فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی شخصیت ہمہ جہت اوصافِ حمیدہ کی حامل تھی۔ زیرِ نظر تحریر میں آپ کی شخصیت کے چند ایسے پہلو بیان کیے جارہے ہیں، جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ واقعتا اگر مربی و رہنما ایسے ہوں تو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جیسی شخصیات ان کی فکر اور تعلیم و تربیت کے عملی اظہار کی صورت میں مطلع علم پر طلوع ہوتی ہیں:
حضرت فریدِ ملتؒ اوامر ونواہی پر عمل اور پابندی کرنے کے باعث امر بالمعروف کی عملی تفسیر بن گئے تھے۔ خدا گواہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے احکامات کی متابعت و اطاعت آپ کی رگ جان میں سرایت کرچکی تھی۔ جس کے باعث آپ بارگاہِ الوہیت اور بارگاہِ مصطفوی ﷺ میں حصولِ مقبولیت اور مرتضائی کی علامت بن گئے تھے۔
فرید ملتؒ کی ساری زندگی اطاعتِ الہٰی اور اطاعتِ مصطفی ﷺ کے تحت عجز و انکساری میں گزری ہے۔ لاریب آپ بندگیٔ خدا کے عظیم خوگر تھے۔ رب العزت کے عبادالصالحین کے طبقہ اول میں سے تھے۔ آہ و فغانِ نیم شبی کے باعث ہمیشہ بارگاہ ایزدی میں ’’توبۃ النصوح‘‘ طلب کرتے اور ساری رات آب دیدہ رہتے، مصلیٰ پر کھڑے کھڑے خشیت ایزدی کے باعث ہچکی بندھ جاتی اور ساری ساری رات مالک یوم الدین کو منانے میں گزر جاتی۔ فرید ملتؒ حقیقی معنی میں صراط الذین انعمت علیہم کی عملی تفسیر تھے۔
فرید ملتؒ راتوں کو خدا اور رسول ﷺ کی اطاعت گزاری اور خوفِ خدا میں گریہ و زاری کے باعث اپنی جبینِ نیاز حاکم دو جہاں کے حضور بسجود رکھتے تھے۔ ان کی زندگی میں ہمیشہ میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ خوفِ خدا اور ادبِ عشق مصطفی ﷺ کے باعث جائے نماز پر آپ پر خوف سے کپکپی طاری رہتی اور کسی لمحے چہرہ خوشی سے شاداں و فرحاں نظر آنے لگتا۔ میری دانست کم مائیگی کے مطابق ایسی حالت طاری ہونے کی دو وجوہات تھیں:
- دیدارِ الہٰی کی جلالت اور تمکنت سے خوف طاری ہوتا تھا۔
- دیدارِ مصطفی کریم ﷺ سے خوشی اور شادمانی کی لہر دوڑ جاتی تھی۔
فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ لاریب جہاں بے شمار اوصاف حمیدہ، علمی کمالات کے حامل اور کشفی فیوضاتِ الہٰیہ کی خیرات سے مالا مال تھے وہاں آپ کا وصف حقوق اللہ اور حقوق العباد بھی درجہ کمال کو چھوتا نظر آتا ہے۔
فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری عکس آئینہ قرآن میں فیوضاتی طور پر اور اسوہ حسنہ مصطفی ﷺ اور اسوہ اولیائے عظام سے متصف تھے۔ ذیل میں حضرت فریدِ ملتؒ کے چند روحانی و وجدانی اوصاف نذرِ قارئین ہیں:
1۔ مطالب و معارفِ قرآنی پر دسترس
فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کو مطالب و معارف قرآن پر مکمل دسترس تھی۔ تاہم مطالعہ احادیث شریف پر نہ صرف مضبوط گرفت تھی بلکہ ملکہ حاصل تھا۔ خصوصاً بخاری شریف پر یدِطولیٰ رکھتے تھے۔
2۔ مشاہدۂ رجال الغیب
فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ مستجاب الدعوات تھے۔ خانہ کعبہ شریف کی حاضری کے دوران خواہش ہوئی کہ رجال الغیب سے ملاقات کرنی ہے۔ بارگاہ رب العزت میں دعا کی اور عرض کیا کہ رب کعبہ دکھا دے رجال الغیب کیسے ہوتے ہیں؟ فارغ ہوکر پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک پر تمکنت نورانی اجنبی شخصیت فرید ملتؒ کے روبرو کھڑی تھی۔ یہ شخصیت آپ سے مخاطب ہوکر ہوکر فرمانے لگی: فریدالدین! میں آپ کی ابھی مانگی گئی دعا ہوں۔ محبت سے ہاتھ ملایا اور وہ رجل الغیب اچانک غائب ہوگئے۔
3۔ کامل توکل کے حامل
میں نے اپنی پوری زندگی میں خدا کی عزت کی قسم! فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ جیسے کامل متوکل بندہ خدا اور خشیت ایزدی کا خوگر نہیں دیکھا۔ ہونے والے واقعات اور امور پر اتنا یقینِ کامل کہ جیسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہوں۔ جو جائز خواہش آپ کے دل میں آتی، رب العزت پوری فرمادیتے تھے۔
4۔ وظیفہ مزمل شریف، حزبِ بحر اور ملاقات خضر علیہ السلام
حضرت فرید ملتؒ کو خصوصی تقویٰ قلبی، وظیفہ مزمل شریف اور وظیفہ حزبِ بحر کے باعث حضرت خضر علیہ السلام سے بارہا شرفِ فیضیابی اور شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ کیا راز و نیاز ہوتے تھے ان سے ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ نے کبھی پردہ نہیں اٹھایا لیکن ملاقات کی بابت ضرور بتا دیتے تھے۔
5۔ فارسی، عربی، اردو اور پنجابی زبان پر ملکہ
فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کو رب کائنات نے خاص ذہانت، فطانت اور علمی ادراک سے نواز رکھا تھا۔ اردو، عربی، فارسی اور پنجابی زبان پر عبور و ملکہ حاصل تھا۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ آپ کے خطاب دلپذیر کے دوران باوضو الفاظ ہاتھ باندھے اپنی اپنی باری کے منتظر نظر آتے تھے۔
6۔ عشقِ مصطفی ﷺ میں رومیِ ثانی
فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ رومیِ ثانی اور فخرِ عاشقین تھے۔ مجتہد اعظم اور مجدد رواں صدی قدوۃ المشائخ ملت اسلامیہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ سے دوہری نسبت حاصل تھی۔ ایک شرفِ پدری اور دوسرا تعلقِ اتالیقی یعنی کہ آپ نے اپنے فرزند کو ابتدائی تعلیم تربیت سے بہرہ یاب فرمایا جیسا کہ ابتدائی علوم شریعہ/ حدیث، فقہ، نحو وغیرہ۔ مزید برآں آپ نے بچپن میں ہی فرزند ارجمند کو خوگرِ نماز تہجد اور ذکر و اذکار بنایا۔
7۔ نامور مناظرِ اسلام
فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ بے مثل مناظر اسلام، خطیب الدھر، ابوالکلام، علو ہمت، نامور عالم دین، استاذ العلماء، ذبدۃ الحکماء، سراپائے حکمت، ساجد نیم شبی، صاحبِ کشف القبور، مسیحاءِ دوراں اور تحریک منہاج القرآن کے محسنِ اعظم تھے۔
8۔ صراط الذین انعمت علیہم کی تفسیر
فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ صراط الذین انعمت علیہم کی عملی تفسیر اور راہ نوردِ صراطِ مستقیم تھے یعنی کہ ان لوگوں کے راستہ پر گامزن تھے جن پر خدا تعالیٰ کا خصوصی انعام ہوتا ہے۔
9۔ ساجد نیم شبی
ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ اُن نفوسِ قدسیاں میں سے تھے جن کی جبین نیاز پر سجدوں کو ناز تھا۔
10۔ بارگاہ مصطفیؐ اور بارگاہ غوث اعظم میں حاضری کا شرف
فرید ملتؒ کو آقا دو جہاں ﷺ کی بارگاۂ اقدس کی کچہری میں حضوری کا شرف حاصل تھا اور حضور غوث الثقلین سیدنا غوث اعظمؓ کی بارگاہ اقدس میں آپ خاص شناسائی سے بہرہ ور تھے۔ دونوں بارگاہوں سے فیض یاب تھے۔
11۔ عبدالصالح
ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ حکمت و دانائی، شجاعت، مسامحت (چشم پوشی)، جودوسخا، عدالت، عفو و درگزر، حلم و بردباری اور غریب پروری کے خوگر تھے۔ ادائیگی حقوق العباد اور عبادتِ الہٰیہ آپ کی فطرت ثانیہ بن چکے تھے۔
12۔ کامل تقویٰ کے حامل
خالقِ کائنات نے ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کو کامل تقویٰ اور خشیتِ الہٰیہ کے باعث چار خصوصی ہدایاتِ ربانی ودیعت کردی تھیں:
- فطری ہدایت
- حسی ہدایت
- عقلی ہدایت
- وجدانی ہدایت
یہی ہدایاتِ روحانی اولیائے کرام کا شعار اور خاصہ ہوا کرتی ہیں۔
13۔ قافلۂ قلندراں کے میرِ کارواں
قافلۂ قلندراں کے میرِ کارواں عبدالصالح ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ اپنی عبادت گزاری، شب بیداری، گریہ و زاری، سجدہ ریزی، نیم شبی، قیام اللیل اور مناجاتِ مولا کے باعث اپنی ایک عظیم کرامت کے سبب مقبول انام ہوئے، اس کرامت عظمیٰ کا نام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہے جو آپ کے خصوصی تربیت یافتہ اور فیض یافتہ ہیں اور شہرت کے آسمان پر فرید ملتؒ کی کرامت اور شب روز کی ریاضت بن کر چمک رہے ہیں۔
14۔ ذکر و اذکار قصیدۂ غوثیہ آپ کا معمول
نماز تہجد اور نماز فجر کے بعد قصیدہ غوثیہ شریف اور قصیدہ بردہ شریف سے آپ کے وظائف اور اوراد سے روزانہ معمولات کا آغاز ہوتا تھا اور یہ روحانی سلسلہ طلوع آفتاب تک جاری رہتا۔
15۔ روحانیت کے مراحل اربعہ پہ گامزن
فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ روحانیت کے مراحل اربعہ سے گزر کر مقامِ عبدیت پر متمکن ہوئے۔ روحانیت کے مراحل اربعہ مندرجہ ذیل ہیں:
- تقویٰ کامل اور پرہیزگاری
- صبر و استقلال
- شکر گزاری
- قناعت گزاری
یہی چار عناصر روحانیت کا عمل کشید ہیں جو بندہ کو عبودیت کی کامل منزل سے روشناس کراتے ہیں۔
16۔ روحانی خصلت
فریدِ ملتؒ راہ نوردِ عشق تھے۔ آپ کے خصوصی سفرِ عشق میں خصوصی طور پر سعودی عرب، عراق، شام، ترکی شامل ہیں۔ روحانی سفر میں آپ نے جلیل القدر انبیائے کرام، صحابہ کرام، تابعین عظام اور اولیائے کرام کے مزارات پر مراقبہ کشی کی اور فیوضات و برکات سمیٹیں۔
17۔ جوائنٹ طبیہ کالج لکھنو اور کنگ جارج میڈیکل کالج لکھنو میں پڑھنے کا خصوصی شرف و اعزاز
فرید ملت نے طب یونانی اور ڈاکٹری کی باقاعدہ تعلیم جوائنٹ طبیہ کالج لکھنو اور کنگ جارج میڈیکل کالج لکھنو میں اعلیٰ اعزازات کے ساتھ حاصل کی اور اپنی ذہانت و فطانت کے بل بوتے پر اسی عرصہ میں درس نظامی اور دینی علوم کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ دینی علوم میں آپ کی تعلیم و تالیف کا سہرا فرنگی محل لکھنو کے سر ہے جہاں نامور جید علمائے کرام اور جید فضلائے کرام نے ذہانت و فطانت کے منارے کو نورِ علم سے روشن کردیا۔
18۔ لکھنوی تہذیب کا خاص اثر
لکھنوی تہذیب و تمدن نے انشاء پردازی اور سخن وری سے آپ کی شخصیت کو چار چاند لگادیئے کیونکہ لکھنو؛ علم و ادب اور شعر و سخن کا گہوارہ تھا۔ علم و ادب اور سخن پردازی آپ کی طبع نفس کی کمزوری تھی۔ علم و ادب سے غیر معمولی شغف نے تھوڑے ہی عرصہ میں آپ کو لکھنو کے نامور شعراء کرام کی صف میں لاکھڑا کیا۔
19۔ عاشقِ حقیقی
فرید ملتؒ آشنائے رموزِ عشقِ حقیقی تو تھے ہی تاہم جب فرید ملتؒ نے اپنی ہستی فنا فی الرسالت مآب ﷺ کردی تو وہ عشق مصطفی ﷺ نصیب ہوا کہ مقام فنائیت پالیا اور یوں فرید ملت کو عشق الہٰیہ کی چنگاری نصیب ہوئی۔ دونوں نعمتیں فرید ملت کے لیے حیات جاودانی تھیں۔
20۔ زہد و تقویٰ میں ممتاز
پوری زندگی زہد و تقویٰ اور عباداتِ الہٰیہ میں گزاری اور ریاضت کی منازل عبور کیں اور فیوضات مصطفی ﷺ اور عطائے رحمن کے باعث آپ کو نعمتِ کشف القبور میسر آئی۔
21۔ تصوف کی زبان میں صوفی باصفا
تصوف میں عشق و سلوک کی جو منازل طے کرنے میں پوری زندگی درکار ہوا کرتی ہے، وہ مقامِ کشف رب العزت نے تھوڑے عرصہ کی ریاضتِ نیم شبی میں عطا کردیا تھا۔ جس کے لیے علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
عشق کی اک جست نے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
22۔ عشق و جنون فریدالدین قادریؒ
فریدِ ملتؒ عشقِ حبیب کبریا ﷺ اور عشقِ الہٰی کے خوگر تھے۔ عشقِ رسالت مآب ﷺ فرید ملت کی فطرت ثانیہ تھا کیونکہ عشقِ حقیقی ہو یا لباس مجاز میں چھپا ہوا عشق، اس سے عاشق کو اک خاص طلسماتی قوت میسر آتی ہے۔ مسحور کن قوتیں چار ہیں:
- یہ عشق ہی تھا جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آتشِ نمرود میں کودنے پر مجبور کردیا۔
- یہ عشق ہی تھا جو یوسف علیہ السلام کو آزمائش کی گھڑی میں اندھے کنویں میں لے گیا۔
- یہ عشق ہی تھا جس نے اسماعیل علیہ السلام کو آدابِ فرزندی بجا لاتے ہوئے معصوم گردن چھری کے نیچے رکھنے پر مجبور کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عشقِ الہٰی کو محبتِ پدری اور شفقتِ پسری پر غالب کردیا۔
- یہ عشق ہی تھا جو تجلیِ مولا کو پانے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور پر لے گیا اور آپ کو ہم کلامی یزداں کی جرأت دے دی۔ عشق کی ضرب اتنی کاری تھی کہ طور سرمہ ہوگیا۔
23۔ ولایت اور کرامتِ عظمیٰ
قبلہ فرید ملت کی ولایتِ خاص حکمتِ خداوندی کے تحت مخفف کردی ہوئی تھی کیونکہ اس مادی شخصیت پرست دور میں ایسی آنکھیں کم تھیں جو تعصب کی عینک اتارکر ایمان کی عمیق نظروں سے مقامِ فریدِ ملتؒ کو دیکھیں اور پرکھیں۔ لہذا رب العزت نے خاص وقت اور خاص مقام کے لیے آشکاری ولایت کو التوا میں رکھ دیا تھا۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بھیدِ ولایت کھلنے سے پہلے نعمتِ ولایت میسر ہی نہ تھی بلکہ بااتم موجود تھی۔
فرید ملت ڈاکٹر علامہ فریدالدین قادریؒ کی ولایت مخفف کا بھید اور راز اس وقت کھل گیا جبکہ جنازہ حسب الحکم فرزند ارجمند شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے پڑھایا اور فوراً بعد جب آپ کے چہرے کا دیدارِ عام کروانے کے لیے چادر کشائی کی تو منظر دیدنی تھا۔ خدا کی عزت کی قسم! میں خود عینی شاہد ہوں کہ آپ باقاعدہ مسکرا رہے تھے۔ ایک لمحہ ہم یہ سمجھے شاید لذتِ نظارہ میں آنکھ ہی نہ کھول دیں اور گویا ہوجائیں۔ بعد ازاں عالم مراقبہ اور خواب میں شیخ الاسلام کے سوال پر آپ نے وضاحت فرمادی کہ::
بیٹا جی! جنازہ کے فوری بعد جب آپ نے دیدار کے لیے چادر اٹھائی تو اس سے پہلے ہی حجابات ہٹادیئے گئے تھے اور میں عالم بالا میں لذاتِ الہٰیہ میں گم مسرور ہورہا تھا، میری روح لوٹا دی گئی تھی۔ میں لامحدود نظارۂ قدرتِ حقِ تعالیٰ میں مصروف ہوگیا تھا۔
24۔ عشقِ الہٰی
ففرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ نے منزلِ مقصودِ قُربِ الہٰی کے لیے فنا فی الرسالت مآب ﷺ اور فنا فی الشیخ کی منازل طے کیں تاکہ منزلِ قربِ الہٰی نصیب ہوجائے اور محبتِ الہٰی میں فنائیت نصیب ہو۔ فرید ملت نے اس کے لیے سات منازلِ عشق طے کیں:
- منزل آشنائی عبدیت
- منزل آشنائی تزکیہ نفس
- منزل آشنائی علوم قرآنی
- منزل آشنائی حقیقت محمدیؐ
- منزل آشنائی سجدۂ شبیری
- منزل آشنائی عشق مصطفیؐ
- منزل آشنائی غفورالرحیم اور توبۃ النصوح
جب سات منازل عشق طے کرلیں تو فریدالدین قادریؒ عبادت گزاری، شب بیداری، گریہ و زاری، قیام اللیل، سجدہ ریزی، مناجاتِ نیم شبی کے باعث رب ذوالجلال والاکرام کے انعام یافتگان میں شامل ہوگئے۔ قرآن عظیم فرماتا ہے کہ:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا. وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَا.
’’بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)۔ اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)۔‘‘
(الشمس، 91: 9-10)
25۔ منطقی حقیقتِ مقام ولایتِ فریدِ ملتؒ
عبد مستجاب الدعوات فریدِ ملتِ اسلامیہ کا منصب و مقامِ ولایت منشاء ایزدی کے تحت مستتر یعنی کہ مخفف، محجوب اور چھپا ہوا تھا جو اب رب ذوالجلال کے حکمِ کن سے ولایتِ علمی، ولایتِ تجدیدی، ولایتِ وھبی سے طبیبِ امراضِ روحانیہ امت اسلامیہ قبلہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایک جستِ علمِ لدنی سے آشکار کردیا ہے۔
یاد رہے کہ قبلہ فرید ملتؒ کے فیوضات کشفی اور بشارات اور رویائے صالح کی عطا یقیناً کرامتِ فریدیہ کا روشن باب ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ:
الرویا الصالحة جزء من ستة واربعین جزء ا من النبوة.
’’نیک خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتے ہیں۔‘‘
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6588، کتاب التعبیر)
سنو! ولایتِ فریدِ ملتؒ کو کھوجنے والو آنکھوں سے تعصب کی عینک اتارنے اور بدعقیدگی کے کان کھولنے کی ضرورت ہے۔ فریدالدین قادریؒ حق طور پر نعمتِ بشارت اور فضل تعالیٰ سے سرفراز تھے۔
شیخ الاسلام کے باقاعدہ شیخ اول اور اتالیق
فنا فی غوث الوریٰ، مشتاقِ دیدار الہٰی فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ اپنے فرزندِ عزیز! فائز مقام مرتفع علمی و سمت الراس فقہی و امام حدیث قدوۃ المجتہدین مدظلہ کے پہلے باقاعدہ اتالیق نحو، فقہ، حدیث، منطق ٹھہرے اور میری نظر میں بلاشبہ آپ کو شیخ الاسلام کے باقاعدہ شیخ اول ہونے کا اعزازِ روحانی بھی حاصل ہے۔ جن کی بے مثل اتالیقی نے نقطہ کمال بخش کر سونے کو کندن بنایا۔
خصوصاً یہ فریدِ ملتؒ کی ہی خاص کرامت ہے کہ آپ نے شیخ الاسلام کو آفتاب علم و روحانیت کا آفتاب بنانے کا جو خواب اپنی پُر نور آنکھوں میں سجایا، وہی خواب آج کرامتِ فرید بن کر شرمندۂ تعبیر ہے۔