پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور تحریک پاکستان کے دوران عام آدمی کو یہ امید دلائی گئی تھی کہ آزاد خطہ کے اندر انہیں روٹی، کپڑا، مکان میسر آنے کے ساتھ ساتھ انہیں تعلیم، صحت اور انصاف کے حوالے سے یکساں حقوق میسر ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ گزری ہوئی سات دہائیوں کااگر سرسری سا جائزہ لیا جائے تو ہر دن امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا چلا جارہا ہے۔ آج 21 ویں صدی میں ہم سانس لے رہے ہیں جو سائنس، انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کی صدی ہے مگر ہمارے ہاں آج بھی عام آدمی کا مسئلہ باعزت روٹی، روزگار اور تحفظ کا ہے۔
اسلام کو ایک انقلابی دین اور ضابطہ حیات کہا جاتا ہے یعنی اسلام کی آمد سے قبل امیر اور غریب، کمزور اور طاقتور کے درمیان جو سماجی فاصلے طبقاتی نظام زندگی کے باعث پیدا کر لئے گئے تھے اسلام نے انہیں بیک جنبشِ قلم ختم کر دیا اور انسانی تقاضوں کے تحت انسانیت کی فلاح و بہبود کا ایک آفاقی، اقتصادی، معاشی تصور دیا جس کی بنیادیں مواخات اور انفاقِ فی سبیل اللہ پر استوار کی گئیں۔ اسلام نے زمیندار اور مزراع، آجر اور اجیر، کارخانہ دار اور مزدور کے درمیان زمانہ جاہلیت والا تعلق غلامی ختم کر کے پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر حقوق و فرائض کا ایک جامع نظام وضع کیا۔ آج عام آدمی روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی سہولت کی عدم فراہمی کے کرب میں مبتلا ہے۔ ریاست کا کردار اور رٹ آف سٹیٹ کمزور ہونے کے باعث کارٹلائزیشن اور عام آدمی کا استحصال بام عروج پر پہنچا ہے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ہم آج بھی آٹے، چینی جیسی بنیادی اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت اور زائد نرخوں کا شکار ہیں۔
آج بھی اگر اسلام کے اقتصادی نظام کو خلوصِ نیت کے ساتھ اختیار کر لیا جائے اور اسلام کے اقتصادی اصول نافذ کر دئیے جائیں تو سوسائٹی خوشحالی اور امن کا گہوارہ بن جائے گی اور کوئی شخص نہ بھوکا سوئے گا اور نہ ہی بھوک کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو گا۔ اقتصادیات اسلام رزق حلال، معاشی عدل، ارتکاز دولت کی ممانعت، فضول خرچی سے پرہیز، اعتدال پسندی، حرمت سود، کفالت یتامیٰ، زکوۃ کی ادائیگی، غربت کے خاتمے،محنت، قناعت، کسانوں کے حقوق کے تحفظ اور سادگی کے اصولوں پر استوار ہے۔ اسلام کے اقتصادی اور سماجی نظام میں مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔ یتیموں کی کفالت کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ جو شخص یتیموں کو دھکے دیتا ہے، محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا وہ شخص دین کو جھٹلاتا ہے۔
آج کا تاجر، زمیندار اور کاروباری زیادہ سے زیادہ منافع جمع کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مارتا ہے، اپنا منافع بڑھانے کے لئے مزدور کو کم اجرت دی جاتی ہے، ٹیکس چوری کی جاتی ہے، ناپ تول سے کام لیا جاتا ہے، زکوٰۃ دینے سے انکار کیاجاتا ہے جبکہ اسلام کا تصورِ منافع یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو منافع میں شامل کیا جائے ان کی خیر خواہی پر مال خرچ کیا جائے چونکہ اجتماعی غربت کے خاتمے کے لئے اجتماعی اقتصادی سرگرمیوں کی اسلام حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
آج کے صنعتکار، تاجر، سٹاکٹس کے پیش نظر حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان رہنا چاہیے جس میں آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہے وہ اس کو لوٹا دے جس کے پاس نہیں ہے، جس کے پاس ضرورت سے زائد سامان خورونوش ہے وہ اُسے لوٹا دے جس کے پاس نہیں ہے۔ اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ مختلف اصناف مال کا ذکر فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ ضرورت سے زائد کسی بھی شے پر ہمارا حق نہیں رہا‘‘۔
یہ احکام صاحبِ ثروت کے لئے ہیں کہ وہ اقتصادی اعتبار سے کمزور لوگوں کو اپنے نفع میں شامل کرے لیکن اگر کوئی کسی کا حق مار کر یا کسی کی مزدوری میں سے بالجبر کمی کر کے اپنے بینک اکائونٹ اور اپنی دولت کو بڑھاتا ہے تو وہ جان لے کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر نہیں ہے۔ خلافت راشدہ کادور معاشی عدل کے اعتبار سے اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا اور مثالی دور ہے۔ اس دور کی معاشی خوشحالی کا مختصر تجزیہ کیا جائے تو ہمیں درج ذیل اصول نظر آتے ہیں:
اس دو رمیں کوئی زکوٰۃ دینے سے انکار نہیں کر سکتاتھا۔۔۔ کوئی کھلے بندوں کسی کا حق نہیں مار سکتا تھا۔۔۔ زرعی پیداوار میں محنت کرنے والے کو معاشی حقوق کا تحفظ حاصل تھا۔۔۔غریبوں کی بحالی عزت اور ترغیب محنت کی ریاستی سطح پر سرپرستی کی جاتی تھی۔۔۔ دولت کی مساویانہ تقسیم، سرمایہ اور محنت میں توازن قائم تھا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام کے نظام معیشت کو نظر انداز کر دیا اور مغرب کے معاشی نظام کی طرف دیکھتے ہیں مگر اس نظام کو بھی اپنی استحصالی سوچ کے تابع کر کے اس کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں ، نتیجتاً استحصال اور ظلم جنم لیتا ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقتصادی حوالے سے کمزور اور طاقتور کے درمیان اعتدال قائم کرے۔ کمزور کا استحصال بند کروائے، بالخصوص مزدوروں کو ان کے تسلیم شدہ حقوق دلوائے، مزدوروں اور کم آمدنی والے افراد کے بچوں کو معیاری تعلیم دینا اور پھر روزگار کے مواقع میں برابری کی بنیاد پر حصہ دار بنانا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔آج تمام مسائل کی جڑ کمزور معیشت ہے، جب معیشت بگڑ جاتی ہے تو قوموں کے رویوں میں بھی بگاڑ آجاتا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے، اس لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ معیشت جیسے اہم ترین سبجیکٹ کو نظر انداز کردیا جاتا۔ جب ہم عدل اجتماعی کی بات کرتے ہیں تو اس میں معاشی عدل سرفہرست آتا ہے۔ آج ہر شخص کا ایک ہی شکوہ ہے کہ اُسے ترقی کے مساوی مواقع میسر نہیں ہیں۔ اقرباپروری، میرٹ کی خلاف ورزی، پسند اور ناپسند کا راج ہے، رہی سہی کسر رشوت ستانی نے نکال دی ہے، ایسے حالات میں رزق حلال کمانے کی آرزو کرنے والے شدید اخلاقی، نفسیاتی ہیجان کا شکار ہیں۔ یہ کام ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ بلا رنگ و نسل ہر شہری کو ترقی اور روزگار کے مساوی مواقع مہیا کرے اور ہر شخص کو کم از کم بنیادی اشیائے ضروریہ باعزت طریقے سے دستیاب ہوں ، ہر فرد کی صلاحیت کے مطابق اُسے روزگار کے مواقع میسر ہوں مگر بدقسمتی سے ریاست کے کمزور کردار کے باعث معاشی عدل کا نظام اپنی جگہ نہیں بنا سکا۔
اسلام نے حق معیشت میں برابری کا جو نظریہ پیش کیا ہے اس میں بھی برابری سے مراد ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق ہے۔ زندہ رہنے کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان بنیادی ضروریات ہیں، کوئی اہل ہے یا نااہل ہے ان بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جب یہ انسانی ذمہ داریاں پوری نہیں ہوتیں تو پھر سوسائٹی میں تشدد اور بگاڑ آتا ہے اور اجتماعی نظم و نسق بری طرح تہہ و بالا ہو جاتا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی معلومات کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’’اقتصادیات اسلام (تشکیل جدید)‘‘ کا مطالعہ کیا جائے ،اس کتاب کے مطالعہ سے بہت سارے اشکالات کا ازالہ ہو گا۔