کل مذاہبِ عالم اور ادیان کا مطالعہ کیا جائے تو اُن کی تعلیمات میں سائلین، محرومین، مستضعفین اور کسی بھی انداز کی معذوری اور محتاجی کے سدباب کے اشارے یا واضح اسلوب موجود ہیں۔ مذاہب عالم کی تعلیمات میں ممکن ہے معذور اور اپاہج کے الفاظ نہ ملیں یا براہِ راست ایسے لوگوں کے بارے واضح تصورات کا ذکر نہ ہو مگر اُن کی تعلیمات میں محرومین کی فلاح اور دیکھ بھال کرنے اور مختلف حوادث کا شکار ہونے والے طبقہ کی بھلائی کے واضح احکامات موجود ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اُترنے والی آسمانی کتابوں زبور اور انجیل میں اِن طبقات کی فلاح اور بھلائی کے باب موجود ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اللہ کے اذن سے اندھوں کو بینائی بخشنا اور کوڑھ کے مریضوں کو شفایاب کرنا اُن کی تعلیمات کا عملی نمونہ ہے۔ پھر جوںجوں وقت گزرتا گیااور حالات و واقعات میں تبدیلی آتی رہی اِن تعلیمات میں بھی نکھار کا عنصر غالب حیثیت اختیار کرتا گیا۔ حتیٰ کہ یہ سلسلہ ادیان حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت مطہرہ تک آن پہنچا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں معذور افراد کے بارے واضح اور کھلے احکامات کا ذکر کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی عملی اقدامات کا بندوبست فرمایا۔
دینِ اسلام نے زندگی کے معاملات میں ہر انسان کو بلا تمیز رنگ و نسل یا سماجی مرتبہ مساوی حیثیت عطا کی ہے۔ یہ عام سماجی رویہ ہے کہ معذور افراد کو زندگی کے عام معاملات اور میل جول میں نظرانداز کرنے کی روش اختیار کی جاتی ہے۔ قرآنی تعلیمات نے اِس روش اور عادت کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے ہر انسان کو لائقِ عزت و وقار قرار دیا ہے۔ ذیل میں معذور افراد کے حقوق کی مختلف جہات درج کی جارہی ہیں:
معاشرتی رتبہ اور توجہ کا حق
دین اسلام نے کسی شخص کے جسمانی نقص یا کمزوری کی بنا پر اُس کی عزت و توقیر اور معاشرتی رُتبہ کو کم کرنے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں دی بلکہ جا بجا ایسے واقعات اور احکامات موجود ہیں جن کی بنیاد پر اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمنے ایسے لوگوں کو دوسرے انسانوں کی نسبت زیادہ عزت بخشی ہے۔
ایک موقع پر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم رئوسائے مشرکین کو تبلیغ فرما رہے تھے کہ اتنے میں نابینا صحابی حضرت عبد اللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوسروں سے مصروف گفتگو ہونے کی وجہ سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ نہ ہو سکے تو اِس عدم توجہی پر یہ آیت قرآنی نازل ہوئی:
عَبَسَ وَتَوَلـّٰیO اَنْ جَآئَهُ الْاَعْمٰیO وَمَا يُدْرِيْکَ لَعَلَّهُ يَزَّکـّٰیO اَوْ يَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّکْرٰیO
’’اُن کے چہرہ (اقدس) پر ناگواری آئی اور رُخ (انور) موڑ لیا۔ اِس وجہ سے کہ اُن کے پاس ایک نابینا آیا (جس نے آپ کی بات کو ٹوکا)۔ اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا خبر شاید وہ (آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توجہ سے مزید) پاک ہو جاتا۔ یا (آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) نصیحت قبول کرتا تو نصیحت اس کو (اور) فائدہ دیتی۔‘‘
(عبس80، 1تا 4)
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن اُمِ مکتوم کا واقعہ بڑی اہمیت کا حامل اور ہمارے موضوع ’’معاشرتی رتبہ اور توجہ کا حق‘‘ کے قریب تر ہے۔ وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اپنا کچھ مدعا بیان کرنا چاہتے ہیں اور تعلیماتِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہرہ مند ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بینائی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصروفیت اور تبلیغ دین میں انہماک کا اندازہ نہ ہوسکا، اُنہوں نے حاضرِ خدمت ہو کر اپنا مدعا بیان کرنا شروع کر دیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت کچھ اشرافِ قریش کو دین حق کی تبلیغ فرما رہے تھے۔ دعوت حق کی حکمت عملی اور محویت کے باعث آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبداللہ کی طرف توجہ نہ دے سکے اور اُن کے سوالات کا جواب بھی نہ دیا۔ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کی بار بار نِدا اور مداخلت سے سرکارِ دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قدرے ناگواری ہوئی۔ مگر باری تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متوجہ فرماتے ہوئے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مخلصانہ طلب اور راہِ حق کی سچی جستجو کو زیادہ اہمیت دینے کی نشاندہی فرمائی۔
معذور افراد کس طرح کی توجہ اور معاشرتی مقام کے حقدار ہیں، اس کا اندازہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرزِ عمل سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے کہ ایک شخص کو دیکھا جو بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے بندہ خدا! دائیں ہاتھ سے کھا۔ اُس نے جواب دیا کہ ’’وہ مشغول ہے۔‘‘ آپ آگے بڑھ گئے۔ جب دوبارہ گزرے تو پھر وہی فرمایا اور اُس شخص نے پھر وہی جواب دیا۔ جب تیسری بار آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس کو ٹوکا تو اُس نے جواب دیا کہ ’’موتہ کی لڑائی میں میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا تھا۔‘‘ یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے اور پاس بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگے کہ تمہارے کپڑے کون دھوتا ہے؟ اور تمہاری دیگر ضروریات کیسے پوری ہوتی ہیں؟ تفصیلات معلوم ہونے پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے لیے ایک ملازم لگوا دیا۔ اسے ایک سواری دلوائی اور دیگر ضروریاتِ زندگی بھی دِلوائیں۔
(کتاب الآثار، ابو يوسف 1: 208)
اِس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتِ اسلامیہ کا فرض ہے کہ وہ معذور افراد کی ضروریات کا خیال رکھنے میں کوتاہی اور سستی کی مرتکب نہ ہو۔
مدینہ طیبہ کی ایک دیوانی/ پگلی عورت کا واقعہ بھی کئی محدثین نے بیان کیا ہے کہ مسجد نبوی میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کے پاس بیٹھے کچھ اہم موضوعات پر گفتگو فرما رہے تھے کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑھیا مجمع کے آخر میں کھڑے ہو کر کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔ سرکار صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی طرف متوجہ ہوئے۔ اُس نے عرض کیا کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں مگر سب کے سامنے نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ عورت پاگل ہے اور ایسے ہی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وقت ضائع کرے گی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس متغیر ہوا۔ فرمایا کہ پاگل ہے تو کیا انسان نہیں؟ کیا اِس کی خواہشات اور تمنائیں نہیں ہیں؟ یہ اپنا کچھ کہنے آئی ہے۔ لہٰذا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی سے نکل کر اُس کے ساتھ چل پڑے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے اُس کی حاجت پوچھی اور ساتھ ہی فرمایا کہ تیری ہر بات تسلیم کی جائے گی۔ بڑھیا آگے آگے چلتی رہی اور سرکار دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔ مدینے کی ایک گلی کی نکڑ پر بڑھیا نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ آپ زمین پر تشریف رکھیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے، بڑھیا نے اپنی پوری داستان سنائی اور رحمتِ دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی ساری ضروریات پوری کر دیں۔
دِل بدست آور کہ حج اکبر است
از ہزاراں کعبہ یک دِل خوش تر است
آدم کے کسی روپ کی تحقیر نہ کرنا
پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کر
معذوروں کی معاونت کاحکم
اسلام نے جہاں خصوصی افراد کو معاشرے میں عدم توجہی سے محفوظ رکھنے کے احکامات جاری کیے وہاں اُن کی سوشل سیکورٹی کا بندوبست بھی کیا ہے۔ قدرت نے جہاں انہیں کسی ایک صفت سے محروم کیا وہیں اُن کی معاونت اور مدد کے لیے ان کے حقو ق کا حکم بھی صادر کر دیا۔ ذرا اِس آیت کریمہ پر غور کیجئے:
لَيْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلـٰی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْ بُيُوْتِکُمْ اَوْبُيُوْتِ اٰبَآئِکُمْ اَوْبُيُوْتِ اُمَّهٰتِکُمْ اَوْبُيُوْتِ اِخْوَانِکُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِکُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَا مِکُمْ اَوْبُيُوْتِ عَمّٰتِکُمْ اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَلِکُمْ اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِکُمْ اَوْمَا مَلَکْتُمْ مَّفَاتِحَهُ اَوْصَدِيْقِکُمْ لَيْسَ عَلَيْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْ کُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْتَاتًا
’’اندھے پر کوئی رکاوٹ نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے اور نہ خود تمہارے لیے (کوئی مضائقہ ہے) کہ تم اپنے گھروں سے (کھانا) کھا لو یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی مائوں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچائوں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموئوں کے گھروں سے یا اپنی خالائوں کے گھروں سے یا جن گھروں کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں (یعنی جن میں ان کے مالکوں کی طرف سے تمہیں ہر قسم کے تصرّف کی اجازت ہے) یا اپنے دوستوں کے گھروں سے (کھانا کھا لینے میں مضائقہ نہیں)، تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ تم سب کے سب مل کر کھائو یا الگ الگ، پھر جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں) پر سلام کہا کرو (یہ) اللہ کی طرف سے بابرکت پاکیزہ دعا ہے، اس طرح اللہ اپنی آیتوں کو تمہارے لیے واضح فرماتا ہے تاکہ تم (احکامِ شریعت اور آدابِ زندگی کو) سمجھ سکو‘‘
(النور، 24: 61)
یہاں بے بصر اور جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے نعمت اور عطیہ خداوندی کا اعلان کرتے ہوئے اُنہیں فاقہ کشی اور بھوک و ننگ سے محفوظ کر دیا ہے کہ اہلِ قرابت اُن کی ضروریات اور حقوق سے جان چھڑاتے نہ پھریں اور نہ خصوصی افراد اپنی بے بسی اور اپنوں کی بے مروتی کے باعث خودکشیاں کرتے پھریں۔ دیکھئے کتنے عظیم اور بنیادی چارٹر کا اعلان کرکے اللہ رب العزت نے اپنی ربوبیت ہم پر افشاں کر دی ہے:
- اندھے، بیمار اور جسمانی طور پر معذور (لنگڑے) افراد چونکہ جنگ میں شریک نہ ہو سکتے تھے لہٰذا اُنہیں قریبی رشتہ داروں کے گھروں سے کھانا کھانے کی اجازت دی گئی۔
- قریش اور سردارانِ مکہ معذور افراد کو منحوس اور قابل نفرت خیال کرتے تھے۔ مگر اَللہ نے اُن کی تکریم کرتے ہوئے ، اُن کے حقوق اور عزتِ نفس کا اعلان کیا اور جاہلانہ رسموں کا قلع قمع کر دیا۔
- ماں باپ اور بہن بھائی معذور افراد کو کراہتاً رشتہ داروں کے گھر چھوڑ آتے تھے تاکہ وہ خوب سیر ہو کر کھالیں اور یہ کہیں سے روکھی سوکھی کھا لیں۔ رب العزت کو یہ بات پسند نہ تھی لہٰذا ترغیباً والدین اور بہن بھائیوں یا قریبی رشتہ داروں کے گھر سے کھانے کی اجازت دی۔
- بہن بھائیوں، چچائوں، پھوپھیوں، ماموئوں، خالائوں کے گھروں سے یا اُن کی عدم موجودگی میں بھی اُن کے ہاں کھانا کھانے کی اجازت اور رخصت دی گئی۔
- رشتہ داروں کے بعد جن گھروں کی کنجیاں اُن کے حوالے کی گئیں وہاں سے بھی کھانے کی اجازت دی گئی۔ دوست احباب کے گھر کو بھی رشتہ داروں کے گھروں سے تشبیہہ دی گئی تاکہ یہ قربت بھی عظمت کی علامت رہے اور خصوصی افراد کے حقوق یہاں بھی محفوظ رہیں۔
- بعض لوگ اندھوں اور لولے لنگڑوں کو حقیر سمجھ کر غیر مہذبانہ انداز میں الگ تھلگ بٹھا کر کھانا دیتے تھے۔ رب العالمین نے انہیں تنہا کرنے کی کراہت کو ختم کرتے ہوئے اپنے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے اکٹھے کھانے کی ترغیب دی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے دین اسلام کی تعلیمات اور قرآنی احکامات کو دائمی اور واضح اصول و قواعد کی شکل میں رکھنے کے لیے معاشرتی زندگی کے کسی گوشہ کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا۔ کفالت عامہ اور کچھ انتہائی ضرورت مند اور خصوصی افراد کے بارے بھی کتب احادیث اور خلفائے راشدین، حضرت عمر بن عبدالعزیز اور صوفیائے کرام کی زندگیوں میں ایسے واقعات کی نشاندہی ہوتی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحبانِ اقتدار اور مال دار طبقہ پر ضرورت مندوں کے بہت سارے حقوق ہیں اور خصوصی افراد کو کئی قسم کی رعایت دی گئی ہے۔
حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مسیب سے مروی ہے کہ صحابہ کرام، نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد کو جاتے تو اپنے مکانوں کی چابیاں نابینا، بیماروں اور اپاہجوں کو دے جاتے جو اپنی معذوریوں کے باعث جہاد میں نہ جا سکتے اور اُنہیں اجازت دیتے کہ اِن مکانوں سے کھانے کی چیزیں لے کر کھائیں مگر وہ لوگ اِس کو گوارا نہ کرتے بایں خیال کہ شاید یہ اِن کو دِل سے پسند نہ ہو۔ اس پر یہ آیت اتری اور انہیں اِس کی اجازت دی گئی۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ اپاہج، نابینا اور بیمار لوگ تندرستوں کے ساتھ کھانے سے بچتے کہ کہیں کسی کو نفرت نہ ہو۔ ایک اور روایت کے مطابق ایسے ضرورت مند افراد کسی مسلمان کے گھر جاتے اور اُن کے پاس کھلانے کے لیے کچھ نہ ہوتا تو وہ اُنہیں کسی اور کے گھر لے جاتے تھے اور یہ بات اِن خصوصی افراد کو ہرگز پسند نہ ہوتی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اُمتِ مسلمہ کو واضح طور پر آگاہ فرمایا۔ پس معاشرے پر لازم ہے کہ وہ ان معذور افراد کے حقوق کو احسن طریقہ سے نبھائیں۔
ایک مقام پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزر ہوا، دیکھا کہ ایک ایسا بوڑھا سائل بھیک مانگ رہا تھا جس کی بصارت زائل ہو چکی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: تم اہلِ کتاب کے کس گروہ سے ہو؟ اُس نے کہا :یہودی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا: تمہیں کس چیز نے بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا: میں بڑھاپے، ضرورت مندی اور جزیہ کی وجہ سے بھیک مانگ رہا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور گھر میں سے اُسے کچھ لا کر دیا اور پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال کے نگران کو بلایا اور اہل کتاب بوڑھے معذور لوگوں کا جذیہ معاف کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔
(ابو يوسف، کتاب الخراج: 136)
مدینہ کے اطراف میں ایک نابینا بڑھیا تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ علی الصبح اِس کے جھونپڑے میں جا کر اس کے لیے پانی اور دیگر ضروری خدمات انجام دیتے تھے۔ کچھ عرصے بعد آپ کو محسوس ہوا کہ کوئی شخص اِن سے پہلے آکر یہ کام کر جاتا ہے۔ ایک روز تحقیق کی غرض سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ رات گزرنے کے بعد جلد وہاں تشریف لے گئے تو دیکھا خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اِس ضعیفہ کی خدمت گزاری سے فارغ ہو کر اس کے جھونپڑے سے نکل رہے تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اِس بات کا سخت اہتمام کر رکھا تھا کہ کوئی شخص فقروفاقہ میں مبتلا نہ ہو۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم جاری کر رکھا تھا کہ ہر مفلوج اور اپاہج فرد کو بیت المال سے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ ان خلفائے راشدین کا معذور افراد کے ساتھ اس حد تک احسن سلوک ہمیں معذور افراد کے حقوق کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ افسوس ہمارے حکمران نابینا اور معذور افراد کے لئے معاشی و معاشرتی سطح پر کوئی واضح پالیسی بنانے سے قاصر ہیں۔ یہاں تو اگر نابینا افراد اپنے حقوق کے حصول کے لئے احتجاج کریں تو اُن پر بھی لاٹھی چارج کی جاتی ہے۔
معاشرتی ذمہ داریوں سے استثناء کا حق
جہاد کی اہمیت و فضیلت سے کون آگاہ نہیں۔ بعض اکابرین کے نزدیک جہاد اسلام کا چھٹا رکن ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاد کے بارے واضح احکامات صادر فرمائے ہیں۔ آغازِ اسلام میں جب کفار نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن اور جنگ مسلط کر دی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت کا حکم جاری کیا۔ اِسی اثناء میں جو لوگ اپاہج اور صاحب عذر تھے اُنہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ اِس پر حکم ربانی آیا کہ اے حبیب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! صاحب عذر اصحاب سے کہہ دیں اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے اجازت مرحمت فرما دی ہے کیونکہ یہ لوگ دشمن پر حملہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ اِن میں حملہ سے بچنے اور بھاگنے کی سکت ہے۔
اسی طرح صاحب عذر کے لیے جہاں جہاد میں شریک ہونا ضروری نہیں وہاں جنگ کے دوران اُن پر حملہ آور نہ ہونے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔
حضرت عمرو بن جموع رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو سب انصارکے بعد اسلام لائے۔ وہ ایک پائوں سے لنگڑے تھے۔ جب آقائے دو جہاں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو غزوہ بدر میں شریک ہونے اور اللہ کی راہ میں جہاد کی تبلیغ فرمائی تو وہ جنگ میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوگئے مگر اُنہیں اُن کے بیٹوں نے جانے سے منع کر دیا۔ پھر جنگ اُحد کا موقع آیا تو اُنہوں نے اس بار جہاد میں شرکت کا قوی ارادہ کر لیا۔ مگر اُن کے بیٹوں نے اس بار بھی انہیں بوجہ عذر جنگ میں شمولیت سے منع کیا اور ارادہ ترک کرنے کی ترغیب دی۔ مگر اُنہوں نے اپنے بیٹوں کی بات نہ مانی اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر میرے بیٹے جنگ میں شریک ہوسکتے ہیں تو میں بھی ضرور جاؤں گا۔ خدا کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ میں شہید ہو کر اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت میں جائوں۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری معذوری کی وجہ سے تم پر جہاد فرض نہیں ہے، یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لیے چھوٹ ہے۔ حضرت عمرو بن جموع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہاد میں شرکت کے لئے اپنے خلوص اور جذبے کا والہانہ اظہار کیا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جہاد میں شریک ہونے کی اجازت مرحمت فرما دی اور وہ اُسی جنگ میں شہید ہو گئے۔
(اسد الغابة، حصه هفتم: صفحه 678)
شرعی عذر اور چھوٹ ہونے کے مواقع موجود ہونے کے باوجود اگر کوئی مسلمان عشق و محبت اور دلی چاہت سے اللہ کی قربت کا خواستگار ہوتا ہے تو وہی اُس کا زیادہ مقرب بندہ ہے اور رب العزت اپنے انہی بندوں پر فخر کرتے اور نازاں ہوتے ہیں۔ تاہم اسلام میں معذور افراد کے حقوق کے ضمن میں جہاد کی فرضیت ان پر واجب نہیں۔
محروم اور سائلین کا حق
ربِّ کائنات نے جہاں خصوصی افراد کو کئی ایک معاملات میں استثنیٰ سے نوازا ہے وہاں اسلامی سوسائٹی کو اُن کے کئی ایک حقوق سے بھی خبردار کیا ہے تاکہ معاشرے کے افراد محروم لوگوں پر رحم دلی کے جذبے کی داستانیں ہی نہ سناتے پھریں بلکہ ان معمولات کو محرومین کا حق اور اپنا فرض سمجھ کر ادا کریں۔ خالقِ کائنات قرآنِ حکیم میں متقی لوگوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَفِــْی اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِO
’’اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا۔‘‘
(الذّٰريٰت، 51: 15تا19)
یعنی متقی اور پرہیز گار لوگ اللہ کی نعمتوں پر خوش ہوں گے اور اِس خوشی و راحت کے عوض وہ مخلوق میں سے محتاج اور معذور لوگوں کے خیر خواہ ہیں اور اپنے مال میں اُنہیں، خواہ وہ اُن سے طلب نہ بھی کریں، حق دارٹھہراتے ہیں۔
اِس مقام پر یہ بات جان لینی چاہیے کہ اہل ایمان کے مال و دولت میں سائل اور محروم کے جس حق کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اُس سے مراد زکوٰۃ نہیں ہے جو شرعاً اُن پر فرض کی گئی ہے بلکہ یہ وہ حق ہے جو زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی ایک صاحب استطاعت مومن اپنے مال میں خود محسوس کرتا ہے۔
بعض احادیث میں معذور افراد کے لیے خادم فراہم کرنے کا ذکر بھی آیا ہے یہ ضرورت ایسی ہے کہ معذور افراد اپنے خاندان والوں کے تعاون سے یا خود اپنے مال کے ذریعہ خادم (نوکر) رکھ کر گزارہ نہ کرسکتا ہو تو حکومت یا معاشرہ کو اِس کی یہ ضرورت پوری کرنی چاہیے کیوں کہ اگر اسے پورا نہ کیا گیا تو اس کے لیے زندگی گزارنا ممکن نہ رہے گا۔ بہرحال یہ ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہو گی کہ ہر ضرورت مند معذور کوکوئی مناسب سہارا مہیا کیا جائے۔
موجودہ دور میں معذور اور خصوصی افراد کو وہیل چیئرز، ٹرائی سائیکل، بیساکھیاں، آلہ سماعت، خصوصی موٹر بائیک، گاڑی، مصنوعی اعضاء وغیرہ کی فراہمی کے علاوہ اُن کے لیے تعلیمی سکول، ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹرز اور دیگر ضروری ادارہ جات کا قیام اسلامی روایات کی روشنی میں صاحبِ استطاعت لوگوں اور حکومت پر فرض ہے۔
اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی مخلوق کی صفات کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ جبلی حقائق کا ذکر بھی کیا ہے۔ کہیں ’’انسان خسارے میں ہے‘‘ کے الفاظ کہہ کر متنبہ کیا۔۔۔ کہیں مال و دولت اور اولاد کو فتنہ قرار دیا۔۔۔ اور کہیں ارشاد ہوا کہ وہ ایک دوسرے کے لیے قربانی اور ایثار میں حریص ہیں۔۔۔ اُنہیں اپنی ضروریات کی پرواہ نہیں مگر دوسرے ضرورت مند بھائیوں کے بارے اُن کے دل میں نہ تنگی ہے اور نہ بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ
’’اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو، اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچالیا گیا پس وہی لوگ ہی با مراد و کامیاب ہیں۔‘‘
(الحشر، 59: 9)
یہ ہے اسلامی تعلیمات اور ایثار و قربانی کی اعلیٰ مثال جو کہ صاف اور واضح الفاظ میں ہمیں درج ذیل نقاط پر مشتمل لائحہ عمل دے رہی ہے:
- اپنی ضروریات اور آرام کی طرح دوسروں کا خیال رکھنا۔
- اپنے مال میں ضرورت مند لوگوں کو حقدار جاننا۔
- ضرورت مند اور معذور لوگوں کو اپنا مال دیتے وقت تنگی رزق کے خوف سے بے نیاز ہونا۔
- ضرورت مند لوگوں پر اپنا مال خرچ کرنے میں پہل کرنا اور دوسرے لوگوں کو بھی ترغیب دینا۔
جب مسائل اور الجھائو کی بات ہو تو ایک لامتناہی فہرست سامنے آجاتی ہے۔ یقینا زمانہ حال جائز اور مثبت امور کو انجام پانے کے سلسلہ میں مشکلات و مسائل کا نہ ختم ہونے والا دور ہے مگر اس کے باوجود عمل مسلسل ، جدوجہد اور سچی لگن کامیابی سے ہمکنار کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ خصوصی افراد کی بحالی، ان کے علاج معالجے اور تعلیم و تربیت کے میدان میں رکاوٹیں ہیں جن کے بارے غور و خوض کرکے عملی اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ والدین کی عدم توجہی اور غیر موافق معاشرتی ماحول کی وجہ سے جسمانی نقص کی تشخیص اور علاج کی طرف غور کرنے کی بجائے معاملات کو چھپانے کی ترکیب نکالی جاتی ہے۔ اس طرز عمل اور سوچ کا خاتمہ ضروری ہے۔ بحیثیت مسلمان اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے علاج کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔
ان افراد کو معاشرے میں ایک مضبوط حیثیت دلوانے کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی میدان میں ان کی کیریئر کونسلنگ کی جائے۔ ان کے لئے ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹرز قائم کئے جائیں تاکہ یہ کسی دوسرے کے محتاج نہ ہوں۔ نیز ان کی تربیت اور علاج معالجہ کے لئے بہترین ادارے قائم کئے جائیں۔
خلاصہ کلام
دورِ حاضر میں ہم مسلمان اور مومن بھی کہلوائیں اور اللہ کے بندوں سے نفرت بھی کریں۔۔۔ زبانیں حمد و نعت سے مزیّن ہوں اور ان پر طعنے اور گالیاں بھی رہیں۔۔۔ رب کو راضی کرنے کا دعویٰ بھی ہو، اُس کے بندوں کو ستائیں بھی۔۔۔ لوگ ہماری عزت ہمارے شر کے خوف (Nuisance Value)سے کریں۔ ایسے کردار کے حامل لوگوں کے بارے سرکارِ مدینہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہماری رہنمائی اور آخرت کی بہتری کے لیے کافی و شافی ہے:
يَحْسَبُ اَمْرِيْ مِنَ الشَّرِّ اَنْ يَحْقِرُ اَخَاهُ الْمُسْلِمِ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لیے اتنی برائی ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔‘‘
(مسلم، الصحيح،کتاب البرواصلة ولادب، 4: 1986، رقم 2524)
لہذا ہمیں اپنے روز مرہ معمولات میں معذور افراد کی بھلائی اور معاونت کے لئے کوئی نہ کوئی قدم ضرور اٹھاتے رہنا چاہئے اور انہیں معاشرہ کا عضو معطل سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
نہیں ہے عرش تو کچھ عرش سے کم بھی نہیں ہے دِل
یہاں نازل ہوئی ہیں تیری آیاتِ جمال آخر