قربانی ایک ایسا امر ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ قربانی کا سلسلہ سابقہ امت سے چلا آرہا ہے گو کہ اس کا طریقہ کار مختلف تھا۔ سب سے پہلی قربانی حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں نے دی، یہ سلسلہ چلتے ہوئے جب ابراہیم علیہ السلام پر پہنچا تو آپ نے اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ کی قربانی کے طور پر پیش کیا۔ اللہ رب العزت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اس قدر پسند آئی کہ ان کی جگہ ایک جنتی دنبہ کی قربانی کا حکم ہوا۔ اس قربانی کی یاد کو امت محمدیہ میں رکھ دیا۔ اس وقت جو امت محمدیہ ہر سال جانور کی قربانی دیتی ہے وہ ذبح اسماعیل کی یاد کو تازہ کرتی ہے۔ قربانی ایک مقدسہ فعل ہے جو راہ خدا میں دی جاتی ہے اس لیے ایسا جانور ذبح کرنا چاہئے جو بہت خوبصورت ہو۔ قربانی کی اہمیت کے پیش نظر علماء کرام نے قربانی کی شرائط مقرر کی ہیں۔
وجوبِ قربانی کی شرائط:
قربانی کے واجب ہونے کی چار شرائط ہیں۔
- پہلی شرط ۔۔۔ اسلام:
وجوبِ قربانی کی پہلی شرط اسلام ہے لہٰذا اگر کافر قربانی کے دنوں میں مسلمان ہو جائے اور وہ صاحبِ نصاب ہو تو اس پر بھی قربانی واجب ہو جائے گی۔
- دوسری شرط ۔۔۔ آزادی:
کسی غلام پر خواہ اسے تجارت کرنے کی اجازت بھی ہو، قربانی واجب نہیں۔ اس لیے کہ یہ ایک مالی حق ہے جس کا مال کی ملکیت سے تعلق ہے۔ تاہم وجوبِ قربانی کے لئے اوّل سے لے کے آخر وقت تک آزاد ہونا شرط نہیں بلکہ عمر کے کسی بھی حصے میں اس کا آزاد ہونا وجوب کے لئے کافی ہوگا حتیٰ کہ آخری وقت میں آزادی ملی اور وہ نصاب کامالک ہو گیا تو اس پر قربانی واجب ہو گی۔
(کاسانی، البدائع الصنائع، کتاب التضحیة، 5: 63)
- تیسری شرط ۔۔۔ اقامت:
وجوبِ قربانی کے لئے تیسری شرط اقامت ہے یعنی مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
(جزیری، مباحث الأضحیة، 1: 717)
اگر حالت سفر میں نفلی طور پر قربانی کی تو ثواب ہو گا۔ اگر کوئی جانور قربانی کے ارادے سے خریدا مگر قربانی کا دن آنے سے پہلے سفر در پیش آگیا تو اسے فروخت کیا جاسکتا ہے۔
- چوتھی شرط۔۔۔ مالی استطاعت:
قربانی صاحب نصاب مالدار شخص پر واجب ہے۔ صاحبِ استطاعت شخص کی تعریف کرتے ہوئے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’صاحب استطاعت وہ ہے جس کے پاس سو درہم یعنی مناسب رقم ہو یا پھر اس قدر مال کا مالک ہو کہ رہنے کا مکان، پہننے کے کپڑوں اور ضروری کار آمد اشیاء کے علاوہ دو سو درہم کی مالیت کا سامان ہو یا اتنا سامانِ تجارت ہو جس سے کا م چلایا جاسکے تو بھی قربانی لازم ہے یا اتنی آمدنی ہو کہ معمولی گزر بسر کے بعد بقدر نصاب بچ جائے۔ یہ بھی ایک رائے ہے کہ اس کے کاروبار سے اتنی آمدنی ہو کہ ایک مہینے کا خرچ، خوراک نکل آئے اگرچہ سامانِ خانہ وقف کا ہو تو بھی قربانی واجب ہے۔‘‘
(جزیری، کتاب الفقه، مباحث الأضحیة، 1: 716)
صاحب ہدایۃ کا قول ہے:
’’آزاد مسلمان جب اپنی رہائش، لباس، گھوڑے، ہتھیار اور غلام وغیرہ سے زائد نصاب کا مالک ہو تو قربانی واجب ہے۔‘‘
(مرغینانی، الهدایة، کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر، 1: 115)
قربانی کرنے والے کی شرائط:
1۔ قربانی کی نیت کرنا:
رضائے خداوندی کے حصول کی نیت کے بغیر قربانی جائز نہیں ہوتی کیونکہ بعض اوقات گوشت کے لئے بھی جانور ذبح کیا جاتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ص روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئٍ مَا نَوَی.
’’اعمال کے نتائج نیتوں پر موقوف ہیں، آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي إلی رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم، 1: 1، رقم: 1
قربانی کے لئے دل سے نیت کرنا کافی ہے، زبان سے کچھ کہنا ضروری نہیں ہے۔
2۔ حصہ داروں کا تعین:
جس قربانی میں حصہ داروں کی گنجائش ہو وہاں کوئی ایسا شخص حصہ دار نہ بنایا جائے جو سرے سے رضائے خداوندی کی نیت ہی نہ رکھتا ہو۔ یہی حکم قربانی کے علاوہ باقی نیکی کے کاموں کا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’اگر قربانی کرنے والے کے ساتھ باقی چھ میں کوئی نصرانی گوشت کے ارادے سے شریک ہو تو کسی کی قربانی صحیح نہ ہو گی۔‘‘
فتاویٰ عالمگیری، کتاب الأضحیة، 8: 469
3۔ذبح کرنے والے کو قربانی کی اجازت دینا:
قربانی کرتے وقت ذبح کرنے والا کوئی اور ہو تو جب تک قربانی کرنے والے کی جانب سے اجازت نہ ہو قربانی جائز نہ ہوگی۔ دراصل انسان جو عمل کرتا ہے وہ اپنے لئے ہی کرتا ہے، اس لئے دوسرے کو اس کی اجازت دینے کا مجاز بھی وہی ہو سکتا ہے۔ اگر اس نے ذابح کو قربانی کی اجازت نہ دی تو قربانی اس کی طرف سے نہیں ہو گی۔ عاصم بن کلیب ص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:
ایک عورت نے مالک کی اجازت کے بغیر اس کی بکری ذبح کر کے حضور ں کو پیش کر دی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے کھانے سے منع کیا اور فرمایا:
أَطْعِمُوْهَا الْأُسَارَی.
’’اسے قیدیوں کو کھلا دو۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 5: 293، رقم: 22562
قربانی کے وقت سے متعلقہ شرط:
قربانی کے وقت سے متعلقہ شرط یہ ہے کہ قربانی قبل ازوقت جائز نہیں ہوتی۔ حضرت انس ص روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز عید پڑھی، خطبہ دیا اور حکم فرمایا:
مَنْ کَانَ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ أَنْ یُعِیْدَ ذِبْحًا.
’’جس نے نماز سے پہلے قربانی کی وہ اس کو دہرائے۔ (یہ اس کے بدلے دوسرے جانور کی قربانی دے)‘‘
مسلم الصحیح، کتاب الأضاحی، باب وقتها، 3: 1555، رقم: 1962
قربانی کے جانور سے متعلقہ شرائط:
قربانی کے جانور کا واضح عیب سے پاک ہونا ضروری ہے۔ اندھا یا کانا جس کا کاناپن واضح ہو، ایسا لنگڑا جو اپنے قدموں سے قربان گاہ تک چل کر نہ جا سکتا ہو، اتنا کمزور جانور جس میں گوشت برائے نام ہو اور جڑ سے کٹے ہوئے کان یا دُم کٹے جانور وغیرہ کی قربانی کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح صاحب فتاویٰ عالمگیری نے لکھا ہے کہ:
- جس جانور کے دانت نہ ہوں، اگر وہ چارا کھا لیتا ہے تو اس کی قربانی جائز ہے ورنہ نہیں۔
- جو جانور مجنون ہوگیا ہو تو اگر وہ چارہ کھا سکتا ہے تو اس کی قربانی جائز ہے ورنہ نہیں۔ خارش زدہ جانور اگر موٹا تازہ ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔
- جس جانور کی زبان کٹی ہوئی ہو اور وہ چارہ کھا سکتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ورنہ نہیں۔
- جس جانور کی چار ٹانگوں میں سے ایک ٹانگ کٹی ہوئی ہو اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔
- شریعت کا یہ قاعدہ ہے کہ جو عیب کسی جانور کے فائدہ کو بالکل ختم کردے یا خوبصورتی کو ضائع کردے اس کی قربانی جائز نہیں اور جو عیب اس سے کم درجہ کا ہو اس کی وجہ سے قربانی ممنوع نہیں۔
فتاویٰ عالمگیری، کتاب الأضحیة، 6: 457
جانور کا گوشت حلال ہونے کی شرط:
اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ایسے جانوروں کا گوشت حلال فرمایا ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں اور جن جانوروں کا گوشت انسانی صحت کے لیے مضر ہے ان کو حرام قرار دیا ہے۔ حلال جانور اگرچہ طبعی موت مر جائے تو وہ بھی حرام ہوجاتا ہے کیونکہ اس کا خون رگوں اور شریانوں میں ہی جم جاتا ہے جس سے جانور کے جسم میں فاسد مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو مضر صحت ہے۔
نیز اس لیے بھی کہ شریعت میں پاکیزہ اور حلال و طیب اشیاء کو کھانے کا حکم ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَآ اُحِلَّ لَهُمْط قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ.
’’لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں، آپ (ان سے) فرما دیں کہ تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔‘‘
المائدة، 5: 4
ذبیحہ شرعی کی درج ذیل شرائط ہیں:
- شرطِ اول: تسمیہ اور تکبیر
- شرطِ دوم: اختیار ذبیحہ
- شرطِ سوم: ذبح کی اہلیت شرطِ چہارم: آلہ ذبح کا ہونا
الغرض اللہ کے راستے میں خوبصورت و بے عیب جانور ذبح کرنا چاہئے جتنی پیار و محبت اور خلوص نیت سے قربانی دی جائے گی اللہ رب العزت کے ہاں نہ صرف قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے بلکہ قرب و خوشنودی کا باعث بھی بنتی ہے۔