تحریک پاکستان ہو یا تعمیر پاکستان کی جدوجہد سیاسی، سماجی حوالے سے خواتین کا کردار قابل رشک اور قابل تقلید رہا ہے، یوں تو اسلام نے 14 سوسال قبل عورت کے سماجی، دینی، سیاسی، عائلی کردار کا تعین کر دیا تھا اور بطور ماں، بہن، بیٹی، بیوی اس کے حقوق وفرائض کا تعین کر دیا اور اسے سوسائٹی کا ایک قابل قدر فرد قرار دیا اور خواتین سے متعلق زمانہ جاہلیت کی تمام روایات اور رسومات کو مسترد کردیا، یہ اسلام ہی کا اعزاز ہے کہ اس نے عورت کو زبانی، کلامی عزت نہیں دی بلکہ عملاً بھی اس کا معاشی تحفظ کیا اور خواتین کو وراثت میں حصہ دار ٹھہرایا۔ اسلام نے خواتین کو جو مقام ومرتبہ دیا آج بھی مغرب اس کے قریب بھی نہیں ہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1947ء تک برطانیہ میں حقوق نسواں کے بینر تلے خواتین کو ووٹ کے استعمال کا حق دینے کی تحریک چل رہی تھی۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح حقوق نسواں کے حق میں کالم لکھا کرتے تھے اور اس تحریک کو بھرپور فکری، اخلاقی سپورٹ مہیا کر رہے تھے۔ یہ ایک تاریخی بات ہے کہ بانی پاکستان برصغیر پاک و ہند کا ایک بہت بڑا نام ہیں، لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بانی پاکستان کے تحریک پاکستان میں متحرک ہونے سے پہلے بھی کچھ ایسی مسلم خواتین تھیں جو اسلام کے نفاذ کے لیے بلند پایہ کردار ادا کر رہی تھیں اور ان کی ایک بھرپور، علمی، سیاسی، سماجی شناخت اورساکھ تھی، تاہم بانی پاکستان کے متحرک سیاسی کردار کے بعد ان بے مثال خواتین کو کام کرنے کا ایک پلیٹ فارم اور نصب العین ملا اور ان کی صلاحیتیں اور قومی کردار مزید نکھر کر سامنے آیا، قائد اعظم تحریک نسواں کے لیے بھی بہت متحرک رہے اور غیر مسلم خواتین ان کے اس کردار پر انہیں خراج تحسین پیش کرتی رہیں۔ بانی پاکستان کا جب انتقال ہوا تو ستمبر 1948ء کو لندن کیکسٹن ہال میں ایک خصوصی تقریب ہوئی جس میں خواتین کے حقوق کی ایک بلند پائیہ ایکٹیوسٹ ’’آگاتھا ہیریسن‘‘ نے اپنے خطاب میں بانی پاکستان کو خراج تحسین پیش کر تے ہوئے کہا کہ جب عوامی مخالفت کے خوف سے اکثر لوگ ہماری تحریک کی حمایت میں آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کرتے تھے مسٹر جناح ہمیشہ ہماری دعوت پر ہمارے جلسوں میں آئے، ہر بار پر زور دلائل کے ساتھ ہماری تحریک کی حمایت کی۔ بانی پاکستان کا حقوق نسواں کے لیے یہ کردار فقط مغرب کی سرزمین تک محدود نہیں تھا بلکہ انہوں نے برصغیرپاک وہند میں بھی اپنی سیاسی، قانونی جدوجہد کے ذریعے خواتین کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں تحریک پاکستان میں شانہ بشانہ لے کر چلے، بانی پاکستان کے خواتین کے حوالے سے اسی سیاسی کردار کی وجہ سے تحریک پاکستان میں نامور خواتین کا ایک متحرک سیاسی، تنظیمی حصہ نظر آتا ہے۔ پاکستان کے کروڑوں مردوں کو آزادی کا تحفہ دینے کے پس پردہ خواتین کا خون اور جدوجہد بھی ہے۔ تحریک پاکستان میں مسلم خواتین رہنمائوں کی ایک طویل فہرست نظرآتی ہے، علم، حلم، استقامت، جذبہ اور جدوجہد میں ایک سے بڑھ کر ایک خاتون تھی جن میں بی امّاں (والدہ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر) بیگم رعنا لیاقت علی خان، مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح، بیگم شائستہ اکرام اللہ، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، بیگم قاضی عیسیٰ، لیڈی نصرت عبداللہ ہارون، بیگم مولانا محمد علی جوہر، بیگم قاضی منیر احمد خان، بیگم مہر النسائ، صاحبزادی محمودہ بیگم، بیگم نذیر طلاء محمد، بیگم زری سرفراز، بیگم پاشا صوفی، فاطمہ بیگم، فاطمہ صغریٰ کے قابل فخر نام شامل ہیں۔ یہاں ہم جگہ کی تنگی کے باعث چند ایک نامور خواتین کے احوال بیان کریں گے۔
محترمہ فاطمہ جناح کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں انہوں نے تحریک پاکستان میں نہ صرف خواتین کو متحد کیا بلکہ بانی پاکستان کے ہر طرح کے آرام کا خیال رکھا، سب سے بڑھ کر انہوں نے تاریخ کے ایک نازک موڑ پر جب برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا تو انہوں نے ان کی بیماری کے راز کو فاش نہ ہونے دیا جس پر بعد ازاں ہندو اور انگریز تبصرے کرتے رہے کہ اگر ہمیں قائد اعظم کی بیماری کا علم ہو جاتا تو وہ تقسیم ہند کے منصوبے کو ایک سال کے لیے التواء میں ڈال دیتے، محترمہ فاطمہ جناح کی زندگی بے مثال جدوجہد سے عبارت ہے، انہوں نے قیام پاکستان کے بعد بھی حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے قابل مثال جدوجہد کی اور اپنے عظیم بھائی کی طرح آخری سانس تک اصولوں کی سیاست کی۔ محترمہ فاطمہ جناح اکثر کہا کرتیں کہ قائد اعظم کی سخت گیری کے حوالے سے بات کی جاتی ہے لیکن وہ اپنی عام زندگی میں بہت ہنس مکھ، دردمند اور لطیف مزاج کے حامل تھے اور خواتین کا تو بے حد احترام کرتے تھے، وہ بتاتی ہیں کہ ایک مرتبہ قائد اعظم ڈھاکہ کے سفر پر روانہ ہو رہے تھے کہ ان سے عقیدت رکھنے والی ایک خاتون نے ان کے بازو پر امام ضامن باندھا قائد اعظم کو بتایا گیا کہ امام ضامن انسان کو کئی آفات سے محفوظ رکھتا ہے تو انہوں نے امام ضامن باندھنے والی خاتون سے مسکرا کر پوچھا: بی بی! یہ امام ضامن مجھے ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کی تنقید سے بھی محفوظ رکھے گا؟ فاطمہ جناح بتاتی ہیں کہ ایک مرتبہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ایک خفیہ اجلاس سے جب قائد اعظم گھر واپس آئے تو ان سے وہاں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں دریافت کیا، قائد اعظم نے مسکرا کر کہا، میں تمہیں کیوں بتائوں، میں تمہارا نمائندہ نہیں ہوں، تم اپنے نمائندے بیگم محمد علی جوہر سے پوچھو کہ کیا کیا فیصلہ ہوا۔ فاطمہ جناح نے کہا میں ان سے گفتگو کرتی ہوں مگر وہ تو کچھ بھی نہیں بتاتیں، تو قائد اعظم نے انہیں پھر مسکراتے ہوئے جواب دیا، مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ وہ تمہیں کچھ نہیں بتاتیں حالانکہ عورتوں کا خاموش رہنا بڑا مشکل کام ہے۔
بی اماں برصغیر پاک و ہند کا ایک معتبر اور قابل فخر نام ہے، بی اماں نابغہ روزگار مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی والدہ تھیں۔ 1925ء میں تحریک خلافت کا چرچا گھر گھر تھا اور اس مسلم کاز کے لیے بی اماں نے سخت ترین پردے میں رہ کر مسلمان خواتین کو تحریک خلافت میں اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا۔ بی اماں ایک عظیم نیشنلسٹ بھی تھیں۔ غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لیے چرخے تیار کر کے دیہاتوں میں تقسیم کئے جاتے تھے اور خواتین کو سوت کات کر اپنے پہناووں کے لیے کپڑا تیار کر نے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ کھدر کو دیدہ زیب اور دلکش بنایا جاتا تھا، اس سارے عمل میں بی اماں کا ایک قابل قدر قومی و اسلامی کردار تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ یہ اس عظیم ماں کے الفاظ ہیں جب ان کے بیٹوں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کو گرفتار کر لیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں خوش ہوں میرے بیٹوں کے دل میں قوم کا درد ہے۔ ’’جب اوکھلی میں سر دیا تو موسلوں کا کیا ڈر‘‘۔ بی اماں کی پیدائش 1852ء میں ہوئی ان کے والد نے جنگ آزادی 1857ء میں دین اور وطن کی خاطر بھرپور حصہ لیا اور شہادت پائی۔ اس عظیم خاتون کے اسلام دوستی اور اعلیٰ کردار کے مظاہرہ کے باعث برصغیر میں خواتین کو قومی مفاد کے لیے کام کرنے کی تحریک ملی۔
سیکرٹریٹ پر مسلم لیگ کا پرچم لہرانے والی فاطمہ صغریٰ تحریک پاکستان کا ایک قابل قدر نام ہے۔ یونین جیک کا اترنا اورمسلم لیگ کے پرچم کا لہرایا جانا ایک ایسا واقعہ تھا جس نے تحریک پاکستان کی جدوجہد کو دو چند کر دیا، جذبے کئی گنا بڑھ گئے، فاطمہ صغریٰ ایک موقع پر بتاتی ہیں مجھے تحریک آزادی میں حصہ لینے کا بہت شوق تھا۔ اکثر اپنے والد آغا جان سے کہتی تھی کہ مجھے خواتین کے جلسوں میں جانے دیا جائے، لیکن آغا جان مجھے روک دیتے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک دن ایک جلوس سول سیکرٹریٹ کی طرف رواں دواں تھا، میں بھی اس میں شریک تھی، پولیس نے گھیر رکھا تھا، ہجوم سے ایک آواز بلند ہوئی کہ ہم یہاں پرچم لہرائیں گے، اس آواز نے مجھے ایک عجیب سا جذبہ اور طاقت دی، میں نے سبز ساٹن کا پرچم جسے میں لہرا رہی تھی جھٹ سے بغل میں دبایا اور سیکرٹریٹ کے آہنی دروازے پر چڑھ گئی، میں پولیس سے بے خوف عمارت کی طرف بڑھتی چلی گئی کہ چاہے جان چلی جائے میں نے یہ پرچم لہرانا ہے اور پھر اپنے اس ارادے میں کامیاب ہوئی۔ غاصب انگریز کی حکومت میں فاطمہ صغریٰ کا یہ جرأت مندانہ اقدام تاریخ میں ہمیشہ انہیں تکریم سے زندہ رکھے گا۔
بیگم شائستہ اکرام اللہ بنگال کے ایک عالی مرتبت سہروردی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی پیدائش جولائی 1915ء میں ہوئی، آپ نے انگریزی اور مذہبی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے 1933ء میں کلکتہ یونیورسٹی سے بی۔ اے کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا اور اس کے بعد کنگز کالج لندن اور سکول آف اورینٹل سٹڈی سے وابستہ رہیں، بیگم شائستہ اکرام اللہ نے تعلیم نسواں اور ترقی نسواں کے لیے بہت کام کیا۔ خواتین میں تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے بیگم شائستہ اکرام اللہ نے آل انڈیا ریڈیو سٹیشن، ریڈیو پاکستان اور بی بی سی سے بھی پیغامات جاری کئے۔ بیگم اکرام اللہ کلکتہ، علیگڑھ، دہلی اور سندھ یونیورسٹی کی مجالس عاملہ کی منتخب رکن رہیں۔ وہ 1940میں مسلم لیگ کی باضابطہ رکن بنیں۔ 1942ء میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خواہش پر ہندو طالبات کی تنظیم کے مقابلے میں آپ نے مسلم ویمنز سٹوڈنٹس فیڈریشن کی پہلی کانفرنس منعقد کی۔ جن دنوں برطانیہ میں خواتین ووٹ کے استعمال کا حق مانگ رہی تھیں بیگم شائستہ اکرام اللہ جیسی باشعور، جرأت مند خواتین الیکشن لڑ رہی تھیں اور وہ ہندستان کی مجلس دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ آپ نے مہاجرین کی آبادکاری اور بحالی کے لیے بہت کام کیا۔
نصرت عبد اللہ ہارون 9 فروری 1896ء کو ایران کے شہر کرمان میں پیدا ہوئیں، بیگم نصرت ہارون نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1919ء میں صوبہ سندھ میں تحریک خلافت سے کیا اور سندھ بھر کا دورہ کیا، خواتین میں شعور اجاگر کیا۔ بیگم نصرت ہارون محترمہ بی اماں، بیگم مولانا محمد علی جوہر کی مہمان داری بھی کرتی تھیں۔ وہ مسلم لیگ کے اجلاس میں شریک ہوتیں، سندھ صوبائی مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کی رکن بھی نامزد ہوئیں۔ قیام پاکستان کے بعد بیگم نصرت ہارون نے خود کو خواتین کی سماجی و معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے وقف کر دیا۔ انہوں نے اپنے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے مختلف علاقوں میں سکول، کالج اور یتیم خانے کھولے جو سر عبد اللہ ہارون ٹرسٹ کے نام سے کام کر رہے ہیں اور کار خیر کے ان کاموں اور انسانی خدمت کی وجہ سے ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان فروری 1910ء کو پیدا ہوئیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں، 1929ء میں انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے سوشیالوجی اور معاشیات کے مضامین میں اوّل پوزیشن کے ساتھ ایم۔ اے کیا۔ یہ برصغیر کی پہلی خواتین ہیں جنہوں نے زراعت کی ترقی کے لیے خواتین کے کردار پر تحقیقی مقالہ جات تحریر کئے۔ ان کا ایک مقالہ’’صوبہ یوپی کی زراعت میں عورتوں کا حصہ‘‘ لکھا جو سال کا بہترین مقالہ قرار پایا۔ بیگم رعنا لیاقت نے دو قومی نظریہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے لیڈی مائونٹ بیٹن اور دیگر اہم خواتین کے ساتھ مسلسل گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا، یہ تحریک پاکستان کی نامور خواتین کا کمال تھا کہ انہوں نے الگ وطن کے مطالبہ اور اس کے حصول کے لیے اپنے نکتہ نظر سے انگریز سرکار کو پوری طرح باخبر رکھا۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کہ انگریز یا ہندو اس بات سے ناواقف ہوں کہ مسلمان چاہتے کیا ہیں؟ بیگم رعنا لیاقت نے مہاجرین کی آبادکاری کی طرف بھرپور توجہ دی، انہوں نے لاہور میں دن رات کام کیا اور قائد ملت کے نام سے اپنا ایک ہیڈ کوارٹر بنایا ہوا تھا۔ وہ مہاجرین کے کیمپوں میں جا کر خود معائنہ کرتیں، بیماروں کی بیمار پرسی کرتیں اور ہر وقت ان کی مدد کے لیے متحرک رہتیں۔ اپریل 1933ء میں ان کی شادی نوابزادہ لیاقت علی خان سے ہوئی۔ جب قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی لیاقت علی خان سے لندن میں پہلی ملاقات ہوئی تو وہ بھی اس ملاقات میں شریک تھیں اور وہ لندن کی پر آسائش زندگی کو چھوڑ کر قائد اعظم کی درخواست پر ہندستان آئیں اور خواتین کو مسلم لیگ کے لیے کام کرنے پر راغب کیا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے مسلمان لڑکیوں کے لیے سکول اور انڈسٹریل ہومز بنائے اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے بے پایاں خدمات انجام دیں۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے مہاجر خواتین کو دستکاری سے آشنا کرنے کے لیے کاٹیج انڈسٹری ایسوسی ایشن کے تحت انڈسٹریل ہوم قائم کیا، کراچی میں گل رعنا نصرت انڈسٹریل ہوم قائم کیا، بیگم رعنا لیاقت علی خان کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ساتویں کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ ہالینڈ، اٹلی اور تیونس میں پاکستان کی سفیر بھی رہیں۔ 1959ء میں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز عطا کیا۔ 1973سے 1976ء تک بیگم رعنا لیاقت علی خان نے سندھ کے گورنر کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں نبھائیں۔ جس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہے اسی طرح بیگم رعنا لیاقت علی خان کو بھی کسی صوبے کی خاتون گورنر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ تحریک پاکستان میں ملک و ملت کے لیے کارہائے نمایاں انجام دینے والی ممتاز خواتین کی ایک طویل فہرست ہے مگر دختران اسلام کے مختصر صفحات ایک نشست میں ان کی خدمات کا احاطہ نہیں کر سکتے تاہم گاہے بگاہے ان عظیم خواتین کے تعارف پر مشتمل تحریریں مستقبل میں دختران اسلام کے صفحات کی زینت بنتی رہیں گی۔