تقویٰ کا معنیٰ پرہیزگاری ہے یعنی جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اُن سے رکنا۔ تقویٰ کا ایک اپنا دائرہ ہے مگر قرآن مجید میں بعض مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اخلاصِ نیت کے لیے بھی لفظِ تقویٰ کو استعمال فرمایا۔ ارشاد فرمایا:
لَنْ يَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ
’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔
(الحج، 22: 37)
عام دنوں میں کیا گیا ذبح اور وہ ذبح جسے قربانی کہتے ہیں، ان دونوں کے درمیان اخلاص اور نیت ہی کا فرق کار فرما ہے۔ قربانی کے گوشت کے لیے حکم ہے کہ اس کے تین حصے کریں:
- اپنے لئے
- اعزء و اقارب کے لئے
- غرباء، یتامیٰ اور مساکین کے لئے
شریعت نے مزید گنجائش بھی دی کہ اگر آپ کے اپنے اہل خانہ زیادہ ہیں تو دو حصے بھی خود رکھ سکتے ہیں، ایک حصہ اعزاء و اقارب اور غرباء میں دے دیں۔ اس کے بعد پھر مزید گنجائش بھی دی کہ اگر فیملی زیادہ بڑی ہے اور دو حصوں سے بھی گزارا نہیں ہوتا تو سارا کا سارا گوشت بھی رکھ لیں، قربانی تب بھی ہو جائے گی۔ اس لئے کہ قربانی اللہ تعالیٰ کیلئے ہے، اس کا مطلب گوشت کی تقسیم نہیں ہے۔
آقا علیہ السلام نے ایک دفعہ قربانی کے موقع پر حکم فرمایا کہ خبردار! کوئی شخص تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت اپنے پاس جمع نہ کرے۔ صحابہ کرام نے ایسے ہی کیا۔ جتنا کھایا جا سکا کھا لیا، بقیہ تقسیم کر دیا۔ اگلا سال آیا، صحابہ کرام نے پھر یہی کیا، اپنے پاس بچا کر نہ رکھا، جو کھایا جاسکا کھایا بقیہ تقسیم کردیا۔ تیسرے سال قربانی کے موقع پر آقا علیہ السلام نے فرمایا: کلوا وادخروا۔
(ابن حبان، الصحيح، 13: 253، رقم: 5929)
’’اس سال کھاؤ بھی اور بچاؤ بھی‘‘۔
پچھلے سالوں میں لوگوں میں قحط سالی و پریشان حالی تھی، کئی لوگوں کے گھروں میں کھانے کو کچھ نہیں تھا اس لیے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تقسیم کر دو، تین دن سے زیادہ کوئی جمع نہ کرے۔ تیسرے سال چونکہ خوشحالی آگئی تھی، لہٰذا اب وہ حکم اٹھا لیا گیا اور تین دن سے زائد رکھنے کی بھی اجازت مرحمت فرمادی۔
قربانی کیا ہے؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر گوشت کی تقسیم قربانی نہیں تو پھر قربانی کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
لَنْ يَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ
’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔
(الحج، 22: 37)
گوشت پیٹ میں چلا جاتا ہے اور خون زمین پر بہہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو نہ گوشت پہنچتے ہیں نہ خون پہنچتا ہے بلکہ ذبح کرتے ہوئے جو نیت تھی کہ ’’باری تعالیٰ تیری خاطر ذبح کر رہا ہوں‘‘ پس وہی نیت اللہ تعالیٰ کو پہنچتی ہے۔ اسی نیت نے اس بکرے کے ذبح کو قربانی بنا دیا۔ عام دنوں میں بھی بکر ے ذبح ہوتے ہیں مگر وہ قربانی نہیں کہلاتے، اس لئے کہ نیت گوشت کو بیچنا اور کاروبار کرنا ہے۔ اِسی قصاب نے معاوضہ لے کر یہ بکرا بھی ذبح کیا اور ذبح کرنے والے نے کہا باری تعالیٰ یہ میں تیرے لیے قربان کر رہا ہوں۔ پس اس نیت نے اسے قربانی بنا دیا حالانکہ نیت دکھائی نہیں دیتی۔ معلوم ہوا جو چیز دکھائی نہیں دیتی وہی اصل ہے اور جو دکھائی دیتا ہے وہ اس کے لوازمات ہیں، اصل نہیں۔ اِس نیت کے اخلاص کو اللہ نے تقویٰ کا عنوان دیا۔
تقویٰ کتنی جلدی اللہ کی بارگاہ میں پہنچتا ہے؟ آقا علیہ السلام نے فرمایا: جب تم چھری چلاتے ہو تو خون کا پہلا قطرہ زمین پر بعد میں گرتا ہے مگر اخلاص اللہ کے حضور پہلے پہنچ جاتا ہے۔ اخلاص کی رفتار اتنی تیز ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ایک شٹل کو بھی چاند/خلائ/کسی سیارے پر بھیجنا ہو تو وہ بھی وقت لیتا ہے جبکہ اخلاص ایک ایسی سواری ہے کہ خون کا قطرہ ابھی زمین پر نہیں گرتا مگر اخلاص اللہ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
تقویٰ اور اخلاص کی جتنی رفتار تیز ہے، اتنا ہی اس کا اثر تیز ہے۔ جس میں اخلاص جتنا زیادہ ہو گا اتنی تاثیر زیادہ ہو گی۔ اللہ پاک عمل کو نہیں دیکھتا بلکہ ہماری نیات دیکھتا ہے۔ ہماری نظر اس شے پر ہے جو نظر آتی ہے جبکہ اللہ کی نظر اس شے پر ہے جو نظر نہیں آتی۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا:
إِنَّ اﷲَ لَا يَنْظُرُ إِلَی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلَکِنْ يَنْظُرُ إِلَی قُلُوبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ
’’اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا، البتہ وہ تمہارے دلوں اور عملوں کی طرف دیکھتا ہے‘‘۔
(صحيح مسلم،کتاب البر والصلة والآداب، 4: 1987، رقم: 2564)
نیت اعلیٰ و مقبول کیسے ہوگی؟
ذہن نشین رہے کہ اعمال کی کثرت سے نیت مقبول و اعلیٰ نہیں ہوتی بلکہ نیت، اخلاص کے ساتھ اعلیٰ بنتی ہے۔ حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ
الاخلاص سرّ بين العبد و بين اﷲ
’’اخلاص اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ایک راز ہے ‘‘۔
(قرطبی، تفسير، 2:146)
اخلاص اگر اعلیٰ ہو تو قلیل عمل بھی کثیر بن جاتا ہے اور اگر اخلاص کم تر و کمزور ہو تو کثیر عمل بھی قلیل بن جاتا ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
نِيَّهُ الْمُوْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ
’’مومن کی نیت اُس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے۔
(طبرانی، المعجم الکبير، 6 /185، رقم: 5942)
عمل quantity کا نام ہے اور نیت quality کا نام ہے۔ عمل مقدار کا نام ہے اوراخلاص معیار کا نام ہے۔ اعلیٰ نیت، حسین نیت اور اخلاص کامل کے ساتھ اعلیٰ معیار کے دو نفل، ریاء و دکھلاوے کے ہزار نفل سے بہتر ہیں۔ آقا علیہ السلام نے ایک مرتبہ صحابہ کرام اور ان کے بعد کے زمانے کے لوگوں کے اعمال اور اجروں کا موازنہ کرتے ہوئے فرمایا:
لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي. فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيْفَهُ
’’میرے صحابہ کو برا مت کہو۔ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو پھر بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘
(صحيح بخاری، کتاب فضائل الصحابه، 3 /1343، الرقم:3470)
آقا علیہ السلام نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حد درجہ انفاق کو دیکھتے ہوئے پوچھا:
يَا أَبَا بَکْرٍ، مَا أَبْقَيْتَ لِاَهْلِکَ؟
’’اے ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو‘‘؟
اب اُن کا جو جواب تھا وہ بنائے اخلاص ہے۔ عرض کیا:
أَبْقَيْتُ لَهُمُ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ
’’میں ان کے لئے اﷲتعالیٰ اور اُس کا رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں‘‘۔
(ترمذی، السنن، باب: فی مناقب أبي بکر وعمر رضی اﷲ عنهما، 6: 614، رقم: 3675)
توکل، یقین اور اخلاص تینوں مضمون سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ایک جملے میں موجود ہیں۔ اس عظیم بات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل امین کو بھیج دیا، انہوں نے آکر عرض کیا یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! اللہ رب العزت نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام بھیجا ہے اور پیغام دیا ہے کہ ابوبکر سے پوچھیں:
هل انت عن ربک راض؟
’’کیا اپنے رب سے آپ راضی ہو‘‘؟
بغیر اخلاص سے عمل کرنے والے کو فکر ہوتی ہے کہ آیا اللہ مجھ سے راضی ہوا یا نہیں؟ جن کا اخلاص طاقتور نہ ہو اس کی فکر یہ ہے کہ معلوم نہیں اللہ نے قبول کیا یا نہیں؟ مگر جس نے اخلاص کے کمال کے ساتھ عمل کیا، اس سے اللہ پوچھتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حد درجہ تک ایثار و قربانی کے بعد تم مجھ سے راضی بھی ہو یا نہیں؟ کیونکہ گھر کھانے، پینے اور پہننے کے لیے کچھ نہیں بچا، کہیں ایسا نہ ہو کہ طبیعت پر بوجھ ہو؟
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پیغام کو سن کر عالم وجد میں کھڑے ہو گئے، تین چکر لگائے اور کہتے جاتے تھے:
أنا عن ربي راض
’’میں اپنے رب سے راضی ہوں‘‘۔
(اصفهانی، حلية الاولياء، 7: 105)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک ایک لفظ میں کمالِ اخلاص، کمالِ یقین، کمالِ محبت اور کمالِ تعلق کا اظہار نمایاں ہے۔
اخلاص کیا ہے؟
اخلاص اس کیفیت کا نام ہے جس میں بندہ جو کرتا ہے اللہ کی محبت، رضا، قرب جوئی، دیدار اور حکم کی تعمیل کے لیے کرتا ہے، اس کے سوا کوئی شے اُس کی نیت و خیال میں داخل نہیں ہوتی۔ یہ اخلاص تھوڑے عمل کے پیچھے بھی ہو تو اُسے بھی بڑا اور طاقتور بنا دیتا ہے۔ مقدار اگر چھوٹی تھی لیکن اگر اس کی کوالٹی اعلیٰ تھی تو اس کی طاقت کروڑوں اعمال سے بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے اگر ایک طرف اخلاص میں کمزور دس لاکھ آدمی اللہ سے مانگ رہے ہوں اور دوسری طرف ایک ایسا اللہ کا بندہ جو اخلاص کی نعمت سے مالا مال ہے، اللہ سے دعا کررہا ہو تو فرق نمایاں ہوگا۔ فرق یہ ہے کہ اللہ سے تعلق میں اس ایک بندے کا اخلاص عرشی ہے جبکہ ہمارے جیسے لوگ اعمال کا انبار لیے پھریں، ان کا اخلاص فرشی ہے۔
جتنا اخلاص قوی ہو گا اتنا دلوں کا تقویٰ قوی ہو گا، وہ اتنا جلد اللہ کو پہنچے گا اور جب اللہ کو جلد پہنچے گا تو اللہ کا جواب بھی اتنا ہی جلد آئے گا، قبولیت بھی جلد ہوگی۔
قبولیت کا مطلب یہ کبھی نہ سمجھ لیں کہ جو ہم نے مانگا ہے اسی شکل میں ظہور پذیر ہو جائے، نہیں۔ وہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ اخلاص والا کبھی اپنے مانگے پر انتظار نہیں کرتا۔۔۔ اپنی عبادت پر اجر کا طلبگار نہیں ہوتا۔۔۔ اپنی دعا پر اس کے نتیجے کے ظہور کا انتظار نہیں کرتا۔۔۔ اخلاص نام ہی اس شے کا ہے کہ عبادت کرے اور عبادت نظر نہ آئے۔۔۔ عمل کرے اور عمل نظر ہی نہ آئے۔۔۔ جب عمل نظر ہی نہیں آنا تو اُس نے کون سے اجر کی تمنا و خواہش کرنی ہے۔
مراتبِ اخلاص
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ سَاَلَ اﷲَ الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ بَلَّغَهُ اﷲُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ مَاتَ عَلَی فِرَاشِهِ
’’اگر کسی شخص نے صدق اور اخلاص کے ساتھ اللہ سے شہادت طلب کی اور اسے شہادت نہ بھی ملی (بخار کے ساتھ گھر میں بستر پہ لیٹے ہوئے وفات ہو گئی) اللہ تعالیٰ اسے بھی شہداء میں شامل کرے گا‘‘۔
(مسلم، الصحيح، کتاب الامارة، 3: 1517، رقم: 1909)
بستر کی موت نے اسے صدق و اخلاص کی بناء پر شہداء میں شامل کروادیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام سے وعدہ فرمایا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لیے میری یہ عطا اور نعمت ہے کہ اگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی کسی نیک عمل کے کرنے کی نیت کرے مگر اُس پر عمل نہ کر سکے، اللہ تعالیٰ عمل نہ کرنے کے باوجود بھی اُس کے نامہ اعمال میں اُس عمل کے کرنے کا ثواب لکھ دیتے ہیں۔
(بخاری، الصحيح، کتاب الرقاق، 5: 2380، رقم: 6126)
گویا اللہ رب العزت نے اُس کے اخلاص کی بھی قدر کی۔ اس نے اخلاص نیت کے ساتھ نیکی کرنے کا جو ارادہ کیا تھا اُس پر بھی اجر لکھ دیا۔ مقامِ غور یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے عمل کیے بغیر محض اخلاص کے ساتھ جو ارادہ کیا تھا اس پر بھی نیکی لکھ دی تو اگر وہ بندہ عمل کر لے تو پھر اس کے اجرو ثواب کا عالم کیا ہو گا؟
ارشاد فرمایا:
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ اَمْثَالِهَا
’’جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لیے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں‘‘۔
(الانعام، 6: 160)
کسی کو کہا کہ اس کے لیے 70 گنا اجر، کسی کے لیے کہا سو گنا اجر، کسی کے لیے کہا 700 گنا اجر اور کسی کے لیے بے حدو حساب اجر کا اعلان فرمایا۔
ایک ہی عمل کے اجر پر اتنے درجات کا فرق کہ دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اور اس سے بھی بے حد و حساب اجر کی نوید اخلاص نیت کی بناء پر ہے۔ جب بندہ اخلاص کی راہ کو اپنا لیتا ہے تو اس کے دو نفل نامہ اعمال میں ہزار نفل سے زیادہ بن جاتے ہیں۔
قیامت کے دن جب لوگوں کا نامہ اعمال کھولا جائے گا تو وہ حیران ہو جائیں گے کہ ہم نے تو اتنی نیکیاں نہیں کیں، مگر اتنا اجر کیوں لکھا ہوا ہے؟ جواب آئے گا یہ اجر تیرے اخلاص کی وجہ سے ہے۔ تیرے عمل میں موجود للہیت، اخلاصِ نیت، استحضارِ نیت، اللہ کی محبت کی قوت، اُس کی رضا طلبی کی قوت اور لوجہ اللہ نیت نے تیرے ایک عمل کو عرش تک پہنچا دیا۔
دوسری طرف ایک شخص گناہ کرنے کا ارادہ تو کرتا ہے مگر اللہ کے خوف سے وہ گناہ کرتا نہیں ہے، آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ پاک فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ اس کے لیے ایک نیکی لکھ لو۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہاں بھی اس کا اخلاصِ نیت کام آیا۔ وہ اللہ کے عذاب و ناراضگی سے ڈر گیا اور اللہ کے ڈر کی وجہ سے اُس نے گناہ نہیں کیا۔ پس صدق و اخلاص کی قوت کی بناء پر نیکی کا اجر اسے اللہ سے ڈرنے کی بات پر مل گیا۔ یہ اس کی نیت کا اخلاص تھا کہ اس نے گناہ کا ارادہ کیا مگر عمل نہ کرنے پر نیکی کا مستحق ٹھہرا اور اگر گناہ کر لے تو ایک ہی گناہ لکھا جائے گا۔ یہ بھی امت محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحمت کا اظہار ہے۔
(صحيح مسلم، کتاب الايمان، 1 /117، الرقم:129)
نیت میں اخلاص کا مقام و مرتبہ
ریاء کو جڑ سے نکال دینے کا نام اخلاص ہے۔ نیت میں سے ملاوٹ کو دور کر دینا اخلاص ہے۔ ریاء ایک ایسا لباس ہے جو سب کچھ چھپا دیتا ہے۔ اگر ریا کی سنگینی کا خود ریاکار کو پتہ چل جائے تو بہت سے ریا کار تائب ہو جائیں۔ ریاء امراضِ روحانی میں سے ہے۔ حضرت ابو امامہ الباہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں:
جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: اَرَاَيْتَ رَجُلًا غَزَا يَلْتَمِسُ الْاَجْرَ وَالذِّکْرَ مَالَهُ
’’ایک شخص حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اگر کوئی شخص لالچ اور طمع کی خاطر یا نام آوری کے لیے جہاد کرے، اس کے لئے کیا حکم ہے‘‘؟
اس کی جہاد سے اجرت لینے کی بھی نیت تھی اور ناموری کی بھی نیت تھی۔ گویا یہ نیت میں ملاوٹ ہو گئی۔ عرفاء نے ترجمہ کیا کہ اس نے جہاد اس لئے کیا کہ اللہ سے اجر ملے گا مگر ساتھ ملاوٹ تھی کہ شہرت و ناموری بھی ملے گی۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
لَا شَئْیَ لَهُ
’’اسے کوئی ثواب نہ ملے گا‘‘۔
اس لیے کہ نیت میں اخلاص نہیں تھا۔
فَاعَادَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
’’اس (سوال کرنے والے) نے تین مرتبہ بار بار دوہرایا‘‘۔
يَقُولُ لَهُ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم لَا شَيْئَ لَهُ ثُمَّ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ لَايَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ اِلَّا مَاکَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهَهُ
’’حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی جواب فرمایا کہ اسے کچھ ثواب نہ ملے گا پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لئے ہو اور اُسے کرنے سے محض اللہ کی رضا مندی مقصود ہو‘‘۔
(سنن النسائی، کتاب الجهاد، 6: 25، الرقم:3140)
جہاں اخلاص کے ساتھ ریاء کی ملاوٹ تھی وہاں وہ اجر سے محروم ہو گیا اور جس نے اخلاص کے ساتھ جہاد کی نیت کی تھی اور شہادت کی طلب کی تھی مگر شہادت نہیں آئی اور بستر پہ لیٹے فوت ہو گیا، آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ شہیدوں میں شمار ہو گا۔ اِدھر اُس نے جہاد بھی کیا حتی کہ شہید بھی ہو گیا مگر دل میں چھپی ہوئی نیت کی وجہ سے ثواب کا حقدار نہ ٹھہرا۔
اسی لئے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إنما الأعمال بالنيات
’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔
(بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، 1: 30، رقم: 54)
تمام اعمال کی قبولیت کا معیار نیت پر ہے اور نیت کا مدار اخلاص پر ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
إِنَّ اﷲَ لَا يَقْبَلُ مِنْ الْعَمَلِ إِلَّا مَا کَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهِ وَجْهُهُ
’’اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لیے ہو اور اسے کرنے سے محض اللہ تعالیٰ کی رضامندی مقصود ہو‘‘۔
(نسائی، السنن، کتاب الجهاد، 6: 25، رقم: 3140)
آقا علیہ السلام نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا گورنر بنایا۔ رخصتی کے وقت انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! مجھے کوئی ایک نصیحت فرما دیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
أخلص دينک، يکفک العمل القليل
’’اپنے دین کو خالص کر لو۔ (یعنی اپنی نیت کو خالص کر لو) تو تھوڑا سا عمل بھی کافی ہو جائے گا‘‘۔
(حاکم، المستدرک، 4: 341، رقم: 7844)
اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ کوئی نیکی کرے یا اللہ کے ساتھ عبادت کا کوئی معاملہ کرے اور اپنے اس عمل کو صرف اللہ کی رضا کے لیے خالص رکھے، باقی ساری نیتوں کو نکال دے، تو اللہ کی عزت کی قسم! اس کو کبھی رنج و ملال اور شکوہ ہی نہ رہے گا۔ اخلاص نیت کے اس مقام و مرتبہ کی بناء پر ہمیشہ یہ ذہن میں رہے کہ عمل بندوں کے لیے نہ کرو بلکہ خدا کے لیے کرو۔ جب عمل خدا کے لئے کیا جائے گا تو پھر ہمیشہ رحمت و برکت ہی شامل حال ہوگی۔
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
طوبیٰ للمخلصين أولٰئک مصابيح الهدی
’’مبارک ہو اخلاص والوں کو کہ وہ ہدایت کا چراغ ہیں‘‘۔
(ابونعيم، حلية الأولياء، 1: 16)
شرک اور ریاء سے نجات
حضرت فضیل ابن عیاض رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ ریاء کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:
العمل لأجل الناس شرک وترک العمل لأجل الناس رياءٌُ والإخلاص أن يوافيک اﷲ منهما
’’لوگوں کے لیے عمل کرنا شرک ہے اور لوگوں کے لیے عمل ترک کر دینا ریاء ہے اور اخلاص یہ ہے کہ اللہ شرک اور ریاء دونوں سے تمہیں چھٹکارا دے دے‘‘۔
(نووی، الاذکار من کلام سيد الابرار، ص: 13)
اس فرمان سے یہ تو سمجھ میں آ گیا کہ لوگوں کے لیے عمل کرنا شرک ہے یعنی جب لوگوں کے دکھلاوے کے لیے، لوگوں کو خوش کرنے کے لیے، لوگوں میں معزز بننے کے لیے عمل کیا تو جو چیز اللہ کے لیے خاص تھی، اس نے وہ بندوں کے لیے کر دی لہذا شرک ہو گیا۔ نیت اللہ کے لیے تھی اس نے بندوں کے لیے کرلی لہذا شرک ہو گیا۔ بندہ نیکی کا عمل کر رہا تھا مگر لوگوں کی خاطر چھوڑ دیا کہ لوگ دیکھ رہے ہیں۔ لوگ کہیں گے بہت نیک ہے، یہ تہجد گزار ہے، نیکو کار ہے، لوگوں کو میری نیکیوں پر آگاہی ہو جائے گی، لہذا اس نے لوگوں کی وجہ سے وہ عمل چھوڑ دیا، لہذا یہ ریاء ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کے لیے عمل چھوڑ دینا کیسے ریاء بنا؟
ایسا کرنا اس لیے ریاء بنا کہ کامل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اخلاص کی شرط ہے کہ جب آدمی عمل کرے تو اس عمل کے دوران نہ اسے اپنا عمل نظر آئے، نہ عامل نظر آئے اور نہ کوئی اور خَلق نظر آئے۔ جب عمل کرے تو اُس کی نگاہ سے سب کچھ اوجھل ہو جائے۔ نہ لوگ نظر آئیں، نہ اپنا آپ نظر آئے اور نہ عمل نظر آئے۔ جب ہر شے کی نفی ہو جائے تو کہتے ہیں یہ عمل خالصتاً لوجہ اللہ ہے۔ یعنی دھیان جب اللہ کی طرف ہو جائے تو اُس غلبہ دھیان میں بندے کو کوئی اور شے نظر نہیں آتی۔ کاملین کا دھیان کبھی ہٹتا ہی نہیں ہے۔ ناقص توجہ سے دھیان ناقص ہو جاتا ہے اور کامل توجہ سے دھیان بھی کامل ہو جاتا ہے حتی کہ اپنا بھی دھیان نہیں رہتا۔ آقا علیہ السلام نے ’’احسان‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
اَنْ تَعْبُدَاللّٰهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ
’’تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اُس کو دیکھ رہے ہو‘‘۔
آقا علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ تم اُس کو دیکھ رہے ہو بلکہ فرمایا: ’کانک تراہ‘ اپنے اوپر یہ خیال طاری کر لو کہ گویا تم اُس کو دیکھ رہے ہو۔ یہ کیفیت وارد کر لو۔ تمہاری ایسی کیفیت ہو جائے جیسے دیکھنے والے کی ہوتی ہے۔ جب مشاہدہ کی کیفیت طاری ہو گی تو تم خود کو بھول جاؤ گے۔ جب یہ کیفیت طاری ہو جائے کہ محبوب حقیقی کو دیکھ رہا ہوں تب بھی بہت ساری چیزوں سے دھیان ہٹ جاتا ہے اور اُسی کی طرف انسان متوجہ ہوجاتا ہے۔
طبقہ ملامتیہ، صوفیاء میں ایک طبقہ ہے۔ وہ ریاء کو ختم کرنے اور اخلاص کے حصول کے لیے ظاہری طور پر ایسے اعمال کرتے ہیں جو حقیقت میں خلاف شریعت نہیں ہوتے مگر عام دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ شاید یہ خلاف شرع ہے۔ لوگ انہیں برا بھلا کہتے ہیں اور ان کو چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اسی لیے ایسا کرتے ہیں تا کہ لوگ انہیں برا بھلا کہیں اور انہیں چھوڑ جائیں، انہیں ملامت کریں۔ اس سے وہ اپنا اخلاص بچاتے ہیں۔ صوفیاء میں یہ اعلیٰ طبقہ نہیں بلکہ ادنیٰ طبقہ ہے۔
حضور داتا گنج بخش علی ہجویری کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ فرقہ ملامتیہ کا ایک صوفی مجھے ملا، میں نے اُس سے پوچھا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس نے کہا لوگوں سے جان چھڑانے کے لیے۔ میں نے اُس ملامتی صوفی کو کہا کہ لوگوں سے جان چھڑانی ہے تو خود ہی لوگوں کی جان چھوڑ دو۔ اگر وہ آپ سے عقیدت کرتے ہیں تو آپ ان کو کیوں دیکھتے ہیں؟ خرابی اُن کے دیکھنے سے نہیں بلکہ خرابی آپ کے دیکھنے سے ہے۔ آپ کا دھیان لوگوں کے کہنے پر ہے، رب کو منانے پر نہیں ہے۔ دھیان اگر لوگوں سے کاملاً ہٹ جائے تو پھر آدمی نہ عمل اُن کے لیے کرتا ہے اور نہ ترکِ عمل ان کے لیے کرتا ہے، اُسے کوئی اور نظر ہی نہیں آتا۔ پس شرک اور ریاء دونوں سے نجات مل جائے تو اخلاص ہے۔
مخلص کیسے بنیں؟
ذیل میں اخلاص کی تعریف اور مخلص بننے کے لئے صوفیاء کے چند اقوال درج کئے جارہے ہیں:
- امام ابو القاسم القشیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شیخ امام ابو علی الدقاق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
الاخلاص ترک ملاحظة الخَلق
’’اپنے اعمال میں مخلوق کے نظر آنے کو ترک کر دینا اخلاص ہے‘‘۔
(نووی، بستان العارفين، 1: 13)
یہ نہیں فرمایا کہ لوگوں کے لیے عمل کرنا، دکھلاوے کے لیے عمل کرنا ریاء ہے بلکہ فرمایا اپنے اعمال میں مخلوق کے نظر آنے کو ترک کر دینا اخلاص ہے۔ کوئی دکھائی نہ دے اور کوئی سنائی نہ دے۔ پھر کسی کی بات ملال نہیں دیتی۔
- حضرت ابو عثمان المغربی فرماتے ہیں:
نسيان رؤية الخَلق بدّوام النظر إلی الخالق
’’اگر ہر وقت نظر خالق کی طرف رہے تو رؤیت خَلق کا نسیان ہو جاتا ہے۔ پھر مخلوق نظر نہیں آتی‘‘۔
(ابوالقاسم القشيری، الرسالة القشيرية، ص: 209)
- امام محمد بن علی الکتانی سے کسی نے عرض کہ وصیت فرمائیے۔ فرمایا:
کن کما ترء الناس إل فارالناس ما تکون
’’تو حقیقت میں ایسا ہو جا جیسا تو اپنا آپ لوگوں کو دکھاتا ہے اور اگر تو ایسا نہ بن سکے تو پھر تو اپنا آپ لوگوں کو وہی کچھ دکھا جو حقیقت میں ہے‘‘۔
(سلمی، طبقات الصوفية، ص: 374)
امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ گلی میں سے گزر رہے تھے، راستے میں بچے کھیل رہے تھے، کسی ایک بچے نے دوسرے بچوں کو آواز دی کہ رک جاؤ! اتنی بڑی ہستی گزر رہی ہے کہ جو ہر رات عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتی ہے، ساری رات قیام کرتے ہیں۔ یہ سن کر امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو پڑے۔ اس وقت تک وہ عشاء کے وضو سے فجر نہیں پڑھتے تھے۔ اپنا گریبان پکڑ کر کہا کہ تو عشاء سے فجر تک نہیں جاگتا جبکہ لوگ تجھے ایسا سمجھتے ہیں، پھر اپنے آپ کو کہا کہ آج کے بعد رات کو تو نہ سویا کر۔ ایسا ہی بن، جیسے لوگ سمجھتے ہیں۔ اس دن کے بعد چالیس برس حیات رہے اور عشاء کے وضو سے فجر پڑھتے رہے۔
گویا جیسا تو لوگوں کو اپنا آپ دکھاتا ہے ویسا بن جا۔ اگر یہ مشکل کام ہے تو اس عمل کو چھوڑ دے، پھر کم سے کم وہی حال دکھا جو حقیقت میں تیرا ہے۔ جو معمول تیرے اندر ہے وہی باہر بھی دکھا۔ ظاہر وباطن کا دھوکہ نہ کر۔ ظاہر و باطن ایک جیسا ہو جائے تو اسی کو اخلاص کہتے ہیں۔
- حضرت مقہول الدمشقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
ما أخلص عبد قط أربعين يوما إلا ظهرت ينابيع الحکمة من قلب إلی لسانه
’’اخلاص کے ساتھ جس شخص نے چالیس دن گزار لیے، اُس شخص کے دل میں حکمت کا چشمہ پھوٹ پڑے گا اور وہ اُس کی زبان سے جاری ہوں گے‘‘۔
(ابن قيم، مدارج السالکين، 2: 69)
- حضرت ابو یعقوب السوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
متی شهدوا فی اخلاصهم الاخلاص احتاج اخلاصهم إلی اخلاصهم
’’صاحبانِ اخلاص کو اگر اپنے اخلاص میں خود اخلاص نظر آنے لگے تو اُن لوگوں کے اخلاص کو اخلاص کی حاجت ہے‘‘۔
(نووی، بستان العارفين، 1: 27)
اخلاص کا معنیٰ سوائے اللہ کے ہر شے سے خلاصی پا جانا ہے۔ جب اس نے مخلوق کو دیکھنے سے خلاصی پا لی، عمل سے خلاصی پا لی، اپنے آپ کو دیکھنے سے خلاصی پا لی تو تین درجے خلاصی کے حاصل کر گیا۔ اب اخلاص والے کو اپنا اخلاص نظر آ رہا ہے، تو اخلاص کا دکھائی دینا بھی ایک درجے کا ریاء ہے۔ اخلاص کر کے بھی اسے اخلاص نظر نہ آئے۔ اس کی نظر صرف اللہ پر رہے تب اخلاص کامل ہوتا ہے۔ یہ اخص الخواص کا درجہ ہے۔ جب اللہ کے لیے کوئی عمل کریں اس میں کوئی شخص نظر نہ آئے۔ نہ کوئی دکھائی دے نہ سنائی دے، یہی اخلاص ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں صدق و اخلاص کی اس نعمت سے مالا مال فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم