(حصہ اول: قسط نمبر 8)
تحریر: ڈاکٹر فرح ناز صدر منہاج القرآن ویمن لیگ
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے خطابات 2024ء میں ہمارے دل و دماغ میں توحید اور وجود باری تعالیٰ کے عقیدے کو اس قدر پختہ کیا کہ اللہ کے وجود کا اقرار ہی انسانی زندگی کا سب سے بنیادی تقاضا ہے۔ اُمید ہے کہ ان خطابات سے انسانی زندگی پر انمٹ اثرات مرتب ہوں گے۔
عقیدہ توحید کے اقرار سے ہمارے دل و دماغ پر یہ اثر مرتب ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں تمام لوگ بحیثیت انسان برابر ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس سے معاشرے میں مساوات اور فکری اتحاد کا فروغ ہوتا ہے۔ اسی سے معاشرتی امن ممکن ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جس سے انسان میں آزادی و حریت، خود داری، بہادری و بے خوفی اور وسعتِ نظری پیدا ہوتی ہے اور معاشرہ بلند فکر و عزم و استقلال کی صفات سے متصف ہوتا ہے۔
اس کے برعکس رب تعالیٰ کا انکار انسان کو مادہ پرستی کی طرف لے جاتا ہے اور مادہ پرستی انسان کو مصلحت کوشی سکھاتی ہے۔ انسان ذاتی مصالح اور مفاد کو اجتماعی اور معاشرتی مفاد پر ترجیح دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ بلا تکلف و بلا جھجھک قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کر دیتا ہے اور ذاتی مفاد کی خاطر دشمنوں کے ساتھ بھی قومی و ملکی مفاد کا سودا کرنے میں اسے خوف نہیں ہوتا۔
مادی ترقی کے دلدادہ تہذیب مغرب سے متاثر مسلم نوجوانوں کے ذہنوں میں مذہب بیزاری کی سوچ اور فکر پروان چڑھ رہی ہے حالانکہ اقرار توحید انسان کے اندر انقلاب کا جذبہ جو اسے اللہ کی راہ میں نکلنے اور قربانی دینے کا شوق پیدا کرتا ہے۔ خدا کے وجود کو ماننے والا مطمئن اور پر سکون رہتا ہے۔ رب تعالیٰ کے وجود کو ماننے والا کبھی شکوہ شکایت نہیں کرتا۔ اس کا یہ پختہ عقیدہ ہوتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اللہ کے اذن سے ہو رہا ہے۔ وہ کسی کی فکر نہیں کرتا بلکہ سب کچھ اللہ پر چھوڑتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جب زندگی میں کوئی راستہ نظر نہ آئے تب اللہ پر ایمان اور یقین راستہ دکھاتا ہے۔
نسلِ نو کے ایمان و عقیدہ کو بچانے اور الحاد و بے دینی کے اس بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کے ان خطابات سے بیمار ذہنوں پر مثبت اثرات کی توقع کی جاسکتی ہے۔ آپ نے خدا کی تلاش کے لئے اسلاف کی مثالیں دے کر سمجھایا کہ رب کو پانے کے لئے قلوب و ارواح کی طہارت ضروری ہے۔ آپ فرماتےہیں:
’’ہم مادی دنیا کی چکاچوندسے لو لگا کے دل میں دنیا کے بت پال رہے ہیں، ہمارا دل گویا ایک بت خانہ (temple) ہے۔ ہم نے اس دل میں، مال ودولت، طاقت وسلطنت اور عزت و جاہ و منصب کے بت تعمیر کر رکھے ہیں اور’’ان‘‘ کی پوجا کرتے ہیں۔ اپنے نفس کی راحت کے سوا ہم کسی چیز کے طلبگار نہیں۔ ہمارے شب و روز نفس کے بت کی پوجا میں بسر ہو رہےہیں جب دل مادی دنیا کی مال دولت، عزت طاقت، جاہ و منصب کے حرص کے سوا کچھ نہ ہو اور وہ چاہے کہ محض چند لمحوں کی یاد الہی سے اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے اور میں اللہ سے مل جاؤں تو راستے اس طرح نہیں ملتے۔ ‘‘(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: خطاب نمبر: Ca-15، 4 اپریل 2024ء)
نسلِ نو کے ایمان و عقیدہ کو بچانے اور الحاد و بے دینی کے اس بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کے ان خطابات سے بیمار ذہنوں پر مثبت اثرات کی توقع کی جاسکتی ہے۔ آپ نے خدا کی تلاش کے لئے اسلاف کی مثالیں دے کر سمجھایا کہ رب کو پانے کے لئے قلوب و ارواح کی طہارت ضروری ہے
جس کا جو عقیدہ ہوتا ہے ویسا ہی اس کا عمل ہوتا ہے۔ انسان کے قلب و روح کو ایمانی قوت و توانائی عقیدہ صحیحہ سے ملتی ہے۔ یہ عقیدہ ہی ہے جس کی بدولت طاقتور، وسیع القلب اور وسیع المزاج، مضبوط ترین شخصیت ترتیب پاتی ہے۔ اعمال صالح کی قبولیت اور آخرت میں اجرو ثواب کا دارو مدار عقیدہ صحیحہ پر ہے۔ اﷲ رب العزت جو وحدہ لاشریک اور واجب الوجود ہے۔ اس کی ذات وصفات، اسماء و افعال اور احکام میں کوئی بھی شریک نہیں ہے۔ شیخ الاسلام نے اپنے خطابات میں جدید تعلیم یافتہ طبقات کے ذہنوں میں جنم لینے والے مغالطوں کا ازالہ ’خداکو کیوں مانیں؟‘ کے عنوان پر ٹھوس دلائل مرتب کیےہیں۔ ان کے خطابات کا مرکز و محور الحاد کا قلع قمع کرکے خدائے واحد لا شریک کو ماننا ہے۔ خدا کو ماننے سے ہمارے زندگی پر ہونے والے نتائج و اثر ات انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی مثال کے طور پر
1) خدا کے وجود پر ایمان رکھنے والا انسان تنگ نظر نہیں ہوتا
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات 2024ء سے قلوب و اذہان پر لامحالہ یہ اثر مرتب ہوتا ہے کہ ایک خدا کے وجود پر ایمان رکھنے والا مسلمان کبھی تنگ نظر نہیں ہو سکتا ‘ وہ وسیع الظرف ہوتاہے۔ کیونکہ وہ ایسے خدا کو ماننے والا ہوتا ہے جو زمین وآسمان ‘مشرق ومغرب اور تمام جہانوں کا مالک ہے۔ اس لئے وہ لسانی، علاقائی اور رنگ ونسل کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہوتا۔ ایک مومن جس کی نسبت درِ رسولﷺ سے ہو اس کی سوچ آپ کے تصدق سے بڑی وسیع ہوتی ہے وہ ہروقت مخلوقِ خدا کی بھلائی اور بہتری کے لئے کوشاں ہوتا ہے۔
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے، تو مصطفوی ہے
2) خدا کا تصور انسان کے اندر بلاکی غیرت پیدا کرتا ہے
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات 2024ء سے ہماری زندگیوں میں یہ یقین پختہ ہو جاتا کہ ہر مشکل اور مصیبت میں میرا حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ ہی ہے چنانچہ وہ ہر معاملہ صرف اللہ کے سپرد کرتا ہے۔ ایک رب کو ماننے والا مسلمان غیرت مند اور بہادر ہوتا ہے کیونکہ وہ یقین کے ساتھ اچھی طرح یہ جان لیتا ہے کہ تمام طاقتوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، جس سے عزت نفس کو تقویت ملتی ہے۔ ایسا انسان کسی سے ڈرتا بھی نہیں ہے اور وہ کسی مقام پر بھی عزت نفس کو داؤ پر نہیں لگاتا۔
3) خدا کا تصور انسان کے اندر عاجزی پیدا کرتا ہے
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات 2024ء سننے کے بعد ہمارے اعتقاد میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ میری تمام تر صلاحیتیں اللہ ہی کی طرف سے عطا کردہ ہیں اس طرح وہ اپنی صلاحیتوں پر مغرور نہیں ہوتا بلکہ ایک خدا کو ماننامزاج میں عجز پیدا کرتاہے۔ ایسا انسان انانیت اور تکبر کو دل سے نکال دیتا ہے۔ جب انسان کو یہ یقین ہو کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے میرے رب کا عطاکردہ ہے، ذاتی کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر وہ کبھی غرور اور تکبر کا شکار نہیں ہوتا۔ جیسے جیسے نعمتیں بڑھتی جاتی ہیں ویسے ویسے پیشانی جھکتی چلی جاتی ہے۔ جب کوئی شخص اللہ کیلئے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اسے مزید عزت عطا کرتا ہے۔
4) ایک رب کوماننے والا کبھی بھی ناانصاف نہیں ہوتا
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات 2024ء کا ایک معاشرتی اثر یہ بھی ہے کہ ایک سچا اور مخلص بندہ ایک خدا کو ماننے والا ظالم نہیں ہوتا، اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ کہ وہ عادل ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف زبردست عدل وانصاف کر نے والا ہے بلکہ عدل کرنے کے عمل اور عدل کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ اس کے اندر یہ تین احساسات پیدا ہوتے ہیں:
1۔ خدا خوفی کا احساس
2۔ جوابدہی کا احساس
3۔ اور یہ یقین کہ خدا دیکھ رہا ہے۔
یہ امر ہمیشہ اس کے پیش نظر رہتا ہے کہ اگر میں کسی کے ساتھ ناانصافی کروں تو میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ مجھے اسکے حضور حاضر ہونا ہے۔ وہ روزِ قیامت میرا حساب کتاب کرے گا۔ مجھے رب تعالیٰ کے حضور اپنے ہر ظلم کا حساب دینا پڑے گا۔ لہذا اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حقیقی، مخلص اور فرمانبردار لوگ منصف مزاج بن جاتے ہیں کیونکہ اس وقت دنیا میں ہر کمپنی surveillance camera کے ذریعے نگرانی کا نظام اور قانون بنا رہی ہے اور اس پر عمل در آمد بھي کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے جدید آلات اور ٹیکنالوجی کے بہت سارے کیمرے نصب کیے جا رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق مڈل ایسٹ کے اندر 75 سے 80 لوگوں پر ایک کیمرہ ہے۔ چائنا میں کم و بیش 5o کروڑ سے زائد کیمرے ہیں تقریبا ہر دو آدمیوں پر ایک کیمرہ لگا ہوا ہے۔ UK میں ایک آدمی جو صبح گھر سے نکلتا ہے اور شام تک جب اپنے گھر واپس آتا ہے تو 70 مرتبہ وہ کسی نہ کسی کیمرے کے لینز (Lense) میں ریکارڈ ہو رہا ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات 2024ء ہمارے ایمان و یقین پر بڑے مثبت اثرات کا باعث ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو رب ماننے والا بزدل نہیں ہوتا وہ کبھی کمزور بات نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس معبود پر اس کا ایمان ہے وہ زبردست قوت والا ہے۔ اسے اللہ کی مدد ونصرت اور اسی کے پپر کامل ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ کسی بڑے سے بڑے فرعون صفت شخص کا خوف بھی اپنے دل میں نہیں لاتا۔ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے ڈرتا ہے اور اسی کے سامنے جھکتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس معبود پر اس کا ایمان ہے وہ زبردست قوت والا ہے
ہمارے ہاں ایک جملہ ہر جگہ لکھا نظر آتا ہے۔
’’ خبردار کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے؟‘‘
حتیٰ کہ مساجد کے باہر بھی لکھا ہوتا ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے ہمارا مسئلہ حل ہو گیا؟ اس کے برعکس یہ احساس اور یقین کہ وہ کونسی ہستی ہے جس کے دیکھنے کا احساس اگر میرے اوپر غالب آ جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
وہ احساس جب بیدار ہوگا تب ہی کرائم فری سوسائٹی پیدا ہوگی اور نا انصافی ختم ہوسکے گی۔ یہ احساس کہ
Our every action is being recorded and you are under observation, someone is monitoring you.
تب ہی ہم احساس ذمہ داری کے ساتھ پُر سکون اور مطمئن زندگی گزار سکیں گے لہٰذا ہمیں اس احساس کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہم جو دوسروں کی دل آزاری کر رہے ہیں، اپنے لہجوں سے اور اپنی آنکھوں سے stareکرکے اس نا انصافی کو کیسے پکڑیں گے؟ لہذا صرف اور صرف اللہ کے وجود کا یقین او راس کا خوف ہی انسان کو انسان کے ساتھ زیادتی کرنے سے روک سکتا ہے۔
خدا خوفی کے اس حکم پر عمل کرنے کی ہم کوشش نہیں کر رہے بلکہ ہم حق مانگنے کی جدوجہد کو فرض ادا کرنے کی جدوجہد پر ترجیح دئیے ہوئے ہیں۔ اور نتیجے میں زیادتی پر زیادتی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ لہذا اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
5) خدا کو ماننے کا عقیدہ انسان کے اندر اپنی اصلاح کی فکر پیدا کرتا ہے
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات 2024ء سے ہماری زندگیوں پر جو فکری اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ یہ کہ اپنے حق کے لیے لڑنا، آواز اٹھانا اور اس کی فکر کرنا یا اپنے فرائض کی ادائیگی اور بالخصوص فکرِ جوابدہی ٹھیک عمل ہے؟خدا کو ماننے کا مطلب یہی ہے کہ ہر انسان کے اندر باضابطہ طور پر فکر جوابدہی کا احساس بیدار ہو جائے اور وہ دوسروں کی حق تلفی سے باز آ جائے۔ اس وقت دنیا کی صورتحال یہ ہے کہ دوسروں کے حق مارے جاتے ہیں۔ مغربی نکتہ نظر یہ ہے کہ حقوق کے حصول کی موومنٹ ہو۔ اپنے حق کے لئے اواز اٹھائیں، احتجاج کریں اور سڑکوں پر آجائیں۔ صرف ’حق مانگو‘ حق کی موومنٹ ہو۔ حق کی آگہی مہم ہو۔ یہ باقاعدہ طور پر پوری ایک موومنٹ ہے جس کو ہم civil rights movement کہتے ہیں اور یہ مغربی دنیا میں زور و شور سے چل رہی ہے۔ پچھلے ایک سو یا سوا سو سال میں یہ مہم بہت زیاد بڑھی ہے جبکہ ہمارا ماننا یہ ہے کہ اس طرح نا تو حق مل رہا ہے اور نا ہی ملے گا۔
مثال کے طور پر اگر دیکھا جائے تو مزدوروں کے حقوق کی موومنٹ کے نتیجے میں ہم مزدوروں کا دن منانے میں کامیاب تو ہوئے ہیں مگر مزدوروں کا حق دینے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚ
(الأحقاف، 46 / 13)
’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی تو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ‘‘
اسی طرح دیکھا جائے تو عورتوں کے حقوق کی بہت ساری مہمات کے باوجود بھی مغربی خاتون خوش اور مطمئن نظر نہیں آتی۔ نیز نفسیاتی عوارض کی دواؤں کی فروخت بھی دنیا کے اُسی خطے میں زیادہ ہے۔ مزید برآں یہ کہ سروے کے ذریعے پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں ایسی تحریکیں چل رہی ہیں کیا وہاں متعلقہ مسائل حل ہوگئے ہیں؟
لہٰذا اس بات سے ہرگز انکار نہیں ہے کہ زیادتی اور حق تلفی نہیں ہو رہی بلکہ زیادتیاں ہو رہی ہیں مگر اُن کے حل کے لیے یہ تحریکیں کافی نہیں ہیں کیونکہ یہ وہ محدود کوشش اور طریقہ ہے جو انسان کی سمجھ میں آیا۔
اہم سوال یہ ہے کہ اللہ نے اس مسئلہ کے حل کی کیا حکمت عملی دی ہے؟
وہ یہ ہے کہ ’’ہر انسان اپنے عمل کی جوابدہی کے احساس کے ساتھ زندگی گزارے یہ احساس ذمہ داری اور شعور اس کے اندر پیدا کیا جائے۔ ‘‘
یہ ہے فکرِ جوابدہی۔ اب یاد رہے کہ فکرِ جوابدہی پیدا ہوگی صرف فکر آخرت سے اور فکر آخرت ایمان کا سب سے متحرک اور فعال جزو ہے، کہ انسان کو ہر گھڑی یہ احساس ہو کہ مجھے واچ کیا جا رہا ہے میں جوابدہ ہوں اور میرا عمل تولا جائے گا۔ ارشاد فرمایا:
وَ هُوَ مَعَكُمْ اَیْنَ مَا كُنْتُمْ ؕ
(الحدىد، 57: 4)
’’وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو۔ ‘‘
تو پتہ یہ چلا کہ اگر دنیا میں ہر انسان اپنے فرض کی ادائیگی کی فکر کرے اپنے حق کے حصول کی فکر سے زیادہ تو یہ عمل انسان کے اندر اس کی اصلاح کی فکر پیدا کرے گا جس کے نتیجے میں اس کو ایمان اور شعور نصیب ہوگا۔
6۔ ایک خدا کو ماننا انسان کوبہادر بنا تا ہے
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات 2024ء ہمارے ایمان و یقین پر بڑے مثبت اثرات کا باعث ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو رب ماننے والا بزدل نہیں ہوتا وہ کبھی کمزور بات نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس معبود پر اس کا ایمان ہے وہ زبردست قوت والا ہے۔ اسے اللہ کی مدد ونصرت اور اسی کے پپر کامل ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ کسی بڑے سے بڑے فرعون صفت شخص کا خوف بھی اپنے دل میں نہیں لاتا۔ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے ڈرتا ہے اور اسی کے سامنے جھکتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس معبود پر اس کا ایمان ہے وہ زبردست قوت والا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚ
(الأحقاف، 46 / 13)
’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی تو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ‘‘
لہذا وہ سراپا فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ کا پیکر بن جاتے ہیں۔ یہ بھی رب کریم کا ارشاد ہے:
لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ
(التوبة، 9: 40)
’’غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ‘‘
تو لا محالہ ایک خدا کو ماننے والا باقی دنیا سے بے خوف ہوتاہے۔ دین دشمن طاقتوں کےسامنے وہ سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہوتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جرأت کے ساتھ بات کرسکتا ہے۔ لہذا اس دور میں نوجوان نسل کو شک اور ابہام کے گرداب سے نکالنے اور ہدایت کی پر یقین راہوں پر ڈالنے کا جو فریضہ حضور شیخ الاسلام نے اپنے امسال کے خطابات 2024ء کے ذریعے ادا کیا ہے وہ انسانیت کو بے چینی سے نکال کر حالت یقین میں لانے کے لئے اپنی مثال آپ ہے۔ کیونکہ ہدایت کی ابتداء شک کے ختم ہونے سے ہوتی ہے۔ اس کے حصول کے لئے حضور شیخ الاسلام نے جو تدبیر عطا کی وہ یہ کہ
ایسی ساری جگہیں، دوستیاں، تعلقات، محبتیں، سنگتیں اور وہ سارا سننا اور دیکھنا جن سے تشکیک و تذبذب پیدا ہونے کا امکان ہو ان کو خیر باد کہنا ہوگا۔ اس کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ اگر ان کو برقرار رکھ کر ہم ایمان بالغیب، تقویٰ، یقین، کامیابیاں اور ہدایت لینا چاہیں تو یہ بات قطعی نا ممکن اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف ہے۔
(جاری ہے)