عقیدہ آخرت اور فکر احتساب

سعدیہ کریم

احتساب کیا ہے

اپنے اعمال و افعال کا جائزہ لینا احتساب کہلاتا ہے۔ احتساب اسم مذکر ہے جس کا معنی ہے حساب کتاب کرنا باز پرس کرنا، محاسبہ کرنا، بری باتوں سے منع کرنا، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی جانچ پڑتا کرنا وغیرہ۔

ہستی کے مترادفات میں محاسبہ اور حساب کرنا بھی شامل ہے۔ یہ محاسبہ اپنی ذات کے لیے بھی ہوتا ہے اور معاشرے کے دیگر افراد کے لیے بھی محاسبہ کرنے والے یا حساب کرنے والے کو محتسب کہتے ہیں۔

ہر انسان کو اپنا احتساب یا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے اور بطور مسلمان یہ بہت ضروری ہے کیونکہ مسلمان کے یہ عقیدہ آخرت لازمی ہے اور عقیدہ آخرت انسان کو اپنے محاسبہ اور احتساب کے لیے اکساتا ہے اور متحرک کرتا ہے۔ انسان کو جوابدہی کا احساس اور شعور دیتا ہے کہ انسان کے ہر عمل کا حساب کتاب لیا جائے گا۔

اسلام دین فطرت ہے یہ اپنے ماننے والوں کو زندگی کے تمام پہلوؤں اور جہتوں کے بارے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام میں احتساب کا تصور بہت وسیع ہے۔ اسلام کے مطابق ہر انسان کے لیے اپنا احتساب کرنا لازم ہے چاہے وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو تاکہ معاشرے میں مساوات، عدل و انصاف قائم ہوسکے اور ناانصافی اور قانون شکنی کا مکمل خاتمہ ہو۔ احتساب کا مقصد آخرت کی فلاح و کامیابی ہے۔

عقیدہ آخرت اور فکر احتساب

عقیدہ آخرت اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے۔ عقیدہ آخرت سے مراد اس بات پر ایمان لانا ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا اور اس کی تمام چیزوں کو ایک دن ختم کردے گا۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات باقی رہے گی۔ موت کے بعد تمام انسان دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کا حساب دیں گے۔ اس وقت ہر ایک کے ساتھ انصاف ہوگا۔ جن کے اعمال اچھے ہوں گے وہ جنت میں جائیں گے اور جن کے اعمال برے ہوں گے وہ دوزخ میں جائیں گے۔

قرآن مجید میں واضح کردیا گیا ہے کہ انسان کی دنیاوی زندگی اس کی آخرت کی زندگی کا پیش خیمہ ہے۔ دنیا کی زندگی عارضی اور آخرت کی زندگی دائمی ہے۔ انسان کے تمام اعمال کے پورے پورے نتائج اس عارضی زندگی میں مرتب نہیں ہوتے بلکہ اس عارضی زندگی میں جن اعمال کا بیج بویا جاتا ہے۔ ان کے حقیقی نتائج آخرت کی زندگی میں ظاہر ہوں گے۔ اس لیے انسان کو فکر احتساب کرنی لازمی ہے تاکہ وہ یہ جائزہ لیتا رہے کہ اس نے آخرت کے لیے کوئی زاد راہ تیار کیا ہے یا نہیں۔ نیکیاں گناہوں سے زیادہ ہیں یا نہیں۔ ذمہ داریاں اور فرائض احسن طریقے سے ادا کیے ہیں یا نہیں کیونکہ جب دنیا کا یہ نظام درہم برہم ہوجائے گا اور ایک دوسرا نظام قائم ہوگا تو انسان کو پھر جسمانی زندگی ملے گی۔ اس روز ایک زبردست عدالت لگے گی جس میں انسان کے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اس کو نیک اعمال کی جزا اور برے اعمال کی سزا ملے گی۔

اگر انسان آخرت پر ایمان نہ رکھے تو وہ خود غرضی اور نفس پرستی میں ڈوب کر تہذیب و شرافت اور عدل وانصاف کے تقاضوں کو یکسر بھول جائے۔ فکر احتساب معاشرے کو انسانیت افروز بناتی ہے کیونکہ اس سے انسان کے دل میں نیکی پر جزا اور بدی پر سزا کا احساس پیدا ہوتا ہے جو اعمال میں صالحیت پیدا کرتا ہے۔

نظام احتساب کی ضرورت و اہمیت

ہر معاشرے کی فلاح و ترقی کے لیے نظام احتساب کا ہونا بہت ضروری ہے۔ نظام احتساب کو قائم کرنے اور اس کو نافذ کرنے کے لیے ایک ادارہ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے جو حکمران کی اجازت سے معاشرے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے سکے۔

محتسب معاشرتی عوامل پر پوری طرح نظر رکھتا ہے۔ بازاروں میں دھوکہ دہی اور منافع خوروں کا خاتمہ کرتا ہے۔ ہر قسم کے تجارتی مراکز میں ایمانداری اور حق گوئی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ سود اور رشوت کے خلاف جنگ کرتا ہے۔ اسلامی حدود و قوانین کا نفاذ اس کی اہم ترین ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ معاشرہ اسلام کا مضبوط مرکز بن سکے۔

نظام احتساب انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس سے انسان کے داخلی و خارجی معاملات میں بہتری آتی ہے۔ احتساب یا محاسبہ انسان کو اپنے اعمال میں اخلاص و تقویٰ پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے کیونکہ جو شخص اخروی زندگی پر ایمان رکھتا ہے جو آخرت کی زندگی میں ظاہر ہوں گے۔ جس طرح انسان کو زہر کے بارے میں ہلاک کرنے اور آگ کے بارے میں جلانے کا یقین ہوتا ہے۔ اسی طرح گناہوں کے ہلاکت خیز ہونے کا بھی یقین ہوتا ہے اور جس طرح وہ خوراک اور پانی کو اپنے لیے مفید اور نفع بخش سمجھتا ہے۔ اسی طرح نیک اعمال کو بھی اپنے لیے نجات و فلاح کا سبب سمجھتا ہے۔ اس کے دل میں نیکی سے رغبت اور بدی سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ بہادری، صبرو تحمل اور احساس ذمہ داری پیدا ہوجاتا ہے۔

احتساب کی اقسام

احتساب دو طرح کا ہوسکتا ہے۔

۱۔ انفرادی احتساب ۲۔ اجتماعی احتساب

انفرادی احتساب

انفرادی احتساب سے مراد یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اپنے اعمال و افعال کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ گناہوں سے بچ سکے۔ اس کے بارے میں قرآنی تعلیمات موجود ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اﷲَ اِنَّ اﷲَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔ (الحشر، ۵۹: ۱۸)

’’ اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہئیے کہ اس نے کل (قیامت) کے لیے آگے کیا بھیجا ہے، اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ ‘‘

سورہ الحشر کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو مخاطب کرتے ہوئے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ قیامت کے ہولناک دن اور اس دن کے محاسبہ کے لیے تیاری کی طرف متوجہ کیا جارہا ہے۔ آیت کے اول اور آخر میں اللہ سے ڈرنے اور تقویٰ اختیارکرنے کا حکم ہے یعنی اللہ کے احکام پر عمل کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو اور نافرمانی سے بچو۔ یہ وہ انفرادی احتساب ہے جس کا حکم ہر ذی شعور انسان کے لیے ہے۔

آخرت کا دن بھی احتساب کا دن ہے لیکن اس دن کے احتاب سے پہلے انسان کو اس احتساب کے لیے تیاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ انسان چاہے مرد ہو یا عورت، ماں ہو یا باپ، بیٹا ہو یا بیٹی شوہر ہو یا بیوی، استاد ہو یا ڈاکٹر، ہر ایک کو اپنے اعمال کی خود احتسابی کرتے رہنا چاہیے۔ اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ کیا اس نے اپنے فرائض میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی؟ کیا اس کے فرائض عین حکم قرآنی پورے ہورہے ہیں؟ اس کے کسی عمل کی وجہ سے کسی دوسرے کو دکھ یا تکلیف تو نہیں پہنچ رہی؟ اس کے اعمال کی وجہ سے کسی کی دل آزاری ہو یا اس کے اعمال کسی حکم قرآنی سے ٹکراتے ہوں تو ایسے انسان کو اپنی فکر کرنی چاہیے۔ اپنے اعمال اور نیتوں کو خالص اللہ کی رضا کے لیے کرنا چاہیے کیونکہ جب انسان کے تمام اعمال اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لیے ہوں تو پھر ہی وہ دنیا وآخرت میں کامیاب ہوتا ہے۔ حدیث پاک میں بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔

فرمان رسولﷺ ہے کہ

’’اے لوگو اللہ سے ڈرو اور اچھے طریقے سے روزی طلب کرو کیونکہ کوئی انسان اپنا رزق پورا کیے بغیر نہیں مرے گا۔ اگرچہ رزق کے حصول میں دیر ہوجائے۔ چنانچہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اچھے طریقے سے روزی طلب کرو جو حلال ہے وہ لے لو اور جو حرام ہے وہ چھوڑ دو۔ ‘‘ (سنن ابن ماجہ)

اس حدیث مبارکہ میں بھی اللہ سے ڈرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تقویٰ دراصل احتساب ہی ہے کہ اس میں اللہ کا ڈر، خوف اور لحاظ شامل ہیں۔ انسان جب اپنا محاسبہ کرتا ہے تو وہ اللہ کے ڈر اور خوف کی وجہ سے ہی کرتا کہ کہیں اس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہوجائے جو اللہ کی بارگاہ میں ناپسندیدہ ہو۔ انسان خود احتسابی کے عمل سے گزر کر ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔ سورۃ الحشر کی آیت مبارکہ میں بھی خود احتسابی کا حکم ہے کہ انسان یہ جائزہ لیتا رہے کہ اس نے اپنی آخرت کے لیے کچھ نیکیاں اور اچھائیاں تیار کی ہیں یا نہیں۔ اگر اس سے کوئی غلطی، کوتاہی یا گناہ ہوجائے تو فوراً اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرے اور آئندہ وہ کام دوبارہ نہ کرنے کا عہد کرے۔

خود احتسابی کیا ہے؟

خود احتسابی میں یہ جائزہ لینا ہوتا ہے کہ انسان نے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھایا ہے یا نہیں۔ بطور انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے جو فرائض اور ذمہ داریاں اسے ودیعت کی گئی ہیں۔ ان میں کوئی بھول چوک تو نہیں ہوگئی؟ انسان اپنے رشتوں کے تعین کے لحاظ سے اپنی ذمہ داریوں کا جائزہ لے کہ بطور باپ، بطور بیٹا، بطور بھائی، بطور شوہر اور اسی طرح بطور ماں بطور، بیٹی، بطور بہن اور بطور بیوی کے فرائض ادا کررہا ہے یا نہیں۔ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں اخلاص و تقویٰ اس کے پیش نظر رہتا ہے یا نہیں کیونکہ اگر تمام دنیاوی اور دینی ذمہ داریاں اور فرائض خالص اللہ کی رضا کے لیے ادا نہ کیے جائیں تو بھی انسان گناہگار ہوتا ہے اگر اعمال و فرائض کی انجام دہی میں ریا اور دکھاوا آجائے تو بھی انسان کے اعمال ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

خود احتسابی، عبادات اور معاملات دونوں میں ضروری ہے۔ عبادات بھی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ہونی چاہئیں اور معاملات بھی۔ درج بالا حدیث مبارکہ میں بھی اسی بات کی تاکید کی گئی ہے کہ انسان اپنی عبادات اور معاملات میں اللہ کا ڈر اور اس کا تقویٰ ملحوظ رکھے اور اپنا احتساب کرتا رہے تاکہ وہ کسی بھی حرام کام سے محفوظ رہے اور اس کی آخرت بہترین ہوجائے۔

نبی کریمﷺ اہل بیت اطہار اور صحابہ کرامؓ اور فکر احتساب

نبی کریمﷺ، اہل بیت اطہارؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ اور مینارہ نور ہیں۔ وہ ہر وقت خود احتسابی کے عمل سے گزرتے تھے اور روزانہ اس بات کا جائزہ لیتے تھے کہ کیا آج کا دن اللہ کی رضا میں گزارا ہے یا نہیں؟ کیا آج کے دن کوئی ایسا کام تو نہیں کیا جو اللہ اور اس کے رسول کو ناپسندہو اور اس کی وجہ سے کہیں ہماری آخرت نہ ضائع ہوجائے۔ یہی خشیت الہٰی اور فکر آخرت انہیں احتساب پر اکساتی رہتی تھی اور وہ ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے تھے۔

نبی کریمﷺ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مقرب ہونے کے باوجود ہر لمحہ اللہ سے ڈرتے رہتے تھے اور اپنے نفس اور شیطان کے شر سے پناہ طلب کرتے تھے۔ آپﷺ دعا کرتے تھے کہ

’’اے اللہ مجھے ایک لمحے کے لیے بھی نفس کے حوالے نہ کرنا۔‘‘

کیونکہ نفس انسان کو نیکیوں سے دور کرتا ہے اور اسے برائیوں کی طرف مائل کرتا رہتا ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپﷺ اللہ کے محبوب نبی ہونے کے باوجود اپنا محاسبہ فرمایا کرتے تھے اور عبادات اور معاملات میں ہمیشہ اللہ سے ڈرتے اور کوتاہیوں اور غلطیوں کے ہونے سے اللہ کی پناہ طلب کیا کرتے تھے اور ہمیشہ خشیت الہٰی اور فکر آخرت آپ کے پیش نظر رہتی تھی۔ آپﷺ کے تمام اخلاق، عادات و اطوار خود احتسابی کی اعلیٰ اور بہترین مثال ہیں۔

حضرت عمر فاروقؓ کو اسلام کے دوسرے خلیفہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ خشیت الہٰی اور فکر آخرت کے تحت ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتے رہتے تھے۔ آپؓ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’میری حکومت میں دریائے فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوک سے مرجائے تو قیامت کے دن مجھے اس کا جواب دینا ہوگا۔ ‘‘

ایک عظیم حکمران ہونے کے باوجود آپؓ بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ دوسروں ملکوں کے وفد آپؓ سے ملنے آتے تو آپؓ پیوند لگے کپڑے پہنے مسجد کے کسی کونے میں بیٹھے ملتے تھے اور ہر وقت اپنا احتساب کرتے رہتے تھے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ فرماتے تھے: ’’جو خود اپنے نفس کی اصلاح نہیں کرتا، وہ دوسروں کے حق میں کبھی مصلح نہیں بن سکتا۔ ‘‘’’جس شخص کی نیت خراب ہوتی ہے وہ غم و فکر میں سرگرداں اور ذہنی پریشانیوں میں مبتلا رہتا ہے۔ ‘‘

اس لیے ہمیں بھی ہر وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہیے تاکہ معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوسکیں اور دنیا وآخرت کی کامیابی نصیب ہو۔

اجتماعی احتساب

یہ احتساب خاندانی، گروہی، قومی سطح پر کیا جاتا ہے جس کا مقصد معاشرتی سطح پر امن و امان، مساوات اور رواداری کا فروغ ہے۔ اجتماعی احتساب کی وجہ سے معاشرتی بدعنوانیوں اور برائیوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جیسے چوری، ڈاکہ زنی، امانت میں خیانت کرنا، فرائض میں کوتاہی کرنا، قانون شکنی وغیرہ ہیں۔ قرآن مجید میں اس بارے میں بھی واضح تعلیمات موجود ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔوْلًا۝

(الاسراء، ۱۷: ۳۴)

’’اور پورا کرو عہد۔ بے شک عہد کی پوچھ ہوگی۔ ‘‘

اس آیت مبارکہ میں جس عہد کا تذکرہ ہے اور جسے پورا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ وہ فرائض کی تکمیل ہے یعنی وہ حقوق و فرائض جن کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے انھیں احسن طریقے سے انجام دیا جائے کیونکہ ان کے بارے میں پوچھا جائے گا اور جانچ پڑتا کی جائے گی کہ وہ احسن طریقے سے ادا ہوئے ہیں یا نہیں۔ ہمارے لین دین کے جملہ معاملات اور باہمی حقوق ایفائے عہد کے ذیل میں ہی آتے ہیں۔ اس لیے ان کا احتساب کرتے رہنا ضروری ہوتا ہے۔

اگر معاشرے میں نظام احتساب قائم نہ کیا جائے تو ناانصافی عام ہوجائے گی اور معاشرے کا ہر شعبہ مفلوج ہوکر رہ جائے گا۔ اس لیے اسلام میں احتساب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلامی حکومت کی عمارت اخوت اور مساوات کی بنیادوں پر اٹھائی گئی ہے۔ اس کی قوت کا انحصار دل کی محبت اور روح کی اطاعت پر تھا۔ حکومت کا آئین اور قانون دین کا حصہ تصور کیے جاتے تھے اور صحابہ کرامؓ دین کے ہر حکم سے محبت کرتے اور اس کی تعمیل کے لیے سر کٹانے کو تیار رہتے تھے۔ اسی وجہ سے اسلامی حکومت کامیاب اور مثالی تھی۔ آپﷺ حکومت کے لیے افرادکا انتخاب اور تقرر خود فرماتے تھے۔ ایسے لوگ منتخب کیے جاتے تھے جن کا تقدس، زہد و تقویٰ واضح اور مسلم ہوتا تھا تقرر سے پہلے ان کا علمی و عملی امتحان بھی لیا جاتا تھا۔ عامل کا تقرر اس کی اہلیت کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ حاکم عوام کو بہتری اور آسانیاں فراہم کرنے کےلیے مقرر کیا جاتا تھا۔

آپﷺ حکمرانوں کا احتساب فرماتے تھے ان کے افعال و اعمال پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے ایک صحابی کو وصولی کے لیے بھیجا جب وہ واپس تشریف لائے تو آپﷺ نے خود ان کا محاسبہ فرمایا۔ صحابی نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ یہ آپﷺ کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ ملا ہے۔ یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا کہ تمھیں گھر بیٹھے بیٹھے یہ ہدیہ کیوں نہیں ملا۔ چنانچہ وہ ہدیہ بھی بیت المال میں جمع کروادیا گیا پھر آپﷺ نے خطبہ دیا اور تمام لوگوں کو اس قسم کا مال لینے سے سختی سے منع فرمایا۔ حکمرانوں کے احتساب اور محاسبے کا یہ عمل خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی جاری رہا۔ حاکم کے تقرر کے وقت اس کے مال و اسباب یعنی اثاثہ جات کی فہرست بناکر رکھی جاتی جب کسی حاکم کی مالی حالت میں غیر معمولی اضافہ ہوتا تو فوراً احتساب اور جائزہ کے ذریعے آدھا مال تقسیم کرکے بیت المال میں جمع کرلیا جاتا۔ یہی نظام احتساب ہر معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔ بطور مسلمان ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر احتساب کی عادت کو اپنانا ہوگا تاکہ آخرت کی فلاح اور کامیابی حاصل ہوسکے۔