذیری کی صلاحیت سے بھی عاری ہو گا۔
اگر ہم برصغیر کی علمی تاریخ کے ماضی پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ آج بھی ہمارے مدارس کی غالب اکثریت میں صدیوں پہلے حضرت ملاں نظام الدین سہالوی کا مرتب کردہ نصابِ تعلیم ہی کسی قابلِ ذکر ترمیم کے بغیر مروج ہے۔ یہ نصاب یقیناً اپنے زمانے کے حالات کے مطابق درست ہوگا مگر اب کاروانِ حیات نہ جانے کتنی منزلیں طے کرتے ہوئے اپنی انتہائی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور ہم زمینی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس نصابِ کہنہ کو اپنے گلے کا ہار بنائے ہوئے ہیں۔
یہ نصابی ماڈل موجودہ دور کے جدید علوم کے فقدان کی وجہ سے موجودہ عمرانی ضرورت کی کفالت کی وہ صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس لیے اس نصاب کو پڑھ کر مدارس سے نکلنے والی کھیپ عام طور پر برق رفتار سائنسی ترقی کے دور میں تیز رو قافلۂ زندگی کا ساتھ دینے میں مشکل محسوس کرتی ہے۔
ان حالات میں شدت کے ساتھ یہ ضرورت محسوس کی جار ہی تھی کہ علومِ دینیہ کی جدید خطوط پر تدریس وتبلیغ کے لیے ایک ایسا نصاب ترتیب دیا جائے کہ جس کی تکمیل کر کے میدانِ عمل میں آنے والے نو نہالانِ قوم کا ایسا گروہ کارگہ حیات میں قدم رکھے کہ جس کا علم سمندر کی طرح بیکراں اور جن کی سیرت مہر عالم تاب کی طرح روشن اور بے داغ ہو۔ عقیدہ کی صلابت، علم کی ثقاہت اور فکرونظر کی گہرائی ان کی پہچان ہو اور وہ فرزندانِ قوم آفاق عالم کی وسعتوں کے ایسے امین ہوں کہ جن کا میزانِ فہم وفراست مشرق ومغرب کی وسعتوں کا احاطہ کرتا ہو۔
چنانچہ یہ وہ احساسات اور تقاضے تھے جن کو سامنے رکھتے ہوئے مجددِ وقت، نابغۂ عصر، مسلم دنیا کے عظیم ماہرِ تعلیم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ نے نوجوانانِ قوم کی علمی وفکری ا ور اخلاقی و روحانی رہنمائی کے لیے ایک مثالی نظام العمل اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ایک ایسا نصابِ تعلیم ترتیب دیا ہے جو کئی جہتوں سے اپنے معاصر رائج نصابات سے ممتاز ہے۔
نظام المدارس کے اس جدید اور جامع نصاب میں قدیم اسلامی علمی ورثے کے امین علوم وفنوں، معاصر اسلامی تہذیب وثقافت کے مظہر مضامین اور نو ایجاد عمرانی علوم کی شمولیت جہاں اس نصاب کی ندرت وانفرادیت کا پتہ دیتی ہے وہاں اس نصاب کے مرتب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی وسعتِ فکر ونظر اور تجدید ی و اجتہادی بصیرت کی شہادت بھی دیتی ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں امید قوی ہے کہ نظام المدارس کے اس نصاب کا فیض یافتہ سکالر اپنی مہک سے معاشرے میں پائی جانے والی فرقہ وارنہ روش، سماجی تعصبات، فکری تنگ نظری، اعتقادی اعتزال وخارجیت اور تکفیری سوچ کے تعفن کو ختم کر کے ہر سو عظمتِ توحید، محبت رسول ﷺ، حبِ اہلِ بیت، تعظیمِ صحابہ اور تکریمِ اولیاء کی روح پرور اور ایمان افروز بہاروں کو فروغ دے گا۔
اس نصاب میں ابتداء سے لے کر تکمیل تک پورے تعلیمی دورانیہ میں علم وفکر کی اساس قرآن حکیم اور معلمِ اعظم ﷺ کی احادیث مبارکہ کو اس طرح عملی تدریس کا حصہ بنایا گیا ہے کہ جس سے طالب علم نہ صرف ان اساسی چشمہ ہائے صافی سے متعارف ہو گا بلکہ وہ فکرو شعور کے ان الوہی منابع سے اخذِ فیض کرتے ہوئے ان کی گہراہیوں تک رسائی حاصل کرنے کی اعلیٰ صلاحیتوں سے بھی بہرہ ور ہوگا۔
قرآن وسنت سے کشید کردہ علومِ فقہ اور اصولِ فقہ کو بھی تفصیل کے ساتھ لازمی مضامین کی صورت میں شاملِ نصاب کیا گیا ہے تا کہ اس نظام کے تحت علم حاصل کرنے والا ہر فاضل تیزرو تہذیبی ترقی اور روز بروز ہونے والے نت نئے سائنسی انکشافات کے نتیجہ میں بدلتے ہوئے مسائلِ حیات کا ٹھوس علمی دلائل کی بنیاد پر اس طرح کا حل پیش کرے کہ اسلام کے ابدی حقائق کو موجودہ عقل پرست طبقہ بھی خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے۔
سیرت وتصوف کے مضامین کو بھی تفصیل کے ساتھ اس نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ سندِ فضیلت پانے والا ہر فرد علم و عمل کا ایسا پیکر ہو کہ سیرتِ مصطفوی ﷺ کے انوار اور مقربینِ بارگاہ الہ کے فیوض سے روشن دل پذیر ہو اور ویزکیکم کی چلتی پھرتی تفسیر ہو ۔
اس کے ساتھ ساتھ جدید عصری علوم؛ اقتصادیات، سیاسیات، کمپیوٹر سائنس، دعوت وارشاد، تقابلِ ادیان،اسلامی افکارو نظریات،وسطیات اور انگریزی وعربی زبان وادب کو بھی شاملِ نصاب کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ اس منہج دراسی کی تکمیل کرنے والے فاضل کی دینی ودنیاوی دونوں آنکھیں کھلی ہوں اور وہ صرف مصلیٰ اور محراب تک محدور رہنے کی بجائے صنعت و حرفت، معیشت و سیاست اور فکر وعمل کے میدان میں بھی بوقتِ ضرورت پامردی اور جرأت رندانہ سے صدائے حق بلند کر کے اقبال کے اس شعر کا مصداق بن سکے:
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
بارگاہ رب العزت میں دعاگوہوں کہ وہ ملتِ اسلامیہ کو زوال وانحطاط کے عمیق گڑھے سے نکالنے کے اس عظیم اور پاکیزہ مقصد میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں ہمیں کامیابی عطا فرمائے اور اس اقدام کو دنیا وآخرت میں خیر وبرکات کا ذریعہ بنائے۔