فرمان الہٰی
وَ اِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ اَنْ اٰمِنُوْا بِاﷲِ وَجَاهِدُوْا مَعَ رَسُوْلِهِ اسْتَاْذَنَکَ اُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوْا ذَرْنَا نَکُنْ مَّعَ الْقٰعِدِیْنَ. رَضُوْا بِاَنْ یَّکُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَفْقَهُوْنَ. لٰـکِنِ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ جَاهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ وَاُولٰٓـئِکَ لَهُمُ الْخَیْرٰتُز وَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
التوبة، 9: 86 تا 88
’’اور جب کوئی (ایسی) سورت نازل کی جاتی ہے کہ تم اللہ پر ایمان لائو اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیّت میں جہاد کرو تو ان میں سے دولت اور طاقت والے لوگ آپ سے رخصت چاہتے ہیں اور کہتے ہیں: آپ ہمیں چھوڑ دیں ہم (پیچھے) بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ ہو جائیں۔ انہوں نے یہ پسند کیا کہ وہ پیچھے رہ جانے والی عورتوں، بچوں اور معذوروں کیساتھ ہو جائیں اور ان کے دلوں پر مُہر لگا دی گئی ہے سو وہ کچھ نہیں سمجھتے۔ لیکن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور انہی لوگوں کے لیے سب بھلائیاں ہیں اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔‘‘
(ترجمه عرفان القرآن)
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اﷲِ! أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلُ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ. قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الْأَقْصَی. قُلْتُ: کَمْ کَانَ بَیْنَهُمَا؟ قَالَ: أَرْبَعُوْنَ سَنَةً، ثُمَّ أَیْنَمَا أَدْرَکَتْکَ الصَّلَاةُ بَعْدُ فَصَلِّهْ، فَإِنَّ الْفَضْلَ فِیْهِ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں عرض کیا: یارسول اﷲ! زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیت الحرام۔ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اس کے بعد ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ میں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) ان دونوں (مسجدوں) کی تعمیر کے درمیان کتنا وقفہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: چالیس سال۔ لیکن تم جہاں وقت ہو جائے اسی جگہ نماز پڑھ لیا کرو اسی میں تمہارے لئے فضیلت ہے۔‘‘
ماخوذ المنهاج السوی من الحدیث النبوی، ص: 264-265