منہاج القرآن علماء کونسل اور منہاجینز کے زیر اہتمام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے مرتب کردہ فروغ امن اور انسداد دہشت گردی کے اسلامی نصاب کے سلسلہ میں مورخہ 30 جولائی بروز جمعرات عظیم الشان نصاب امن علماء کنونشن منعقد ہوا۔ جس میں پاکستان کے نامور و جید علماء کرام محترم علامہ مفتی عبدالقوی (ملتان)، محترم علامہ شہزاد احمد مجددی (لاہور)، محترم علامہ پروفیسر عون محمد سعیدی (بہاولپور)، محترم علامہ سعید احمد فاروقی (ملتان)، محترم علامہ پیر مفتی ممتاز الحسن شاہ (زیب سجادہ کیلیانوالہ شریف)، محترم مفتی سعید احمد طفیل (نارووال)، محترم پیر سید عبدالقادر شاہ (خطیب مرکز سیفیہ راوی ریان لاہور)، محترم علامہ الحاج امداد اللہ نعیمی، محترم مفتی افتخار احمد نعیمی (سابق صدر نعیمین ایسوسی ایشن پاکستان)، محترم مفتی محبوب احمد چشتی (جامعہ نعیمیہ) اور ایک ہزار سے زائد علماء کرام اور منہاجینز نے شرکت کی۔ نظامت کے فرائض محترم علامہ سید فرحت حسین شاہ (مرکزی نائب ناظم اعلیٰ تحریک) اور محترم علامہ میر محمد آصف اکبر قادری (ناظم علماء کونسل) نے سرانجام دیئے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس کنونشن کو اسلامی نصاب کے حوالے سے تربیتی ورکشاپ قرار دیا۔ آپ نے انسداد دہشتگردی اور فروغ امن کے نصاب کے حوالے سے خصوصی لیکچر دیتے ہوئے فرمایا کہ
’’دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے آپریشن ضرب عضب کی طرح ہم نے ’’ضرب علم‘‘ کا آغاز کر دیا ہے۔ انتہاء پسندی کے خاتمہ، امن اور رواداری کے فروغ کے حوالے سے علمائے کرام کا کردار مرکزی ہے۔ فوجی آپریشن کی 100 فیصد کامیابی اسی صورت ممکن ہے جب علمی، سیاسی، سماجی سطح پر عوامی شعور اجاگر ہوگا۔ دہشتگرد ان علاقوں اور ممالک میں قوت پکڑتے ہیں جہاں ناانصافی، سیاسی، سماجی استحصال اور قرآن و سنت، آئین و قانون کی غلط تشریح ہوتی ہے اور اس علمی بد یانتی پر کوئی رد عمل دینے والا نہیں ہوتا یا مصلحتاً خاموشی اختیا ر کی جاتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن نے تاریخ عالم میں پہلی بار فروغ امن کیلئے نصاب تیار کیا ہے۔ اس نصاب میں شامل 5 کتب ہر طبقہ کے افراد کے مطالعہ کیلئے مفید ہیں۔ امن کے فروغ کے نصاب کا مسلک اور مسلکی اختلاف سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ عالم اسلام کے ہر فرد اور پوری انسانیت کے مفاد میں مرتب کیا گیا ہے۔ علمی و تحقیقی سطح پر جو خلاء تھا ہم نے اسے پر کرنے کی پرخلوص کوشش کی ہے۔
نسلوں کو انتہا پسندی اور فتنہ خوارج سے بچانا علماء کی سب سے زیادہ ذمہ داری ہے۔ دہشت گرد اور انکے گروپس نام بدل بدل کر کرہ ارض پر فساد پھیلارہے ہیں اور اختلاف کرنے والوں کو واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ ایسے عناصر خود واجب القتل ہیں۔ مدرسوں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبائ، اساتذہ انسداد دہشتگردی کے نصاب کو اپنے مطالعہ کا حصہ بنائیں۔ بالخصوص علماء آئندہ نسلوں کو اس فتنہ سے بچانے اور پاکستان کی بقاء کیلئے اپنا کردار ادا کریں‘‘۔
علماء کرام اور منہاجینز کی اس تربیتی ورکشاپ میں شیخ الاسلام نے اسلامی نصاب کے تعارف اور اس کی اہمیت پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ شیخ الاسلام کے اظہار خیال کے بعد درج ذیل جید علماء کرام نے تمام شرکاء کی نمائندگی کرتے ہوئے اس عظیم کاوش پر شیخ الاسلام کو خراج تحسین پیش کیا:
- محترم علامہ شہزاد احمد مجددی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس نصاب کی افادیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ اس کا اطلاق اس سے بھی زیادہ ضروری و اہم ہے۔ یہ تجدیدی و تاریخی اور عظیم کام ہے۔ ہمیشہ مردانِ خدا ایسے کام کرتے رہے ہیں۔ ہر دور میں تصوف ہی خارجیت کا رد رہا ہے۔ صوفیاء کرام خارجیت کے عملی رد کے لئے میدان میں آئے تھے۔ جوں جوں یہ میخانے بند ہوتے گئے تو نئے نئے ادارے کھل گئے اور انہوں نے ہماری سمت بدلنے کی کوشش کی۔ ہمیں اپنے نظام تصوف کے احیاء کے لئے عملاً کام کرنا ہوگا۔ برصغیر پاک و ہند میں اسلام مسجد سے نہیں بلکہ خانقاہ سے پھیلا تھا۔ اس نصاب کو صرف مسجد تک نہیں بلکہ خانقاہ تک بھی پھیلایا جائے۔ اس لئے کہ یہ اسلاف کی روایت ہے۔ یہ اعزاز ہمیں اللہ نے عطا کیا کہ ہم نے اس دور کے سب سے بڑے مرض کی تشخیص کی۔ اس نصاب پر آپ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اس مرض کی تشخیص کرلی ہے، ابھی عملی علاج باقی ہے۔ ان شاء اللہ اپنی منزل مقصود کو پائیں گے۔
- محترم علامہ سعید احمد فاروقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شیخ الاسلام کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ دور حاضر میں جو مرض بڑھتا جارہا ہے اس کی روک تھام کے لئے بیس کروڑ عوام کو ایک عظیم نصاب دیا۔ نصاب لکھنا مشکل کام ہے۔ آپ نے بڑی مشکل کو آسان بنادیا۔ یہ بشری طاقت نہیں، اس لئے کہ ایک صفحہ لکھا جائے تو ہماری صلاحیتیں جواب دے جاتی ہیں جبکہ آپ سینکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ بے شک آپ پر گنبد خضریٰ کا فیضان ہے۔ ہم علماء و مشائخ کو چاہئے کہ مدارس، مساجد، خانقاہوں میں اس نصاب کا اجراء کریں۔ اس نصاب کو ہر طبقہ میں فروغ دینے کے لئے کانفرنسز کا انعقاد کریں۔ اس نصاب کو عام کرنا ہمارا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسے تمام عوام تک پہنچانے کے لئے اخلاص عطا کرے۔
- محترم مفتی عبدالقوی (دارالعلوم عبیدیہ ملتان) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہ ہمارے لئے شیخ الاسلام فخر ہیں۔ دوسروں کے ہاں ہمیں کوئی ان جیسا نظر نہیں آتا۔ جتنی تصنیفات شیخ الاسلام نے دی ہیں دیگر تمام لوگ مل کر بھی یہ کام نہ کرسکے۔ اس صدی کے تمام علماء اپنے علم و تصنیفات، تلامذہ کے ساتھ ایک پلڑے میں ہیں تو دوسرے میں اکیلے شیخ الاسلام ہی کافی ہیں۔ جس نے توحید پر لکھا وہ نورِ عظمت رسالت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محروم ہوگیا۔ جس نے ادب رسالت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھا وہ توحید سے دور ہوگیا لیکن شیخ الاسلام نے متوازن و معتدل لکھا۔ اس کو شانِ مجددیت کہتے ہیں۔ تصوف کی تعلیمات کا درس دیتا ہوا آج اگر کوئی نظر آرہا ہے تو وہ شیخ الاسلام ہیں۔ نہ ان کی تحریر پر اور نہ ان کے عمل وکردار پر انگلی اٹھائی جاسکے۔ شیخ الاسلام کی کتب میں ہمارے لئے شہد ہے۔ ہمارے 500 دینی مدارس ہیں، ان شاء اللہ ان تمام دینی مدارس میں اس نصاب کو سبقاً پڑھایا جائے گا۔
- محترم پروفیسر عون محمد سعیدی (بہاولپور) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نصاب کے ذریعے آپ نے عظیم کام سرانجام دیا صرف یہ نہیں بلکہ ان کا ہر کام عظیم ہے۔ اللہ نے آپ کو پیدا ہی عظیم کاموں کے لئے ہے۔ اگر کسی عام شخص کو 100 زندگیاں بھی عطا کردی جائیں تو وہ ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ تحریکِ علم ہے اگر ہم اس نصاب کو فروغ دیں تو اس کے نتیجے میں وحدت پیدا ہوگی۔ اس وحدت سے حرکت ہوگی اور پھر مصطفوی انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ اللہ ہمیں ان کی قیادت میں منزل سے ہمکنار فرمائے۔ وہ لوگ جو اپنے ہوکر اپنوں کی مخالفت کرتے ہیں، عداوت کرتے ہیں ان کے لئے بھی امن کا نصاب بنایا جائے تاکہ اللہ انہیں بھی عقل و فہم اور ہدایت دے۔
اک ایسا شجر محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے
علماء کرام کے اظہار خیال کے بعد شیخ الاسلام نے مختلف امور پر شرکاء کے سوالات کے تفصیلی جوابات مرحمت فرمائے۔ اسی تربیتی ورکشاپ کو علماء کرام نے بے حد سراہا اور آئندہ بھی اس طرح کی ورکشاپس کے انعقاد کو وقت کا تقاضا قرار دیا۔ اس عظیم کنونشن اور تربیتی ورکشاپ کا اختتام شیخ الاسلام کی خصوصی دعا سے ہوا۔