اسلامی تعلیمات اور سال نو

سمیہ اسلام

دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تہوار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تہوار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہمیشہ ہوتا ہے اور ہر تہوار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے، جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے؛ لیکن افراد میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل کردی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تہوار وضع کیے انھیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے۔

در اصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق 25 دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔

نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور 31 دسمبر کی رات میں 12بجنے کا انتظار کیا جاتاہے اور 12بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے۔ کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیو ائیر کی صدا گونجتی ہے، آتش بازی کی جاتی ہے اور دیگر ممالک میں مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتاہے، جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے۔

آج ان عیسائیوں کی طر ح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور 31دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ان مسلمانوں نے اپنی اقدارو روایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے؛ جب کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔ مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے یہی اسلامی کیلینڈر ہے؛ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا۔

آج مسلمانوں نے دیگر اقوام کی دیکھا دیکھی بہت سی ان چیزوں کواپنی زندگی کا حصہ بنالیا اور انہیں اپنے لیے لازم و ضروری سمجھ لیا؛جو دین و دنیا دونوں کی تباہی و بربادی کا ذریعہ ہیں،۔ ایک سال کا اختتام اور دوسرے سال کا آغاز اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ ہماری زندگی سے ایک سال کم ہو گیا، حیات مستعار کا ایک ورق الٹ گیا اورہم موت کے مزید قریب ہوگئے، اس لحاظ سے ہماری فکر اور ذمہ داری اور بڑھ جانی چاہیے، ہمیں پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور وقت کو منظم کرکے اچھے اختتام کی کوشش میں لگ جانا چاہیے اوراپنا محاسبہ کرکے کمزوریوں کو دور کرنے اور اچھائیوں کو انجام دینے کی سعی کرنی چاہیے؛مگر افسوس صد افسوس! اس کے برعکس دیکھا یہ جاتا ہے کہ عیسوی سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز پرمغربی ممالک کی طرح ہمارے ملک کے بہت سارے مسلم اور غیر مسلم بالخصوص نوجوان لڑکیاں اور لڑکے، دھوم دھام سے خوشیاں مناتے ہیں، آتش بازی کرتے ہیں، کیک کاٹتے ہیں اور پھراظہار مسرت کے اس بے محل موقع پر وہ جائز اور مناسب حدود سے نکل کر بہت سے ایسے کام بھی کرتے ہیں ؛جنہیں ایک سلیم العقل انسان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا، اور نہ ہی انسانی سماج کے لیے وہ کام کسی طرح مفید ہیں؛بلکہ نگاہ بصیرت سے دیکھاجائے تو حد درجہ مضر ہیں۔

نئے سال سے متعلق کسی عمل کو تلاش کیا جائے تو قرون اولی کا کو ئی اور عمل تو نہیں ملتا البتہ بعض کتب حدیث میں یہ روایت نظر آتی ہے کہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتا تھے: اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام او راپنی رضامندی؛ نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔ اس دعا کو پڑھنا چاہیے؛ نیز اس وقت مسلمانوں کو دو کام خصوصاً کرنے چاہئیں یا دوسرے الفاظ میں کہ لیجیے کہ نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے : (۱) ماضی کا احتساب (۲) آگے کا لائحہ عمل

المیہ یہ ہے کہ آج ہم پر مغربی ثقافت کا ایسا رنگ چھایا ہم بھول ہی گئے کہ اسلامی سال کی ابتداء محرم کے مہینے سے ہوتی ہے اور اختتام ذوالحجہ کے مہینے پر ہوتا ہے – ہمارے کیلنڈروں پر انگریزی تاریخ ہی درج ہوتی ہے، دفاتر میں انگریزی تاریخ والا کیلنڈر، ملازمین کی تنخواہیں اسی کیلنڈر کے مطابق، چھٹیاں بھی ان ہی تاریخوں کے حساب سے، گویا کہ اسلامی مہینوں کی تاریخیں محض رمضان المبارک اور عیدین کے ساتھ ہی معلق ہوکر رہ گئیں۔ جبکہ اسلامی مہینوں کی بنیاد چاند کے گھٹنے اور بڑھنے پر ہے جس کا ادراک ایک عام ان پڑھ آدمی بھی کرسکتا ہے پھر دوسری طرف اسلامی مہینوں کے نام شریعت نے وضع کئے اور چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کو ان کی بنیاد قرار دیا گویا کہ اسلامی سال اور مہینوں کا نظام ایک باقاعدہ ترتیب شدہ اوراعلی و معیاری ہے اور ہم ہوش مند مسلمانوں نے معیاری چیز کو چھوڑ کر غیر معیاری اور گھٹیا چیز کو سینے سے لگالیا –

غورکیاجائے تونیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟کیوں کہ وقت کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اس سیل سے دی جاتی ہے ؛جس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہر حال پگھل ہی جاتی ہے۔

گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتاہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔

یہ مختلف طر ح کے جشن یہود و نصاری اور دوسری قوموں میں منائے جاتے ہیں؛ جیسے: مدرز ڈے، فادرز ڈے، ویلنٹائن ڈے، چلڈرنز ڈے اور ٹیچرس ڈے وغیرہ؛ اس لیے کہ ان کے یہاں رشتوں میں دکھاوا ہوتا ہے۔ ماں باپ کو الگ رکھا جاتا ہے، اولاد کو بالغ ہوتے ہی گھر سے نکال دیا جاتاہے اور کوئی خاندانی نظام نہیں ہوتا؛ اس لیے انہوں نے ان سب کے لیے الگ الگ دن متعین کر رکھے ہیں جن میں ان تمام رشتوں کا دکھلاوا ہوسکے؛ مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے اسلام نے سب کے حقوق مقرر کردیے ہیں اور پورا ایک خاندانی نظام موجود ہے؛ اس لیے نہ ہمیں ان دکھلاووں کی ضرورت ہے اور نہ مختلف طرح کے ڈے منانے کی؛ بلکہ مسلمانوں کو اس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے؛تاکہ دوسری قوموں کی مشابہت سے بچا جاسکے؛ اس لیے کہ ہمارے آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو غیروں کی اتباع اور مشابہت اختیار کرنے سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ“۔ (ابودوٴد ۲/۲۰۳ رحمانیہ) ترجمہ: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہے۔

نئے سال سے متعلق کسی عمل کو تلاش کیا جائے تو قرون اولی کا کو ئی اور عمل تو نہیں ملتا البتہ بعض کتب حدیث میں یہ روایت نظر آتی ہے کہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتا تھے: اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام او راپنی رضامندی؛ نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔

اس دعا کو پڑھنا چاہیے ؛ نیز اس وقت مسلمانوں کو دو کام خصوصاً کر نے چاہئیں یا دوسرے الفاظ میں کہ لیجیے کہ نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے : (۱) ماضی کا احتساب (۲) آگے کا لائحہ عمل۔

نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے۔ کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؛ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے؛ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا؛ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا (ترمذی ۴/ ۲۴۷ ابواب الزہد، بیروت) ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔

اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟

یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی دونوں معاملات میں ہو جیساکہ حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو (۱) اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے (۳) اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے (۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے (۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔

غورکیاجائے تونیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟کیوں کہ وقت کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اس سیل سے دی جاتی ہے ؛جس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہر حال پگھل ہی جاتی ہے

خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے؛ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے اس کے پاس وقت کم اور کام ز یادہ ہوتاہے۔

ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں؛بلکہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحا تِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔

اللہ تعالی ہم سب کو غیروں کی مشابہت سے بچائے اور آقائے نامدار جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین