شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دروسِ مثنوی، مولائے روم کا تعارف
مولانا روم کو عرف عام میں مولائے روم بھی کہتے ہیں۔ آپ مولانا رومی کے لقب سے جانے جاتے ہیں آپ کا اصل نام محمد ہے اور لقب جلال الدین ہے۔ نسبتاً صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں آپ کا پورا نسب محمد بن محمد بن محمد بن حسین بن احمد بن قاسم بن مصیب بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ہے۔ آپ بلخ میں پیدا ہوئے۔ بلخ میں سلطنت خارزمی تھی۔ آپ کے وقت سے قبل محمد خارزم شاہ خارزمیاں کا بہت بڑا فرمانروا تھا۔ اس کا اقتدار تمام ایران ماوراء النہر، وسطی ایشیاء کے حصے کاشغر اور عراق کے علاقے تک پھیلا ہوا تھا۔
آج بلخ افغانستان کا ایک اہم شہر ہے۔ مولانا روم کے والد گرامی کا نام بہاؤالدین تھا۔ جو بہت بڑے عالم و عارف تھے۔ دور، دراز سے صوفی ان سے فتویٰ لینے آتے تھے۔ آپ کا معمول تھا صبح سے دوپہر تفسیر، حدیث منقولات علوم درسیہ کا درس دیتے۔ ظہر کے بعد حقائق، معارف اور اسرار کا بیان ہوتا۔ پیر اور جمعہ کا دن عمومی وعظ و نصیحت کا بیان ہوتا۔ خاص مجالس اسرار معرفت کے لیے ہوتیں، عام مجالس وعظ و نصیحت اور تلقین دین کے لیے ہوتیں۔ اس زمانے میں اس وقت حکمران خارزم شاہ اور فخرالدین رازی بغرض صحبت و مجلس بہاؤالدین بلخی کے پاس آتے تھے۔ خارزم شاہ کو آپ سے خاص عقیدت تھی۔ ایک دن وہ بہاؤالدین بلخی کی خدمت میں حاضر ہوا اور دیکھا کہ آپ کی مجلس میں ہزاروں، لاکھوں لوگوں کا ہجوم ہے، لوگ آپ کا درس سن رہے ہیں اتنا بڑا اجتماع دیکھ کر اس کو اپنے اندر گھبراہٹ محسوس ہوئی۔
سلطنت کے سیاسی رہنماؤں کا وطیرہ ہے کسی بھی اللہ والے کے پاس لوگوں کا ہجوم دیکھیں تو انہیں گھبراہٹ ہوتی ہے۔ یہ معاملہ ہر دور میں رہا ہے۔ آپ کی مجلس میں بیٹھنے والا آپ کا دشمن ہوگیا۔ اس نے حکمتاً اپنے سرکاری خزانے کی چابیوں کا گچھا ایک آدمی کو دیا اور کہا کہ یہ شاہی خزانے کا گچھا بہاؤالدین بلخی کو دے دو اور پیغام پہنچا دو۔ اب میری سلطنت میں سوائے ان چابیوں کے میرے پاس اور کچھ نہیں رہ گیا۔ اب آپ میری سلطنت میں میرے لیے خوف ہوگئے ہیں۔ مخلوق خدا کا ہجوم تو میرے گرد رہنا چاہئے تھا۔ اب مخلوق خدا آپ کی طرف جارہی ہے۔ یہ خزانے کی چابیاں رہ گئی ہیں، یہ بھی آپ لے لیں۔ حضرت بہاؤالدین نے جب چابیاں دیکھیں اور پیغام سنا تو اس آدمی کو واپسی پر یہ پیغام دیا کہ بادشاہ کو کہنا کہ یہ آنے والا جمعہ پڑھا کر اور اس کا وعظ کرکے ہم اس کا بلخ چھوڑ دیں گے۔ نماز جمعہ ہوئی تو آپ چل پڑے۔ بلخ کے گردو نواح کے تین سو صوفیاء بھی آپ کے ساتھ ہم رکاب ہوکر چل پڑے۔ خارزم شاہ کو خبر ہوئی تو وہ بڑا پچھتایا۔ وہ پیچھے دوڑا سفر میں جاکر ملا، منت سماجت کی لیکن حضرت بہاؤالدین بلخی نے کہا اب پلٹ کر بلخی نہیں آئیں گے۔
جہاں جہاں سے آپ کا گزر ہوتا، مشائخ، علماء زیارت کے لیے حاضر ہوتے۔ 60 ہجری میں نیشاپور پہنچے، اس وقت مولانا روم کی عمر 4 سال تھی۔ بعض کتب میں آیا ہے اس وقت آپ کی عمر 5 سے 6 سال تھی۔ نیشاپور میں حضرت خواجہ فریدالدین عطار صاحب تذکرۃ اولیاء نے آپ کے والد گرامی کی خدمت میں حاضری دی۔ انہوں نے مولانا روم کے ماتھے پر چمکتا ہوا ستارہ دیکھا تو بہاؤالدین بلخی سے کہا یہ بڑا جوہر کمال ہے، حضرت اس پرورش سے غفلت نہ کرنا۔
خواجہ فریدالدین نے اپنی مثنوی لکھی، جس کا نام اسرار نامہ تھا۔ ایک نسخہ ان کو پیش کیا۔ اس دوران دمشق سے بھی گزرے وہاں شیخ اکبر معین الدین ابن عربی کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ اس وقت مولانا روم کی عمر 11 سال تھی۔ شیخ اکبر نے دیکھا تو فرمایا سمندر دریا کے پیچھے جارہا ہے۔ یعنی والد دریا ہے اور بیٹا سمندر بننے والا ہے۔ اس کے بعد آپ نیشاپور سے آگے چل پڑے الغرض مختلف جگہوں سے گزرتے ہوئے ترکی کے شہر قونیہ پہنچے جہاں مولانا روم کا مزار اقدس ہے۔ یہاں کا بادشاہ علاؤالدین کئی قباد تھا، یہ سلطنت سلجوقیہ کا فرمانروا تھا۔ سلجوقی سلطنت 220 سال تک پورے ایشیائے کو چک پر رہی۔
اس ساری سلطنت کو روم کہتے ہیں۔ وہ اس وقت حکمران تھا۔ سلطان کیکوباد کے لوگ بہاؤالدین بلخی سے ملنے آتے تھے۔ ان کے احوال زہد و ورع، معرفت مقام و مرتبہ دیکھا تو کچھ احوال جاکر سلطان کئی قباد کو بتائے وہ بہت متاثر ہوا۔ اس نے دل ہی دل میں مولانا روم کے ساتھ ارادت کا رشتہ قائم کرلیا انہیں درخواست بھیجی کہ قونیہ میں آکر اقامت اختیار کریں۔ اس وقت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی عمر 17، 18 سال تھی۔
سلطان کیکوباد نے بڑے تزک و احتشام سے ان کا استقبال کیا۔ گھوڑے سے نیچے اترا ننگے پاؤں دیر تک آپ کے استقبال میں آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ ایک عالی شان مقام پر جاکر آپ کو ٹھہرایا، ضروریات مہیا کیں پھر اکثر و بیشتر آپ کی صحبت میں بیٹھتا تھا۔ مولانا شیخ بہاؤالدین بلخی نے 628 ہجری بروز جمعہ 18 ربیع الثانی میں وفات پائی۔ جب آپ کے والد گرامی کا وصال ہوا اس وقت مولانا روم کی عمر 24 سال تھی۔ ابتدائی تعلیم حضرت بہاؤالدین بلخی نے خود دی۔ اس کے بعد آپ کے تلامذہ اور مریدین میں سے ہی ایک بڑے نامور عالم تھے، انہوں نے آپ کی تربیت کی۔ علوم و فنون تمام معقولات و منقولات اکثر و بیشتر ان سے پڑھے۔ مولانا رومی 629ھ میں علوم کی تکمیل کے لیے ملک شام چلے گئے۔ زیادہ تر قیام علوم کی تکمیل میں دمشق اور حلب میں رکھا۔
بڑے فقہاء آپ کے اساتذہ تھے۔ آپ علوم فقہ میں بڑی مہارت اور معرفت رکھنے والے عالم تھے۔ مناظرہ و مجادلہ کے بڑے ماہر عالم تھے۔ معقولات اور منقولات میں مولانا روم کا ہم پایہ شخص نہ تھا۔ دنیا کے بڑے بڑے لوگ فتویٰ لینے آپ کے پاس آتے تھے۔ آپ طلبہ کو اپنے گھر اور مدرسہ میں درس دیتے تھے۔ علوم کی تکمیل کے بعد آپ قونیہ میں واپس آگئے۔
ایک بزرگ حضرت شمس الدین تبریز جو بڑے سلطان العاشقین اور سلطان العارفین تھے۔ حضرت بابا کمال الدین زندگی کے مریدین میں سے تھے۔ ان سے اکتساب فیض کیا تھا۔ انہوں نے شمس الدین تبریز سے فرمایا روم جاؤ۔ وہاں ایک دل سوختہ ہے جس کا دل عشق الہٰی کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ یہ ایک روایت ہے۔ دوسری روایت میں ہے حضرت شمس تبریز نے ایک رات مراقبے کے بعد دعا کی مولا! مجھے کوئی ایک شخص عطا کردے جو میری سوچ اور توجہ کا متحمل ہوسکے۔ میری صحبت کا فیض سنبھال سکے۔ آپ کو اشارا ہوا کہ قونیہ جاؤ۔ وہاں ایک شخص تمہارے انتظار میں ہے، وہ تمہاری توجہ، سوچ اور فیض کا بوجھ اٹھالے گا۔
آپ کے احوال اور تراجم کی کتب میں آیا ہے کہ جب سلطان شمس تبریز قونیہ پہنچے تو پہلے کارواں سرائے میں پہنچے۔ ایک روایت کے مطابق جب آپ قونیہ پہنچے تومولانا روم کا شہرہ تھا۔ بڑی شہرت، وقار اور مرجع الخلائق تھے۔ حضرت شمس تبریز سن کر ان سے ملنے کے لیے آگئے کیونکہ وہ ایسے مرد کی تلاش میں تھے جو ان کے فیضان صحبت کا متحمل ہو۔ جب آپ ان کے گھر پہنچے مولانا روم طلباء کو اسباق پڑھا رہے تھے۔ اردگرد کتابوں کا ڈھیر دیکھا تو پوچھ یہ کیا ہے؟
مولانا روم نے جواب دیا یہ وہ چیز ہے کہ تو نہیں جانتا۔ طبقات کی ایک روایت کے مطابق کہ یہ وہ شے ہے کہ آپ نہیں جانتے۔ اسی وقت کتابوں کو آگ لگ گئی۔ مولانا روم نے پریشان ہوکر پوچھا یہ کیا ہے؟ شمس تبریز نے جواب دیا: یہ وہ چیز ہے کہ رومی تم نہیں جانتے۔ مولانا روم کی درخواست پرکتابیں شمس تبریز نے واپس لوٹادیں مگر مولانا روم کے دل میں عشق کی آگ لگادی۔
دوسری روایت ہے کہ مولانا روم اپنے مدرسہ کے تالاب کے کنارے طلبہ کو پڑھا رہے تھے۔ کچھ کتابیں پاس رکھی تھیں اس موقع پر شمس تبریز نے پوچھا۔ یہ کیا ہے جلال الدین؟ آپ نے جواب دیا یہ قیل و قال ہے۔ حضرت شمس تبریز نے ساری کتابیں اٹھا کر تالاب میں ڈال دیں مولانا روم نے ضبط کرکے پوچھا یہ کیا ہے۔ حضرت شمس تبریز نے فرمایا وہ قیل و قال تھا، یہ عالم حال ہے۔ کہا یہ کتب نایاب تھیں۔ آپ تالاب میں اترے ایک ایک کرکے کتاب واپس کردی۔ آپ کتابوں کو جھاڑتے، اس میں سے گرد نکلتی تھی۔
مولانا روم نے کہا آج سے اس حال میں ہمیں بھی داخل کردیں۔ مولانا روم اس حال میں داخل ہوئے پھر پڑھانا چھوڑ دیا۔ حلقہ تدریس ختم کردی۔ فتویٰ نویسی بند کردی اور حال میں ایسے داخل ہوئے کہ پھر سلطان العاشقین اور سلطان العارفین بنے۔ آپ نے دنیاکو صاحب حال کرنے کے لیے مثنوی لکھی۔ جس کو مثنوی مولانا روم کہتے ہیں۔ مثنوی میں اس حال کا ذکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: اے طالب! بانسری سے سن، کیا کہانی بیان کرتی ہے کن کن جدائیوں کی شکایت کرتی ہے۔ بانسری سے مراد اس شعر میں روح انسانی ہے یعنی اے بندے اپنی روح سے سن جو حکایت بیان کرتی ہے کہ وہ کس کس شے سے جدا ہوئی۔ روح ایک وقت میں عالم ارواح، عالم مالاکوت، عالم امر اور اس کو عالم غیب بھی کہتے ہیں کے ساتھ منسلک تھی۔ اسے کئی قربتیں حاصل تھیں۔ رب کریم نے فیصلہ کیا کہ روح انسانی بدن میں ڈالی جائے گی۔ جب جدا کرکے بدن انسانی میں ڈال دیا گیا، اس کی کئی جدائیاں ہوئیں۔ عالم ارواح سے جدا ہوگئی پھر عالم مالاکوت پھر عالم جبروت سے۔
عالم جبروت میں صفات الہٰیہ کی تجلیات تھیں اس کو عالم جمع بھی کہتے ہیں۔ تجلیات الہٰیہ سے وہ عالم روشن رہتا ہے۔ جہاں فرقتیں نہیں تھیں۔ جبروت کے ساتھ جڑا ہوا اوپر ایک اور عالم تھا اس کا نام عالم لاحوت ہے اس میں ذات الہٰیہ کے انوار و تجلیات اترتے تھے۔
یہاں کثافت نہیں تھی لطافت ہی لطافت تھی۔ وہاں جسمانیت نہیں تھی نورانیت ہی نورانیت تھی۔طہارت ہی طہارت پھر اس کے نور کے جلوے تھے۔ روح اس ماحول میں پلی بڑھی تھی جس کے بابت اللہ رب العزت نے فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍO
انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا۔
التین، 95: 4
پھر جب فیصلہ ہوا اس روح کو بدن انسانی کے ساتھ جوڑ دیا جائے، عالم مالاکوت سے اتار کر اسے عالم ناسوت میں بھیج دیا۔ اس کو عالم اجسام بھی کہتے ہیں اور عالم خلق بھی کہتے ہیں۔ وہ ان کثافتوں کی دنیا میں آگئی اور ان قربتوں کی دنیا سے دور ہوگئی۔ اس روح کو ساری جدائیاں یاد آتی ہیں۔ وہ صحبتیں یاد آتی ہیں۔ اس عالم میں جبروت کا کوئی عکس نہیں ہے۔ جب اعتکاف کے 10 دن یہاں آکر بیٹھتے ہیں تو حرص و لالچ، شہوت و غضب کی بات کان نہیں سنتے۔ لغویات و بے حیائی کو آنکھ نہیں دیکھتی۔ غلاظت 10دن کے لیے دور ہوجاتی ہے۔ ذکر الہٰی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات عشق و محبت، قربت و معارفت ، عبادت و اطاعت کی بات کان سنتے ہیںجب ماحول بدلتا ہے تو دل کی کیفیات بدل جاتی ہیں۔ جن کے حالات بدل جاتے ہیں جب اعتکاف کے دس دن گزار کر گھر جاتے ہیں، روح کی بانسری روتی ہے کیونکہ ظاہرو باطن کے تغیر سے انقلاب آجاتا ہے۔ دس دن گزارے ہوئے یاد آتے ہیں۔ اس روح سے پوچھیں جو لاکھوں برس گزار کر آئی ہے عشق الہٰی کے سمندروں میں غوطہ زن تھی۔ اس کا انوار و تجلیات الہیٰہ کے ساتھ علاقہ تھا۔ طہارت و عبادت کے ساتھ تعلق تھا۔ اس کی ندا آتی تھی، میرے بندو! ملائکہ جواب دیتے تھے۔ ربی ہر فرشتہ بولتا تھا ربی۔ صبح و شام یہی تانتا بندھا رہتا تھا، یہی تعلق جڑا رہتا تھا، یہی ربط نور تھا نہ جسم تھا، نہ کوئی کثافت تھی نہ کوئی گناہ تھا جب وہ روح اس ماحول کو چھوڑ کر اس بدن میں آئی۔ بدن میں آکر ادھر ادھر دیکھا کہیں حرص، لالچ، تکبر، رعونت، حرص و حسد کی بات ہے، کہیں دنیا کے مناصب کی طلب دیکھ رہی ہے۔ روح جب تن میں آکر ادھر ادھر دیکھتی ہے اسے اپنے دیس کا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ تڑپتی ہے۔ بقول اکبر الہ آبادی:
کچھ نہ پوچھ اے ہم نشیں میرا نشیمن تھا کہاں
اب تو یہ کہنا بھی مشکل ہے وہ گلشن تھا کہاں