محترمہ خالدہ منیر الدین چغتائی تحریک پاکستان کی کارکن اور گولڈ میڈلسٹ ہیں، قیام پاکستان کے وقت ان کی عمر 16 سال تھی، انہوں نے تقسیم ہند کے سارے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، پاکستان کے قیام کی غرض و غایت نصب العین سے آگاہ اور بعدازاںچلنے والی مختلف تحریکوں کی چشم دید راوی ہیں۔ ’’دختران اسلام‘‘نے ان سے 14اگست یوم آزادی کے تناظر میں خصوصی گفتگو کی جو قارئین دختران اسلام کے مطالعہ کیلئے پیش خدمت ہے۔
س: آپ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیں؟
ج: میرا تعلق گورداس پور سے ہے۔ قیام پاکستان کے وقت میری عمر لگ بھگ سولہ یا سترہ سال تھی۔ میرے والد صاحب ریلوے میں ملازمت کرتے تھے۔ جب بٹوارا ہوا تو ہم گورداس پور سے ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ میں نے تین مضامین سیاسیات، تاریخ اور ایجوکیشن میں ماسٹرز کیا ہے۔
س: تحریک پاکستان کے کیا مقاصد تھے؟
ج: تحریک پاکستان کا ایک ہی مقصد تھا کہ ہم نے بطور مسلمان زندہ رہنا ہے۔ اسلام زندہ رہے گا تو مسلمان زندہ رہے گا اور اگر خدانخواستہ اسلام زندہ نہ رہا تو مسلمان بھی زندہ نہیں رہیں گے۔ لہذا ایک ایسا خطہ ہونا چاہئے جہاں اسلام کا مستقبل تابناک ہو، مسلمانوں کی ایک الگ شناخت ہو اور وہ آزادی کے ساتھ اپنی زندگیاں اپنے مذہب کے مطابق بسر کرسکیں۔
س: جب تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو اس وقت لوگوں کا جذبہ کیسا تھا؟
ج: مسلمانوں کے جذبات کا عالم یہ تھا کہ گھر گھر میں ایک ہی ذکر تھا کہ اگر زندہ رہنا ہے تو پاکستان بنائو، پاکستان کی خاطر جان بھی دینی پڑے تو دے دو کیونکہ زندگی کی ایک ہی راہ باقی ہے کہ اپنے لیے ایک الگ خطہ بنائو جس میں اسلام کو زندہ کرو۔ ایک ہی نعرہ تھا پاکستان زندہ باد۔ چھوٹے چھوٹے بچے نعرے لگاتے یہ تحریک سکولوں اور کالجز میں چلی، روزانہ جلوس نکلتے، نعرے لگتے ’لے کر رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان‘۔ ہندو مذاق اڑاتے کہ پاکستان مر کے رہے گا لیکن مسلمانوں کے اندر جو جذبہ تھا وہ دیدنی تھا۔ مسلمانوں کے علاقوں، محلوں اور گھروں پر حملے ہوتے۔ مائیں، بیٹیاں، بہنیں سب کی زبانوں پر ایک ہی دعا تھی کہ یا اللہ پاکستان بنے گا تو ہماری زندگیاں اور ہماری عزتیں محفوظ ہوں گی۔ یہ تحریک لاہور میں اتنی نہیں چلی تھی جتنی امرتسر میں تھی۔ امر تسر سے لاہور کے مسلمانوں کو باقاعدہ مہندی اور چوڑیاں بھجوائی گئیں کہ یہ مہندی اور چوڑیاں پہن کر گھروں میں بیٹھ جائو اور وہاںمسلمان کٹ کٹ کر گر رہے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر مسلمانوں میں جس میں نوجوان، بچے اور بوڑھے سب اس تحریک میں شامل تھے ان کا جذبہ دیدنی تھا۔
س: تحریک پاکستان میں آپ کا اور دیگر خواتین کا کیا کردار تھا؟ آپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: میں اس وقت نوجوان تھی اور اسلامیہ کالج میں تھرڈ ایئر کی سٹوڈنٹ تھی۔ میرے والد ذرا پرانے خیالات کے تھے وہ کہتے تھے کہ باہر نہ نکلو۔ لوگ باتیں کرتے ہیں کہ صبح کو نکلتی ہیں اور شام کو واپس آتی ہیں لیکن برداشت کیا اور اس تحریک کے لیے کام کیا۔ اس تحریک میں کچھ چیدہ چیدہ خواتین میں بیگم شاہ نواز، سلمیٰ تصدق حسین، بیگم کریم داد اور ان کے علاوہ اسلامیہ کالج اور بہاولپور گورنمنٹ کالج کی طالبات شامل تھیں۔ تمام لڑکیوں نے بہت عزت، وقار، خوش اسلوبی اور نیک ارادوں کے ساتھ کام کیا۔ ایک مرتبہ ہم نے کالج میں مسلمان لڑکیوں کو احتجاج کے لیے اکٹھا کیا اور کہا کہ وہ اپنے برقے کالج کی دیوار سے باہر پھینک دیں اور اندر سے برقے پہن کر نہ نکلیں کہ پرنسپل کو خبر نہ ہو۔ باہر برقوں کے ڈھیر لگ گئے۔ ہم باہر نکلیں اور اپنا اپنا برقہ اٹھا کر پہنا۔ اس وقت دفعہ 44 نافذ تھی جس کے تحت ہم ہجوم اکٹھا نہیں کرسکتے تھے۔ ہم نے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور چار چار لڑکیوں کا گروپ بنالیا۔ ایک لمبی قطار بن گئی اور ہم نے سڑک پر پاکستان کا جھنڈاپکڑ کر نعرے لگاتے ہوئے چلنا شروع کردیا۔
جب ہم مزنگ چوک کے قریب پہنچے تو آگے پولیس کی بھاری نفری تھی انہوں نے طالبات کو گالیاں دینا شروع کردیں۔ ان پولیس والوں میں کچھ مسلمان بھی تھے انہوں نے اپنی پیٹیاں اتار کر پھینک دیں جس کا مطلب یہ تھا کہ ہم اب ملازمت میں نہیں ہیں۔ ہمارے ساتھ کچھ لیگ کی خواتین تھیں انہوں نے کہا کہ آج کوئی گرفتاری نہ دے کیونکہ سب کالج کی طالبات ہیں۔ اس دن شدید شیلنگ ہوئی۔ بہت سی لڑکیاں بے ہوش ہوئیں۔ ان کو قریبی کلینک میں لے گئے اور پھر واپس اپنے گھروں کو چلے گئے۔
دوسرے دن جو موومنٹ ہوئی وہ بہت سخت تھی۔ پہلے لیگ کی خواتین کو گرفتار کیا پھر شدید شیلنگ ہوئی اور آخر میں ہم لڑکیوں کو بھی گرفتار کرکے لے گئے۔ ہم 31 یا 32 دن جیل میں رہے۔ جب یہ موومنٹ ختم ہوئی تو ایک دن ہماری میٹنگ ہورہی تھی۔ میں کھڑی ہوکر بول رہی تھی تو ایک بابا جی آئے اور کہنے لگے:
’’ پتر میری گل سن۔‘‘ میں نے بابا جی کو اندر بلایا وہ کہنے لگے کہ ’’پتر میری تی منوں آوازاں دیندی مرگئی، او مینوں بابا، بابا کہندی مرگئی‘‘۔ میں نے کہا بابا جی بس کرو برداشت نہیں ہوتا۔ وہ قیامت کا وقت تھا۔
س: ہجرت کے دوران اور اس کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: ہم نے کربلا کو نہیں دیکھا لیکن کربلا کا منظر ہجرت کے وقت دیکھا ہے۔ کربلا پھر وہی خون کی ندی میں نہاگیا تھا۔ کئی دنوں کے بھوکے پیاسے بچے مائوں سے لپٹ لپٹ کر روئے۔ مائوں نے جب کھانے کو کچھ دیا تو بچے کھانے کو دیکھ دیکھ کر روتے کہ یہ کھانا کتنے دنوں کے بعد نصیب ہوا ہے۔ یہ بڑی خوفناک، بڑی درد ناک داستان ہے جو آپ سنیں تو مدتوں روئیں۔ چھوٹی عمر کی بچیاں اور بچے چلاتے تھے تو مائیں ان کے منہ پر ہاتھ رکھتیں کہ آواز اونچی نہ کرو کہ اب مرد تو کوئی بچا نہیں، وہ تمہیں بھی اٹھا کر لے جائیں گے۔ سب بے کس تھے، بے بس تھے، بے سہارا تھے۔ بہت ظلم ہوا۔ مسلمانوں کی کتابیں جلا دی گئیں ہم ایک ٹرین پر پاکستان آئے۔ جب میں نے گاڑی کے اندر قدم رکھا تو میرے پائوں کے نیچے زمین نہیں تھی وہ دھنستا چلا گیا وہاں خون اور انسانی گوشت کا ڈھیر تھا۔ میرے والد صاحب نے بغیر کھڑکیوں والے ایک بند ڈبے میں ہمیں بٹھایا اور ہوا کے لیے چھوٹے چھوٹے سوراخ کئے۔ ہمارے حلیے مردوں جیسے بنائے اور جب امرتسر کا سٹیشن آیا تو ہم نے خوب نعرے لگائے کیونکہ وہاں مسلمانوں کا زور چلتا تھا۔ راستے میں کئی جگہوں پر بلوائیوں کے حملے کا ڈر تھا۔ خوف کی ایک تلوار تھی جو ہمارے سر پر لٹک رہی تھی۔ بلوائیوں نے اس ٹرین کو لوٹنے کے منصوبے بنائے ہوئے تھے لیکن مسلمانوں نے ٹرین کے سکھ ڈرائیور کے پیچھے دو لوگوں کو تلوار دے کر کھڑا کیا ہوا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے ٹرین نہیں روکنی، اگر تم نے ٹرین روکی تو ٹرین رکنے سے پہلے تم اس دنیا میں نہیں رہو گے۔ اللہ کی مدد و نصرت سے ہم صحیح سلامت پاکستان پہنچ گئے۔ ریلوے سٹیشن کے ساتھ ایک خیمہ بستی تھی جہاں لُٹے پھُٹے قافلے پہنچ رہے تھے۔ وہاں ان لوگوں کو ٹھہراتے۔وہ بیمار تھے ہم نے پانی میں نمک اور چینی ملاملا کر بطور دوا ان کو پلانا شروع کردیا۔ لُٹے پھُٹوں کو تسلی دینا بھی بہت مشکل بات ہے۔ کسی کا خاوند نہیں مل رہا، کسی کا باپ نہیں مل رہا، افراتفری اور کہرام کا عالم تھا لیکن گورنمنٹ نے ہماری بہت مدد کی اور اللہ نے بھی ہمارا ساتھ دیا۔
س: قائداعظم کی فکر کیا تھی وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے؟
ج: پاکستان کے لیے ان کے بہت اونچے اور Solid خیالات تھے۔ ان کے خیالات بالکل ویسے ہی تھے جیسے کسی بھی دور اندیش لیڈر کے روشن انسانی خیالات ہوسکتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں تعلیم عام ہو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے روزگار کے مواقع ہوں اور یہ اتنی مضبوط ریاست ہو کہ دنیا کی کسی بھی ریاست کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوسکے وہ ایک اعلیٰ ذہن اور اعلیٰ سوچ کے مالک تھے۔ میرے پاس ان کی تعریف کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ بہت ہی عظیم انسان تھے اور اچھے مسلمان بھی۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ کا مذہب کیا ہے تو آپ نے جواب دیا جو حضور نبی اکرمa کا مذہب تھا وہی میرا مذہب ہے۔
س: کوئی ایسا واقعہ جس میں آپ کو براہ راست قائداعظم یا محترمہ فاطمہ جناح سے سیکھنے کا موقع ملا ہو؟
ج: محترمہ فاطمہ جناح سے تو ملنے کا موقع نہیں ملا۔ البتہ قائداعظم سے ایک مرتبہ سرسری ملاقات ہوئی۔ میرے ساتھ ہماری فارسی کی ٹیچر مسز صدیقی تھیں۔ میں بہت ڈر رہی تھی کیونکہ قائداعظم کا رعب و دبدبہ بہت زیادہ تھا۔ میں بمشکل جاکر ا نکی کرسی کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔ مسز صدیقی نے ان سے کہا کہ ہمیں نیشنل ایمرجنسی ڈگری دے دیں تو قائداعظم نے کہا I will think over it پھر بعد میں ہمیں وہ ڈگری مل گئی۔
س: موجودہ دور میں پاکستان میں خواتین کے سیاسی کردار کے بارے میں آپ کیا کہتی ہیں؟
ج: خواتین کا سیاست میں آنا ایک مثبت علامت ہے لیکن سیاست میں آکر خواتین کا رویہ مردوں کے ساتھ محتاط ہونا چاہئے اور فوکس پاکستان کی حفاظت اور اس کی بھلائی ہونی چاہئے۔
س: تحریک پاکستان میں نوجوانوں کے اندر جو حب الوطنی نظر آتی ہے وہ اب کے نوجوانوں میں مفقود ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
ج: میں آپ کی بات سے اتفاق کرتی ہوں۔ لوگ راہوں کا انتخاب کرکے چلتے ہیں، چلتے چلتے ہوائیں غلط رخ پر چلتی ہیں۔ وہ راہیں جن کا انتخاب انہوں نے کیا تھا وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ تمام نوجوانوں کا یہ فرض ہے کہ جو غلط روش چل پڑی ہے اس کو آگے بڑھ کر روک لیں اگر نہیں روکیں گے تو یہ روش ہمارے لیے مصیبت کا باعث بنے گی۔
س: آپ کا خواتین اور طالبات کیلئے کیا پیغام ہے؟
ج: ہماری زندگی اور اسلام کی زندگی ایک ہے۔ اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھال لیں، تعلیم حاصل کریں۔ اسلام کو اپنی روش بنالیں۔ اس کے بغیر گزارا نہیں۔ فیشن ایبل کپڑے ضرور پہنیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بے حیائی اختیار کی جائے۔ آپ کا لباس آپ کی عزت اور آپ کا وقار ہے اس کو قائم رکھیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمان بیٹوں اور بیٹیوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین