حقیقی اور موثر دعوت دین کے لئے ہمیں دعوت کے ان بنیادی تصورات کی طرف غورو فکر کرنا ہوگا جن کو اپنائے بغیر حقیقی نظام دعوت قائم نہیں کیا جا سکتا۔ ان بنیادی تصورات کو دعوت کے ستون کہنا بھی بے جانا نہ ہوگا۔ اس لئے کہ دعوت کے بنیادی تصورات سے اعراض کر کے داعیین نہ صرف دوسروں کو بلکہ اپنے آپ کو بھی دھوکا دیں گے۔ ذیل میں دعوت دین کے چند بنیادی تصورات ذکر کئے جارہے ہیں جن سے ایک طرف ہمیں دعوت کے حقیقی مفاہیم سے آگہی ہوگی اور دوسری طرف فروغ دین کے لئے بھی آسانی میسر آئے گی۔
زندگی حق و باطل میں ٹکراؤ سے عبارت ہے
اسلام قبول کرنے سے زندگی کی مشکلات و مصائب کا خاتمہ نہیں ہو جاتا بلکہ اسلام ان مصائب و مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک نئے پلان اور جذبے کا نام ہے۔ یہ کہنا کہ اسلام قبول کرنے سے آئندہ زندگی بہت آرام سے گزرتی ہے، محض خام خیالی ہے۔ یہ دنیا، آخرت کی کھیتی ہے یہاں جو فصل بوئی جائے گی وہی کاٹی جائے گی۔ فصل کے حصول کے لیے کسان کن مصائب و آلام کو برداشت کرتا ہے، یہ ہر شخص پر عیاں ہے۔ یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے اور اللہ ہمیشہ مصائب و تکالیف کے ذریعے اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے۔ کس چیز کا امتحان؟ سچائی اور کھرے پن کا امتحان۔۔۔ ایمان اور عمل کی سچائی کا امتحان۔۔۔ جذبوں اور ارادوں کی سچائی کا امتحان۔۔۔ محبت اور وفاؤں کی سچائی کا امتحان۔۔۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَکُوْا اَنْ يَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ
’’کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ (صرف) ان کے (اتنا) کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی؟‘‘
(العنکبوت: 2)
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان اور صاحب ایمان کو ہر میدان اور ہر محاذ پر آزمایا ہے۔ البتہ کسی کو زیادہ اور کسی کو تھوڑا آزمایا ہے۔ جس کو جتنا آزمایا ہے اسے اتنا ہی نوازا ہے۔ زندگی میں حق و باطل کی تمیز کرنے کا آسان ہنر یہ ہے کہ انسان تقابل کرے کہ اس کے طریقہ کار سے باطل قوتیں خوفزدہ ہوتی ہیں یا نہیں؟ اگر باطل قوتیں آپ کی دعوت اور اس کے طریقہ کار سے مطمئن ہوں اور یہ سمجھتی ہوں کہ ان داعیین کا اس طرح دین کا کام کرنا اُن کے مفادات کو چیلنج نہیں کرتا تو داعی کو اپنی اصلاح کی جانب متوجہ ہونا ہوگا۔ اگر استحصالی قوتیں آپ سے خوفزدہ ہوں، اُن کے مفادات پر کاری ضرب پڑے تو سمجھیں کہ آپ حق پر چل رہے ہیں۔
تاریخ انبیاء میں کسی بھی نبی نے یہ تعلیم نہیں دی کہ دین حق قبول کرنے سے مصائب و مشکلات ختم ہو جائیں گی حتی کہ جو اصحاب محبوب خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلقہ غلامی میں آگئے ان کے عشق کا بھی امتحان بھی لیا گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر کفارِ مکہ کی طرف سے ہونے والے ظلم و ستم سے لے کر واقعہ کربلا تک، یہ سب ایمان و عشق کا امتحان ہی تو ہے۔ جتنا عظیم امتحان ہوا، اتنے ہی عظیم مقام سے نوازا گیا۔ جسے عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جتنا آگے پایا اُسے اتنا ہی اونچا مقام عطا فرمایا۔ مصائب و مشکلات ایک طرف امتحان ہیں اور دوسری طرف اپنی حقیقت میں اللہ کا فضل ہیں۔ ان سے ہمیں اپنی شخصیت کی خامیوں کا پتہ چلتا ہے۔ دل میں اللہ کے ہر وقت موجود رہنے کا احساس جاگزیں ہوتا ہے اور توکل و یقین شخصیت کا حصہ قرار پاتا ہے۔
اسلام نقطہ آغاز کا نام ہے
مؤثر اور حقیقی دعوت کے فروغ کا دوسرا بنیادی تصور یہ ہے کہ اسلام نقطہ آغاز کا نام ہے۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے انسان شرک و جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہا تھا۔ اسلام قبول کرنے سے وہ اس راستہ پر پہنچ گیا جو اسے ان تاریکیوں سے نکال کر نور الٰہی کی صحبت میں پہنچا سکتا ہے۔ اب اگلا سفر بحیثیت مسلمان کے شروع ہوتا ہے۔ یہ سفر درحقیقت مومن بننے کا سفر ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ معیارِ زندگی محض کلمہ پڑھنے سے نہیں بلکہ عملاً کلمہ کی لاج رکھنے سے بلند ہوتا ہے۔ اسلام تو کلمہ پڑھنے سے حاصل ہو تا ہے مگر مومن (اپنے اصطلاحی معنی کے اعتبار سے) انسان تب تک نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے ظاہر و باطن میں مکمل طور پر کلمہ کی عملی تفسیر نہ بن جائے۔ قرآن مجید میں اسی حقیقت کی طرف یوں رہنمائی کی گئی کہ
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤمِنُوْا وَلٰـکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِکُمْ ط وَاِنْ تُطِيْعُوا اﷲَ وَرَسُوْلَهُ لَا يَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَيْئًاط اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ. اِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِط اُولٰـئِکَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ
’’دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، آپ فرما دیجیے، تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا، اور اگر تم اﷲ اور اس کے رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال (کے ثواب میں) سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا، بے شک اﷲ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔ ایمان والے تو صرف وہ لوگ ہیں جو اﷲ اور اس کے رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے اور اﷲ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہے، یہی وہ لوگ ہیں جو (دعوائے ایمان میں) سچیّ ہیں‘‘۔
(الحجرات: 14، 15)
لہذا اسلام لانے کے بعد مومن بننے کا سفر ہمیشہ پیشِ نظر رہے کیونکہ یہی مقصود و مطلوب ہے۔
تعلیماتِ اسلام کی پیروی، تبدیلی کا پیش خیمہ
ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ حالات اسلام پر عمل کرنے سے ہی تبدیل ہوں گے۔ اسلام قبول کرنے کا فائدہ یہی ہے کہ انسان کی آخرت برباد ہونے سے بچ جائے مگر قبول اسلام زندگی کی ذمہ داریوں سے فرار کا نام نہیں۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو خصوصی نعمت سے نوازتا ہے تو پھر اس نعمت کی ناشکری پر عذاب بھی ویسا ہی شدید دیتا ہے۔ جتنی عظیم نعمت کی ناشکری اتنا ہی شدید عذاب، یہ قرآنی قانون ہے۔ حق کی روشنی (اسلام) سے قلب و باطن کو منور کرنے سے بڑی نعمت کوئی نہیں اور اس کی شدید ناشکری یہ ہے کہ انسان اس کی عظمت کے بہانے اپنے آپ کو ساری عملی ذمہ داریوں سے فارغ سمجھے۔ محض یہ سمجھنا کہ پانچ وقت کی نماز سے حالات بدل جائیں گے، محض خام خیالی ہے۔نماز کے ساتھ جب تک معاشرتی حالات کے سدھار کی طرف ٹھوس عملی اقدامات اور عمل صالح نہ ہو تو وہ نماز بے روح ہے۔ علامہ نے اسی لیے تو کہا کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اسلام کو قبول کرنے کے بعد ہماری اولین ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو اسلامی اصول و نظریات کی روشنی میں احسن طریقے سے نبھائیں۔ قرآن ہماری تمام بیماریوں سے نجات کا نسخہ ہے۔ نسخے پر عمل کرنے سے ہی بیماریوں سے نجات ہو گی نہ کہ صرف محض نسخے کو عقیدت و احترام سے چوم کر اظہارِ محبت کرنے سے۔ قرآن نے کہہ دیا کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ محض لفظوں سے اظہارِ محبت نہیں بلکہ عملاً اظہار محبت سے حالات زندگی بدلتے ہیں۔
قول و فعل میں یکسانیت
انسان کے لیے اطمینانِ قلب سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ یہ نعمت تب ملتی ہے جب انسان کا فعل اس کے قول سے مطابقت رکھتا ہو اور وہ اپنی شخصیت کے عقلی و جذباتی تقاضے بھرپور اور متوازن طریقے سے پورے کر رہا ہو۔ یہی دعوت دین کا چوتھا بنیادی تصور ہے۔ آج اسلام کی دعوت مؤثر نہیں رہی کیونکہ تبلیغی تنظیمیں قول و فعل کے تضاد میں مبتلا ہیں اور قول و فعل کے تضاد سے حقیقی اطمینان قلب نہیں ملتا۔ آج ہماری تبلیغی کاوشوں سے مسلمان تو پیدا ہو رہے ہیں مگر معاشرہ تبدیل نہیں ہو رہا۔ ہر طرف بے چینی اور پریشانی کا رواج ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی جماعتوں کے قائدین اپنی قیادت کی دکانداری چمکانے کے بجائے معاشرے میں حقیقی تبدیلی اور اسلام کے فروغ کے لیے اخلاص سے کام کریں۔ اپنی تقاریر اور تبلیغی رویوں میں معاشرتی تبدیلی کو بھی موضوع بحث بنائیں۔ اطمینانِ قلب کے لئے صرف کلمہ طیبہ پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے عملی تقاضوں کو بھی پورا کرنا ہوگا۔
زبان نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ سے بڑھ کر دین کے فروغ کے تقاضوں سے کون آگاہ ہوگا جنہوں نے ایمان کی سلامتی اور پختگی کو معاشرے کے سدھار کے ساتھ متعلق کیا۔ نہ صرف انفرادی اصلاح کے راستے پر گامزن رہے بلکہ معاشرتی و اجتماعی اصلاح کے لئے بھی جان و مال کی قربانیاں پیش کیں اور ہر لمحہ اور موقع پر اُن کے قول و فعل میں مطابقت و یکسانیت عیاں رہی۔
مؤثر دعوت اسلام کے تین اسلوب
طبیعتوں کے اعتبار سے انسانوں کی درج ذیل تین اقسام ہیں۔ ان میں سے جو کیفیت بھی دوسری کیفیات پر غالب رہتی ہے، انسانی شخصیت کا وہی عنوان ٹھہرتی ہے۔
- علمی
- فکری
- جذباتی
طبیعت کی پہلی قسم ’’علمی‘‘ ہے۔ علمی ذوق جب طبیعت پر غالب رہتا ہے تو انسان علمی موضوعات پر دلائل کی صحبت میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ دلائل کی نوعیت، اقسام اور ماخذ کے معاملات میں گم رہنا اس کی عادت بن جاتی ہے۔ اس کی طبیعت مناظراتی ماحول سے تسکین پاتی ہے۔ دلائل کی ترتیب وتدوین سے اسے ایک طرح کا اطمینان قلب ملتا ہے۔ دوسروں میں بھی صرف انہیں ملنا پسند کرتا ہے جنہیں دلائل دینا اور دلائل پر مبنی گفتگو کرنا آتی ہو۔ یہ بات بھی تب سمجھنا گوارا کرتے ہیں جب وہ علمی حوالوں اور علمی گفتگو کے طرز پر سمجھائی جائے۔
ایسی طبیعتوں کے افراد کے لیے اسلام کی علمی و سائنسی پیشکش بہتر ہوتی ہے۔ جب تک علم کے میدان میں اسلام کے کارنامے حوالہ جات کے ساتھ ان کے سامنے پیش نہ کیے جائیں، اپنی طبیعت کے ہاتھوں مجبور یہ لوگ ان حقائق کو قبول کرنے میں دِقت محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے گفتگو کے لیے مبلّغ کی لازماً تاریخ، قانون اور عقائد کے علمی پہلو پر مضبوط ترین گرفت ہونی ضروری ہے۔
طبیعت کی دوسری قسم ’’فکری‘‘ ہے۔ فکری ذوق انسان کو فلسفیانہ طرزِ فکر کی جانب راغب کرتا ہے۔ ایسے لوگ دلائل کی بجائے تصورات کی صحبت میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ لوگ دلائل کی بجائے ان تصورات کی جانچ پڑتال کرتے ہیں جہاں سے دلائل جنم لیتے ہیں۔ یہ تخیل پسند لوگ ہوتے ہیں اورشعوری سطح پر اپنے اردگرد کے ماحول سے مشاہدے کی بنیاد پر بہت سے سوالات اکٹھے کر کے ان پر سوچ بچار کرنا پسند کرتے ہیں۔ فکری ذوق دلائل کی بجائے حکمت پر نظر رکھتا ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے اسلام سے متعلقہ فکری موضوعات پیش کرنا بہت مفید ہے۔
اسلام انسانیت کی فکری سطح پر کیا راہنمائی مہیا کرتا ہے۔۔۔؟ اسلام فکری سطح پر دنیا کے بقیہ مذاہب اور فلسفیانہ طرز زندگی سے کس طرح بہتر ہے۔۔۔؟ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہر مبلّغ نہیں بول سکتا۔ اس پر بھی شدید محنت کی ضرورت ہے۔ ہمارے دینی مدارس کے نصاب میں کوئی معیاری فکری مضامین نہیں پڑھائے جاتے۔ اسلامی فکر جب تک تقابلی انداز سے پیش نہیں کی جائے گی، اس وقت تک اس کی عظمت نکھر کر سامنے نہیں آئے گی۔
طبیعت کی تیسری قسم ’’جذباتی‘‘ نوعیت کی ہے۔ یہ لوگ اپنے جذبات کی تسکین چاہتے ہیں۔ انہیں نہ تو دلائل کی ترتیب و تدوین سے کوئی غرض ہوتی ہے اور نہ ہی یہ تصورات کی جستجو کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ یہ تو سب ایک ہی چیز کے عادی ہوتے ہیں کہ کسی طرح شرابِ عشق مل جائے تاکہ ساری زندگی مستی میں گزر جائے۔ ایسے لوگوں کے سامنے اسلام کی تاریخ ِ عْشّاق پیش کرنا مفید رہتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلقاتِ عشق و محبت ان لوگوں کے نزدیک علم الکلام سے زیادہ قابل اعتبار ٹھہرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے سامنے اسلام کی مؤثر دعوت کے لیے مبلّغ کو نہ صرف خود اس موضوع پر گہری تحقیق حاصل ہو بلکہ وہ خود بھی اس شرابِ عشق سے حالت مستی میں ہو۔ اس طبیعت کے لوگ عشقِ مصطفوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمکی بدولت ہر مشکل اور مصیبت پر قابو پالیتے ہیں۔ اسی عشق کے بارے میں علامہ نے کہا
’’عشق کی ایک جست نے کر دیا قصہ تمام‘‘
اسی عشق کو ختم کرنے کے لیے سامراجی طاقتوں نے برصغیر کے مسلمانوں پر طرح طرح کے حملے کیے۔ علامہ نے اسی جانب یوں اشارہ کیا:
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بدن سے نکال دو
قادیانیت اور نجدیت جیسے فتنے برپا کرنے کا مقصد بھی روحِ محمد کو جسدِ امتِ مسلمہ سے نکالنا تھا۔
دعوت اسلام میں قابل ذکر نتائج حاصل نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ دوسروں کی طبیعتوں کو پہچانے بغیر اپنی علمیت و فضیلت کی دھاک بٹھانے میں مصروف ہیں۔ آج کے مبلّغ میدانِ علم میں بازی جیت کر فخر محسوس کرتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ بعض اوقات مناظراتی گفتگو سے پرہیز کر کے بھی دل کی دنیا فتح کی جا سکتی ہے۔ دوسروں کو احساسِ شکست میں مقید کر کے ہم ان کے دلوں میں اسلام کی عظمت کس طرح پیدا کر سکتے ہیں۔۔۔؟
دعوتِ اسلام کے عملی اقدامات
اسلام کی مؤثر دعوت کے لیے ضروری ہے کہ:
- ہم مختلف سوالات کے ذریعے سامع کی طبیعت کو جانچنے کی کوشش کریں کہ اس کی طبیعت علمی ہے یا فکری یا عشقی؟ تاکہ اس کے مطابق گفتگو کی جائے اور مثبت نتائج پیدا کیے جائیں۔
- مبلّغ کی علمی، فکری اور جذباتی موضوعات پر گہری تحقیق کاہونا ضروری ہے۔ اس کابالعموم ہمارے ہاں رواج نہیں ہے۔
- گفتگو ان موضوعات سے شروع کریں جو مثبت اور باہمی متفقہ ہوں۔ ہم بالعموم اختلافی اور منفی موضوعات سے ابتداء کرتے ہیں اور پھر مثبت نتائج کی توقع رکھتے ہیں۔
- مبلّغ کو تنقید سے پرہیز کرنا چاہیے۔ دوسروں کی خامیاں ہماری خوبیاں نہیں بن سکتیں۔ اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور دوسروں کے سامنے دوسروں کی خوبیوں کو بیان کیا جانا چاہیے تاکہ معاشرے میں ایک مثبت ماحول پیدا ہو۔
- اسلام کو آج کی جدید دنیا میں فروغ دینے کے لیے روایتی طریقہ تبلیغ مناسب نہیں۔ آج جہاں Knowledge is Power کا سلوگن اختیار کرنا ہی ہے وہاں Speed is Power کے تصور کو بھی اپنانا ہوگا۔ صحیح عقیدے کے ساتھ ہم کچھوے کی چال چل رہے ہیں جبکہ مغرب اپنے عقائد و نظریات کے ساتھ خرگوش کی تیزی سے سفر کرتا ہوا (سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ کے ذریعے) ہم سے بہت آگے جا چکا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں اپنے طرز عمل میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔
- اسلامی علوم کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے اس کے فروغ کے لئے علمی و فکری سطح پر اقدامات کرنا ہوں گے۔
- اسلام کی تعلیماتِ امن و محبت اور عدم تشدد کو اپنے موضوعات میں نمایاں حیثیت دینا ہوگی تاکہ اسلام اور مسلمانوں سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے الزامات کو ختم کیا جاسکے۔
- مسلکی اختلافات ہماری ذلّت و رسوائی کا سبب ہیں۔ اس ذلت اور رسوائی کے دائرے سے نکلنے کے لیے فروعات کے جھگڑوں سے نکل کر اصولوں پر متفق ہونا ہوگا۔
اسلامی تعلیمات کے فروغ کے دوران یہ امر مبلغین، واعظین اور داعیین کے پیش نظر رہے کہ اسلام صرف مسلمانوں کے لیے ہی مخصوص نہیں بلکہ کل کائنات کے لیے نظام حیات ہے۔ لہذا اس کی آفاقیت، عالمگیریت اور وسعت ہمیشہ ذہن میں رہے۔ اسی صورت ہم اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ میں کماحقہ کامیاب و کامران ہوسکتے ہیں۔