عالم اسلام، عالم مغرب اور بالخصوص پاکستان میں کئی عشروں سے جاری دہشت گردی نے عوام و خواص کو شدید کرب میں مبتلا کررکھا ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر کسی ایک ملک کا یا کسی ایک مذہب کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردوں کی اکثریت ان کاروائیوں کو جہاد جیسے مقدس ٹائٹل کے ساتھ جوڑ رہی ہے۔ عالمی استعمار کی ریاستی دہشت گرد کاروائیوں کا بہانہ بناکر یہ جماعتیں اور افراد اِعلاے کلمۃ اللہ کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور قرآنی آیات، اَحادیثِ نبویہ اور فقہی عبارات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اِسلامی مصادر سے ناآشنا سادہ لوح مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کی برین واشنگ کرتے ہیں۔ نتیجتاً یہ متاثرہ لوگ عالمی سطح پر جہاد کے نام پر اِحترامِ اِنسانیت اور تکریمِ آدمیت کو پامال کرتے ہوئے اپنی جملہ دہشت گردانہ کارروائیوں کو خود ساختہ اسلامی تصورات و نظریات کا لبادہ پہناکر انہیں جائز قرار دیتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کو اس ساری پریشان کن صورت حال کا مرکز سمجھا جارہا ہے۔
ان حالات میں ضرورت اس امر کی تھی کہ ایک طرف دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کرتے ہوئے ان کا قلع قمع کیا جائے اور دوسری طرف معاشرے میں امن کے فروغ اور انتہا پسندانہ و دہشت گردانہ رویوں کی بیخ کنی کے لئے ہر طبقہ زندگی کو اسلام کی حقیقی تعلیمات پر مبنی علمی و فکری مواد فراہم کیا جائے تاکہ معاشرہ سے تنگ نظری و انتہا پسندی کے رحجانات کا نظریاتی طور پر خاتمہ ممکن ہوسکے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے اثرات و خطرات کی وجہ سے علمی و فکری بنیاد پر اس کا قلع قمع کرنے کے لیے کوئی ادارہ، ریاست یا یونی ورسٹی آگے بڑھتی اور قیامِ اَمن اور اِنسداد دہشت گردی و انتہا پسندی کو ایک science، subject اور curriculum کے طور پر متعارف کرواتی مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔
چنانچہ ایک مرتبہ پھر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اِس اہم عصری اور فکری ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے ’’فروغ امن اور انسداد دہشت گردی‘‘ کے لئے اسلامی نصاب امت مسلمہ کو عطا کیا۔ یہ نصاب اولاً لندن میں پریس کانفرنس کے ذریعے عالمی سطح پر پیش کیا گیا۔ یورپ بھر میں اس اقدام کو بے حد سراہا گیا اور اسے انسانیت کی ایک عظیم خدمت قرار دیا گیا۔ ثانیاً گذشتہ ماہ اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار میں اس نصاب کی تقریب رونمائی ہوئی (اس کی تفصیلات شمارہ ہذا کے اندرونی صفحات پر ملاحظہ فرمائیں) تحریک کی طرف سے یہ کارنامہ نہ صرف اُمتِ مسلمہ بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک عدیم النظیر اور فقید المثال تحفہ ہے۔ یہ نصاب کالجز، یونی ورسٹیز اور دیگر تعلیمی اِداروں کے طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ وہ اِنتہا پسندانہ فکر سے متاثر ہونے کے بجائے اِسلام کے تصورِ اَمن و سلامتی سے رُوشناس ہو کر معاشرے کے ذِمہ دار اور کارآمد اَفراد بن سکیں۔ شیخ الاسلام اور تحریک منہاج القرآن نے اپنا یہ فریضہ احسن طریقہ سے ادا کردیا۔ اب ملک و ملت کے ہر ذی شعور شخص، ذمہ دار ادارے اور مسلمان حکومتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس اسلامی نصاب کو شامل نصاب کرکے عالم انسانیت کو اس کرب سے نکالنے میں اپنا اپنا کردار اد اکریں۔ اب میڈیا اور حکومتی اداروں کا امتحان ہے کہ وہ اس سے ملکی سلامتی اور ملی ضروریات کو کس طرح پورا کرنے میں استفادہ کرتے ہیں۔
حکومت انتہا پسندی کے چیلنج سے نمٹنے کی بجائے سیاسی تماشوں میں مصروف ہے۔ موجودہ اور سابقہ حکومتوں نے دہشتگردی کے فتنہ بارے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ فوجی آپریشن دہشتگردی کے خاتمہ کی طرف پہلا ٹھوس قدم ہے۔ اصل معرکہ ضربِ علم و شعور کا آغاز اور ہر طرح کی ناانصافی کو جڑ سے ختم کرنا ہے۔ اگر سیاسی سطح پر یہ مقاصد حاصل نہ کیے گئے تو فوجی آپریشن کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابیاں عارضی ثابت ہونگی۔ فروغ امن کا نصاب اپنی نوعیت کی ایک منفرد عالم گیر تحقیقی اور علمی کاوش ہے۔دہشتگردی کو ختم کرنے کے نعرے اور دعوے اپنی جگہ مگر دہشتگردی کے فتنہ سے نمٹنے کیلئے حکومتی سطح پر جن ٹھوس اقدامات کی ضرورت تھی وہ نہیں اٹھائے گئے۔ اس نصاب سے یہ خلاء پر کرنے میں مدد ملے گی۔
- پاکستان اپنی تاریخ کے سنگین ترین بحرانوں سے دو چار ہے مگر پارلیمنٹ میں استعفیٰ استعفیٰ کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ مظلوم عوام پارلیمنٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور پارلیمنٹ اپنے اراکین کے مسائل حل کرنے کے بھی قابل نہیں ہے۔ ملک اور قوم کی بدقسمتی ہے کہ بحران اور نااہل حکمران ایک ساتھ مسلط ہیں۔ پاکستان آج سیلاب کے پانی اور لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ حکمران جتنا پیسہ جعلی منصوبوں اور تشہیری مہم پر خرچ کررہے ہیں اگر اتنا پیسہ سستی بجلی کے ہائیڈل منصوبوں پر خرچ کرتے تو قوم 16,16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے نجات پا چکی ہوتی۔
قصور سکینڈل ملکی تاریخ کا بدترین اور شرمناک واقعہ ہے۔ پولیس اور حکومتی سرپرستی کے بغیر کوئی یہ جرم نہیں کرسکتا۔ ظلم کے خلاف بولنے والوں پر پولیس گولیاں اور لاٹھیاں برساکر انہیں خوفزدہ کرتی ہے۔ وزیراعلیٰ جوڈیشل کمیشن بنانے کے اعلانات کر کے اصل ملزموں کو بچانے کا وقت حاصل کر تے ہیں۔ وزیراعلیٰ کوئی نیا کمیشن تشکیل دینے سے پہلے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر بننے والے کمیشن کی رپورٹ شائع کریں اور قوم کو بتائیں کہ ایک سال سے اس رپورٹ کو کیوں چھپا کر رکھا گیا ہے؟ آٹھ سال میں بدترین سکینڈل آئے اور ہر سکینڈل کے پیچھے پولیس اور حکمران جماعت کے اراکین کا گھناؤنا کردار نظر آیا مگر کسی ایک میں بھی ملزمان کو سزا دینا دور کی بات فیئر ٹرائل بھی نہیں ہونے دیا گیا۔ سانحہ سمبڑیال، سانحہ جوزف کالونی، سانحہ کوٹ رادھا کشن، 2010ء اور 2014ء کا سیلاب، سانحہ ماڈل ٹاؤن ان تمام سانحات میں پنجاب پولیس اور پنجاب کے حکمرانوں کا کردار نظر آیا مگر کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہونے دی گئی۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن اور قصور سانحہ سے ثابت ہو گیا کہ سوسائٹی کے کمزور طبقات کا کوئی پرسان حال نہیں اور کوئی ادارہ ان کے آنسو پونچھنے والا نہیں۔ قوم کے بچوں، بچیوں کو تعلیم اور تحفظ نہ دے سکنے والے حکمران کس منہ کے ساتھ اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں اور قوم ان کرپٹ حکمرانوں کی غلامی میں کب تک سسکتی رہے گی؟۔
حقیقی آزادی کیلئے ظلم پر مبنی نظام کا خاتمہ ناگزیر ہے، آج سے ایک سال قبل حکومتی مظالم کا شکار عوام نے کرپشن میں لتھڑے ہوئے نظام سے جان چھڑانے کیلئے انقلاب مارچ کیا اور دھرنا دیا، ہماری جدوجہد جاری ہے آئندہ بھی آئین کی بالادستی اور عوام کو با اختیار بنانے کیلئے کسی جانی و مالی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے، ہمارے کارکنوں نے ظلم و استحصال سے پاک پاکستان کیلئے شہادتیں قبول کر کے تحریک پاکستان کی یادوں کو تازہ کیا۔ جہالت، غربت، دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف جہاد جاری رہے گا اور ہر غریب اور با صلاحیت پاکستانی کو اس کے آئینی و قانونی حقوق دلوانے کے لئے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔