کہتے ہیں کہ بارانِ رحمت کی سب سے زیادہ ضرورت وہاں محسوس کی جاتی ہے جہاں زمین خشک سالی کی بنا پر اناج کی کونپلوں کی جگہ ببول اگلنے لگے۔ حضور نبی اکرم ﷺ بھی اس ریگزارِ عرب میں سحابِ رحمت بن کر تشریف لائے تھے کہ جہاں انسانی تہذیب و تمدن اور اخلاق و کردار کے سوتے خشک ہوچکے تھے اور جہاں صلح و خیر کے گلہائے تازہ کی جگہ ظلم و تعدی اور کفر و شرک کے جھاڑ جھنکاڑ اُگ رہے تھے۔ جہاں تپتے ہوئے صحراؤں اور ظلم و ستم کی بادِ سموم سے جھلستے ریگستانوں میں خدا کی عظمت و تقدیس اور انسانی عظمتِ کردار کے منکر انسانوں کی آنکھوں سے شرم و حیا کے پانی کی ایک ایک بوند خشک ہوچکی تھی۔ ایسے وقت میں جب حضور پر نور جناب محمد رسول اللہ ﷺ مجسم رحمت و برکت بن کر آئے تو یکا یک ہی کشتِ ایمان و یقین لہلہا اٹھی۔ شاعر نے اسی احساس کی ترجمانی یوں کی ہے:
سلام اے آمنہ کے لال، اے محبوبِ سبحانی
سلام اے فخرِ موجودات، فخرِ نوعِ انسانی
ترے آنے سے رونق آگئی گلزارِ ہستی میں
شریکِ حالِ قسمت ہوگیا پھر فضلِ ربانی
حضور سرورِ عالم ﷺ کیا آئے، عالمِ انسانیت کے قلوبِ مردہ کو حیاتِ نو کی نوید ملی۔۔۔ آپ ﷺ کیا آئے، مایوس دل زندگی کی حرارت سے بھرپور ہوگئے اور مردہ نفس جی اٹھے۔۔۔ آپ ﷺ کوہِ فاران کی چوٹیوں سے ایک ایسا مہرِ عالم تاب بن کر طلوع ہوئے کہ جس کی کرنیں حیرت انگیز تیزی کے ساتھ بلادِ عالم کو منور کرنے والی تھیں۔ آپ ﷺ دعائے خلیل علیہ السلام اور نویدِ مسیحا علیہ السلام بن کر پہلوئے آمنہ سے یوں ہویدا ہوئے کہ کاروانِ انسانیت جو صدیوں سے اپنی منزلِ ایمان و یقین سے بھٹکا ہوا تھا، پھر سے اپنی منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں ہونے کے لیے دلوں کو ولولۂ تازہ سے سرشار کرنے لگا۔
سرکارِ دو عالم فخرِ بنی آدم حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تشریف آوری سے قبل عالمِ عرب بے شمار خباثتوں اور جہالتوں کا شکار ہوچکا تھا۔ کفر و شرک کے علاوہ انسانی حقوق کی بے دردی سے پامالی اور اخلاقی اقدار کی بے حرمتی کی بدولت عرب معاشرہ شرمناک حد تک قعرِ مذلت میں غرق ہوچکا تھا۔ اس دور کا انسان اخلاق و شرافت کا نام تک سننے کا روادار نہ تھا۔ شراب ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ جوا، قمار بازی اور زناکاری قطعاً مذموم فعل تصور نہیں کیے جاتے تھے بلکہ ان کو جوانی کا اعزاز اور مردانگی کا افتخار سمجھا جاتا تھا۔
کوئی شخص بیٹی کا باپ کہلانا پسند نہیں کرتا تھا اور اگر کسی کے ہاں بیٹی جنم لے لیتی تو اسے زندہ زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا۔ وہ لوگ انسانی عظمتِ کردار کے نہیں بلکہ ذاتی حسب و نسب کی برتری اور خاندانی تفاخر کے اسیر تھے۔ لڑائی جھگڑا اور قتل و غارت گری ان کی قبائل زندگی کا لازمی جزو بن چکے تھے۔ معمولی معمولی باتوں پر تلواریں نیاموں سے باہر آجاتیں اور پیاسے ریگستانوں کی پیاس بجھنے لگتی۔ عکاظ کا میلہ قبائلی تعصبات اور فخر و مباہات کے نعروں سے شروع ہوکر برسوں تک جاری رہنے والی لڑائیوں کے لیے موزوں ترین مقام پاچکا تھا۔ بعض معمولی لڑائیوں سے طویل جنگ کی ایک ایسی بھٹی سلگ اٹھتی کہ ہزاروں عرب اپنے بھائیوں کی تلواروں کا شکار بن کر اس کا ایندھن بن جاتے۔
کس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کر دیا
لیکن جب جناب نبی کریم ﷺ انسانی حقوق کے محافظ بن کر جلوہ افروزِ عالم ہوئے تو حالات نہایت تیزی سے بدلنے لگے۔ ا ٓپ ﷺ کے فیوض و برکات کی بدولت انسانی حقوق کو پامال کرنے والے، انسانی اقدار کی محافظت کا فریضہ انجام دینے لگے۔۔۔ راہزن، راہبر بن گئے۔۔۔ بت پرست، بت شکن بن گئے۔۔۔ بے حیاؤں کو شرم و غیرت کا شعور میسر آگیا۔۔۔ دشمن، دوست بن گئے۔۔۔ اخلاق و شرافت کی دھجیاں بکھیرنے والے، رفعتِ کردار کا نمونہ بن گئے۔ ذرا ذرا سی بات پر قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والے، انسانیت کی عظمت اور تقدیس پر ایمان لے آئے اور اپنی ذات سے بڑھ کر دوسروں کے حقوق کی پاسداری کرنے لگے:
کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کردیا
کس نے ذرّوں کو اٹھایا اور صحرا کردیا
کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا دُرِّ یتیم
اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کردیا
آدمیت کا غرض ساماں مہیا کردیا
اک عرب نے آدمی کا بول بالا کردیا
یہ حیرت انگیز انقلاب کہ چشمِ فلک جس کا صدیوں سے انتظارکررہی تھی ، آپ ﷺ کے بے مثال کردار اور اخلاقی تربیت اور تبلیغ کی بدولت وجود میں آیا تھا۔ آپ ﷺ معلمِ مکارمِ اخلاق تھے، قرآن نے: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب، 33: 21) کی روشنی میں آپ کے اخلاق و کردار کو ملتِ اسلامیہ کے لیے نمونہ قرار دیا ہے۔۔۔ آپ صاحبِ خلقِ عظیم تھے۔۔۔ مجسم تفسیرِ قرآن تھے۔۔۔ پرتوِ تقدیرِ خداوندی تھے۔۔۔ پیکرِ انوار و تجلیاتِ ربانی تھے۔ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ایک لمحہ بھی منشائے ربانی کے خلاف بسر نہیں ہوا۔ آپ قرآنِ ناطق تھے کہ آپ ﷺ کا ایک ایک عمل آیاتِ قرآنی کی عملی تفسیر تھا۔ آپ عالمِ انسانیت کو اپنے بے مثال کردار کی روشنی سے جگمگادینے کے لیے یوں جلوہِ گر عالمِ مکاں ہوئے کہ تاریخ کو یہ اعتراف کرتے ہی بنی:
اک شخص سراپا رحمت ہے، اک ذات ہے یکسر نورِ خدا
ہم ارض و سما کو دیکھ چکے پر کوئی اس جیسا نہ ملا
حضور صاحبِ لولاک ﷺ کی سیرتِ مطہرہ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے۔ آپ ﷺ نے شاہراہِ حیات پر جو تابندہ نقوش ثبت کیے ہیں، وہ کائنات کے ہر منشور سے زیادہ قابلِ عمل ہیں۔ پرامن شہری کی حیثیت سے، فتحِ عظیم کے شادیانے بجانے والی فوج کے سالارِ اعلیٰ کی حیثیت سے، لاکھوں مربع میل پر مشتمل عظیم سلطنت کے مقتدرِ اعلیٰ کی حیثیت سے، عدل و انصاف کا پرچم سربلند رکھنے والے منصف کی حیثیت سے، اعجاز نطق سے بہرہ ور راہنما، صاحبِ تدبیر سیاستدان اور معجزانہ صلاحیتیں رکھنے والے دانش ور کی حیثیت سے آپ ﷺ نے اپنی سیرت و کردار اور ارشادات و فرمودات کا جو انمول خزانہ چھوڑا ہے ، وہ تا ابد اقوامِ عالم کے لیے حکمت و موعظت اور راہنمایانہ بصیرت افروزی کا باعث بنا رہے گا:
چشمِ اقوام یہ نظارا ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ دیکھے
مسخر اس طرح دنیا شہِ ابرار ﷺ نے کرلی
عام شہری کی حیثیت سے اخلاقی و تمدنی اور انسانی و روحانی اقدار کا درس دینا جس قدر آسان ہے، فاتح اور کشور کشا بن کر ان اقدار پر عمل کرنا اتنا ہی دشوار ہوتا ہے۔ جنابِ رسالت مآب ﷺ کی والا مرتبت شخصیت اس معیار پر بھی پوری اترتی ہے۔ ایک عام شہری کی حیثیت سے آپ ﷺ عالمِ انسانیت کے مصلح و راہنما تو تھے ہی لیکن جب عالمِ عرب کا اقتدار آپ ﷺ کے قبضہ و اختیار میں آچکا تھا تو آپ ﷺ نے اس وقت بھی انسانی اقدار کی سربلندی اور انسانیت کی فوز و فلاح کو لحظہ بھر کے لیے بھی فراموش نہ کیا۔
تاریخ نے بڑے بڑے جرنیلوں اور کشور کشاؤں کو دیکھا ہے، جو عام زندگی میں انسانی اقدار کے کتنے بڑے مبلغ تھے لیکن جب حالتِ جنگ کا اعلان ہوا تو انہوں نے ہر قیمت پر کامیابی حاصل کرنے کے لیے تمام اخلاقی قوانین اور تہذیبی ضوابط اپنے ہی قدموں تلے پامال کردیئے۔
محسنِ کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی انسانیت نوازی دیکھنی ہو تو تاریخ کے دھارے کو چودہ صدیاں قبل موڑ دیجئے اور اس وقت کا تصور کیجئے جب آپ ﷺ مکہ میں فاتحانہ انداز سے داخل ہورہے تھے۔ اس وقت آپ ﷺ کے دشمنوں کی ہر تحریکِ مزاحمت دم توڑ چکی تھی۔ آپ ﷺ اپنے خدائے جلیل کی عظمت و برتری کے مظہر بن کر تاریخ کے عظیم ترین فاتح کی حیثیت سے اپنے آبائی شہر مکہ میں قدم رنجہ فرمارہے تھے۔ آپ ﷺ کے حکم سے بیت اللہ کے صدہا اصنام توحید کی ہیبت سے زمین پر گر کر ٹکڑوں کی صورت بکھر چکے تھے۔ یہ وہی شہر تھا جہاں سے آپ ﷺ کو ہجرت کرنے پر مجبورکیا گیا تھا۔ بزمِ ہستی دم بخود تھی اور وقت کی رفتار تھم چلی تھی۔ آپ ﷺ کے تمام اعداء، آپ ﷺ کے خون کے پیاسے، آپ ﷺ کے جسمِ اطہر پر غلاظت پھینکنے والے، آپ ﷺ کو پتھر مارنے والے، آپ ﷺ کی راہوں میں کانٹے بچھانے والے، جنت کے گلزاروں کی بشارت دینے والے پر عرصۂ حیات تنگ کرنے والے، پیکرِ انوارِ خداوندی کو اپنی ناپاک سازشوں سے نقصان پہنچانے کے عزائم باندھنے والے، جس کے قدموں پر محرابِ کعبہ جھکے اس پر بہتان طرازی کرنے والے، ظلم و تعدی کے خوگر، انسانی لہو کی بھینٹ لینے والے، تہذیب و تمدن سے ناآشنا، اقدارِ انسانی سے بے بہرہ، جذباتِ محبت و شفقت سے محروم اور وحشت و بربریت کے رسیا، یہ سب کے سب جنابِ رحمت للعالمین ﷺ کے حضور لرزہ براندام کھڑے تھے اور اپنے بدترین ماضی کی خباثتوں کو یاد کرکے اپنے آپ کو سخت سے سخت سزا کے مستحق بناچکے تھے۔ ان سب کے دل آنے والے لمحوں کی ہولناکی سے لرزاں تھے۔ ان کی نگاہیں شرم و ندامت کے مارے زمین میں گڑی جارہی تھیں لیکن اپنے تمام لرزیدہ احساسات کے ساتھ ساتھ وہ اپنے دلوں میں آپ ﷺ کی رحمت للعالمینی سے خوشگوار توقعات بھی وابستہ کئے ہوئے تھے۔ اچانک آپ ﷺ کے لب ہائے جاں نواز سے زندگی بخش صدائے عام ابھرتی ہے:
لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ.
(یوسف، 12: 92)
’’جاؤ آج تم سے کوئی باز پرس نہیں۔‘‘
آپ ﷺ کے مقدس لبوں سے زندگی کی نوید کیا ملی، عالمِ عرب میں گلشنِ انسانیت یکا یک ہی رنگ لے آیا۔ کائنات نے یہ منظر پہلے کب دیکھا ہوگا۔ آپ ﷺ کا یہ آوازۂ بخشش قافلۂ انسانیت کو منزلِ مقصود تک لے جانے کا باعث بن گیا۔ آپ ﷺ کے خلقِ عظیم کے تصور سے یہ کہنا غلط تو نہیں کہ:
کچھ اُن کے خلق نے کرلی، کچھ ان کے پیار نے کرلی
مسخر اس طرح دنیا شہِ ﷺ ابرار نے کرلی
غیر مسلم فاتحین اور جنگ آزماؤں کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ جب کسی علاقہ کو فتح کرنے کے لیے نکلتے تو راستے میں آنے والے کھیت اجاڑ دیتے، شہر برباد کرتے، بستیوں کو ویرانوں میں تبدیل کرتے اور زندگی کی حرارت سے بھرپور علاقوں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے تھے اور ستم یہ کہ جب وہ کسی علاقہ کو فتح کرلیتے تو وہاں انسانوں کے خون کے ساتھ وہ ہولی کھیلی جاتی کہ اس کے تصور سے احساس لرز اٹھتا ہے۔ بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کا قتلِ عام ہوتا۔ عورتوں کی بے حرمتی کرتے ہوئے اخلاق اور شرافت کے تمام تقاضے فراموش کردیے جاتے، ظلم و تشدد اور بہیمیت کی دیوی کو لاتعداد مظلوم انسانوں کی بھینٹ دی جاتی تھی لیکن جب حضور نبی اکرم ﷺ انسانیت نوازی کا تاجِ ایمانی زیبِ سر کیے تشریف لائے تو انسانی اقدا رکی سربلندی کے آثار ہویدا ہونے لگے۔
حضور نبی پاک صاحب لولاک ﷺ تو وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ (الانبیاء: 107) کے مصداق بن کر کائنات میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ آپ ﷺ جب دشمن کے مقابلے کے لیے نکلتے تو تمام اخلاقی اقدار اور انسانی ضوابط کی سربلندی کا اہتمام فرماتے۔ جب کسی علاقہ کو فتح کرنے کے لیے آپ ﷺ کوئی فوج روانہ کرتے تو اس کے امیرِ عسکر اور جملہ مجاہدینِ اسلام کو دشمنوں کے بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور لاچاروں پر ترس کھانے کی تلقین فرماتے۔ جہاں خلق اور محبت سے کام نکلتا ہو وہاں بلاوجہ خون بہانے سے گریز کرنے کا مشور دیتے تھے۔
احادیثِ مصطفی ﷺ کے مختلف مجموعوں میں درج احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اس سے آپ ﷺ کا مقصد دشمن کے مقابلہ میں نرمی یا کمزوری کا مظاہرہ نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ کی شانِ رحمت قدم قدم پر بقائے انسانیت کا پرچم لہراتی محسوس ہوتی تھی۔
حضور سید عالم تو رحمت للعالمین تھے، شفیع المذنبین تھے۔ گناہگاروں کی ڈھارس، ستمِ رسیدگانِ ہستی کے آلام کا مداوا اور دنیا بھر کے مصائب کے ستائے ہوئے انسانوں کے زخموں کا مرہم تھے۔ محکوم اقوام کے لیے صبحِ آزادی کی نوید اور مجبورو بے بس مخلوقِ خدا کے لیے مجسم پیغامِ زندگی تھے۔ آپ ﷺ کا روشن کردار وقت کے فرعونوں کے لیے ضربِ کلیمی اور آپ کا اسوہ زمانے بھر کے حق پرستوں کی بے پناہ قوتِ ایمانی کا باعث تھا۔ آپ ﷺ نے دشمنانِ اسلام کے تمام تر مظالم برداشت کیے مگر اپنی شانِ رحمت للعالمینی کے تقاضوں کو ایک لحظہ کے لیے بھی فراموش نہ کیا۔ زندگی کے کسی موڑ پر بھی آپ ﷺ کے منہ سے اپنے بدترین دشمن کے لیے بددعا نہیں نکلی۔ یہ الگ بات ہے کہ اعدائے اسلام کی طرف سے آپ ﷺ کے ساتھ روا رکھی جانے والی بدسلوکیاں آپ ﷺ کے خدا کو پسند نہ آئیں اور آپ ﷺ کے تمام مخالفین اپنے ناپاک عزائم کو سینوں میں لیے خدا کے قہرو غضب کا نشانہ بن گئے۔
طائف کی بستی میں آپ ﷺ کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا۔ کون سی بدسلوکی تھی، جس کا وہاں مظاہرہ نہ کیا گیا۔ آپ ﷺ پر اس قدر پتھر برسائے گئے کہ آپ ﷺ کے نعلین مبارک جسمِ اطہر سے بہنے والے خون سے لبریز ہوگئے۔ بستی سے باہر نکل کر نڈھال ہوکر اپنے غلام کی معیت میں ایک درخت کی چھاؤں تلے بیٹھ گئے۔ آپ ﷺ کے غلام نے اس بستی کے ظالم اور بے رحم انسانوں کے لیے بددعا کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس بستی کی بربادی کے لیے بددعا کیوں مانگوں مجھے یقین ہے کہ اس بستی سے میرے دین کے حامی اور پاسبان اٹھیں گے۔
عظمت و تقدیسِ نسواں کے محافظ
آج کے دور میں عورت کو مرد کے برابر حقوق دینے کا نعرہ بلند کرنے والے اس دور کو عورت کی عظمت کا زمانہ قرار دیتے ہیں لیکن ذرا تاریخ کے ایوانوں میں جھانک کر دیکھیں تو صاف ظاہر ہوگا کہ یہ صرف نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ ہی تھے جنہوں نے سب سے پیشتر عورت کو نہ صرف اس کے غصب شدہ حقوق واپس دلائے بلکہ اسے مرد کے سامنے عفت و عصمت اور تقدیس و حیا کی صورت میں پیش کیا۔
آپ ﷺ سے قبل عرب معاشرے میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں عورت اس کرۂ ارضی کی سب سے مظلوم ہستی تھی۔ عورت کو پاؤں کی جوتی سے بھی حقیر سمجھا جاتا تھا۔ جنسِ بازار کی طرح اس کے دام لگائے جاتے تھے۔ روما و یونان میں جو اپنے ادوار کے عظیم تہذیبی مراکز تھے، عورت کو صرف جنسِ بازار تصور کیا جاتا تھا۔ ہندوستان میں خاوند کے مرنے پر اس کی بیوی کو زبردستی آگ میں جلاکر ستی کی رسم کو مذہبی ضابطہ بنالیا گیا تھا۔ عرب معاشرے میں بعض جگہ باپ کے مرنے پر اس کا ورثہ تقسیم کرتے ہوئے بیٹے اس کی بیویاں بھی بانٹ لیا کرتے تھے۔ کسی کے ہاں اگر بیٹی پیدا ہوتی تو باپ مجسم قہرو غضب بن کر بیٹی کو زندہ زمین میں دفن کردیتا کیونکہ اس کے لیے یہ تصور ہی ناقابلِ برداشت تھا کہ مستقبل میں کوئی شخص اس کا داماد بن کر اس کی غیرت کے لیے چیلنج بن جائے۔
حضور سرورِ عالم ﷺ پوری کائنات کے لیے رحمت و شفقت کا پیغام سربلند تھے، اس لیے آپ ﷺ نے عورت کو مرد کے برابر حقوق عطا کرتے ہوئے مردوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے اہل و عیال کا مکمل خیال رکھیں کہ یہی اچھی زندگی کی نوید ہے۔ اس حوالے سے نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشادِ مبارک اسلامی طرزِ حیات کو ایک قابلِ فخر اعزاز بخش رہا ہے:
’’عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے طور پر اپنے ماتحت کیا ہے اور اللہ کے کلمہ (نکاح) سے انہیں اپنے لیے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ کسی آدمی کو تمہارا بستر نہ روندنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم اُن کو ایسی سزا دو جس سے چوٹ نہ لگے اور ان کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم انہیں دستور (شرعی) کے موافق خوراک اور لباس فراہم کرو۔‘‘
(مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب حجة النبی ﷺ ، 2: 889، رقم:1218)
آپ ﷺ نے مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین کرتے ہوئے انہیں عورت کی عفت و عصمت کا پاسباں قرار دیا تو یکا یک عرب معاشرے میں ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ انسانیت میں حیرت انگیز حد تک خوشگوار انقلاب برپا ہوگیا۔ آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق عورت اگر ماں بنی تو اولاد پر واضح کردیا گیا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ اگر عورت بیوی بنی تو خاوند کو بیوی کے حقوق کا بھرپور احساس دلاتے ہوئے ان کی ادائیگی کی سخت تلقین کی۔ اگر عورت بیٹی کے روپ میں سامنے آئی تو باپ کے لیے بیٹی کی روحانی و اخلاقی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی۔ جہاں آپ ﷺ نے عورت کو پستی و ذلت کی گہرائیوں سے نکال کر اس کو روحانی و اخلاقی اور تہذیبی و معاشرتی حقوق عطا کیے، وہاں اسے اس کے خاندانی اور معاشرتی فرائض کا احساس بھی دلایا۔
ترے در کے سوا آسودگیٔ دل کہاں ملتی
حضور فخرِ موجودات ﷺ صرف خطۂ عرب میں ہی انسانی اقدار کو سربلندی عطا کرنے کے لیے تشریف نہیں لائے تھے، بلکہ آپ ﷺ تو پوری کائناتِ انسانی کے چارہ ساز اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انسانی کائنات کو زندگی کی تابانیوں سے ہمکنار کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ آپ ﷺ خاتم النبیین تھے۔ آپ ﷺ کا پیغام خدا کا آخری اور جامع ترین دین تھا۔ آپ ﷺ جملہ تہذیبی و تمدنی خصائص اور علمی و عملی اوصاف کا مجموعہ تھے اور پوری انسانی کائنات کو انسانیت نوازی کی بشارت دینے کے لیے بزمِ عالم میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ خطۂ عرب تو آپ ﷺ کا مقامِ اولین تھا۔ ایک دن اسی خطے سے دنیا نے انسانیت کی سرفرازی کے آداب سیکھنا تھے۔ آپ ﷺ کا کردار انسانی اوصاف کا مکمل ترین نمونہ تھا۔ آپ ﷺ نے خطۂ عرب میں انسانی سیرت و کردار کی رفعت طرازیوں کا جو تاریخ ساز نمونہ پیش کیا، جلد ہی اس کی بدولت آپ ﷺ کے پیغامِ انسانیت کی مہک چاروں طرف پھیلنے لگی۔
آپ ﷺ کو یہ عظیم الشان کامیابیاں راتوں رات نصیب نہیں ہوگئی تھیں۔ آپ ﷺ نے رہِ حق و صداقت میں انسانیت کی بقا کے لیے ہر قسم کے آلام و مصائب کو سینے سے لگایا۔ آپ ﷺ پر ظلم و تشدد کی انتہا کردی گئی۔ وائے حیرت کہ افلاک کی رفعتیں جس کو سلام کریں، اس پہ حالتِ سجدہ میں اونٹ کی اوجھڑیاں پھینکی گئیں۔۔۔ پیکر یٰسین و طہٰ اور مظہرِ والشمس پر بہتان طرازیوں کی یلغار کردی گئی۔۔۔ جس کے پاؤں پہ چشمِ عالم بوسہ دے، اسے کانٹوں پر چلنا پڑا۔۔۔ یہاں تک مجبور کردیا گیا کہ مکہ کی گلیوں میں پل کر جوان ہونے والی ہستی وطنِ عزیز سے ہی نکل جائے اور جب مدینہ والوں نے آپ ﷺ پر اپنا دامانِ محبت کشادہ کرکے آپ ﷺ کو جانِ عقیدت سمجھ کر ہدیۂ جان و دل آپ ﷺ کے قدموں پر نثار کردیا تو آپ ﷺ کو وہاں بھی چین سے نہ رہنے دیا گیا اوریکے بعد دیگرے کئی جنگیں آپ ﷺ پر مسلط کی گئیں۔ مگر نتیجہ یہی نکلا:
وَ اللهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ کَرِهَ الْکٰفِرُوْنَ.
(الصف، 61: 8)
’’ جب کہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں۔‘‘
آپ ﷺ کا پیغام ستم رسیدگانِ ہستی کے آلام کا مداوا بن کر دلوں میں یوں گھر کرگیا کہ ظالم و سرکش لوگ خدا سے ڈرنے لگے اور مظلوم و بے کس انسان باوقار زندگی کے آداب سے آشنا ہوگئے۔ اس نبی ﷺ امی کی یہ چارہ سازی آدمیت کے آداب کی سرفرازی اور اخلاقی ضوابط کی دائمی برتری کا باعث بن گئی۔
وہ اک اُمی کہ ہر دانش کو چمکاتا ہوا آیا
وہ اک دامانِ بخشش پھول برساتا ہوا آیا
وہ ایک عظمت کہ مظلوموں کے چہرے پر دمک اٹھی
وہ اک بندہ کہ سلطانوں کو ٹھکرتا ہوا آیا
وہ اک نرمی کہ سنگ و خشت کے سینے میں جا اتری
وہ اک شیشہ کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوا آیا
تِرے در کے سوا آسودگیٔ دل کہاں ملتی
ترے در پہ زمانہ ٹھوکریں کھاتا ہوا آیا
(جاری ہے)