اگر اولاد کی تربیت احسن انداز میں اور صالح اور اخلاقی اقدار واصولوں کے مطابق کی جائے تو اولاد ایک نعمت بن جاتی ہے۔وگرنہ اپنی اولاد ہی آزمائش بن جاتی ہے۔دین وشرعت نے اولاد کی تربیت کرنا والدین پر لازم کیا ہے۔
اولاد کو اللہ ربّ العزت نے دنیاوی زندگی میں رونق سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ رونق اسی وقت ہے جب والدین کی جانب سے اپنی ذمے داری کو پورا کرتے ہوئے بچوں کی صحیح نشو و نما، دینی و اخلاقی تربیت کی جائے اور بچپن ہی سے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ جیسا کہ اس بارے میں حضورنبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدَهُ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ
''کسی باپ کی طرف سے اس کی اولاد کے لیے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی اچھی تربیت کرے''۔ (سنن الترمذی)
عقائد صحیحہ کی تربیت:
کامیاب انسان کی زندگی کی بنیاد اس کے افکار ونظریات اور عقائد پر ہوتی ہے۔ اگر نظریہ وتصور مضبوط ہو اور ابدی فلاح سے متعلق ہو تو بچوں کی نشوونما بڑھتی ہے اور وہ ذہنی انتشار سے محفوظ رہتے ہیں۔جیسےحضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں:
کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أَفْصَحَ الْغُـلَامُ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْمَطَّلِبِ عَلَّمَهٗ ھٰذِهِ الْآیَۃَ: (وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّهٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّهٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْهُ تَکْبِیْرًا).
حضور نبی اکرم ﷺ (کا یہ طریقہ تھا کہ) جب عبدالمطلب کی اولاد میں سے کوئی بچہ بولنے لگتا تھا تو اسے یہ آیت سکھاتے تھے: ’اور فرمائیے کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے نہ تو (اپنے لیے) کوئی بیٹا بنایا اور نہ ہی (اس کی) سلطنت و فرمانروائی میں کوئی شریک ہے اور نہ کمزوری کے باعث اس کا کوئی مدد گار ہے (اے حبیب!) آپ اسی کو بزرگ تر جان کر اس کی خوب بڑائی (بیان) کرتے رہیے۔
(قرطبی، الجامع الأحکام القرآن، 10: 345)
اسی طرح امام غزالی احیاء علوم الدین میں بچوں کی تعلیم کے متعلق فرماتے ہیں:
بچے کو قرآن حکیم، احادیث نبویہ، نیک بچوں کے واقعات اور دینی احکام کی تعلیم دی جائے۔
(غزالی، إحیاء علوم الدین، 1: 279)
اللہ رب العزت نے بچوں کی تربیت کے نظریاتی اصولوں حضرت لقمان کی زبان سے یوں بیان فرمایا:
یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ ط اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ
اے میرے فرزند! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
(سورۃ لقمان: 13)
حضرت لقمان نے آگے فرمایا:
یٰبُنَیَّ اِنَّہَاۤ اِنۡ تَکُ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ فَتَکُنۡ فِیۡ صَخۡرَۃٍ اَوۡ فِی السَّمٰوٰتِ اَوۡ فِی الۡاَرۡضِ یَاۡتِ بِہَا اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَطِیۡفٌ خَبِیۡرٌ
(لقمان نے کہا:) اے میرے فرزند! اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو، پھر خواہ وہ کسی چٹان میں (چھُپی) ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں (تب بھی) اللہ اسے (روزِ قیامت حساب کے لئے) موجود کر دے گا۔ بیشک اللہ باریک بین (بھی) ہے آگاہ و خبردار (بھی) ہے۔ (سورۃ لقمان: 16)
یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ
اے میرے فرزند! تو نماز قائم رکھ اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔ (سورۃ لقمان: 17)
ان آیات مبارکہ میں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اس کے نام سے نہیں پکارا، بلکہ اے میرے بیٹے! کہہ کر پکارا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نام لینے سے محبت کا وہ اظہار نہیں ہوتا، جو ’’اے میرے بیٹے!‘‘ کہنے سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔
جس طرح ماں لاشعوری عمر میں بچے کو محبت میں ’’میرا لعل، میرا چاند، میرا سوہنا‘‘ وغیرہ جیسے القابات سے پکارتی ہے اسی طرح جب بچہ شعوری عمر کو پہنچ جائے تو والدین اس سے اسی اندازِ محبت میں بات کریں تو ماں باپ کی بات بچے کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوگی۔
سب سے پہلی نصیحت جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کی، وہ توحید باری تعالیٰ سے متعلق تھی کہ ’’میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔‘‘ اس سے بھی معلوم ہوا کہ بچے کو سب سے پہلے دینی عقائد و افکار کی تعلیم دینی چاہیے تاکہ بڑا ہوکر وہ ایک اچھا مسلمان بنے، کیوں کہ اس کے عقائد جب صحیح ہوں گے تو اعمال بھی ان شاء ﷲ صحیح ہوں گے، اور اگر عقائد قرآن وسنت سے متصادم ہوئے تو یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ وہ راست اعمال کرے گا۔
بچوں کا ذہن صاف و شفاف اور خالی ہوتا ہے اس میں جو چیز بھی نقش کردی جائے وہ مضبوط و پائیدار ہوتی ہے، اس لیے سب سے پہلے بچے کو دینی و اخلاقی تعلیم دی جائے۔ قرآن وسنت کی تعلیم دینی امور کے ماہر اساتذہ سے دلوائی جائے۔
حضرت لقمان رضی اللہُ عنہ نے اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں فرمائیں ، انہیں بہت غور سے پڑھیں کہ انہوں نے اولاد کو زندگی کے کن کاموں کے متعلق نصیحت فرمائی اور اُس کی روشنی میں ہمیں اپنی اولاد کی تربیت کیسے کرنی چاہئے۔ اوپر کے خلاصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کی تربیت کے معاملے میں والدین کو بطورِ خاص درج ذیل چار اُمور کا لحاظ ضرور کرنا چاہئے۔ یہ چاروں چیزیں دنیا اور آخرت ، دونوں کے لئے نہایت اہم ہیں ۔
محبت واطاعتِ رسول ﷺ:
بچوں کو حضور نبی اکرم ﷺ کے احترام، ادب اور عزت و توقیر کی ترغیب دیں۔ بچوں کو سیرتِ رسول ﷺ کے واقعات سنائے جائیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بچوں کے ساتھ محبت و شفقت کے واقعات سنائے جائیں۔ والدین بچوں کو درود و سلام پڑھنا سکھائیں ۔بچوں کو بتائیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کا نام مبارک لیا جائے تو ’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ کہا جائے۔ اور ایسی محافل نعت کا انعقاد کیا جائے جن میں بچوں کو نعت پڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ والدین جب بچوں میں اوائل عمری سے ہی حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ یک گونہ ذہنی و جذباتی وابستگی پیدا کرنے کے لیے انہیں اس طرح کا ماحول دیں گے تو باشعور ہونے تک ان کے قلوب و اذہان میں حضور ﷺ کی محبت، تعظیم و توقیر اور اطاعت و اتباع کے پہلو راسخ ہو چکے ہوں گے۔
عقائد کی صحت کے ثمرات :
عقائد کی درستی ، ایمان کی پختگی اور خدا پر توکل و اعتماد ، دنیا میں بَلا و مصیبت کو برداشت کرنے اور ان سے نجات پانے کا ذریعہ ہے ، جبکہ عقائد کا بگاڑ ، آفتوں ، مصیبتوں اور بلاؤں کے نازل ہونے ، دلی بے قراری اور قلبی بے چینی کا ذریعہ ہے۔ یونہی عقائد کی درستی آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ، خوشنودی اور جنّت میں داخلے کا قوی سبب ہے ، لیکن عقائد کی خرابی اور گمراہی کی حالت میں موت جہنم میں جانے کا مستحق بنا دیتی ہے اور جو کفر کی حالت میں مر گیا ، وہ تو ضرور ہمیشہ کے لئے جہنم کی سزا پائے گا۔
عبادات واعمالِ صالحہ کی تلقین:
بچوں کو مسلسل یہ تلقین کرنا اور یاد دہانی کراتے رہنا کہ عبادت ، دنیا میں نیک نامی اور آخرت میں جنت میں جانے کا وسیلہ ہے ، عبادت کے ذریعے خدا سے تعلق مضبوط ، قربِ الٰہی نصیب ہوتا اور مقصدِ تخلیق کی تکمیل ہوتی ہے ، اِس کے برخلاف عبادت میں غفلت خدا سے دوری ، شیطان کی معیت ، دنیا میں ذلت و رُسْوائی اور آخرت میں جہنم میں داخلے کاسبب ہے۔ اور باطنی اعمال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قلبی تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ خدا کی صفات کا مراقبہ کرنا ، دل کی طہارت ، نفس کی پاکیزگی ، قلب کے نور ، باطن کی روحانیت اور مکاشفہ و مشاہدہ کے حصول کا قوی ترین سبب ہے۔ انبیاء و اولیاء کے مراتب میں اِن باطنی اعمال کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔
اخلاق کی تہذیب کا درس:
اگر اَولاد کے اخلاق اچھے ہوں گے تو معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور لوگ اُن کی عزت کریں گے ، جبکہ بُرے اخلاق کی صورت میں معاشرے میں جہاں ان کا وقار ختم ہوگا وہیں اُلٹا والدین کی بدنامی اور رسوائی بھی ہوگی۔ اچھے اخلاق آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث ہیں ، جبکہ برے اخلاق غضبِ الٰہی اور لوگوں کی طرف سے خود پر بوجھ لادنے کا سامان ہیں۔
حضرت لقمان کی اپنے فرزند کو کی گئی یہ نصیحتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمیں اپنی اولاد سے ان کی نفسیات سامنے رکھ کر ان کی ذہنی استعداد کا اندازہ لگا کر بات چیت کرتے رہنا چاہیے اور آج کے ماحول کا تقاضا ہے کہ والدین اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ ماحول میں گفتگو کریں، ان کے مسائل اور پریشانیوں کو سنیں اور حل کریں، کیوں کہ ڈانٹ ڈپٹ کے دور گزر چکے۔ حضرت انس رضی ﷲ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دس برس رہے۔ آپ رضی ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان دس برسوں میں کبھی نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے مجھے نہیں ڈانٹا۔ ایک واقعہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام سے بھیجا۔ میں بچوں کے ساتھ کھیل کھود میں لگ گیا۔ اس کے باوجود بھی نبی کریم محمد صلی ﷲ علیہ وسلم نے مجھے نہیں ڈانٹا۔
بچوں کی تربیت کے اسلامی طریقے :
دین اسلام نے بچوں کی صحیح معنی میں دینی تربیت کے لیے رہنما اصول بیان کیے ہیں۔ احادیث وروایات میں تربیت کے مختلف مراحل اور طریقوں کو بیان کیا گیا ہے۔
1۔ والدین کا بچوں کو وقت دینا:
بچوں کی تربیت کے لئے لازمی ہے کہ انہیں اپنا تھکا ہوا اور تھوڑا سا وقت نہیں ، بلکہ تازہ اور بھرپور وقت دیں۔ اُن کے پاس بیٹھیں ، باتیں کریں ، مصروفیات پوچھیں ، صحیح عقائد ، اچھے اعمال پر گفتگو کریں ، سیرتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم و سوانحِ صحابہ و اولیاء رضوان اللہ عنہم کی باتیں سنائیں ، کتابیں لاکر دیں ، مطالعہ کا شوق دلائیں ، پڑھے ہوئے کے بارے میں سوالات کریں ، اُن سے کتاب سنیں ، حسنِ اخلاق اور اچھے کام پر حوصلہ اَفزائی کریں ، بداخلاقی اور برے کام پر سمجھائیں اور اُس کے نقصان بتائیں۔ بچوں کو صحت و صفائی کی اہمیت بتائیں ، متوازن اور صحت مند غذا بتائیں ، اس کے کھانے کی عادت ڈالیں ، صفائی کا معمول بنانے کی تربیت دیں۔ مفید اور فضول کاموں کا فرق بتائیں، جیسے مطالعہ اور تلاوت و عبادت مفید ہے ، یونہی سیر ، ورزش اور جائز تفریح اچھی چیز ہے ، جبکہ موبائل کی بہت زیادہ مشغولیت، انٹرنیٹ کا کثیر استعمال برا ہے۔ محنت ، ہمت اور چستی کامیابی کے ذرائع ہیں ، جبکہ سستی ، کاہلی اور کام چوری زندگی ناکام بنا دیتے ہیں۔ امام غزالی بچوں کی تربیت پر والدین کے اخلاق و عادات کے اثر انداز ہونےکے بارےفرماتے ہیں:
وَالصِّبْیَانُ أَمَانَةٌ عِنْدَ وَالِدَیْهِ، وَقَلْبُهُ الطَّاهِرُ جَوْهَرَةٌ نَفِیسَةٌ سَاذَجَةٌ خَالِیَةٌ عَنْ کُلِّ نَقْشٍ وَصُورَةٍ، وَهُوَ قَابِلٌ لِکُلِّ مَا نُقِشَ، وَمَائِلٌ إِلٰی کُلِّ مَا یُمَالُ بِهٖ إِلَیْهِ، فَإِنْ عُوِّدَ الْخَیْرَ وَعُلِّمَهٗ نَشَأَ عَلَیْهِ وَسَعِدَ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، وَشَارَکَهٗ فِي ثَوَابِهٖ أَبَوَاهُ وَکُلُّ مُعَلِّمٍ لَهٗ وَمُؤَدِّبٍ، وَإِنْ عُوِّدَ الشَّرَّ وَأُهْمِلَ إِهْمَالَ الْبَهَائِمِ شَقِيَ وَهَلَکَ، وَکَانَ الْوِزْرُ فِي رَقَبَۃِ الْقَیِّمِ عَلَیْهِ وَالْوَلِيِّ لَهٗ، وَقَدْ قَالَ اللہُ تَعَالَی: {یٰٓـاَیَّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا}.
بچہ والدین کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اس کا دل ایک عمدہ، صاف اور سادہ آئینہ کی مانند ہے جو بالفعل اگرچہ ہر قسم کے نقش و صورت سے خالی ہے لیکن ہر طرح کے نقش و اثر کو فوری قبول کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔اُسے جس چیز کی طرف چاہیں مائل کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس میں اچھی عادتیں پیدا کی جائیں اور اسے علم نافع پڑھایا جائے تو وہ عمدہ نشو و نما پا کر دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کر لیتا ہے۔ یہ ایک ایسا کارِ خیر ہے جس میں اس کے والدین، استاد اور مربی وغیرہ سب حصہ دار ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر اُس کی بری عادتوں سے صرفِ نظر کیا جائے اور اسے جانوروں کی طرح کھلا چھوڑا جائے تو وہ بد اخلاق ہو کر تباہ ہو جاتا ہے جس کا وبال اس کے ولی اور سرپرست کی گردن پر پڑتا ہے۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اَہل و عیال کو آگ سے بچاؤ''۔
(غزالی، إحیاء علوم الدین، 3: 72)
2۔ بچوں کے سامنے والدین کا مناسب رویہ اختیار کرنا:
والدین پر لازم ہے بچوں کے ساتھ نرم لہجہ اختیار کریں۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ گھر میں’’ تو‘‘ اور ’’تم‘‘ کے الفاظ استعمال ہوتے ہوں اور بچوں سے یہ توقع رکھی جائے کہ وہ’’آپ‘‘ کے لفظ سے مخاطب ہوں۔ اگر بچوں کو والدین کی توجہ و نگہداشت، ان کی سرپرستی و راہنمائی حاصل نہ ہو تو ایسے بچے کیونکر نیک اور اچھے انسان بن سکتے ہیں۔ ایسے میں بچوں کا بگڑ جانا یقینی بات ہے ۔ والدین کو تربیتی ذمہ داریوں کی ترغیب حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ سے بھی ملتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
أَدِّبُوْا أَوْلَادَکُمْ عَلٰی ثَـلَاثِ خِصَالٍ: حُبِّ نَبِیِّکُمْ وَحُبِّ أَهْلِ بَیْتِهٖ وَقِرَائَۃِ القُرْآنِ.
اپنی اولاد کو تین چیزیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، حضور نبی اکرمﷺ کے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت اور قرآن کی تلاوت۔
(سیوطی، الجامع الصغیر، 1: 25، رقم: 311)
لہٰذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اندر اچھے آداب و صفات پروان چڑھائیں، ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جلا بخشیں ۔ ان کے اندر وسعت قلبی، صداقت و دیانت، صبر و استقامت، ایثار و قربانی، ہمدردی و غم گساری، تواضع و انکساری اور مہمان نوازی و فیاضی کی صفات پیدا کریں۔ نیز گالی گلوچ، غیبت، چغل خوری، کذب، خوف، بزدلی جیسے رذائل اخلاق سے بچائیں۔
3۔ گھر میں مہذب ماحول دینا:
اگرچہ ماحول، علاقہ، خاندان اور صحت کے اعتبار سے بچے مختلف عمر میں قرآنی تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ لیکن کوشش کرنی چاہیے کہ بچہ جب تین سال کا ہو جائے تو اس کی قرآنی تعلیم کا آغاز ہو جانا چاہیے۔ لہذا والدین کا فرض ہے کہ جب بچے میں قوت گویائی آجائے تو سب سے پہلے اسے کلمہ طیبہ سکھائیں اور اس کے دماغ میں اس کا مطلب بھی راسخ کر دیں کہ کلمہ ہی اسلام کی بنیاد ہے۔
علاوہ ازیں والدین بچوں کے سوالات کو ہرگز نظر انداز نہ کریں ۔ اگر والدین کو بچوں کے کسی سوال کا صحیح جواب نہ آتا ہو تو بچوں سے ٹال مٹول نہیں کرنی چاہیے بلکہ مطالعہ کر کے انہیں مثال اور دلیل سے سمجھایا جائے۔ بچوں کو کسی بھی بات پر آمادہ کرنے کے لیے والدین کو یہ اُصول اختیار کرنا چاہیے کہ ان کا انداز حاکمانہ نہ ہو بلکہ ترغیب دینے والا ہو۔ بچوں کو سمجھ نہ آنے پر مشفقانہ انداز، آسان الفاظ میں اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرنی چاہیے۔ جیسےحضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أُمِرْتُ أَنْ نُکَلِّمَ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ.
مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم (انبیاء کرام علیہم السلام ) لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کیا کریں۔
(غزالي، إحیاء علوم الدین، 1: 99)
4۔ بڑوں کا ادب احترام:
بچوں کو بڑوں کا ادب سکھائیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بڑوں کے ساتھ ادب، عزت اور تعظیم سے پیش آنے کی تلقین فرمائی ہے اور بڑوں کا یہ حق قرار دیا کہ بچے اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کریں اور ان کے مرتبے کا خیال رکھیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا وَیَرْحَمْ صَغِیْرَنَا.
جو ہمارے بڑوں کی توقیر نہ کرے اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔
(أحمد بن حنبل، المسند، 2: 207، رقم: 6937)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا أَکْرَمَ شَابٌّ شَیْخًا لِسِنِّهٖ إِلَّا قَیَّضَ اللہُ لَهٗ مَنْ یُکْرِمُهٗ عِنْدَ سِنِّهٖ.
جو نوجوان کسی عمر رسیدہ شخص کی اُس کی بزرگی کے باعث عزت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اُس کے بڑھاپے میں اُس کی عزت کرتا ہے۔
(ترمذی، السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في إجلال الکبیر، 4: 372، رقم: 2022)
آدابِ معاشرت اپنے عمل سے سکھانا:
کھانے پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھنی چاہئے۔ دائیں ہاتھ سے کھانا پینا چاہیے۔ پانی بیٹھ کر پینا چاہیے۔ پانی تین سانسوں میں پینا چاہیے۔پانی میں پھونک نہیں مارنی چاہیے۔ کھانا کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھ دھوئے جائیں۔ کھانے پینے میں اسراف نہ کیا جائے۔کھانے پینے کے بعد الحمد للہ کہنا چاہیے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے دائیں ہاتھ سے کام کرنے کو نہ صرف پسند فرمایا بلکہ اس کا حکم بھی دیا ہے اس لیے بچوں کو کھانے، پینے، لکھنے، کوئی چیز لینے اور بھلائی کے ہر کام میں دائیں ہاتھ سے کام کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یُحِبُّ التَّیَمُّنَ مَا اسْتَطَاعَ فِي شَأْنِهٖ کُلِّهٖ فِي طُهُورِهٖ وَتَرَجُّلِهٖ وَتَنَعُّلِهٖ.
حضور نبی اکرم ﷺ حتی الامکان اپنے تمام کاموں میں دائیں جانب سے ابتدا کرنے کو پسند فرماتے طہارت(وضو)، کنگھی کرنے اور جوتے پہننے میں بھی۔(بخاري، الصحیح، کتاب اللباس، باب ببدأ بالفعل الیمنی، 5: 2200، رقم: 5516)
دیگر آداب کی تعلیم دینا:
بچوں کو قضائے حاجت کے آداب سکھائے جائیں ۔ جیسے ستر کی حفاظت، قبلہ رخ ہو کر پیشاب نہ کرنا، بائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا، اور ہاتھ دھونا وغیرہ۔ اسی طرح سونے کےآداب جیسےلیٹنے سے قبل بستر کو اچھی طرح جھاڑ نا۔ دائیں کروٹ پر سونا۔ مسنون دعائیں پڑھنا۔ سورۂ اخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھ کر پھونکنا ۔ اسی طرح بچوں کو چھینک اور جمائی کے آداب سکھائے جائیں جیسے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے تو {اَلحَمْدُ ِللہِ} کہے، اور اس کا بھائی یا دوست (جو بھی سنے) وہ جواباً {یَرْحَمُکَ اللہُ} کہے۔ جب اس کا بھائی {یَرْحَمُکَ اللہُ} کہے تو پھر وہ کہے: {یَھْدِیْکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ} ’اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے حالات کو سنوارے۔(بخاري، الصحیح، کتاب الأدب، باب إذا عطس کیف یشمت، 5: 2298، رقم: 5870)
خلاصہ کلام:
غیر محسوس انداز سے بچوں کے اندر بہت سی اچھی اور بُری عادات جنم لیتی ہیں۔بچے کے اردگرد کاماحول اخلاقی لحاظ سے پاکیزہ ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر صحیح عقائد و تصورات، نیک اور صالح سیرت و کردار کے حامل افراد سے بچے کا میل جول ہے تو اُس میں پاکیزہ صفات پروان چڑھتی ہیں جن کا ذہنی و نفسیاتی اثر بچے کی شخصیت پر پڑتا ہے۔
امید ہے کہ ان امور کا لحاظ رکھا جائے تو بچوں کی تربیت اچھی ہو گی۔اور وہ معاشرے کے مفید شہری بن کر ابھریں گے۔ اور معاشرہ ترقی کرے گا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ والدین کو امتِ مسلمہ کی نئی نسل کی تعمیر وتہذیب اور تربیت کرنے کی سمجھ بوجھ اور فہم عطا فرمائے۔